علامہ اقبال اور مسئلہ قادیانیت

idara letterhead universal2c

علامہ اقبال اور مسئلہ قادیانیت

محترم محمد عرفان ندیم

” دی اسٹیٹس مین“ کلکتہ سے شائع ہونے والا ہندوستانی اخبار ہے۔ برطانوی اخبار نویس رابرٹ نائیٹ نے 1875ء میں شروع کیا اور یہ اب تک مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ رابرٹ نائیٹ نے1872ء میں سوچا کہ ہندوستان میں ایک معیاری انگلش اخبار ہونا چاہیے، اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اکیلا یہ اخباری کرتا۔ اس نے کلکتہ کے چوبیس تاجروں کو راضی کیا، ان سے فنڈز لیے اور ” دی اسٹیس مین“ جاری کر دیا” دی اسٹیٹس مین“ بیسیوں صدی میں ہندوستان کا اہم اخبار تھا۔ سیاسی لیڈر، بیوروکریسی، برطانوی باشندے، اساتذہ، طلباء اور ہندوستان کی ایلیٹ کلاس میں یہ مقبول تھا۔ جناح ، نہرو، گاندھی اور اقبال جیسے سیاسی زعماء بھی اس اخبار کا مطالعہ کرتے تھے۔ بیسیویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں ہندوستان میں قادیانیت کا مسئلہ شروع ہوا تو مختلف اطراف سے دی اسٹیٹس مین میں تحریریں شائع ہونے لگیں۔ علامہ اقبال ان دنوں علیل تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے 14 مئی1935ء کو اس اخبار میں ایک آرٹیکل لکھا۔ اس آرٹیکل میں انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے قادیانوں کے عقائد، امت مسلمہ کے اجتماعی موقف سے انحراف ، قادیانیوں کو حاصل حکومت برطانیہ کی سرپرستی اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کے باوجود مسلمانوں کو صبر وبرداشت کی تلقین جیسے موضوعات کا احاطہ کیا۔ ذیل میں اس آرٹیکل کے اہم مندرجات پیش کیے جارہے ہیں۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:

” قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کی اہمیت کے پیش نظر میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس تنازع کے سیاسی و سماجی اثرات کے حوالے سے حکومت برطانیہ کو خط لکھوں گا، مگر میری صحت نے اجازت نہیں دی۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں ایک ایسے موضوع پر بات کر رہا ہوں جس نے مجموعی طور پر انڈین مسلمانوں کی زندگی پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ میں یہاں کسی قسم کی مذہبی بحث نہیں کروں گا، نہ ہی قادیانی تحریک کے بانی کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کروں گا۔ میں صرف تاریخ اور تقابل ادیان کے طالب علم کی حیثیت سے اپنا نکتہ نظر پیش کروں گا۔

ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے۔ اسلام اُن مذاہب کی نسبت جو رنگ اور نسل کی بنیاد پر پروان چڑھے ہیں، خالص مذہبی بنیادوں پر قائم ہے، اسلام نے نسل پرستی کو مسترد کرکے صرف مذہبی نظریات کی اساس پر اپنی عمارت قائم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے روحانی رشتے کی مضبوطی خونی رشتوں سے کہیں بڑھ کر ہے او رمسلمان ان عوامل اورقوتوں کے بارے میں بہت حساس ہیں جو ان کی روحانی وحدت کو نقصان پہنچاتے او ران کے داخلی استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں، کوئی ایسا مذہبی گروہ جو اسلام کی اساس پر قائم ہونے کا دعویدار ہو، اپنی بنیاد کے لیے نئے پیغمبر کا دعوی کرتا ہو اور خود کو تسلیم نہ کرنے والے ہر مسلمان کو کافر سمجھتا ہو، ایک عام مسلمان کا اس کو اپنے لیے سنجیدہ خطرہ سمجھنا قرین قیاس اور لازم ہے، کیوں کہ مسلمانوں کا داخلی استحکام ختم نبوت کے تصور پر ہی قائم ہے۔ ختم نبوت کے تصور کی اہمیت کوصرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اسلام سے قبل مغربی اور وسطی ایشیا میں میجین تہذیب کو پڑھا ہو۔ جدید تحقیق کے مطابق میجین کلچر زرتشت، یہودیت، عیسائیت، کلڈین اور سبائی مذاہب پر مشتمل تھا۔ اس مذہب میں نبوت کا تسلسل اہم عقیدہ تھا اور وہ لوگ مستقل کسی پیغمبر کے انتظار میں رہتے تھے اور وہ اس حالت انتظار کو انجوائے کرتے تھے۔ میجین تہذیب کے اس عقیدہ رسالت کا نتیجہ یہ نکلا کہ قدیم مذہبی گروہ مستقل طور پر نئے مذہبی گروہوں میں ارتقا پذیر ہوتے رہے اور میجین تہذیب مذہبی طور پر کبھی مستحکم نہیں ہو پائی۔

آج اسلام میں بھی کچھ مذہبی گروہ اسی قدیم میجین تہذیب کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں، لیکن اسلام جو تمام اقوام عالم کو ایک لڑی میں پرونے کا مدعی ہے، ایک ایسی تحریک کے ساتھ کیسے مصالحت کرسکتا ہے جو اُس کے اپنے وجود میں دراڑ پیدا کر دے؟ مسلم ایران میں قدیم میجین تہذیب کے زیر اثر جب عقیدے سے انحراف کی تحریک شروع ہوئی تو ”بروز، حلول اور ظل“ جیسے الفاظ وضع کیے گئے، تاکہ مسلمانوں کے لیے اس شدت کو شعوری طور پر کم کیا جاسکے۔ ہمیں قدیم اسلامی لٹریچر میں ” مسیح موعود“ کی اصطلاح بھی نہیں ملتی اور یہ اصطلاح بھی بہت بعد میں وضع کی گئی۔ اسلام کے ابتدائی ادوار میں یہ اصطلاح اس لیے استعمال نہیں کی گئی کہ اس کا اطلاق غلط نتائج پر منتج ہو سکتا تھا۔ سوشیالوجی کے جدید ماہرین کے لیے قادیانی تحریک کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کا شدید رد عمل قابل فہم ہونا چاہیے۔ ایک عام مسلمان قادیانیت کے خلاف جس رد عمل کا اظہار کر رہا ہے وہ اس کے عقیدے او راپنی ملت کے تحفظ کی جبلت کا حصہ ہے۔ بعض نام نہاد روشن خیال مسلمان ختم نبوت کی ثقافتی اہمیت کو سمجھے بغیر، غیر شعوری مغربیت کے زیر اثر اپنی ملت کے تحفظ کے احساس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

ایسے نام نہاد روشن خیال مسلمان اپنے ہم عقیدہ مسلمانوں کو ”برداشت“ کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مستقبل میں مختلف مذہبی گروہوں کی بقا، ان کے داخلی استحکام میں مضمر ہے۔ ہندوستان کے مغربی حکم رانوں نے بہ ظاہر مذہبی عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس لبرل پالیسی نے ہندوستان جیسے ملک میں غلط نتائج پیش کیے ہیں۔ بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود اس سے کم محفوظ ہے جتنا حضرت مسیح علیہ السلام کے دور میں رومی سلطنت میں یہودیت کا وجود محفوظ تھا۔ یہاں کوئی بھی مذہبی راہ نما کسی بھی وقت نہ صرف نیا مذہبی فرقہ قائم کر سکتا ہے، بلکہ بشرط وفاداری اسے مکمل ریاستی تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا کہ اس مذہب کے اکثریتی گروہ کے داخلی استحکام پر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس صورت حال کو اکبر الہٰ آبادی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ حکومت وریاست کی تعریف میں رطب اللسان رہیں، پھر آپ خدائی کا دعویٰ بھی کریں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میں راسخ العقیدہ ہندوؤں کو داد دیتا ہوں جنہوں نے نئی مذہبی اصلاحات میں مذہبی تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ مسلمان یہی مطالبہ ہندوؤں سے بہت پہلے کرچکے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ قادیانیت کے مسئلے میں ایک عام مسلمان کے ان خدشات کو سمجھے، جوان کے داخلی استحکام کا معاملہ ہے۔ ظاہر ہے جب کسی مذہبی گروہ کے داخلی استحکام پر بات آئے گی تو وہ عدم استحکام میں مبتلا کرنے والی قوتوں کے خلاف کھڑا ہو جائے گا۔ کسی مذہبی آدمی کی اکثریتی گروہ کے متعلق متنازع تحریروں اور تقریروں کو جواز بخشنا او راکثریتی گروہ کو صبر اور برداشت کی تلقین کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کسی اقلیتی گروہ کو اکثریتی گروہ سے بغاوت کی اجازت دینا او راکثریتی گروہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی کو تباہ کرنے والی قوتوں کو آرام سے برداشت کر لے کیسے ممکن ہے؟!

یہ اس آرٹیکل کے اہم مندرجات ہیں اور انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی قبل علامہ اقبال نے کتنے مدلل انداز میں قادیانیت کے مسئلے کو ایڈریس کیا تھا۔ کچھ نام نہاد مذہبی اسکالر آج بھی یکطرفہ صبر واعراض کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ یہ فرقہ آج بھی بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی دعوت پھیلانے میں مگن ہے او رانہیں حسب معمول مغربی آقاؤں کی تائید وتوثیق حاصل ہے۔ 

مقالات و مضامین سے متعلق