ہمارے عقیدے

idara letterhead universal2c

ہمارے عقیدے

مولانا اشتیاق احمد قاسمی

ہم اللہ کے بندے ہیں، اس کی ساری باتوں کے پابند ہیں، اللہ کی بعض باتوں کا تعلق جسم سے ہے، ان کو ”اعمال“ کہا جاتا ہے، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور بعض باتوں کا تعلق ماننے سے ہے ان کو عقائد کہتے ہیں، جیسے توحید ورسالت اور آخرت کو ماننا۔ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے پہلا ایمان (عقیدہ) اور بقیہ چار اعمال ہیں۔ عقیدہ کی درستگی کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں اور نہ ہی دوزخ سے نجات ممکن ہے، جنت میں داخلہ کی شرط عقیدے کا درست ہونا ہے۔ ہمارے اہل السنة والجماعة ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم عقیدے اور عمل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے پر ہیں، ان کے قول وعمل کو حجت مانتے ہیں، اہل السنة والجماعة ہی فرقہ ناجیہ (نجات پانے والی جماعت) ہے۔

ہر مسلمان کو سات چیزوں کا عقیدہ رکھنا واجب ہے:
(1) اللہ کو ایک ماننا۔ (2) فرشتوں کو ماننا۔ یعنی وہ نورانی مخلوق ہیں اور سپرد کیے ہوئے کاموں میں مصروف ہیں۔ مقرب فرشتے چار ہیں: جبرئیل، اسرافیل، میکائیل اور عزرائیل علیہم السلام۔ (3) آسمانی کتابوں کو ماننا یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید اور تقریباً (سو) صحیفوں کو اللہ تعالیٰ نے اتارا، قرآن مجید کے ذریعے سب کو منسوخ کر دیا۔ اب صرف قرآن مجید پر ہی عمل ہوگا۔ (4) حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے نبیوں کو ماننا۔ (5) آخرت یعنی اس دنیا کے بعد والی زندگی کو ماننا۔ (6) تقدیر کو ماننا۔ (7) مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو ماننا۔

توحید

ان میں سے کسی ایک کے نہ ماننے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تنہا پاک وبے عیب ہستی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کا کوئی جسم نہیں، نہ شکل وصورت ہے، وہ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا۔ صفات کمالیہ یعنی حیات، علم، سمع، بصر، قدرت، ارادہ، کلام اور خلق وتکوین کو جامع ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، مجوسی دو خداکو مانتے ہیں، ایک اچھائی کا اور دوسرا برائی کا۔ عیسائی تین خدا کو مانتے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں، بعض یہو د حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں، مشرکین بے شمار خداؤں کا عقیدہ رکھتے ہیں، اسلام شرک کی ساری قسموں سے بری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق میں نہیں پائی جاتیں، چاہے وہ فرشتہ ہو، یا نبی یاولی یا پیر یا امام ہو۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں، وہ نہ کسی چیز میں داخل ہے اور نہ اس میں کوئی چیز داخل ہوسکتی ہے۔ وہ سب عیبوں سے پاک ہے۔

رسالت

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے اپنے خاص بندوں کو بھیجا ہے، معجزے، صحیفے اور کتابیں دی ہیں، اسی کو رسالت کہتے ہیں اور اُن خاص بندوں کو رسول۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری اور افضل نبی ہیں، قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ ختم نبوت کا عقیدہ تقریباً سو آیتوں اور دوسو احادیث وآثار سے ثابت ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی صحیح تعداد معلوم نہیں، قرآن پاک میں چھبیس نبیوں کا ذکر ہے۔ موجودہ صحیفے، تورات، زبور اور انجیل اصلی نہیں محرف ہیں، ان پر عمل جائز نہیں۔ نبیوں پر جو پیغام نازل ہوتا ہے اس کو وحی کہتے ہیں۔ نبی کا خواب، کشف اور الہام (دل میں بات ڈالنا) سب وحی کا درجہ رکھتے ہیں، یہ سب حجت ہیں، الہام غیر نبی کو بھی ہوتا ہے، اگر وہ شریعت کے مطابق ہے تو معتبر اور مخالف ہے تو شیطانی خیال اور وسوسہ ہے، جس کا کوئی اعتبار ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے مکمل دین پہنچا دیا، نبی کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی واجب اور ذریعہ نجات ہے۔

نبی کی سچائی کو بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہوں، اُسے ”معجزہ“ کہا جاتا ہے، جیسے چاند کا دوٹکڑے ہونا۔ تھوڑے سے پانی سے لشکر کو سیراب کرنا۔ تھوڑا کھانا بہت سوں کے لیے کافی ہونا۔ اگر کوئی خلاف عادت چیز نیک بندوں کی عزت افزائی کے لیے اُن کے ہاتھوں ظاہر ہو تو اسے ”کرامت“ کہتے ہیں اور فاسق فاجر کے ہاتھوں ظاہر ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں اور نبی کے آنے سے پہلے خلاف عادت جو چیزیں ظاہر ہوئیں انھیں ”ارہاصات“ کہتے ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے ابرہہ کی فوج پر کنکر کی بارش۔ انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہیں، ان سے جان بوجھ کر چھوٹا یا بڑا کوئی گناہ نہیں ہوا۔ جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہیں؛ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سب سے افضل ہے اور قرآن مجید سب سے افضل وآخری کتاب ہے اور پچھلی کتابوں اور صحیفوں کے لیے ناسخ ہے۔ لوح محفوظ کی ترتیب کے مطابق قرآن مجید میں تیس پارے اور ایک سو چودہ سورتیں، 7/ منزلیں ہیں، یہ مکمل قرآن ہے، ناقص نہیں، یہ اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے، لکھاوٹ، کاغذ اور جلد وغیرہ مخلوق ہیں، کلام نہیں، اللہ کی صفت (کلام) مخلوق نہیں ہے۔

معراج

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگنے کی حالت میں جسم کے ساتھ براق پر سوار کر کے حضرت جبرئیل علیہ السلام مکہ سے بیت المقدس لے گئے، پھر وہاں سے آسمانوں پر لے گئے، پھر جہاں تک اللہ نے چاہالے گئے، اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت وجہنم کی سیر کرائی گئی، پانچ نمازیں تحفے میں ملیں۔ اور صبح سے پہلے واپسی ہوگئی، اس سفر کو ”معراج واسراء“ کہتے ہیں۔

صحابہ کرام

جن لوگوں نے ایمان لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی اور ایمان پر باقی رہے اور ایمان ہی کی حالت میں انتقال ہوا وہ صحابی ہیں، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نجوم ہدایت ہیں، معیار حق ہیں، ان سے محبت دین وایمان اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے، ان پر بدگمانی جائز نہیں۔ ان کے اختلافات میں حق وباطل کا تقابل نہیں؛ بلکہ اجتہادی خطا وصواب (چوک اور درستگی) کا ہے، ان کے اختلافات اور مشاجرات کو اچھالنا بد دینی اور گم راہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے افضل حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے افضل ہیں، اُن میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خلافت راشدہ کی ترتیب بھی یہی ہے۔ یہی برحق ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معصوم تو نہیں، لیکن محفوظ ہیں کہ ان سے اگر گناہ سرزد ہوا تو انھوں نے تو بہ ضرور کی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اہل بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین ہیں۔ یہ ان سب کا خاص لقب ہے۔ حق پر ہونے کی پہچان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر ہونا ہے، جو فرقہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جتنا قریب ہے وہ حق سے اتنا ہی قریب ہے اور جو جتنا دور ہے وہ حق سے اتنا ہی دور ہے۔

تقلید

منصوص اور اجماعی مسائل میں تقلید نہیں کی جاتی، متعارض مسائل میں اور اُن احکام میں جن میں معلوم نہ ہو کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ تو تقلید کی جاتی ہے، اسی طرح غیر منصوص اور نئے مسائل میں تقلید کی جاتی ہے۔ ان میں تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں، خلاصہ یہ کہ دینی مسائل میں غیر مجتہد کو مجتہد کی پیروی کرنا ”تقلید“ کہلاتا ہے، گویا نا اہل، اہل کے واسطے سے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کرتا ہے، قرآن وسنت کے اصول وضوابط کی روشنی میں عملی احکام ومسائل کو نکالنا استنباط واجتہاد کہلاتا ہے، دلائل تین ہیں: قرآن وسنت اور اجماع امت، قیاس ذریعہ استنباط ہے، اصل نہیں۔ مجتہد قانون داں ہوتا ہے، قانون ساز نہیں، مسائل کو واضح کرتا ہے، وضع نہیں کرتا، چوتھی صدی ہجری کے بعد چاروں اماموں (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) میں سے کسی ایک کی تقلید پر اجماع منعقد ہو گیا ہے۔ اجماع کا مطلب امت کے تمام مجتہد اہل علم کا کسی دینی بات پر متفق ہو جانا ہے، اس لیے اجماع کی مخالفت جائز نہیں۔

اہل تشیع

شیعہ اہل السنة والجماعة میں سے نہیں ہیں، یہ ایک الگ جماعت ہے، ان کی بنیاد مسئلہ امامت و ولایت پر ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں غلو کرتے ہیں، شیخین (حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما) کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر خارج اسلام ہیں۔

اہل قبلہ

اہل قبلہ شرعی اصطلاح ہے، یعنی وہ لوگ جو دین کی ساری ضروری باتوں کو مانتے ہوں اور ان کے اندر کفریہ عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، اگر کسی کے اندر کفریہ عقیدہ پایا جائے تو وہ خارج اسلام ہوگا، اس سے شادی بیاہ جائز نہ ہوگا، اس کا ذبیحہ بھی حلال نہ ہوگا، مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے! جیسے قادیانی، شکیلی وغیرہ۔

اہل کتاب

اہل کتاب اصطلاح ہے، آسمانی کتاب اور صحیفے والوں کو اہل کتاب کہتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کو اہل کتاب کہا جاتا ہے، سکھ اور ہندو وغیر ہ اہل کتاب نہیں ہیں۔

قرآن پاک کے علاوہ اب کوئی کتاب یا صحیفہ موجود نہیں، تورات، زبور، انجیل اور صحیفوں کے جو ترجمے ملتے ہیں، وہ اصلی نہیں، ضائع ہونے کے بعد لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ پھر بھی جو لوگ اپنے کو ان کا ماننے والا کہتے ہیں، وہ اہل کتاب ہیں، مثلاً یہود ونصاری، لیکن ان میں وہ جو محض گنتی میں ان کے ساتھ ہیں، ان کے دین پر قائم نہیں، وہ دہر یہ ہیں، ان کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح جائز نہیں اور احتیاط سب سے بچنے میں ہی ہے،اس پر فتوی ہے۔

گم راہ فرقے

شیعہ، قادیانی، شکیلی، (سید محمد بن یوسف جون پوری کا) فرقہ مہدویہ، آغا خانی، بوہرہ، چکڑالوی وغیرہ۔

ہندومت

”ہندومت“ زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں عقائد واعمال میں آزادی اور اعمال میں مقامی وملکی رسم ورواج کی پابندی پائی جاتی ہے۔ ان کے عقائد میں تناسخ (بار بار پیدا ہونا)، حلول (خدا کا ہر چیز میں سرایت کرنا) شامل ہیں۔ اسی لیے ہندو مورتی پوجا کے قائل بھی ہیں، ہر کام کا الگ الگ خدا انہوں نے بنا رکھا ہے۔ ہندوؤں کے روحانی پیشواؤں کی تاریخ محفوظ نہیں، اُن میں سے کسی کے بارے میں نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا غلط اور بے دلیل بات ہے۔

سکھ مت

”سکھ مت“ کی بنیاد گرونانک نے سولہویں صدی عیسوی میں رکھی، ان کے مذہبی تہوار، شعائر، مقامات اور شخصیات دوسرے مذاہب سے الگ ہیں۔ سکھ مت کے اصول وضوابط بعد میں ان کے ماننے والوں نے مرتب کیے ہیں، گرونانک کو مسلمان کہنا اور سکھوں کی تعلیمات کو اسلامی کہنا بے دلیل بات ہے۔ اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

علامات قیامت

قیامت کے قریب بہت سی علامتیں ظاہر ہوں گی، ان میں سے خلیفہ راشد حضرت مہدی کا آنا اور عراق اور شام کے درمیان دجال کا نکلنا ہے، حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا امت محمدیہ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے آسمان سے اترنا ہے، اس لیے کہ انہیں یہودیوں نے قتل نہیں کیا، وہ آسمان پر اٹھا لیے گئے، یا جوج وماجوج کا نکلنا، دابة الارض کا نکلنا، سورج کا مغرب سے نکلنا وغیرہ مشہور ہیں۔ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔

حضرت مہدی کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا، یہ حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں گے، مدینہ میں پیدا ہوں گے، مسجد حرام میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بیعت لیں گے، اسی زمانے میں یہودیوں میں سے دجال آئے گا، پھر فجر کی اذان کے بعد نماز سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے سفید مینارے پر اتریں گے۔ دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے، پیلے رنگ کی دو چادریں پہنے ہوں گے، حضرت مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے، باب لُد کے قریب ایک پہاڑی پر دجال کو قتل کریں گے، کُل سات سال یا نو سال حضرت مہدی کی حکومت ہوگی، پھر بیت المقدس میں ان کا انتقال ہوگا اور وہیں تدفین ہوگی۔ سید محمد بن یوسف جون پوری اور وہ لوگ جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، ہر گز مہدی نہیں ہیں۔ یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی نسل میں سے ایک خوں خوار قوم ہے، دجال کی ہلاکت کے بعدپوری دنیا ان کی شرانگیزیوں سے تنگ آجائے گی، پھر اللہ کے عذاب سے یہ ہلاک ہوجا ئیں گے، پھر دنیا میں امن وسکون ہوگا۔

آخرت

اس دنیا کے بعد ایک دنیا ہے، جہاں فرماں برداروں کو ہمیشہ جنت میں اور نافرمانوں کو دوزخ میں رہنا ہے، جنت اور دوزخ دونوں موجود ہیں، دونوں کے درمیان ایک جگہ ہے، جسے ”اعراف“ کہتے ہیں،اعراف ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے، وہاں رہنے والوں کو جنت میں بھیج دیا جائے گا۔

آدمی مرنے کے بعد ”برزخ“ میں رہتا ہے، یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے، قبر میں رہنے سے مراد اسی عالم میں رہنا ہے، اس میں فرماں بردار کو آرام ملتا ہے اور نافرمانوں کو تکلیف ہوتی ہے، اس کو ”عذاب قبر“ کہا جاتا ہے۔ روح کو جسم سے ایک گونہ تعلق رہتا ہے، اس کو ”حیات برزخی“ کہتے ہیں، قبر (برزخ) میں جانے کے بعد فرشتے رب اور دین کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت دکھا کر ایمان کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان فرشتوں کی جماعت کو ”منکر“ ”نکیر“ کہتے ہیں۔

ساری دنیا کو ختم کرنے کے لیے صور (نرسنگا) میں پھونکا جائے گا، پھر چالیس سال کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا، پھر سب زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف جائیں گے۔

میدانِ محشر ملک شام کی برابرزمین پر قائم ہوگا یہی قیامت ہے، ایک سو بیس صفیں لگیں گی، اَسّی صفیں امت محمدیہ کی ہوں گی، چالیس صفوں میں دوسرے نبیوں کی امتیں ہوں گی، ہر نبی کے لیے حوض ہو گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حوض کوثر ہوگا، صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے مؤمنین کو پانی پلائیں گے۔

میدان محشر کے گرد جہنم ہوگا، فرماں برداروں کو داہنے ہاتھ میں اور نافرمانوں کو بائیں ہاتھ میں نامہٴ اعمال دیا جائے گا، اعمال تو لے جانے کے لیے ترازو ہوگی، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حساب وکتاب کے لیے اللہ سے سفارش کریں گے جب سارے انبیاء انکار کر دیں گے، اسے ”شفاعت کبریٰ“ کہتے ہیں اور گنہگار امتیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے، یہ ”شفاعت صغریٰ“ ہوگی اور دوسرے نیک لوگ اور اللہ کے مقرب بندے، دوسرے صالحین بہت سے گنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے۔ معتزلہ، خوارج اور بدعتیوں کو نہ تو حوض کوثر سے پانی ملے گا اور نہ سفارش نصیب ہوگی۔ میدان محشر سے جنت تک جانے کے لیے جہنم کے اوپر ”پل صراط“ بنے گا، فرماں برداروں کے لیے کشادہ راستہ ہو گا، اعمال کے اعتبار سے تیز اور آہستہ اس کو پار کریں گے، نافرمانوں کے لیے انتہائی دشوار اور تنگ راستہ ہو گا، اس پر سے وہ جہنم میں گر جائیں گے۔

گنہگار مسلمان کو سزا پانے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا، پھر سارے جنتی ہمیشہ جنت میں اور سارے جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اور جنت اور جہنم کے درمیان اعراف ہے، اس میں وہ لوگ رہیں گے جو اپنے اعمال کے لحاظ سے نہ جہنم میں جانے کے مستحق ہیں اور نہ جنت میں جانے کے لائق، بالآخر ان سب کو جنت میں داخل کردیا جائے گا۔

جنت بہت آرام وراحت کی جگہ ہے، جہاں ہمیشہ رہنا ہے اور جہنم سخت تکلیف وعذاب کی جگہ ہے، جہاں کافروں کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت عطا فرمائیں اور جہنم سے بچالیں۔ آمین!

تعمیر حیات سے متعلق