عفت وپاک دامنی یعنی خواہشات نفسانیہ او رجنسی جذبات کا صحیح استعمال اور غلط وبے محل استعمال سے اجتناب ، اسلام کا تاکیدی ومبارک حکم، فطرت انسانی کا تقاضااورشرافت کا اعلیٰ معیار ہے۔ عفت وپاک دامنی، انسانی حسن وجمال اور اعلی سیرت کا تقاضا ہے۔ شرم گاہوں کی حفاظت اور خواہشات کو قابو میں لانے کو عظیم ومقبول عمل اور اخروی درجات میں بلندی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، جملہ انبیائے کرام، صحابہٴ عظام، اہل بیت اطہار، اولیائے کرام اور شریف انسانوں نے ازل سے ہی اس وصف کو بدرجہائے کمال اپنایا، آپ صلی الله علیہ وسلم اعلی درجہ کے عفیف اور عفیف خاندان کے فرد تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے نسب نامہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے والد محترم سے سیدنا آدم علیہ السلام تک ایک شخص بھی بد کار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا نسب وحسب بھی محفوظ ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی عفتکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانی وایمانی دشمنوں نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم پر بدچلنی کا کبھی الزام نہیں لگایا، بلکہ ہمیشہ غائبانہ طو رپر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی صداقت، امانت اور عفت کا اعتراف کیا، صرف اعتراف ہی نہیں ،بلکہ عفت کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت قرار دیا اور اس کا برملا اظہار کیا۔ شاہ روم ”ہرقل“ کے پاس جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دعوتی مکتوب پہنچا ، تو اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی بابت حصول معلومات کے لیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس وقت کے حریف ، جناب ابوسفیان، جوان دنوں شام تجارتی دورہ پر آئے ہوئے تھے، کو اپنے دربار میں طلب کرکے مختلف سوالات دریافت کیے، ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ وہ تمہیں کیا کہتے ہیں، تو اس کے جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے حریف نے دو ٹوک الفاظ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو نقل کیا، صحیح بخاری میں یہ الفاظ منقول ہیں۔
”اعبدوا وحدہ، ولا تشرکوا بہ شیئاً، واترکوا ما یقول آباؤکم، ویأمرنا بالصلاة والزکاة والصدق والعفاف والصلة․“ (رواہ البخاری:7)
”ایک الله کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اپنے آباء واجداد کی تقلید کو ترک کر دو او رہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی اورصلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔“
عفت وپاک دامنی، حسب ونسب کی حفاظت او ررشتہ داریوں کے قیام کا ذریعہ ہے، جس معاشرے میں بے راہ روی او ربد کاری عام ہو جائے، وہاں نہ تو قبائل، برادریاں اور خاندانوں کا تصور رہتا ہے او رنہ ہی رشتے داریوں کا احترام ولحاظ۔ رشتہ داریوں کے قیام کی بدولت معاشرہ میں ایثار، محبت اور خدمت کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرہ میں امن اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہوتی ہے، جب کہ بد کاری، بے حیائی، بدامنی، قتل وغارت گری، عزت وعصمت دری، ریپ جیسے جرائم کا موجب بنتی ہیں۔ جب ایک انسان حیا کی حدود سے تجاوز کرکے اسلامی حدود سے باہر نکل جاتا ہے، پھر انسانی فطری ہم دردی او رمحبت کا خاتمہ ہو جاتا ہے، نتیجہ میں وہ سب کچھ ہوتا ہے، جو حال میں ”زینب، اسماء ، کائنات“جیسی بچیوں کے ساتھ ہوا، جسے میڈیا نے رپورٹ کیا ہے۔
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عفت کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، سنن کبری کی ایک حدیث قابل غور ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إن الحیاء العفاف، والعی عی اللسان، لاعی القلب، والعمل من الإیمان، وإنھن یزدن في الآخرة، وینقصن من الدنیا، وما یزدن في الآخرة أکثر مما یزدن في الدنیا․“ (السنن الکبری للبیہقی:20808)
”حیا، پاک دامنی، زبان کا خاموش رہنا اور علم ایمان کا حصہ ہیں، یہ سب آخرت میں بڑھتی اور دنیا میں کم ہوتی ہیں۔ اور جو چیزیں آخرت میں بڑھتی ہیں زیادہ ہیں۔“
آپ صلی الله علیہ وسلم کی مبارک ادعیہ میں جن خیروں کو حق تعالیٰ سے طلب کیا گیا، ان میں پاک دامنی بھی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ دعا کثرت سے منقول ہے:”اللھم إنی أسالک الھدی، والتقی والعفاف، والغنی“․(صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، مسند احمد)
”اے الله میں آپ سے ہدایت، تقویٰ ،پاک دامنی اور مال دار ی کا سوال کرتا ہوں۔“
صحیح مسلم کی ایک روایت میں عفاف کی جگہ”العفة“
کا لفظ بھی مذکور ہے۔
جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عفت کے اخروی منافع کے ساتھ، دنیاوی برکات ومنافع بھی منقول ہیں۔ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جارہی ہیں:
عرش کا سایہ
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:
”روز محشرسات قسم کے لوگ عرش خداوندی کے سایہ تلے ہوں گے، اس روز سوائے عرش کے سایہ کے کوئی سایہ نہ ہو گا:
∗… انصاف خصلت حاکم۔
∗…عبادت خدا وندی میں منہمک نوجوان۔
∗… خلوت میں یاد خدا وندی سے رونے والا شخص۔
∗…مسجد میں دل اٹکانے والا آدمی۔
∗…وہ شخص جسے اعلیٰ منصب کی حامل حسین وجمیل خاتون نے دعوت گناہ دی اور اس نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مجھے الله تعالیٰ سے خوف آتا ہے۔
∗… چھپ کر صدقہ کرنے والا شخص، جو اس طرح صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے دیے ہوئے کا، بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہو۔“ (صحیح بخاری:6806)
مصیبت سے نجات
سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین شخص سفر پر نکلے، راستے میں بارش آگئی، جس کی وجہ سے وہ ایک پہاڑ کی غار میں پناہ گزیں ہوگئے۔ اچانک غار کے دہانے پر ایک چٹان گری، یہ ایک دوسرے سے کہنے لگے، اپنے اپنے نیک اعمال یاد کرکے الله تعالیٰ سے دعا کرو، ان میں سے ایک نے یوں دعا کی کہ اے الله! میرے بوڑھے والدین تھے، میں بکریاں چرایا کرتا تھا، پھر میں واپس آتا، بکریوں کا دودھ نکالتا، یہ دودھ کا برتن اٹھا کر والدین کی خدمت میں لاتا، وہ نوش کر لیا کرتے، تو میں اپنے بچوں، بیوی او راہل خانہ کو پلایا کرتا تھا، ایک شب میں تاخیر سے واپس آیا، تو وہ دونوں سوچکے تھے، میں نے انہیں نیند سے بیدار کرنا مناسب نہ جانا، میرے بچے (بوجہ بھوک) روتے روتے میرے پاؤں کو چمٹ گئے، اسی حالت میں صبح ہوگئی، اے الله! اگر یہ سب کچھ میں نے آپ کی رضا کے لیے کیا تھا، تو اتنی کشادگی کرد ے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دعا قبول ہوئی اور آسمان نظر آنے لگا۔
دوسرے شخص نے یوں دعا کی کہ اے الله! آپ جانتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک چچا زاد بہن سے عشق ہو گیا تھا اور یہ عشق بھی کمال درجے کا تھا، اس نے مجھے کہا کہ تم اپنے مقصد میں اس وقت تک کام یاب نہیں ہوسکتے، جب تک اسے ایک سوا شرفی لا کر نہ دو، میں نے محنت ومزدوری کرکے یہ رقم حاصل کی او راس کے پاس جابیٹھا، تو اس نے مجھے کہا کہ خوف خدا کرو اور نکاح کے بغیرمجھ سے قرب اختیار نہیں کرو، اس پر میں اٹھ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے الله! اگر میں نے یہ آپ کی رضا کے لیے کیا تھا، تو اسے کھول دیجیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو تہائی حصہ کھل گیا۔
تیسرے نے یوں دعا کی کہ اے الله! آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اجرت پر کام میں لگایا تھا، اجرت میں مکئی کے دانے کی تھوڑی سی مقدار طے ہوئی تھی، میں نے اسے یہ اجرت دی، اس نے لینے سے انکار کردیا، میں نے اس مکئی کو کاشت کر دیا اوراس کی پیداوار سے گائے اورچرواہا خریدلیا، پھر وہ ایک روز آیا او رکہا اے الله کے بندے! میرا حق مجھے دے دیجیے۔ میں نے اسے جواب دیا کہ یہ بہت سی گائے اور چرواہے کو لے جاؤ، اس نے کہا کہ میرے ساتھ مذاق نہ کرو، میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کررہا، یہ آپ کا ہی ہے۔ اے الله! میں نے یہ آپ کی رضا کے لیے کیا تھا، تو اسے کھول دیجیے۔ سو الله تعالیٰ نے اس غار کو کھول دیا۔ (صحیح بخاری:2333)
ظالم بادشاہ سے نجات
سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ سارہ کی معیت میں ہجرت کی، وہ اپنی زوجہ کے ہمراہ ایک شہر میں داخل ہوئے، اس شہر میں ایک جابر بادشاہ اقامت پذیر تھا، اسے اطلاع دی گئی کہ ابراہیم علیہ السلام ایک خوبصورت خاتون کے ساتھ آئے ہیں، اس نے سیدنا براہیم علیہ السلام کو بلوا بھیجا اور دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ میری ( دینی ) بہن ہے(کیوں کہ ایک بہن کا رشتہ ہی دست درازی سے محفوظ رکھ سکتا تھا) حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ کے پاس واپس تشریف لائے او راس سے فرمایا کہ میر تکذیب نہ کرنا، میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ میری ( دینی ) بہن ہیں۔ قسم بخدا! میرے اور آپ کے بغیر روئے ارض پر کوئی مومن نہیں( اس لیے ایمانی اخوت موجود ہے ) بادشاہ نے سیدہ سارہ کو طلب کیا اور ان پر دست دراز ی کی نیت سے کھڑا ہوا، سیدہ سارہ نے وضو کرکے نماز شروع کر دی اور دعا کی کہ اے الله! اگر میں آپ پر اورآپ کے رسول پر ایمان لائی اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ماسوائے اپنے شوہر کے، تو مجھ پر کسی کافر کو مسلط نہ کیجیے(الله تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی) اس کافر کا سانس پھول گیا، حتیٰ کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر مارنے لگا) ایسا اس کے ساتھ تین مرتبہ ہوا، بالآخر کہنے لگا کہ، یہ کوئی جنی ہے اسے لے جاؤ…)“ (صحیح بخاری:1/2217)
مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوا کہ ، ایسے ظالم بادشاہ سے سیدہ سارہ کو نجات ان کے ایمان اور عفت وپاک دامنی کے سبب نصیب ہوئی۔ عفت کی بدولت صرف نجات ہی نہیں ہوئی، بلکہ اس جابر بادشاہ نے ایک باندی”ہاجرہ“ بھی سیدہ سارہ کو عطا کر دی۔
عفت وپاک دامنی کے برعکس بد کاری وبے حیائی ہے، جسے قرآن وسنت کی اصطلاح میں زنا اور فواحش کا نام دیا گیا ہے، فواحش ومعاصی، نہ صرف یہ کہ قہر خداوندی کا موجب ہیں، بلکہ ان خطرناک امراض روحانیہ کا سبب بھی ہیں، کثرت اموات، طاعون، متعدی امراض، قلت رزق، قحط او راس جیسی بے شمار دنیوی آفتیں بھی اسی مرض قبیح سے وقوع پذیر ہوتی ہیں، اہل علم نے قرآن وسنت سے مستنبط فرما کر فواحش ومعاصی کے درج ذیل نقصانات ذکر فرمائے ہیں:
∗… غم کی کثرت، پریشانیوں اور بے چینی میں اضافہ۔
∗…دل اور چہرہ کی ظلمت وتاریکی بھی ایسے گناہوں کی بدولت وقوع پذیر ہوتی ہے، دل میں وحشت جنم لیتی ہے او رچہرہ اداس سا رہتا ہے۔
∗… نفرتیں، بغض اور عداوتیں جنم لیتی ہیں، جو بعض اوقات قتل جیسے جرم عظیم کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔
∗…ایسے گناہوں کی نحوست سے الله تعالیٰ کی نعمتیں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پکڑ شروع ہو جاتی ہے، الله کی نعمت سے بے زاری اوررحمت کی دوری شروع ہو جاتی ہے۔
∗…انسانی صحت خراب ہو جاتی ہے، اعصابی ودماغی کم زوری کے لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ جسم کے بہت سے اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔
∗…رزق سے محرومی ہونے لگتی ہے۔
∗…دین وتقوی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
∗…نیک، عفیف اور عادل جیسے نام سلب ہو جاتے ہیں اورفاجر، فاسق، زانی او رجاہل جیسے القاب کا مستحق ہوتا ہے۔
∗… قطع رحمی، والدین کی نافرمانی، ظلم او رحرام خوری جیسے امراض روحانیہ لاحق ہو جاتے ہیں، مال کا ضیاع ہوتا ہے۔
∗… عزت وشہرت خراب ہونے کے ساتھ ساتھ بے غیرتی پیدا ہوجاتی ہے۔
∗…نسب وحسب غیرمحفوظ ہو جاتے ہیں۔
∗…ذولت ورسوائی مقدر بن جاتی ہے۔
∗…علم وعقل سلب ہو جاتا ہے۔
∗… معاشرتی فساد پیدا ہو جاتا ہے.