عظیم قائد عظیم راہ نما

عظیم قائد عظیم راہ نما

متعلم سعد امجد عباسی

آج سے تقریباًچودہ پندرہ سو سال قبل انسانیت تنگ و تاریک گھاٹی میں پھنسی ہوئی تھی، چہار سُو ظلم و بربریت کے بازار گرم تھے ، جبر و تشدد اپنی انتہا پر تھا کہ کم زور طاقت وروں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ رہے تھے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سماں تھا ، عورت کی حیثیت صرف ایک کٹھ پتلی کی سی تھی ، ہوس کے پجاری اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیاس پوری کرکے دھتکار دیتے ، معصوم کلیوں کو زندہ پیوند خاک کر دیا جاتا ، رقص وسرود کی محفلوں میں بنت ِحوا کو نچایا جاتا ، مئے نوشی عام تھی ، چوری وڈاکہ معاش کا ذریعہ تھا۔ الغرض لوگگم راہی کے دلدل میں دھنسے ہوے تھے اور قریب تھا کہ اوندھے منھ جہنم میں دھکیل دیے جاتے ۔

﴿وَکُنتُمْ عَلَیٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا﴾․ (آل عمران، آیت:103)

لیکن باری تعالیٰ نے ان کی حالت زار دیکھ کر نظر کرم فرمائی اور اپنے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم و سلم کو ابر کرم بنا کر مبعوث فرمایا، جب ہر طرف ظلمت ہی ظلت تھی تب آپ علیہ الصلاة والسلام کو رحمت کا سائبان بناکر بھیجا۔

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ﴾․(انبیاء، آیت:107)

پھر دنیائے تاریخ نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ ایک عورت تن تنہا بلا کسی خوف و تردد کے بیت اللہ کا طواف کر کے اپنے وطن لوٹ جاتی ہے، ہر جانب امن و سکون کی فضا قائم ہوگئی، غیر اپنے ہو گئے ، دشمنیاں دوستیوں میں بدل گئیں، عورتیں قابل تعظیم بن گئیں ، معصوم کلیاں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئیں ، ہر ایک دوسرے کی فکر میں مشغول ہوگیا ، مال داریتیموں کا سہارابن گئے اور ہر طرف ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾․(الحجرات:10) اور ”المسلمون کجسد واحد“ (الحدیث) کا سماں چھا گیا ۔

فارئین کرام!
افسوس صد افسوس! آج امت مسلمہ اپنے اس عظیم قائد و راہ نماجس نے کچھ ہی عرصہ میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں لایا جو رہتی دنیا تک کے لیے مثال ہے اور ا س میں بسنے والے افراد آپس میں رحم دل اور دشمنوں کے لیے سخت مزاج بن گئے، جس کا تذکرہ خود باری تعالی نے اپنی کتاب لاریب میں یوں فرمایا:

﴿وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ!…﴾․ (الحجرات:29) کے احسانات کو فراموش کر دیا گیا اور اس کی اطاعت و پیروی، جس پر کام یابی کا دار ومدار ہے یکسر نظرانداز کر دیا گیا ﴿وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا﴾․ (الاحزاب،آیت:71)

اور غیروں کو آئیڈیل و نمونے کی حیثیت دے دی گئی اور ان کے نقش قدم پر چلنے کو باعث فخر اور ان کے دنیوی جاہ و جلال اور مال وزر سے متاثر ہو کران ہی کوکام یابی کا محور مان لیا گیا۔اور ان کی تہذیب و تمدن کو اپناکر اپنی تہذیب وتمدن کو بھلادیا گیا۔

شب وروز ان کی کاسہ لیسی اور آستانہ پوشی کرکے ان کی خوش نودی ورضا حاصل کر رہے ہیں، لیکن ہماری یہ تمام محنت بے کار ورائیگاں ہے کیوں کہ خود رب لم یزل نے ارشاد فرمایا:﴿وَلَن تَرْضَیٰ عَنکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَارَیٰ حَتَّیٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾․(البقرة،آیت:120)

”اور ہرگز یہود ونصاری تم سے راضی نہ ہوں گے، یہاں تک کہ تم ان کی ملت میں داخل ہو جاؤ۔“

اب ہر کامل عقل شخص کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے لیے بہترین اسوہ حسنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:﴿لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(الاحزاب:21)

جب ہمیں کتاب لاریب کے واضح ارشادات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا بہترن نمونہ، ہمارے لیے سراپا رحمت او رہماری دنیوی واخروی کام یابی کا دار ومدار آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی میں ہے، تو پھر ہم غیر کی طرف کیوں جائیں؟ ان کے رہن سہن کو کیوں فروغ دیں؟ اور ان کو اپنا حامی کیوں سمجھیں؟ حالاں کہ وہ ہمارے بدترین دشمن ہیں۔

قارئین کرام!
آئیے ! تاریخ کے اوراق پلٹیے اور ان قوموں کے حالات کا جائزہ لیجیے، جنہوں نے اپنے پیشواؤں کے طور طریقوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو الله تبارک وتعالیٰ نے ان کو دنیا میں سرخ رو فرمایا، اسی طرح اصحاب محمد صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، انہوں نے اپنے عظیم رہ نما ( یعنی آپ صلی الله علیہ و سلم) کی سیرت کو سینے سے لگایا تو الله رب العزت نے ان کی دھاک اغیار پر ایسی بٹھائی کہ دشمن کے پاس وافر مقدار میں مال وزر اور جدید اسلحہ ہونے کے باوجودا سلام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اس کے برخلاف جنہوں نے اپنے عظیم قائد ( یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم) کی نافرمانی اور ان کی سیرت سے رُو گردانی کی تو الله رب العزت نے انہیں ذلیل ورسوا کر دیا۔

آج ہمارا معاملہ بھی کچھ یوں ہی نظر آتا ہے او راگر اپنے اس معاشرے میں نظر دوڑائیں تو مخصوص طبقوں کے لوگوں کے علاوہ اکثر معاشرے کے افراد کھلی گم راہی کی دلدل میں دھنسے ہوئے نظر آتے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ دین سے دُوری ہے او رہماری ترقی کی راہوں میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی لادینیت ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم احکام الہٰی اور سنت نبوی سے اعراض بھی کریں اور ترقی کے اعلیٰ مراتب بھی طے کریں؟

اگر ہم دنیا وآخرت میں کام یابی کے اعلی مراتب طے کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے عظیم قائد و راہ نما محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے سنہری اصول وفرامین کو سینے سے لگانا ہو گا، صرف سینے سے ہی نہیں، بلکہ موت تک ان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، کیوں کہ نجات کا بہترین طریقہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی میں ہی ہے #
            نقس قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
            الله سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
الله رب العزت ہمیں آپ ا اور آپ ا کے اصحاب رضی الله عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!

سیرت سے متعلق