نور الہٰی:اسلام کو روز اول سے ہی بجھانے کی پیہم کوششیں ہوتی رہیں، لیکن خدا تعالیٰ نے اب اسلام سے خار کھانے اور اس کو دیکھ دیکھ کر آتش زیر پا رہنے والے کفار، مشرکین، منافقین اور ہرقسم کے دشمنان اسلام کی ہزار دشمنی اور ناپسندیدگی کے باوجود، اس کو پوری دنیا میں پھیلا کر ہی چھوڑا۔
خدائی فرمان ہے:
”چاہتے ہیں کہ بجھا دیں روشنی اللہ کی اپنے منھ سے اور اللہ نہ رہے گا بدون پورا کیے اپنی روشنی کے اور پڑے بُرا مانیں کافر۔“(سورة توبہ، آیت:32ترجمہ شیخ الہند )
”چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کی روشنی اپنے منھ سے اور اللہ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اورپڑے برامانیں منکر، وہی ہے، جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ دے کر اور سچا دین کہ اس کو او پر کرے سب دینوں سے اور پڑے برا مانیں شرک کرنے والے۔“ (سورہٴ صف، آیت:8 تا9)
دشمنوں نے اسلام کی راہوں میں کانٹے بچھائے، رُکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن اسلام کو ترقی کرنے، پھیلنے اور کام یابی کے جھنڈے لہرانے سے کوئی چیز نہ روک سکی، بلکہ اس کی ترقی کی تیز لہریں مسلسل بڑھتی رہیں، چناں چہ وہ مشرق ومغرب کی وسعتوں میں پھیل گیا، اپنی سلطنت کا سکہ پوری دنیا میں رائج کر دیا۔ کیا گورے کالے اور کیا قریب و بعید، ہر ایک کو اس نے اپنے دامان رحمت میں سمیٹ لیا۔ اولاد آدم نے جوق در جوق اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور ہنوز ان تمام رکاوٹوں اور صعوبتوں کے باوجود، جو دشمنان اسلام اُن کی راہوں میں کھڑی کر رہے ہیں، دنیا والے اسلام کے سایہٴ رحمت میں پناہ لے رہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت اور اس کے اَبدی پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کے حوالے سے ایسی ثابت قدمی و پامردی کا مظاہرہ کیا، جس سے مضبوطی کے ساتھ روئے زمین پر جمے ہوئے یہ بلند و بالا پہاڑ نا آشنا ہیں، چناں چہ انھیں ان کے عظیم مقاصد کے راستے سے ہم نوایان باطل اور گم راہی کے بندوں کی تمام نا پاک کوششیں بھی نہ ہٹا سکیں اور انھیں اس حوالے سے جو کام یابی ملی، وہ خدا کی حکمت کے تحت دوسرے انبیاء ورسل کے حصے میں نہ آسکی ، چہ جائے کہ عام مصلحین کومل سکتی ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھیں کھولی تھیں ، اس کا فطری تقاضا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بھی اس کے زیر اثر ہوتے ، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل و دماغ پر چھا جاتے اورآپ صلی الله علیہ وسلم، جس دین حق کا داعی بنا کر مبعوث کیے گئے تھے، اس پر اتنی ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے ، جو آپ نے کیا، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے گھرانے کے چشم و چراغ تھے، جس میں ہاشم بن عبد مناف بن قصی الخ کے واسطے سے سرداری نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی تھی۔ یہ ایسا گھرانہ تھا، جس کی فرماں برداری میں گردنیں جھکی رہتی تھیں، دیرینہ موروثی شرافت اور اثر ورسوخ کے تعلق سے اس وقت مکہ میں اس گھرانے کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کعبہ کی دیکھ ریکھ، آب رسانی اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی ضیافت، صرف قبیلہ قریش کا طرہ امتیاز تھی، عربوں کے آبائی دین کی بھر پور حفاظت اور ان کے معبودوں کی نگرانی تن تنہا اس قبیلہ کا حق تھا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ تمام عربوں میں ان کے مقام و مرتبے کو بلند کرنے اور وسیع تر عربی معاشرے میں ان کی نیک نامی کو اونچا اٹھانے والے، اُن تمام عہدوں اور ذمے داریوں کی کلید ان کے ہاتھوں میں تھی ، جس نے دور اور نزدیک کے تمام قبیلوں کے درمیان ان کے عزت وقار میں اضافہ کر دیا تھا۔
عظیم ترین وارثت، تاریخی عزت وقار اور بے مثال شرافت کا اتنا گراں قدر عظیم سرمایہ بھی آپ کے اور حق کے برملا اعلان اور بلند پایہ اصولوں پر ثابت قدمی کے بیچ نہ دیوار کھڑی کر سکا اور نہ ہی مفوضہ امانت کی ادائیگی اور پیغام رسانی کے لیے مسلسل تگ و دو کی راہ روک کر کھڑا ہو سکا، جیسا کہ عموما یہ دیکھنے میں ملتا ہے کہ موروثی شرافت کا معمولی حصہ بھی بہت سے لوگوں کے لیے تلاش حق ، اس کے لیے دوڑ دھوپ اور اس کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبائلی شرافت، قومی اور خاندانی جاہ جلال کی کوئی پروانہ کی، بلکہ آباؤ واجداد کی بے عقلی کا ماتم کیا ، ان کے معبودوں کو تہمت دی، ان کے خود تراشیدہ خداؤں کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور انھیں اس مذہبی نظام کی دیواروں کو منہدم کرنے کی دعوت دی، جو عربوں کے ہاں قابل فخر اور قبیلے کی سرداری کا مدار تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبیلے کے سرداروں کی طرف سے لاڈ پیار اور محبت کا اتنا سارا سرمایہ ملا،جو حق سے باز رکھنے اور آبائی دین پر جمے رہنے کے لیے طاقت ور محرک ہو سکتا تھا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے غیرحق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، بنی عبد مناف اور بنی ہاشم و مطلب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے آپ کو اتنی ساری محبت دی، جتنی اس معزز گھرانے کے کسی بچے کے حصے میں نہ آئی، چناں چہ آپ بیٹوں اور پوتوں میں تنہا ایسے تھے، جو قوم کے متفقہ سردار اپنے عظیم المرتبت دادا عبد المطلب کے فرش پر بیٹھتے تھے۔ تاریخی کتابوں میں لکھا ہے کہ خانہ کعبہ کے سایے میں سردار قوم عبد المطلب کے لیے ایک فرش پر بچھایا جاتا تھا، ان کی اولاداس فرش کے چاروں طرف ان کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی ، ان کے احترام اور ان کی جلالت شان کی وجہ سے ان کے لڑکوں میں سے کوئی بھی کبھی ان کے فرش پر نہ بیٹھتا تھا، لیکن آپ کا امتیاز دیکھیے کہ آپ ابھی بچے ہی تھے کہ نکل کر فرش پر آ بیٹھتے تھے، آپ کے چچاوہاں سے دور رکھنے کے لیے روکتے اور ہاتھ پکڑتے، تو حضرت عبدالمطلب ان سے یہ کہتے :” میرے بچے کو چھوڑ دو، اس کی تو ایک جدا گانہ شان ہے“۔ پھر وہ آپ کو پکڑ کر بٹھاتے ، لاڈ پیار کرتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی معصوم حرکتوں سے خوش ہوتے۔چچا ابوطالب کو دیکھیے کہ شام کی تجارتی سفر کی تیاری کر رہے ہیں، جب پابہ رکاب ہوتے ہیں تو آپ ابو طالب سے چمٹ جاتے ہیں، تو ان کا دل اپنے بھتیجے کے لیے اتنا پسیج جاتا ہے کہ انھیں شام ساتھ لے جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا، لیکن شفیق چچا کی یہ محبت اور ہم دردی بھی حق کو ترجیح دینے سے اس وقت آپ کے آڑے نہیں آپاتی، جب سرداران قریش ابو طالب کو آخری وارننگ دیتے ہوئے ، ان سے مطالبہ کر بیٹھتے ہیں کہ وہ یا تو اپنے بھتیجے کو حد سے تجاوز کرنے سے روکیں یا پھر ہم اس سے مقابلے کے لیے میدان میں آئیں گے اور اس وقت تک بر سر پیکار رہیں گے جب تک کہ کوئی ایک فریق ہلاک نہ ہو جائے ۔ یہ بات ابو طالب پر، جو اپنے بھتیجے پر دودھ پلانے والی ماؤں کے اپنے بچے سے پیار کرنے کی طرح محبت وشفقت کی دولت نچھاور کرتے تھے، بڑی شاق گزرتی ہے ، سردارانِ قریش کی اس دھمکی کا خوف ستانے لگتا ہے، چناں چہ وہ اس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں:تمہاری قوم نے مجھے وارننگ دی ہے، اس لیے تم میرا اور اپنا خیال رکھو، تم میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈالو، جسے برداشت کرنے کی میرے اندرطاقت نہ ہو۔ یہ بات سن کر آپ گھبراتے ہیں، نہ آپ کے ہوش و حواس گم ہوتے ہیں اور نہ ہی حق سے سرمُو دست بردار ہوتے ہیں۔ آپ کے لیے اس سلسلے میں کسی بھاؤ تاؤ اور مفاد پرستوں اور خواہشات کے بندوں کی طرح منافع کی باہمی تقسیم یا ”لے اور دے“ کی پالیسی کوقبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، بلکہ نا قابل شکن عزم و حوصلے اور غیر متزلزل عقیدے سے سرشار ہو کر برملا یہ فرماتے ہیں: چچاجان!بہ خدا !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ کر بھی یہ مطالبہ کریں کہ میں اس مشن سے باز آجاؤں ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کوغالب کر دے یا میں اس کے لیے اپنی جان قربان کردوں ، تب بھی اس سے باز نہ آؤں گا ۔ اتنا کہہ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم آب دیدہ ہوکر ، اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جب جانے لگتے ہیں، تو ابو طالب آواز دیتے ہیں۔ بھتیجے! ادھر آؤ۔ جب آپ متوجہ ہوتے ہیں تو ابو طالب کہتے ہیں:جاؤ، جو چاہو کہو، خدا کی قسم! میں تمہیں کبھی ان کے حوالے نہ کروں گا۔
اپنے بھتیجے سے اس طرح بے پایاں محبت کرنے والے چچا کو اپنی قوم اور سر بر اہان عرب کی طرف سے آخری وارننگ مل رہی ہے، چچا بھتیجے سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے ، ان کے کانوں میں سر گوشی کرتے ہیں، تا کہ وہ حق سے کچھ بھی دست بردار ہو جائے اور اپنی رائے سے بالکلیہ نہ سہی، تھوڑا بہت قدم پیچھے کھینچ لے۔ اس کے جواب میں انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکمل انکار، زبر دست اصرار اور بے انتہا ثابت قدمی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ ایسے اٹل موقف کا مظاہرہآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کون کر سکتا ہے کہ وہ طوفانوں، سختیوں، اپنی قوم اور سرداران عرب کی زبردست دھمکیوں میں چاروں طرف سے گھرے رہنے کے باوجود، اپنے موقف پرمضبوطی سے ڈٹا ر ہے۔ اس سے جہاں حق کے ساتھ آپ کے جذبہ صادق اور عقیدے پر ثابت قدمی اور استقامت کی عکاسی ہوتی ہے، وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کے چچا کتنے وسیع الظرف ، کشادہ دل، انسانیت نواز ، وفادار، آزادی رائے کا احترام کرنے والے اور اپنے عزیز واقارب کی خاطر مصائب پر صبر کرنے والے واقع ہوئے تھے، جو باوجودے کہ اپنے آبائی مذہب پر ہی تادم حیات قائم رہے ، لیکن اپنے بھتیجے کے سلسلے میں مذکورہ خصلتوں پر جس طرح کار بند رہے، اس کی نظیر دنیا کی آنکھوں نے کیوں دیکھا ہوگا ؟
قریش کے نوجوان حمزہ بن عبدالمطلب کو لے لیجیے ، جو اُس وقت دین محمدی سے کوسوں دور تھے، وہ دیوانگی کی حد تک شکار کے عاشق تھے، وہ پابندی سے شکار کرنے جاتے اور لوٹنے کے وقت کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ حسب معمول شکار سے لوٹ کر کعبة اللہ کا طواف اور بتوں کی پوجا کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں ایک لونڈی ان سے یہ کہتی ہے۔ ابوالحکم بن ہشام ابو جہل نے محمد( صلی الله علیہ وسلم) کو برا بھلا اور سخت سست کہا ہے، ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا ہے، محمد نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا۔ اس لونڈی کی یہ بات سنتے ہی حمزہ غصے میں آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور اس اثنا میں کہ ابوجہل قریش کی ایک جماعت کے بیچ میں بیٹھا ہوتا ہے، اس کے پاس جا کر یہ کہتے ہوئے کمان سے ایک ضرب اس پر رسید کر کے اُس کو زخمی کر دیتے ہیں، تمہاری اتنی ہمت کہ تم اس کو بُرا بھلا کہو۔ سننا چاہتے سن لو، میں اسی کے دین پر ہوں اور وہ جو کہتا ہے، میں بھی وہی کہتا ہوں !
بلا شبہ قریش کے ایک طاقت ور اور معز ز نو جوان کا یہ طرز عمل وفاداری اور حُسنِ سلوک کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے برادر زادے کی عزت و شرافت کی پاس داری کے لیے اپنی قوم اور قوم کے مذہب کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، جس نے عقیدہ و عمل اور اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے کی آپ کی آزادی کو نشانہ بنایا تھا۔
لیکن اپنے پیارے چچا کے اس عظیم سلوک و ملاطفت کی وجہ سے بھی ، آپ اپنے عقیدے اور دین حق کی دعوت سے ذرہ برابر پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ اپنے اٹل موقف سے قدم ہٹاتے ہیں؛ بلکہ قرابت دارانہ جذبات واحساسات اور ان تمام عظیم و خوب صورت تاثرات کے سامنے کوہ گراں بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں، جو اُن پر وفاداری اور حسن سلوک کی دولت ، فراخ دستی سے لٹانے والے چچا کے تئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے روح و قلب میں پیدا ہوئے تھے کہ رشتہ عمومت کی عزت و حرمت، وفاداری اور مخلصانہ طرزِ عمل کی تمام قدروقیمت کے باوجود، آپ حق ہی پر ثابت قدم رہے۔
ایک انتہائی سخت حالت، جس کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قابل ذکر کام یابی کے ساتھ عبور کیا، اس موقع پر اس کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ابو الولید عقبہ بن ربیعہ، زمانہ جاہلیت میں قبیلہ قریش کا ایک بڑا سردار تھا ، اُس کی رائے ، دانش مندی اور فضل و کمال کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پرتھے، اس کی تقریر بڑی فصیح و بلیغ اور اثر انگیز ہوتی تھی۔ چناں چہ قریش والے اُنھیں اپنے اور تمام عربوں کی طرف سے بات چیت کرنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں، وہ آپ کے ساتھ کعبے کے پہلو میں بیٹھ جاتا ہے اور یہ کہتا ہے:میرے بھتیجے!خاندان میں تمہاری کیا حیثیت ہے اور تم کتنے عالی نسب ہو، اس سے تم اچھی طرح واقف ہو، تم اپنی قوم کے پاس ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ،تم نے اُن کے متحدہ شیرازے کو منتشر کر دیا ، اس کے ذریعے تم نے ان کے عقل مندوں کو عقل وخرد سے عاری ٹھہرایا، ان کے معبودوں اور اُن کے دین کی عیب جوئی کی اور اُن کے پیش رو آبا وا جداد کو کا فر گردانا ؛ اس لیے میں غور و خوض کے لیے چند باتیں تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں، شاید تم کچھ باتیں مان لو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا، کہو ابو الولید، کیا کہنا چاہتے ہو؟ چناں چہ عقبہ کہتا ہے:اگر اس سے تمہاری غرض زرکشی ہے، تو ہم اپنا تمام مال تمہارے قدموں میں ڈالے دیتے ہیں، حتی کہ تم ہم میں سب سے بڑے مال دار بن جاؤ گے اور اگر اس سے تمہارا مقصود شرف وعزت کا حصول ہے، تو ہم تمھیں اپناسردار بنائے لیتے ہیں، یہاں تک کہ ہم تمہارے علاوہ کسی کو فیصل نہ بنائیں گے، اگر تم حکومت واقتدار کے خواہاں ہو، تو ہم تمہارے سر پر بادشاہی کا تاج سجائے دیتے ہیں اور اگر تم کسی آسیب اور بیماری کا شکار جس کے دفعیے کی طاقت تمھارے اندر نہیں، تو ہم تمھارے علاج معالجے کے لیے طبیبوں کو بلائے لیتے ہیں اور اس حوالے سے فراخ دستی سے مال و دولت خرچ کریں گے، تا آں کہ ہم تمھیں اس سے نجات دلا دیں گے؛ کیوں کہ بسا اوقات بیماری آدمی پر غالب آجاتی ہے، یہاں تک کہ اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
چھوٹتے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم عقبہ سے کہتے ہیں، ابوالولید، سنو !
شروع اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
”اتارا ہوا ہے، بڑے مہربان رحم والے کی طرف سے ، ایک کتاب ہے کہ جدا جدا ہیں اس کی آیتیں ، قرآن عربی زبان کا ایک سمجھ والے لوگوں کو ، سُنانے والا خوش خبری اور ڈر ، وہ بہت لوگ ، جو نہیں سنتے ۔“ (سورہ حم سجدہ ، آیت:4-1)
یہ سردار قریش کی زبان سے پیش کی جانے والی باتوں کا قریش کو آپ کی طرف سے زبانی جواب تھا اور عملی طور پر آپ اُن شوق انگیز پیش کشوں کے سامنے ڈھیر نہ ہوئے جو عتبہ نے کیے تھے، قریش نے آپ کے ساتھ جس نرمی اور ہم دردی کا اظہار کیا، وہ بھی آپ پر اثر انداز نہ ہوسکی اور نہ اپنے دین اور اپنے معبودوں کے لیے آپ کے دل میں قریش والے کوئی جگہ پیدا کر سکے اور نہ ہی قریش آپ کودین حق کے ایک معمولی حصے سے بھی دست کش ہونے کے لیے رضا مند کر سکے۔
بلا شبہ آپ صلی الله علیہ وسلم حق پر ثابت قدمی اور ان تمام مادی اور معنوی شوق انگیز چیزوں کے روبروچٹان کی طرح جمنے کے حوالے سے اعلیٰ نمونہ ہیں ، جو تھوڑا بہت راہ حق سے اُن کے قدم ڈگمگا سکتی تھیں، چناں چہ نسبی عزت، قبائلی شرافت ، قومی وقار، خاندانی برتری اور قرابت داروں، اعمام واجداد اورخاندان اور قوم والوں کی طرف سے ملنے والے تاریخ کے بے نظیر حسن سلوک اور لاڈ پیار میں سے کوئی چیز آپ صلی الله علیہ وسلم پر اپنا فطری اثر نہ چھوڑ سکی، اسی طرح حق سے دامن جھاڑ نے یا منافع کے تبادلے اور کچھ لینے دینے کی حکمت عملی پر راضی ہونے کے عوض ، قوم نے جتنی بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، سب کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاک میں ملا دیا، ان کی کوئی بھی آرزو آپ پر اپنا رنگ نہ جما سکی۔
حق سے دست برداری اور اس پر عدم ثابت قدمی کے تعلق سے شوق کو مہمیز لگانے والی اس قسم کی پیش کش نسبی تفاخر ، قومی سرداری، موروثی شرافت اور تاریخی عظمت کے پُرکشش وعدوں کے سامنے آپ صلی الله علیہ وسلم کا غیر متزلزل موقف، خدا، انبیا و رسل اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لیے، ماضی میں بھی تاریخی اوراق میں ریکارڈ کرنے اور پیروی کے لائق رہا اور مستقبل میں بھی اس عظمت و شوکت کے ساتھ باقی رہے گا، آپ کا یہ موقف ڈرانے، دھمکانے، ایذارسانی اور اس تمسخر کے تئیں انتہائی صبر آزما تھا، جس کا قریش کے ہاتھوں آپ کو نشانہ بننا پڑا۔
ہر چیز کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تمام حرکات و سکنات اور قول میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے،لیکن ان پر کشش محرکات کے سامنے ٹس سے مس نہ ہونے ،حق پر غیر متزلزل استقامت، دعوت حق پر اصرار، رشتے ناطے اور اس کے بطن سے جنم لینے والی محبت و ہم دردی، حسن سیرت اور بہترین معاشرت ومناسب برتاؤ کے جذبات کے تمام تقاضوں پر حق کو ترجیح دینے کے سلسلے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا موقف اس معاصر دنیا میں پیروی کے زیادہ لائق ہے، جس میں اقدار کو پس پشت ڈالنے کی دعوت دینے والے محرکات کی بے پناہ ریل پیل ہے، جس میں مذہب سے معرکہ آرائی اور اسلام دشمنی کی باد صر صر چل رہی ہے اور اسلام کے سر ایسے ایسے الزامات تھوپے جارہے ہیں، جن کی شیطان کو بھی ہوا نہ لگی ہوگی ، لیکن سائنس ، نئی ٹکنالوجی اور اس کی روز افزوں حصول یا بیوں سے لیس اس پڑھے لکھے زمانے کی جاہلیت نے ، جدید سائنس اور اس کی نئی کام یابیوں کے بل بوتے اور اس کے برآمد کردہ وسائل اور ہتھیاروں کے ذریعے، دین سے کسی بھی درجے میں تعلق رکھنے والی ہر چیز کے خلاف ایک ز بر دست اور ہمہ گیر جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
راہ حق سے بچلانے اور بہکانے والی چیزیں، نئے نئے مختلف رنگوں میں تہذیب و ثقافت کا لبادہ اوڑھ کر رونما ہو رہی ہیں، انھوں نے ایسا رنگ و آہنگ اختیار کر رکھا ہے، جس کو فرزندان شیطان روشن خیالی، ترقی پسندی اور تہذیب و تمدن کا نام دے رہے ہیں ؛ اس لیے جو شخص ان کو گلے سے لگائے ، وہ جنگلی ، بدوی، پس ماندہ ، رجعت پسند اور نا آشنائے تہذیب ہے۔
زمانہ آج پھر اپنی دیرینہ روش پر چل پڑا ہے۔ آج بھی مفادات اور نرمی اورگدازی مودت و محبت، نیز سازش اور مکرو فریب ، دسیسہ کاری ، علانیہ دشمنی، کھلم کھلا جنگ اور کھلے چیلنج کے ذریعے مذہب کے خلاف اکسانے والے محرکات سے یہ دنیا پٹی پڑی ہے۔
چناں چہ ہم میں سے ہوشیار اور دانا وہ شخص ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے اورمحرکات نفس خواہ وہ کتنے ہی خوب صورت اور خوش گوار کیوں نہ ہوں، کے سامنے سپر انداز نہ ہو،اس لیے کہ حق ، اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور یہ کہ حق کی طرف بازروی باطل گرچہ وہ کتنا ہی نرم و گداز اور خوب رو ہو پر جمے رہنے سے زیادہ بہتر ہے؛ اس لیے کہ ہمیں خدا کے اوامر و نواہی پر کار بند رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس لیے کہ شریعت تمام اعتبارات سے کہیں بڑھ کر ہے، اس کا دین اعلی وارفع اور تمام عاجلانہ منافع ، نا پید ہو جانے والے مقاصد،سستے مفادات ، مادی خواہشات، دنیوی شہرت اور معدوم ہو جانے والی عزت و جاہ کی تمام شکلوں سے بلند تراور گراں قدر ہے۔
زندگی کے طویل سفر، اس کے بہت سے نشیب و فراز اور اس کی پر پیچ و دشوار راہوں پر چلتے چلتے کبھی ہم مسلمان تھک ہار کر اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ جادہ حق پر چلنے کی طاقت ہمارے اندر نہیں رہتی، اس وقت ہم دائیں یا بائیں مڑ جاتے ہیں یا صراط مستقیم کو چھوڑ کر بہت سی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پر چل پڑتے ہیں، جن پر ہمارے قدموں کو گہرے زخم لگتے ہیں اور ہم کبھی گہرے کھڈ میں گر پڑتے ہیں اور آخرش ہم اپنے مذہبی اور ایمانی سرمایے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ہمیں ہر وقت ذہنوں میں یہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ آخری اور سب سے بڑے نبی آپ صلی الله علیہ وسلم راہ ِ راست پر مضبوطی کے ساتھ کیسے چلے کہ آپ کو جادہٴ حق سے تیز آندھیاں بھی بال برابر منحرف نہ کرسکیں، ہر قسم کے فتنے بھی سامنے آئے ، مگر اُن سے بھی آپ کا کچھ نہ بگڑا، ترغیب و ترہیب بھی کارگرنہ ہو سکی ، نہ ہی بڑی بڑی امیدیں آپ کو زیر کر سکیں اور نہ ہی مذاق اور ایذا رسانی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدموں میں کوئی لغزش پیدا کی۔
ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ حق کے متلاشی رہیں، باطل خواہ کتنا بھی سر چڑھ کر بولے، پیچ و تاب کھائے، شیرکی طرح گرجے، چیتے کی طرح چنگھاڑے، خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرے، سائنس اور ہتھیاروں سے لیس ہو، زمان و مکان ہم پر مصائب کی بارش برسائیں، پیمانہ الٹ پلٹ جائے،باطل حق اور حق باطل کا روپ دھار لے، دوست دشمن بن جائے ، قریب دور ہو جائے اور آشنا نا آشنائی کا مظاہرہ کرے اور اپنے بے گانے بن جائیں …، آپ انے اپنے تمام مواقف ، اپنے تمام احوال او رجلوت وخلوت ، امن و جنگ، خوف وامن، انفرادی و اجتماعی زندگی، بازار و مسجد، بیع وشرا کی حالت اور دوست دشمن، اپنے پرائے اور مسلم و غیر مسلم کے حوالے سے اپنے تمام اعمال کے ذریعے؛ ہمارے لیے شان دار اور قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے۔ سچ فرمایا بلند و برتر اللہ نے:تمہارے لیے بھلی تھی سیکھنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی چال؛ اس کے لیے جو کوئی امید رکھتا ہے اللہ کی اور پچھلے دن کی اور یاد کرتا ہے اللہ کو بہت سا۔( احزاب، آیت:21)