صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الہٰی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سرفہرست”امامِ عادل“ کا نام آتا ہے
عن أبي ہریرة رضي اللہ عنہ، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”سبعة یظلہم اللہ فی ظلہ یوم لا ظل إلا ظلہ، إمام عادل، وشاب نشأ فی عبادة اللہ، ورجل معلق قلبہ فی المساجد، ورجلان تحابّا فی اللہ؛ اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل دعتہ امرأة ذات منصب وجمال فقال: إني أخاف اللہ، ورجل تصدق بصدقة فأخفاہا حتی لا تعلم شمالہُ ما تنفق یمینہُ، ور جل ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ․(صحیح بخاری:1/191)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا عادل بادشاہ کووہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہوا وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا رہتا ہے ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے وہ آدمی جس کو کسی صاحب حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا مجھے خدا کا خوف ہے وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں ابل پڑیں۔
عدل در حقیقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:﴿ شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ﴾․(آل عمران:18)
اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے، کسی کی بندگی نہیں سوا اس کے، زبر دست ہے، حکمت والا۔
حق تعالیٰ شانہ خود عادل ہے اس کا نازل کردہ قانون (شریعت محمدیہ )سرا پا عدل ہے، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔
قرابت کے موقعہ پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جنبہ داری کی خاطر عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے ،مگر فرزندان اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل و انصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء َ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ إِن یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیرًا فَاللَّہُ أَوْلَیٰ بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوَیٰ أَن تَعْدِلُوا﴾․(النسا،آیت:135)
اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر ، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگر چہ نقصان ہو تمہا را یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مال دار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں ۔
اسی طرح جب کسی سے بغض و عداوت ہو تو عدل و انصاف کے تقاضے عموما بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لیے آدمی ہر جائز و نا جائز حربہ تلاش کرتا ہے ،لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقعہ پر بھی عدل وانصاف کی ترازوہا تھ سے نہ چھوڑیں بلکہ ہر حال میں عدل و انصاف کو قائم رکھیں ۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاء َ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾․(المائدہ،آیت:8)
اے ایمان والو!کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو۔ عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقوی سے اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو ۔
نظامِ عالم اور عدل وانصاف
در اصل کائنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظام عالم کے لیے عدل و انصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں، بلاشبہ حاکم عادل کا وجود اس عالم کے لیے سایہ رحمت الہٰی ہے اور کسی عدل کش حاکم کا تسلط عذاب الہٰی ہے، جو بندوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے:
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کو من” لمن الملک؟“ بجاتے تھے اور آئین و قانون اس کے اشاروں پر رقص کرتا تھا، لیکن دور جدید نے ملوکیت کو جمہوریت میں بدل ڈالا، آئین و دستور وضع کیے گئے، بادشاہت کی جگہ کہیں صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزارتی نظام نافذ کیا گیا، گویا دور قدیم کے شہنشاہ کا منصب دور جدید کے صدر مملکت یا وزیر اعظم کو تفویض ہوا، فرق یہ پڑا کہ دور قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دور جدید میں نیچے سے جاتے ہیں، لیکن عدل وانصاف محض ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں ،بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پر ور ارباب اقتدار پر ہے ، حاکم اعلیٰ عدل و انصاف کے جوہر سے مالا مال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے، جس طرح مملکت کی آبادی اور شادابی عدل و انصاف سے وابستہ ہے اسی طرح اشخاص کی بقا وفلاح عدل وانصاف کی رہین منت ہے ۔
قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب
کسی مملکت کی تباہی و بربادی کے عوامل کا جائزہ لیجیے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی :قوم کا فسق و فجور اور حکم رانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الہٰی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق و معصیت کے نشہ میں بدمست ہو کر حلال و حرام اور جائز و نا جائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلط کر دیے جاتے ہیں ، قرآن کریم میں کسی قوم کی تباہی وبربادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے:
﴿إِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِیہَا فَفَسَقُوا فِیہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیرًا﴾․(بنی اسرائیل،آیت:16)
ترجمہ :”اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچاتے ہیں تب ان پر حجت تمام ہو جاتی ہے، پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں“۔
قوم کا فسق و فجور اور ملوک و سلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بنتا ہے ، ظلم و استبداد کی چکی میں پہلے سرکش قوم پستی ہے، بالآخر یہی چکی ظالم و جابر کو بھیپیس ڈالتی ہے، اہل ِدانش کا قول ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے، مگر ظلم و استبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
در حقیقت کائنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے، حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکم ران زیادہ دیر تک مسند اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درس عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہو جاتا ہے ، تاریک دور کے فرعون وہامان اور شداد ونمرود کو جانے دو، ماضی قریب میں اسٹالن ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا؟! اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے، وہ ظالم جس کی با دشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جزیرے میں پناہ گزین ہے ، خود ہماری مملکت خداداد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکم رانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظاہر سامنے آتے رہے ہیں، کیا سکندر مرزا، غلام محمد ، ایوب خان اور یحییٰ خان کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی؟!
حکومت کی بقا کے لیے عدل و انصاف ضروری ہے
بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ارباب اقتدار عدل و انصاف کو قائم کریں اور قوم فسق ومعصیت کا راستہ ترک کر کے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے ، دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش ، فسق و فجور اور فحاشی و بد کاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہول ناک ہوا، پاکستان کی پاک سرزمین جو حق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی، اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوتا، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا، تقویٰ وطہارت کی فضا قائم ہوتی، راعی اور رعایا اسلام کا سچانمونہ پیش کرتے اور یہ مملکت خداداد دور جدید میں اسلام کی نشاة ثانیہ کی علم بردار ہوتی، لیکن افسوس صد افسوس کہ ”خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم“
یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثار کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا، بلکہ آزادی کے بعد یہ فرض کر لیا گیا کہ ہم خداا و رسول سے بھی آزاد ہیں ، سو د قمار اور دیگر صریح محرمات کو حلال کرنے کی کوشش کی گئی ، فواحش و منکرات کی ترویج کی گئی، سینما، ریڈیو، ٹیلی ویژن کو بے حیائی کا منّاد بنا دیا گیا، رہی سہی کسر اخبارات نے پوری کر دی، شعائر دین کا مذاق اڑایا گیا، اسلامی قوانین کو مسخ کیا گیا ، دین کے قزاقوں کو کھل کھیلنے کا موقعہ دیا گیا ، بے خدا قوموں کی تقلید میں آزادی نسواں کا پرچار کیا گیا، اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے ازموں کے نعرے لگائے گئے اور اب تو خدا فراموشی کی حالت ایسی نا گفتہ بہ صورت اختیار کر چکی کہ اس کے انجام کا تصور کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سزا بھی افراد تک محد و در ہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم و بغاوت کا راستہ اختیار کرے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے ، یہ سزا ہمیں ایک بار سقوط مشرق کی صورت میں مل چکی اور ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ سزا کی دوسری قسط کے خطرات سر پر منڈلانے لگے ۔
مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکلنے کانتیجہ
جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشہ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال وانفصال کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور بالاخر سڑ گل کر منتشر ہو جاتا ہے، ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال و انتشار کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟ شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس طرح امریکا روس اور ہندوستان کی سازش سے ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہو بیٹھے ہیں اسی طرح ۔خاکم بدہن۔ مزید تباہی و بربادی سے دوچار نہ ہوئیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پر دے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی ایک طرف پورا ملک بے چینی و بے قراری کا شکار ہے ،بیم و یاس کی کیفیت طاری ہے، ہوشر باگرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے ، خیرو برکت اٹھ چکی ہے یہی خطہ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کرتا تھا، خود دانے دانے کے لیے دریوزہ گر ہے، ہر چیز کا قحط ہے، باہمی الفت و محبت اور اتحاد و اعتماد نصیب دشمناں ہے، رشوت ، لالچ ، چور بازاری، سٹہ بازی جیسے امراض دق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں، چوری اور ڈاکے کی وارداتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں، کیا یہ سب عذاب الہٰی کی شکلیں نہیں ؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا، بلکہ فواحش ومنکرات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ، کلبوں اور ناچ گھروں میں عریانی بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں، ظلم وبربریت کی آخری حدوں کو چھو یا جا رہا ہے ، غفلت و خدا فراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ آخرحق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی ؟ اور انتقام الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی ؟ گزشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایا ہے :
﴿الَّذِینَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ ، فَأَکْثَرُوا فِیہَا الْفَسَادَ ، فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ، إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾․ (سورة الفجر، آیت:14-11)
ترجمہ:”یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، پس اس میں بہت اودھم مچایا ، پھر برسایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا ، بلا شبہ تیرا رب گھات میں ہے“۔
ان تمام درد ناک صورت ِ حال سے نجات حاصل کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ راعی اور رعا یا بارگاہِ ربوبیت میں تو بہ وانابت اختیار کریں، اجتماعی معاصی سے یکسر پر ہیز کریں اور گزشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں تو بہ واستغفار کریں ، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں، سورہٴ نوح میں اس قسم کے معاصی کی کثرت سے قحط وتنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج تو بہ واستغفار بتایا گیا ہے:﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا ،یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَارًا ﴾․(سورہ نوح، آیت:12-10)
ترجمہ:”(نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے) میں نے کہا :گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ ہے بخشنے والا، چھوڑ دے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھا دے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنا دے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں“ ۔
مقصد یہ کہ تو بہ و انابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کام یابی و کام رانی نصیب ہو گی، بلکہ دنیا کے عیش و آرام کی صورتیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و احسان سے مہیا فرما دیں گے، دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہو گا، اموال میں خیر و برکت ہوگی ، اولاد صالح اور خدمت گار ہو گی، آسمان سے ابر رحمت کا نزول ہو گا، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی، فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے، اس لیے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فورا کر لینا چاہیے، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی، اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے، ہماری قوم کو فسق و فجور اور حکم رانوں کو ظلم و عدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِی أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ،رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ﴾
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ صفوة البریة سیدنا محمد وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ إلی یوم الدین․