صحابہ ٴ کرام رضی الله عنہم اجمعین نبی ٴ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے شیدائی تھے اور اسلامی احکام کے ساتھ ان کی محبت اور ان کا عشق اور ان کی وابستگی اتنی شدید تھی کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے ذرا خلاف کسی چیز کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ان کے دیکھنے والوں نے صحابہ رضی الله عنہم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا کہ ”اگر تم ان کو دیکھتے تو تم ان کو مجنون سمجھتے اوروہ تمہیں دیکھتے تو سمجھتے کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں “۔
خیر القرون سے جتنا بُعد بڑھ رہا ہے ، اتنی ہی انحطاط کی شکلیں مختلف صورتوں میں سامنے آرہی ہیں ، عاشقانِ رسول تو آج بھی موجود ہیں، لیکن ان کا پورے کا پورا عشق نعت اور سبز جھنڈے میں آکر جمع ہوگیا ہے ۔ ”انا لله و انا الیہ راجعون“
․تو اس کے علاج کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی اپنے قلب کی اصلاح ،اپنے عمل کی اصلاح اور اپنی ترجیحات کی اصلاح کے درپے ہوجائے ، یہ ہوجائے گا تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔بہت سے لوگ جنہوں نے کالج میں پڑھا اور جنہوں نے علماء کی صحبت نہیں پائی اور وہی ان کی رفتار و گفتار اور وہی ان کا چلن اور تہذیب تھی ، لیکن ان میں سے اگر کسی آدمی کا کسی اللہ والے سے تعلق ہوگیا یا کسی صحبتِ صالح میں وقت گزارا تو اس کی دنیا ہی تبدیل ہوگئی۔
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے ایک مرید ہیں ، خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمة الله علیہ، وہ علی گڑھ کے انگریزی تعلیم یافتہ تھے، الله کا کرنا ایساہوا کہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ سے ان کا تعلق ہوا، اس تعلق کی بنا پر ان کی زندگی میں عجیب انقلاب آگیا ،وہ اللہ و رسول کے شیدائی بن گئے اور انگریزی معاشرت کو خیر باد کہہ دیا اور اعلیٰ درجہ کے متقی بن گئے۔ یہ جو جذبات ہوتے ہیں کہ ہم یہ کر لیں گے وہ کرلیں گے اور تکلّفات ، فخر و نمود ، اپنی شان کا مظاہرہ ،تکبر اور رعونت کا اظہار ،یہ تمام جذبات عارضی ہیں اور بہت عارضی ہیں ، ایک وقت آتا ہے آدمی خود ان پر پچھتاتاہے اور ان پر ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے لگتا ہے، تو پھر کیوں نہ ان سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے؟ اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام اور تعلیماتِ اسلام کی محبت کو قلب کے اندر ایسا راسخ کیا جائے کہ جو ان کو پسند ہے وہی ہمیں بھی پسند ہو جائے، خواہ کسی دوسرے، تیسرے کو پسند ہو یا نہ ہو۔ہم ڈاڑھی رکھتے ہیں اس لیے کہ اللہ کو پسند ہے اور اس لیے کہ اللہ کے رسول نے حکم دیا ہے اورٹھیک ہے، کئی لوگوں کو پسند نہیں تو نہ ہوا کرے، ہمیں اس کی پروا نہیں ہونی چاہیے ، نماز پڑھنے کو بعض لوگ پسند نہیں کرتے تو کیا ہم نماز پڑھنا چھوڑ دیں گے؟