ادب ان چند کلمات میں سے ایک ہے جو پورے اسلام کے احکامات کو شامل ہے۔ مثلاً امانت جس کا مختصر مفہوم ہے دیانت داری سے کام لینا۔ حقیقت میں اس کا مفہوم انتہائی وسیع ہے۔ سورة الاحزاب میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ﴾․(سورة الاحزاب:72)
ترجمہ:” ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین او رپہاڑوں پر پیش کی۔“
یہاں امانت سے مراد مکمل اسلام ہے۔ امام قرطبی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ امانت دین کے تمام امور کو شامل ہے۔ جمہور کا قول بھی یہی ہے۔ (قرطبی:14/253)
اسی طرح لفظ عدل: جس کا مختصر معنی ہے انصاف کرنا۔ یہ ظلم کی ضد ہے۔ لیکن اس کا حقیقی مفہوم بہت کشادہ ہے۔ جیسے ابن عربی نے اس آیت:﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ﴾․(سورة النحل:90)
ترجمہ:” بے شک الله تعالیٰ انصاف کا، احسان کا اور رشتہ داروں کو ( ان کے حقوق) دینے کا حکم کرتا ہے۔“ کی تفسیر میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔
ادب کی اقسام: ان الفاظ میں سے ایک ادب ہے، جس کا معنی ومفہوم بہت وسیع ہے۔ ادب مختلف اقسام پر مشتمل ہے، الله تعالیٰ کے ساتھ اچھے آداب کا رویہ رکھنا( یعنی عبادات میں اخلاقی رویہ اختیار کرنا وغیرہ) تمام مخلوقات کے آداب کا خیال رکھنا، جیسے انبیائے کرام کا عزت وتکریم کے ساتھ تذکرہ کرنا، فرشتوں کا نام لیتے ہوئے آداب واخلاق بجالانا، اسی طرح انسان کاا پنے نفس کے ساتھ آداب کا خیال رکھنا، اپنے والدین کے ساتھ اخلاقی برتاؤ کرنا، بلکہ ہر وہ شخص جو تھوڑی دیر کے لیے آپ کا مصاحب بنے اس کے آداب کا خیال رکھنابھی ضرور ی ہے۔
طالب علم کس کے آداب بجالائے؟
ہر انسان پر ان تمام کا ادب ضرور ی ہے جن کے حقوق اس پر لازم ہیں، سب سے بڑا حق الله تعالیٰ کا ہے، اس عظیم منعم کا شکر بجالانے کے ساتھ آداب بجالانا بھی ضروری ہے، جنہوں نے لا تعداد انعامات واحسانات انسان پر کیے ہیں۔ عدم سے وجود بخشنے سے لے کر آج تلک حیات جاودانی کے ہر ہر منٹ وسیکنڈ میں انعامات بارش کی طرح برستے ہیں۔ طفولیت کے عجز سے شباب کی قوت تک او رجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے علم کالامتناہی سلسلہ عطا کرنے تلک ، غرض یہ تمام انعامات گننے کے لیے ایک اور زندگی بھی کافی نہیں۔
اسی طرح انبیائے کرام جو رشد وہدایت کے آفتاب بن کر عالم ظلمات پر طلوع ہوئے۔ اسی طرح فرشتے جو وجود عالم سے لے کر فنائے جہانِ فانی تک ابن ِ آدم کی خدمات پر مامور ہیں، جوان نورانی مخلوق کے آداب بجا نہ لائے تو وہ اس دنیا میں سانس لینے کا بھی حق دار نہیں۔ اس کے علاوہ والدین اوراساتذہ کے آداب بجالانا جو زندگی کے ہر ہر موڑ پر را ہ نما ومقتدا ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں صرف استاذ اور مربی کے آداب ذکر کیے جائیں گے۔
استاذ اور مربی کے آداب
استاذ کے ساتھ حسن سلوک کرنا، بہترین اخلاقی برتاؤ کرنا ہر موقع پر انتہائی اہم ہے۔ یہی فلاح وکام یابی کی ضمانت ہے۔ استاذ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کے ساتھ آداب واخلاق سے پیش آئے۔ علامہ مناوی کہتے ہیں:
”امام برہان بقاعی سے کسی نے سبق پڑھنے کی اجازت مانگی انہوں نے اجازت دی، جب وہ پڑھنے آئے تو چار زانوں ہو کر بیٹھ گئے، امام بقاعی نے کہا جاؤ: تم پہلے ادب سیکھ کر آؤ، آپ کو علم حاصل کرنے سے پہلے ادب کی ضرورت ہے۔“ ( فیض القدیر:1/225)
خطیب بغدادی نقل کرتے ہیں:
” علی بن صالح او رحسن بن صالح دونوں جڑواں بھائی تھے۔ علی صرف ایک گھنٹہ حسن سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ حسن اپنے بھائی علی کی عزت وتوقیر کا خیال رکھتے تھے۔ وہ اسے ابو محمد کہہ کر پکارتے، اتنی عزت کرتے کہ نام تک نہیں لیتے تھے۔ جب علی بیٹھ جاتے تھے تو حسن اس کے ساتھ نہیں بیٹھتے بلکہ نیچے بیٹھ جاتے، تاکہ بے ادبی کا ارتکاب نہ ہو“۔ (2/418)
اگر کوئی اپنے نفس کی تربیت اس انداز سے کرے تو وہ اخلاق وآداب کے اعلیٰ اوصاف کے ساتھ متصف ہو گا۔ اگر کوئی امام ابو حنیفہ رحمہ الله جیسے آداب اپنائے کہ اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاؤں بھی نہ پھیلائیں یا جیسے امام شافعی رحمہ الله اپنے استاذامام مالک رحمہ الله کے سامنے ورق بھی آہستہ پلٹاتے تھے۔ یہ آداب او راخلاق اپنانے کے لیے خود سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے خصوصی درس وغیرہ کی ضرورت نہیں۔
استاذ کے ساتھ ادب کا سبق آموز واقعہ
استاذ اگر دھوپ میں جارہا ہو، تو خود دھوپ میں آکر استاذ کو سایہ کی طرف کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب استاذ دھوپ میں کھڑا ہو تو شاگرد کے لیے استاذ کے سایہ کے اوپر کھڑا نہیں ہونا چاہیے؛ یہ بھی بے ادبی شمار ہو گی۔ اسی مناسبت سے میں اپنی آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ ہم اپنے اساتذہ کے ساتھ مدرسے کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مفتی اسعد رحمہ الله اور ان کے ساتھ میرے استاذ محترم حضرت عبدالله سراج الدین اور مدرسہ شعبانیہ کے ایک اور استاذ تشریف فرما تھے۔ یہ بہار کا موسم تھا، صبح چاشت کے قریب کا وقت تھا، دھوپ ہلکی سی تھی، اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ استاذ محترم حضرت عبدالله دوسرے استاذ کو ہاتھ کی انگلی سے اشارہ فرمارہے ہیں کہ ہٹو؛ حضرت مفتی صاحب کے سایے سے دور ہو جاؤ! گویا یہ بھی بے ادبی شمار ہو گی۔
جانور بھی بزرگوں کا ادب کرتے ہیں:
حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جب چیونٹیوں کی وادی پر پہنچا تو:﴿قَالَتْ نَمْلَةٌ یَا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُہُ وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ﴾․(سورة النمل:18)
” ایک چیونٹی نے کہا:” چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ؛ کہیں ایسا نہ کہ سلیمان او ران کا لشکر تمہیں پیس ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔“
اس میں دیکھیں کہ”ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں کو کہتی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمہیں روندے اور ان کو پتہ بھی نہ چلے۔ یعنی ابھی ہی سے ان کا عذر بیان کر دیا کہ سلیمان علیہ السلام کے لشکری اگر کہیں تمہیں روندیں گے بھی تو وہ معذور ہوں گے، کیوں کہ وہ بڑے ہیں اور چھوٹی چیز کا ان کو پتا نہیں چلتا ہے۔ غلطی سرزد ہونے سے پہلے ہی عذر ان کی جانب سے بیان کرنا ادب کا تقاضا ہے۔ جب کہ ایک چھوٹی سی مخلوق حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابہ کی اتنی عزت کرتے ہیں اور اتنا ادب بجالاتے ہیں، پھر ہم کیوں نہ اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ساتھ ادب سے پیش آئیں؟ الله تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کے ادب کی توفیق عنایت فرمائیں۔
طالب علم کا اپنے استاذ کے ساتھ ادب کا قرآنی واقعہ
امام فخر الدین رازی رحمہ لله حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کی جانب سفر کا واقعہ اور استاذ کے آداب کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے ملے، کہا:﴿قل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشداً…﴾کیا میں آپ کے ساتھ اس غرض سے رہ سکتا ہوں کہ آپ کو بھلائی کا جو علم عطا ہوا ہے، اس کا کچھ حصہ مجھے بھی سکھا دیں؟۔
امام رازی رحمہ الله فرماتے ہیں: جب موسی علیہ السلام علم حاصل کرنے حضرت خضر علیہ السلام کے پاس پہنچے ، تو یہ آداب واخلاق بجالائے:
پہلا ادب:… اپنے نفس کو استاذ کا تابع فرماں بنایا، اس طور پر کہ کہا:ھل اتبعک؟
دوسرا ادب:… اپنے نفس کو تابع بنانے میں استاذ سے اجازت لی، کہا :ھل اتبعک؟ یہ حد درجہ عجز وانکساری ہے۔
تیسرا ادب:… کہ آپ مجھے سکھائیں، یہ اپنی لاعلمی کا اظہار اوراستاذ کی علمیت کا اقرار ہے۔
چوتھا ادب:… انہوں نے کہا : مما علمت… یعنی جو علم آپ کو عطا کیا گیا ہے، یہاں کلمہ ” من“ تبعیض کے لیے ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ کو الله تعالیٰ نے جو علم عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ مجھے سکھائیں! مکمل علم کا مطالبہ نہیں کر رہا کہ مساوات ہو، بلکہ کچھ علم دیجیے؛ جیسے ایک فقیر کسی غنی سے کچھ مانگتا ہے تو پورا مال نہیں مانگتا ،بلکہ کچھ مانگتا ہے۔
پانچواں ادب:… اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ علم ا لله تعالیٰ نے آپ کودیا ہے۔
چھٹا ادب:… رشد وہدایت کو طلب کیا، رشد وہدایت اگر حاصل نہ ہو تو گم راہ ہونے کا خطرہ ہے۔
ساتواں ادب:… ان تعلمن مما علمت… یعنی جیسا کہ الله تعالیٰ نے آپ پر احسان کرکے آپ کو علم عطا کیا ،اسی طرح آپ میرے اوپر احسان کرتے ہوئے علم عطا کیجیے! یہ حضرت علی رضی الله عنہ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے کہ جو مجھے ایک لفظ سکھائے گا میں اس کا غلام ہوں۔
آٹھواں ادب… اخباروواقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو علم تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے نبی ہیں، صاحب توراة ہیں۔ یہ وہی موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو الله تعالیٰ نے ہم کلامی کا شرف بخشا ہے او رجن کو عظیم معجزات سے نوازا ہے۔ ان اعلیٰ مناصب اور بلند مقام ومرتبے کے باوجود اس عجزوا نکساری کے ساتھ علم کے حصول کے لیے تشریف لائے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ انتہائی تواضع، عجز وانکساری کے ساتھ علم حاصل کرنے آئے تھے۔
نواں ادب:…اتبعک… یعنی میں تمام امور میں آپ کی تابع داری کروں گا، اتباع پہلے ہو گا ،علم بعد میں حاصل کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدمت کرنا پہلے درجے میں ہے، علم حاصل کرنا بعد میں ہے۔
دسواں ادب:…ھل اتبعک علی ان تعلمن…اس متابعت پر کوئی شرط نہیں لگائی کہ میں آپ کی اطاعت کروں گا، اس کے بدلے مجھے جاہ ومال میں سے کچھ نہیں چاہیے، صرف علم حاصل کرنے کی غرض سے آیا ہوں۔ (التفسیر الکبیر تحت ھذہ الآیة، والتحریر والتنویر:1/42)
طلبہ کے اپنے اساتذہ اور شیوخ کے ادب کے عجیب واقعات
امام خطیب بغدادی رحمہ الله”استاذ کا طالب علم پر رعب ودبدبہ“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ: مغیرہ بن مقسم رحمہ الله نے کہا:”ہم ابراہیم نخعی رحمہ الله کا ایسا احترام کرتے تھے جیسا امیر کا احترام کیا جاتا ہے۔“
ایوب سختیانی رحمہ الله کہتے ہیں:” ایک آدمی نے حسن بصری رحمہ الله کے رعب ودبدبے کی وجہ سے تین سال میں ایک بات بھی نہ پوچھی۔“
عبدالرحمن رحمہ الله کہتے ہیں:”حضرت سعید بن مسیب رحمہ الله کے سامنے ان کے رعب کی وجہ سے کوئی سوال کا جرأت نہیں کرسکتا تھا۔“
ابن شہاب زہری رحمہ الله کہتے ہیں کہ ” میرا گھٹنا حضرت سعید بن مسیب کے گھٹنے کے ساتھ ملا ہوا ہوتا، تب بھی کچھ نہیں پوچھ سکتا تھا۔“ (الجامع:297)
امام زرنوجی استاذ کے ادب واحترام کے بارے میں لکھتے ہیں:
”استاذ کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی اولاد اور ان کے متعلقین کے ساتھ آداب واحترام کا رویہ رکھا جائے، ہمارے استاذ یہ واقعہ سناتے تھے۔ امام بخاری رحمہ الله کے کبار اساتذہ میں سے ایک استاذ درس کے دوران کھڑے ہو جاتے۔ شاگرد پوچھتے کہ سبق کے دوراں کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ کہا کہ گلی میں میرے استاذ کا بیٹا بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، جب مسجد کے دروازے کے سامنے گزرتا ہے تو میں اپنے استاذ کی عظمت کی وجہ سے اس کے لیے بھی احتراماً کھڑا ہوتا ہوں۔“ ( تعلیم المتعلم،ص:48)
اسحاق بن ابراہیم سے منقول ہے کہ : ” میں یحییٰ قطان کو کبھی دیکھتا کہ عصر کی نماز کے بعد وہ مسجد کے مینار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے، ابن مدینی، شاذ کونی، عمر فلاس اور احمد بن معین وغیرہ ان کے سامنے سبق سننے کے لیے کھڑے ہو جاتے، ان میں سے کوئی ان کی ہیبت اور دبدبے کی وجہ سے نہیں بیٹھ سکتا تھا، یہاں تک کہ مغرب کی اذان ہو جاتی تھی، یہ تھک جاتے، مگر استاذ کے ادب کی وجہ سے نہ بیٹھتے اور نہ ہی ان سے کہتے کہ بیٹھ جائیں“۔
شاگرد کو اپنی مسند پر بیٹھنے کا تعجب انگیز واقعہ
شریف عزیز الدین کہتے ہیں کہ: جب امام فخر الدین رازی رحمہ الله” مرو“ سے آئے، عظیم المرتبت اور انتہائی رعب ودبدبے کی وجہ سے کوئی ان سے بات تک نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی ان کے سامنے زور سے سانس بھی نہیں لے سکتا تھا۔ ایک دن مجھے کہا کہ آپ ان طلبہ کے ناموں کی فہرست مرتب کرکے مجھے دیجیے؛ میں نے کہا سر بچشم۔ جب میں نے وہ فہرست مرتب کرکے ان کے سامنے پیش کی۔ وہ اپنی مسند سے اتر گئے اورمجھے کہا کہ آپ وہاں بیٹھ جائیں، خود چٹائی پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان کی عظمت کی خاطر مسند پر بیٹھنے سے انکار کیا۔ انہوں نے خوب جھڑک کر کہا کہ بیٹھ جاؤ! پس میں مجبوراً بیٹھ گیا۔ وہ ان ناموں کاکی فہرست مجھے سنانے لگے، میں سنتا گیا یہاں تک کہ مکمل ہوگیا۔ پھر کہا کہ یہ بھی ایک علم ہے، میرے لیے مناسب نہیں کہ آپ پڑھائیں او رمیں اوپر بیٹھا رہوں۔ یہ ادب واحترام کی عجیب مثال ہے اور یاد رہے کہ شریف کی عمر امام رازی رحمہ الله کی وفات کے وقت 34 سال تھی اور امام رازی رحمہ الله62 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اب دیکھا جائے کہ اتنے کم عمر شارگد کو اپنی مسند پر بٹھانا عجز کی انتہا ہے۔ (معجم الادبا:2/654)
اپنے استاذ کے ساتھ رہتے ہوئے ان دنوں کو غنیمت سمجھو!
طالب علم کو چاہیے کہ استاذ کے ساتھ رہتے ہوئے ان ایام کو غنیمت سمجھے! ایک لمحہ ضائع نہ کرے، پھر ان دنوں کو یاد کرکے کف افسوس ملنے کا کچھ فائدہ نہیں ۔ جب موقع ہاتھ سے نکل جائے، پھر یہ کہنا کہ کاش میں استاذ محترم سے فلاں مسئلے کے بارے میں پوچھتا! کاش کہ میں بہت زیادہ استفادہ کرتا! کاش میں اس مغلق عبارت کو حل کرواتا! یہ سوچنا کچھ فائدہ نہیں دے گا۔
امام اصمعی رحمہ الله فرماتے ہیں:” جو طالب علم ایک لمحے کی ذلت برداشت نہیں کر ے گا اس کو زندگی بھر جہالت کی ذلت برادشت کرنا پڑے گی“۔ ( المدخل الی السنن الکبریٰ،ص:403)
امام بیہقی تین عظیم اکابر: امام نخعی رحمہ الله، امام شعبی رحمہ الله اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ”جو شخص علم سے شرمائے گا علم اس سے شرمائے گا۔“(المدخل،ص:406)
امام سری سقطی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں:”جس کو علم کی اہمیت معلوم ہو جائے وہ وقت یا مال لگانے کی کوئی پروا نہیں کرتا۔“(الجامع:78)
اس لیے ان ہی ایام کو غنیمت سمجھ کر ،اپنی تمام مشکلات او رمسائل حل کروائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے تمام اکابر اور سلفِ صالحین کی یہی حالت تھی کہ وہ اپنے اساتذہ سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے بارے میں پوچھتے تھے۔ ان کی رغبت اور شوق دیکھ دیکھ کر اساتذہ بھی مکمل وقت ان کو دیتے تھے۔
استاذ کے ساتھ انس ومحبت
استفادہ اس وقت ممکن ہے جب استاذ کے ساتھ حد درجہ محبت ہو اور وہ استاذ کا ادب واحترام بجا لائے۔ استاذ اور شاگرد کے درمیان محبت اور انس کے بغیر کوئی استاذ طالب علم کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی شاگرداستفادہ کرسکتا ہے۔
استاذ بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ حد درجہ شفقت فرماتے تھے۔ خطیب بغددای رحمہ الله نقل کرتے ہیں: امام وکیع بن الجراح رحمہ الله دوپہر کے وقت سخت گرمی میں شتر بانوں کے پاس جاتے او رانہیں حدیث پڑھاتے تھے اور فرماتے یہ ایسی قوم ہے جن کو علم کا شوق ضرور ہے، مگر ان کی روزی کا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے میرے پاس نہیں آسکتے، میں خود ان کے پاس جاکر حدیث پڑھاؤں گا۔ سلف صالحین کے کئی ایسے واقعات ہیں جن سے ان کی محبت وشفقت آشکارا ہوتی ہے۔ (الجامع،ص:363)
شاگرد کے ساتھ شفقت کا حیرت انگیز واقعہ
ولید بن عتبہ دمشقی دمشق کے ایک بڑی مسجد میں پڑھاتے تھے، ایک شاگرد روز دیر سے آتا تھا۔ اکثر اس سے سبق کا کچھ حصہ رہ جاتا تھا، ولید دوبارہ اس کے لیے سبق دہراتے تھے۔ ایک مرتبہ ولید نے پوچھا کہ آپ کیوں روز دیر سے آتے ہیں؟ کہا کہ میں صاحب عیال ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں اپنی دکان کے لیے صبح سویرے بازار سے سامان لے کر آتا ہوں؛ کیوں کہ بعد میں مجھے سامان نہیں ملتا ہے۔ استاذ نے کہا کہ آئندہ تمہیں یہاں نہ دیکھوں؛ پھر ہر روز استاذ محترم خود ان کی دکان پر جاتے اور وہیں پر ان کو پڑھاتے تھے۔ (احیاء العلوم:1/50)
الله تعالیٰ ان اکابرین اور سلف صالحین سے راضی ہو جائے، جنہوں نے اخلاق محمدیہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔
اپنے استاذ کی ہدایت پر عمل کرنا ضروری ہے
استاذ محترم کی نصائح وہدایات پر عمل پیرا ہونا انتہائی ضرور ی ہے۔ امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں:
”شاگرد کو چاہیے کہ اپنی عملی لگام بالکلیہ طور پر استاذ کے ہاتھ میں تھمائے، ان کے نصائح پر ایسا ہی عمل کرے جیسا کہ مریض کسی طبیب حاذق اور مشفق حکیم کی باتوں پر عمل کرتا ہے۔ اپنے استاذ کے سامنے مکمل عاجزی اختیار کرے، استاذ کی خدمت ہی کو اپنے لیے باعث شرف وثواب سمجھے، علم بغیر عجز اور سمع وطاعت کے حاصل نہیں ہوتا۔ طالب علم اپنے آپ کو اس نرم اورہموار زمین کی مانند بنائے جو موسلادھار بارش برسا کر مکمل طور پر سیراب ہوئی ہو اور زراعت کے لیے بالکل تیار ہو۔ جب بھی استاذ کسی چیز کا مشورہ دے طالب علم کو چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے او راپنی رائے سے مکمل دست بردار ہو، اس لیے کہ مرشد کی غلطی بھی اس کی صحیح رائے سے زیادہ مفید ہے۔“ (احیاء العلوم:1/50)
ایک اور جگہ امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں:
” طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاذ اور شیخ کے سامنے ایسا بیٹھا رہے گویا کہ اس کو تمام عیوب اور راز کی باتوں کا علم ہو، اپنے آپ کو قابلِ ملامت سمجھے، استاذ کے اشاروں اور ارشادات پر عمل کرے۔ یہی کیفیت مرید کی اپنے شیخ کے ساتھ بھی ہونی چاہیے۔“ (احیاء العلوم:3/64)
امام ماوردی رحمہ الله فرماتے ہیں:
” طالب علم کو اخلاق وآداب میں اپنے استاذ کا ثانی ہونا چاہیے، تمام افعال، اعمال وعادات میں اس کی مشابہت اختیار کرے، تاکہ محبت اور الفت میں اضافہ ہو۔ اوراس حدیث کا مصداق بننے کی کوشش کرے”من تشبہ بقوم فھو منھم“ جو شخص جس قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ (روز محشر) اسی کے ساتھ ہو گا،۔ ( ادب الدنیا والدین،ص:113)
علم کے آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے
حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا:” جب تم علم حاصل کرو تو اس کو خوب ازبر یاد کرو! ہنسی مذاق میں اس کو خلط ملط نہ کرو!“ (الجامع للخطیب،ص:213) ہشام دستوائی رضی الله عنہ کی مجلس حدیث میں کوئیہنسا، اس سے فرمایا:” کیا آپ حدیث کا علم حاصل کرتے ہوئے ہنستیہیں؟“
حضرت سفیان رحمہ الله نے ایک طالب علم کو مزاح کرتے ہنستے ہوئے دیکھا۔ فرمایا:
” آپ اس مقام ومرتبے میں ہنس رہے ہیں! ہونا تو چاہیے کہ کوئی ایک حدیث مبارک سن لے، تو تین دن تک وہ وقار اور ادب کے ساتھ رہے۔“
عبدالله بن مبارک عبدالاعلی تمیمی رحمہ الله سے نقل کرتے ہیں:”جو علم حاصل کرے او رپھر وہ نہ روئے وہ اس لائق نہیں کہ علم اس کو نفع پہنچائے۔ الله تعالیٰ نے علماء کی صفات کچھ یوں بیان فرمائی ہیں:﴿إِنَّ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ یَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا﴾․ (سورة الاسراء:107)
جب (یہ قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں او رکہتے ہیں:” پاک ہے ہمارا پرورد گار! بے شک ہمارے پرورد گار کا وعدہ پورا ہی ہو کر رہتا ہے۔“ اور روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرجاتے ہیں اور یہ قرآن ان کے دلوں کی عاجزی اور بڑھا دیتا ہے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ الله کے سامنے رونا علماء اور طلبہ کی اہم صفات میں سے ہے، رو رو کر الله سے اپنیکام یابی او راپنے اساتذہ اور والدین اور پوری امت کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد کیا کریں۔
اپنے علم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے
”جو علم حاصل کرتا ہے، اس کی بات چیت میں اس کا اثر ظاہر ہونا چاہیے، اس کے قول وفعل، اس کے طریقہ وروش پر یہ علم اثر انداز ہونا چاہیے، اس کے اندر عجزو انکساری آنی چاہیے۔“ (الزھد،ص:125، وفضائل القرآن،ص:66)
خطیب بغدادی رحمہ الله امام ابراہیم رحبی رحمہ الله کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
”جس شخص کو آداب نبوی میں سے جس ادب کے بارے میں علم ہو جائے، اس کو چاہیے کہ اس ادب کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔“ (الجامع:176)
اسی طرح وہ ابو عیصمہ بیہقی سے نقل کرتے ہیں:” میں نے ایک رات امام احمد بن حنبل رحمہ الله کے ہاں گزاری، امام صاحب نے وضو کا پانی لا کر رکھ دیا، جب صبح وہ آئے پانی وہیں رکھا تھا، امام صاحب نے متعجب ہو کر فرمایا: سبحان الله! کوئی علم حاصل کرے اور صلوٰة اللیل سے محروم رہے“۔ (یعنی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟)
عظیم داعی محمد عوض حضرت شیخ عبدالکبیر رفاعی رحمہ الله کے بڑے تلامذہ میں سے ہیں۔ وہ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ کر سلام کے بعد فوراً کھڑے ہوئے، پیچھے سے ان کے استاذ محترم شیخ عبدالکبیر رفاعی رحمہ الله دیکھ رہے تھے، استاذ نے ان کو کہا کہ ” شیخ محمد! گویا آپ اپنے رب سے مستغنی ہو گئے ہیں!؟ شاگرد نے مشتاق ہو کر پوچھا ؟ کہا کہ آپ نماز پڑھ کر فوراً کھڑے ہوئے او رکچھ دعا نہیں مانگی۔ حضرت! وہ کیسے پہلے اس طرح اساتذہ اپنے تلامذہ کی راہ نمائی کرتے تھے، وہ کمالات کے اعلیٰ مقام حاصل کرتے تھے۔ جن کا اپنے اساتذہ کے ساتھ کوئی ربط وتعلق نہ ہو وہ کہاں علم حاصل کرسکتا ہے؟ جو استاذ کی تربیت میں آئے بغیر صرف اسناد حاصل کرتے ہیں، وہ ترقی وکمالات کے بو تک نہیں سونگھ سکتے ۔
کتابوں کے آداب
طالب علم کو ہر وقت باوضو رہنا چاہیے، خواہ وہ مطالعہ کر رہا ہو، سبق پڑھ رہا ہو یا تکرار کر رہا ہو۔ حافظ ابن عساکر رحمہ الله امام ابو عثمان صابونی رحمہ الله سے نقل کرتے ہیں کہ ” میں کبھی کسی کتب خانے میں بغیر وضو کے داخل نہیں ہوا۔ کبھی میں نے بغیر وضو کے حدیث روایت نہیں کی اور کبھی میں درس وتدریس کے لیے بے وضو ہو کر نہیں بیٹھا۔“ (تاریخ ابن عساکر:9/9)
امام زرنوجی رحمہ الله فرماتے ہیں:
”کتاب کی تعظیم بھی علم کی تعظیم ہے، پس طالب علم کتاب بغیر وضو کے نہ چھوئے۔“ ( تعلیم المتعلم،ص:51)
امام شمس الائمہ حلوانی رحمہ الله فرماتے ہیں:” میں نے علم کو تعظیم کے ساتھ حاصل کیا، کاغذ کو بھی بغیر وضو کے ہاتھ نہیں لگایا۔“
امام شمس الائمہ سرخسی رحمہ الله پیٹ کی بیماری میں مبتلا تھے، وہ رات کو بار بار وضو کرتے جاتے، ایک رات کو سترہ مرتبہ وضو کرکے آئے، یہ اس لیے کہ علم نور ہے اور وضو بھی نور ہے، وضو سے علم کا نور بڑھتا ہے۔ (علم کی نورانیت کی وجہ سے وہ کتاب کو بغیر وضو کے ہاتھ نہ لگاتے اگرچہ سترہ مرتبہ وضو کرنا پڑا۔)
کتابوں کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ کتاب کی طرف پاؤں نہ پھیلائیں، اسی طرح تفسیر کی کتابوں کو تمام کتابوں سے اوپر رکھیں، پھر حدیث کی، پھر فقہ کی، اس طرح ترتیب وار رکھیں، کتاب پر کوئی چیز نہ رکھیں، یہاں تک کہ قلم اور دوات بھی کتابوں کے اوپر نہ رکھیں۔
بے ادبی کا عبرت ناک واقعہ
اس سے مجھے اپنے طالب علمی کا واقعہ یاد آیا، اس واقعے کا ابتدائی حصہ مجھے بہت پسند ہے اور آخری حصے سے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، ان صفحات میں اس واقعے کو قلم بند کرنا دل پر بہت گراں گزرتا ہے، مگر صرف طلبہ کرام کو اس جیسے امور سے بچنے او رمحتاط رہنے کی خاطر حوالہ قرطاس کرتا ہوں۔
میں حلب میں واقع مدرسہ شعبانیہ میں پڑھتا تھا، ایک مرتبہ ایک کتاب بائیں ہاتھ میں لے کر جارہا تھا کہ میرے استاذ شیخ احمد قلاش نور الله مرقدہ نے مجھے دیکھا، کتاب مجھ سے لے کر دائیں ہاتھ میں تھما دی اور اس طرح دعا فرمائی:”اللھم آتنی کتابی بیمینی“ اے الله! مجھے میرا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطا فرما۔“ آمین۔
کچھ دنوں کے بعد جامعہ دمشق میں کلیہ شرعیة کا امتحان دینے گیا، امام سمرقندی رحمہ الله کی کتاب”تحفة الفقہاء“ کا زبانی امتحان تھا۔ ایک طالب علم بہت دیر تک کھڑا انتظار کر رہا تھا، تھک کر بیٹھنے لگا، دیکھا زمین غبار آلود تھی، اس نے سیاہ کرتے زیب تن کیے تھے، جس پر مٹی کا اثر جلدنظر آتا ہے، اِدھر اُدھر دیکھا ،کچھ نظر نہیں آیا، کتاب ” تحفة الفقہاء“ کو زمین پر رکھ کر اس پر بیٹھ گیا۔ (العیاذ بالله) والله یہ واقعہ لکھتے ہوئے مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس واقعے سے مقصود صرف یہ ہے کہ اچھی تربیت اور بری تربیت کا بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہاں مجھے صرف بائیں ہاتھ میں کتاب اٹھانے نہیں دیا جارہا تھا ، کیوں کہ استاذ او رمربی ایسے تھے جن کو علم کی قدر تھی اور یہ شخص اچھی تربیت سے محروم تھا، اس لیے اس نے کتاب کی اتنی بے ادبی کی۔ اگر کوئی اس طرح تربیت سے محروم گونگا بہرا ہو گا وہ کہاں علم کا نور حاصل کر پائے گا؟
حسن خلق کام یابی کی ضمانت ہے
کام یابی بغیر ادب کے نہیں ملتی او راگر کوئی ناکام ہوا ہے تو بے ادبی کے بغیر ناکام نہیں ہوا۔ امام زرنوجی رحمہ الله سے مروی ہے :…”جو بھی کام یاب ہوا ہے دوسروں کے احترام کی بدولت کام یاب ہوا ہے اور کوئی بد اخلاقی کیے بغیر ناکام نہیں ہوا ہے۔“( تعلیم المتعلم:46)
یہاں دو جملے ہیں: ایک یہ کہ کوئی بے ادبی کے بغیر نامراد نہیں ہوا، اس کی مثال ابلیس لعین کی ہے کہ جب الله تعالیٰ نے اس کو حکم دیا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا، تو اس نے بے ادبی کرتے ہوئے حکم خدا وندی سے انکار کیا، ہمیشہ کے لیے ناکام ہوا۔
دوسرا جملہ ہے کہ کوئی دوسروں کی عزت اور ادب کیے بغیر کام یاب نہیں ہوا، اس کی مثال حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کا وہ مشہور قصہ ہے جو بخاری میں بھی منقول ہے۔”عن ابن عباس ان النبی صلی الله علیہ وسلم دخل الخلاء، فوضعت لہ وضوء اً، قال: من وضع ھذا؟ فاخبر فقال: اللھم فقھہ فی الدین․“ (صحیح البخاری)
”حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: آپ صلی الله علیہ وسلم بیت الخلاء تشریف لے گئے ، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا، جب آپ صلی الله علیہ وسلم باہر تشریف لائے، پانی دیکھ کر پوچھا کہ ” یہ وضو کا پانی کس نے رکھا ہے؟“
حضرت میمونہ رضی الله عنہا نے فرمایا: حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے رکھا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اوران کے لیے دعا فرمائی:” اللھم فقہہ فی الدین“ یا الله! ان کو دین کی سمجھ عطا فرما۔“ ایک روایت میں ہے کہ ”اے الله! ان کو حکمت ودانائی نصیب فرما۔“ ایک اور روایت میں اس طرح منقول ہے”اے الله!ان کو قرآن کا علم عطا فرما۔“ او رایک روایت میں اس طرح بھی آیا ہے کہ” اے الله! ان کو دین کی سمجھ او رتاویل کا علم عطا فرما۔“
خدمت اور ادب کی وجہ سے دعائے نبوی نصیب ہونا
ابن ابی شیبہ رحمہ الله سے مروی ہے:
”حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: میں ایک مرتبہ آخر شب آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی الله علیہ و سلم کے پیچھے نماز کی نیت باندھی، میرا ہاتھ پکڑ کرکے مجھے اپنے برابر میں کھڑا کیا، جب وہ نماز میں مشغول ہوئے، میں پیچھے ہٹ گیا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے ،فرمایا کہ تم پیچھے کیوں ہٹے؟ میں نے کہا کہ کیا کسی کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے برابر کھڑا ہو جائے؟
میری یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو پسند آئی اور مجھے علم وفہم میں زیادتی کی دعا دی۔“ ( رواہ ابن ابی شیبہ)
ان میں سے پہلے واقعے میں خدمت کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا دی اور دوسرے واقعے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقام نبوت کا ادب واحترام بجالانے کی وجہ سے دعا دی۔ اس دعا کی برکت سے وہ کبار
صحابہ کے درجے کو پہنچ گئے، یہاں تک کہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
”اگر ابن عباس ہمارے زمانے کوپاتے تو ہم میں سے کوئی اس کے علم کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتا تھا“۔(رواہ ابن ابی شیبہ)
اسی طرح انہوں نے فرمایا:” ابن عباس بہترین ترجمان قرآن ہیں۔“
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
” الله تعالیٰ نے جو کچھ حضرت محمد صلی الله علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے لوگوں میں سب سے زیادہ اس کا علم حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کے پاس ہے۔“(تاریخ ابوزرعة دمشقی:1758)
ان کو ” خیرامت“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
کسی نے ان کے رحلت کے دن فرمایا:” آج ربانی علم وفات پاگیا۔“