وفاق المدارس العربیہ پاکستان دنیا کا واحد دینی تعلیمی بورڈ ہے جس کی لڑی میں ہزاروں دینی مدارس پروئے ہوئے ہیں۔ ملک بھر کے ہزاروں بچے او ربچیاں ایک ہی نصاب تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ ملک بھر میں ایک ہی وقت پر پرچہ شروع اور ایک ہی وقت پر پرچے کا وقت ختم ہوتا ہے۔ مربوط او رمضبوط نظام کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عین امتحانی ایام میں جب ایک سوالیہ پرچہ سے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوئے تو اس سوالیہ پرچے کو ختم کرکے پورے پاکستان میں اگلے دن تمام امتحانی مراکز میں نیا سوالیہ پرچہ بر وقت دست یاب ہوا۔ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے اس تعلیمی بورڈ نے ( حفظ وغیرہ) میں متعدد عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس مقدس محنت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کی طرف سے نصاب، امتحانات ، نظام تعلیم اور طریقہ تدریس وغیرہ کے لیے ملک بھر سے چیدہ چیدہ علماء کی کمیٹیاں موجود ہیں، جو اپنی آراء اورتجاویز پیش کرتی ہیں اور ملک بھر کے اہل فن کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے وقتاً فوقتاً دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے موضوع سے متعلق مفید تجاویز ارسال فرمائیں۔ خریدار ان یوسف کی مانند راقم کو خیال ہوا کہ” طلبہ میں معیاری صلاحیت کس طرح حاصل ہو اور کم زوریوں کی کیا وجوہات ہیں؟“ کے موضوع پر اپنی معروضات پیش کروں۔ اس نیت کے ساتھ کہ اس مقدس محنت میں قیامت کے دن میرا بھی کچھ حصہ ہو۔
طلبہ میں غفلت یا نصاب کا بوجھل ہونا
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مدارس کا موجودہ نظام اور اکابر علماء کی نگرانی وسرپرستی اہل پاکستان ہی کے لیے نہیں، بلکہ پوری امت کے لیے کسی بڑی خیر سے کم نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ فضلائے کرام کی ایک تعداد میں مطلوب استعداد کی کمی محسوس کی جارہی ہے اوراس سلسلے میں علمائے کرام کی آراء وتجاویز بھی سامنے آتی رہتی ہیں، جن میں دو وجہیں بکثرت پیش کی جاتی ہیں:
1.. طلبہ میں محنت ، شوق اور لگن کی کمی
2.. نصاب بوجھل ہے یا نصاب قابل اصلاح ہے۔
تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ان دونوں وجوہات کا قدرے دخل ہو سکتا ہے۔ ان دونوں وجوہات کو بنیادی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
نظام مطالعہ اور طریقہ تدریس
ماضی قریب کے علماء جن کے علوم کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا ان کے نظام حصول تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ :
1.. طالب علم مطالعہ کرکے نیا سبق خود حل کرے۔
2.. نیا سبق طالب علم خود سنائے، استاد صرف اصلاح کرے۔
غور کیا جائے تو مدارس سے مطالعہ کا مضبوط نظام کہ ” طالب علم نئے سبق کی عبارت، ترجمہ او رحتی الامکان تشریح خود حل کرکے اور صبح استاذ محترم طالب علم سے عبارت، ترجمہ او رتشریح سنے جہاں اصلاح کی ضرورت ہو اصلاح فرمائے“ ختم ہو چکا ہے ؛ بلکہ طلبہ صبح سے لے کر عصر تک استاد کی تقریر سنتے ہیں۔ مغرب کے بعد متوسط او رکم زور طلبہ اپنے اجراء کی تقریر سنتے ہیں یا عشاء کے بعد ہمت او رمحنت کا مظاہرہ کرتے ہوئے متوسط اور کم زور طلبہ نے آپس میں کچھ تکرار کیا تو ٹھیک، ورنہ پڑھائی کا دورانیہ ختم ہونے کے قریب ہوتاہے اور طلبہ اپنی خواب گاہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ آئندہ صبح ایسے طلبہ بکثرت ملتے ہیں جن کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ نیا سبق کہاں سے شروع ہونا ہے؟
دوسری بات یہ کہ اگر کہیں اچھے معیار کی کوشش ہوتی بھی ہے تو وہاں طلبہ کی باریاں لگا کر عبارت پڑھائی جاتی ہے، جس کی باری ہے تو اس نے اپنے طور کچھ مطالعہ کیا تو ٹھیک ہے او رجن کی باری نہیں توان کے لیے عبارت کا مطالعہ اور سبق کو خود حل کرنے کا رواج نہیں۔
طالب علم نیا سبق کیسے حل کرے؟
اب سوال یہ ہے کہ طلبہ تو اتنے کم زور ہیں کہ استاد کے پڑھانے کے بعد تکرار نہیں کرتے، انہیں اگلے دن سبق صحیح طور پر یاد نہیں ہوتا تو ایسے طالب علم از خود کیسے مطالعہ کرکے سبق حل کرے او راستاد صرف اس کی غلطیوں کی اصلاح فرمائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے درج ذیل چار امور درکار ہیں:
1.. مطالعہ کا ماحول 2.. حل عبارات 3.. حل ترجمہ 4.. استاذ کی تصحیح
مطالعہ کا ماحول
مغرب کے بعد درجہ اُولیٰ سے اوپر تمام درجات کے لیے کم ازکم ڈیڑھ گھنٹہ مطالعہ لازمی ہو اور اس وقت تکرار پر سخت پابندی ہو اوراس وقت حسب ضرورت ایک یاد و بڑے اساتذہ جامعہ میں ہوں یا ہر کلاس کے لیے ایک استاد ہو جو طلباء کے مطالعہ کی نگرانی کے ساتھ ان کے نئے سبق کی مشکلات کو حل کرنے میں تعاون فرمائیں، یعنی اعرابی لغت کے حوالے سے کچھ راہ نمائی چاہیے تو اساتذہ ان کی راہ نمائی فرمائیں۔ اسی دوران اگر طلبہ دو دو یا تین تین ایک ساتھ بیٹھ کر اجتماعی شکل میں کسی ایک کتاب کی عبارت اور ترجمہ حل کرکے ایک دوسرے کو سنانا چاہیں یا ایک دوسرے سے استفادہ کرنا چاہیں تو اجازت دی جائے۔
حل عبارت
استاد محترم سب سے پہلے طلباء سے علم النحو کے درج ذیل اسباق زبانی سنیں:
1.. معرب ومبنی او ران کی اقسام
2.. اعراب کے اعتبار سے اسم متمکن کی 16 اقسام اور اعراب کے اعتبار سے فعل مضارع کی چار اقسام۔
3.. مرفوعات، منصوبات او رمجرورات کی اقسام۔
اس کے بعد طالب علم عبارت کے ہر کلمہ میں درج ذیلچیزیں معلوم کرے:
1.. معرب و مبنی
2.. مبنی اپنی جگہ پر چھوڑے، معرب اگر اسم ہے تو 16 اقسام کی وضاحت او راگر فعل مضارع ہے تو چار قسموں میں سے کون سی قسم ہے؟
3.. معرب پر اعراب، علامت ِ اعراب اور وجہ ِ اعراب تلاش کریں، مثلاً:﴿لن تنالوا البر﴾
میں لن حرف ناصبہ منبی الاصل تنالوا فعل مضارع ضمیر بار زمرفوع کے ساتھ، منصوب نصب فتحہ کے ساتھ لن ناصبہ نے عمل کیا ہے۔ البر معرب مفرد منصرف صحیح منصوب نصب فتحہ لفظی کے ساتھ مفعول بہ۔
نوٹ: حل عبارت کے لیے مذکورہ طریقہ کے علاوہ تفصیلی ترکیب مثلا:﴿یوسف اعرض عن ہذا﴾میں فعل، فاعل، مفعول بہ سے مل کر جواب ندا، ندا جواب ندا سے مل کر جملہ فعلیہ انشائیہ کا بوجھ طلباء پر ہر گز نہ ڈالیں۔ وہ خو بخود سمجھ میں آجاتے ہیں۔ توجہ معرب کے اعراب، علامت اعراب اور وجہ اعراب پر رکھیں۔
سال کی ابتدا میں صرف دو لائن سبق دیا جائے ،ایک ہفتہ کے بعد تین لائن، تین ہفتوں کے بعد الله پاک آسانی فرماتے ہیں، حسب مقدار خواندگی یومیہسبق پورا دیا جائے۔ سہ ماہی امتحان کے بعد طلبہ کی صلاحیت اچھی ہو جاتی ہے۔ متعدد طلبہ سے عبارت سننے کے بعد جہاں استاد ضرورت محسوس کرے معرب کا اعراب اور وجہ اعراب پوچھے، تمام کلمات میں تفصیلی طریقہ کار ضروری نہیں۔
حل ترجمہ
ترجمہ کو حل کرنے کے لیے استاد محترم ہر طالب علم پر عربی اردو لغت لازم کریں۔ اس کے بعد استاد ایک دو دن نیا سبق موقوف کرکے لغت سے استفادہ کا طریقہ سمجھائیں، جس میں کلمہ کی تلاش کا طریقہ، فعل متعدی اور لازم کی پہچان، فعل کے صلہ میں تبدیلی سے معنی میں تبدیلی وغیرہ بتلا یا جائے اور متعدد کلمات اپنی نگرانی میں طلبہ سے حل کروائیں۔ لغت سے استفادہ کا طریقہ معلوم ہونے کے بعد اب طالب علم ( مغرب کے بعد ) عبارت حل کرنے کے بعد مشکل الفاظ کا معنی لغت سے حل کرے او راپنے طور سبق کا ترجمہ کرے۔ ابتدائی کچھ دنوں کے بعد الحمدلله طالب علم 80سے 90فیصد ترجمہ کر لیتا ہے او رعبارت او رترجمہ حل کرنے کے بعد 50 سے 60 فیصد سبق کی تشریح بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ چلتے چلتے ان شاء الله ایسا مرحلہ بھی آئے گا کہ طلبہ نے عبارت، ترجمہ او رتشریح سنائی او راستاد کو کچھ کہنے کی نوبت بھی نہ آئے۔
استاد کی تصحیح
استاد محترم یومیہ سبق کی عبارت متعدد طلبہ سے تھوڑا تھوڑا کرکے اونچی آواز میں پڑھوائے۔ جہاں غلطی ہو تو طلبا ہی سے اصلاح کروائے، حتی الامکان خود نہ بتائے۔
اونچی آواز سے عبارت سننے کے بعد اب پوری عبارت میں طلباء بالترتیب درج ذیل اصلاحات جاری کریں۔
1.. معرب اور مبنی 2.. معرب میں 16 اقسام اور فعل مضارع کی چار اقسام کی وضاحت 3.. اعراب ،علامت ،وجہ اعراب کی وضاحت۔
(ایک ڈیڑھ مہینے کے بعد طلبہ کی تمرین ہو ہی جاتی ہے، اس کے بعد عبارت سننے کے بعد معرب پر اعراب اوروجہ اعراب جہاں استاذ ضرورت محسوس کرے تو طلبہ سے پوچھے، پوری تفصیل جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔)
طلب ہی سے ترجمہ کرواکر جہاں مشکلات ہوں استاد اصلاح فرمادے۔
ترجمہ کرتے وقت جہاں ایک مسئلہ یا ایک قاعدہ پورا ہو تو اب طلبہ سے پوچھے کہ اس کا کیا مقصد ہوا؟ تو طلبہ مقصد بھی بتا دیں گے، ورنہ استاذ محترم تعاون فرمالیں، اس طریقہ سے ترجمہ کے ساتھ مقصد بھی حل ہوتا جائے گا۔
چند ضروری گزارشات
مغرب کے بعد مطالعہ پر مذکورہ طریقہ کے ساتھ سختی سے عمل درآمد کریں۔
عبارت اور ترجمہ سنتے وقت شدید ضرورت کے بغیر، حتی الامکان طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔
ماحول ایسا بنائیں کہ کم زور طلبہ بھی اعراب ترجمہ وغیرہ کے متعلق سبق کے دوران کچھ پوچھنا چاہیں تو بلا جھجک پوچھ سکیں۔
دورانیہ کی کمی کی وجہ سے استاد نئے سبق ہی پر توجہ رکھیں، شدید ضرورت کے بغیر گزشتہ سبق کے سنانے پر اپنا وقت صرف نہ کریں۔
کتاب ہی پڑھائی جائے، کتاب سے خارجی مباحث اورفوائد بالکل نہ پڑھا ئے۔
کچھ کتابوں کا امتحان تقریری ہونا چاہیے تاکہ طلباء کی عبارت پڑھنے کی صلاحیت اجاگر ہو سکے۔
ہر ادارہ کوشش کرے کہ اپنے اساتذہ کو ایسے مدارس میں تربیت دلوائے جہاں طلبہ اسباق حل کرکے استاذ کو سناتے ہوں او راستاذ صرف اصلاح کرتا ہو متعدد مدارس میں ابھی بھی یہ ماحول ہے۔ بالخصوص تبلیغی مرکز رائیونڈ اور اس کی شاخوں میں ابھی بھی یہ ماحول ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
بڑے جامعات میں دورہ حدیث کے طلبہ کو نئے سبق کی عبارت، ترجمہ اور ضروری تشریح بھی طلبہ ہی پر اس طرح ڈالے کہ اساتذہ کرام مباحث کی تشریح آپس میں تقسیم کر لیں کہ فلاں کتاب میں عبارات سے متعلق تشریح سنی جائے اور فلاں کتاب میں کتاب الایمان سے متعلق تشریح سنی جائے ۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان موجودہ طریقہ تدریس کو ضابطے کے طور پر نافذ کرے اور بڑے جامعات میں دورہ حدیث سمیت دیگر کلاسوں میں جب اس کا عملی مظاہرہ ہو گا تو الله کی ذات پر بھروسہ کرکے 100 فی صد شرح صدر کے ساتھ عرض گزار ہوں کہ ان ننھے منے پھولوں میں محقق اور وقت کے غزالی، ناتونوی، گنگوہی، تھانوی اور مدنی پیدا ہوں گے۔
خلاصہ کلام
دینی مدارس کے طلبہ میں معیار کی کم زوری کی بنیاد ی وجہ طلبہ کی غفلت اور عدم محنت یا نصاب کا بھاری یا قابل اصلاح ہونا نہیں ہے۔
بنیادی وجہ مروجہ طریقہ تدریس ہے، جس میں استاد سناتا ہے اور طالب علم سنتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے کہ طلبہ مطالعہ کرکے نیا سبق خود سنائیں او راستاذ جہاں مناسب سمجھے اصلاح فرمالے۔
وہ ماحول یہ ہے کہ مغرب کے بعد طالب علم مطالعہ میں سب سے پہلے عبارت اس طور پر حل کرے کہ ہر کلمہ میں معرب او رمبنی، پھر معرب پر اعراب، علامات اعراب اور وجہ اعراب تلاش کرے اور اس کے بعد لغت سے مشکل کلمات دیکھ کر ترجمہ حل کرے۔
استاد محترم متعدد طلبہ سے عبارت سن کر معرب میں اعراب اوروجہ اعراب بھی پوچھیں، اس کے بعد ترجمہ سنیں اور ترجمہ سننے کے ساتھ جہاں ایک مسئلہ یا قاعدہ پورا ہو تو طلبہ سے اس کی تشریح کروالے۔
موجودہ طریقہ تدریس کے علاوہ نصاب میں ردوبدل یا اصلاح کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں ہوگا۔