صحیفہٴ نبوت کی ایک حسین جھلک

صحیفہٴ نبوت کی ایک حسین جھلک

محترم محمد طیب حنیف

قال اللہ تعالی:﴿لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(سورہ الاحزاب،آیت:21)

وعن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس بالطویل البائن ولابالقصیر، لا بالأبیض الأمھق ولا بالأدم، ولا بالجعد القطط ولا بالسبط، بعثہ اللہ تعالی علی رأس أربعین سنة ، فأقام بمکة عشر سنین ، وبالمدینة عشر سنین، فتوفاہ اللہ تعالی علی رأس ستین سنة، ولیس فی رأسہ ولحیتہ عشرون شعرة بیضاء․”(رواہ الترمذی فی شمائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم)․

تمہید

تاریخِ انسانیت میں متعدد جواہرِ انسانیت کو عدم سے وجود ملا ، جو حُسنِ قیادت وسیادت، ذکاوت وفطانت میں اپنی مثل آپ تھے، جن کی عظمت وبرتری کا سکہ چہار دانگ عالم میں رائج رہا،لیکن ان تمام شخصیات کا تعلق زندگی کے ایک زاویہ وگوشہ تک محدود ومنحصر رہا، اوراقِ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں کسی شخص نے بالکل ابتدا سے زندگی کے ہر گوشے میں تبدیلی واصلاح کی نوید سنائی ہو اور عالم انسانیت کو ایک معمولی عرصہ میں بھرپور تبدیلی و اصلاح سے مزین کیا ہو، جس کی شخصی زندگی ہر طائفہ انسانی کے لیے ایک کامل مشعل ِ راہ کی حیثیت رکھتی ہو ،اس جامعیت وانفرادیت کا اعزاز صرف رسول اللہ اکی ذات گرامی کو جاتا ہے، جن کی آئیڈیل سیرت تاریخیت ، کاملیت،جامعیت اور علمیت کے معیار پر پوری اترتی ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے محبت و عقیدت کا بنیادی سبب ہے۔

محبت کی اقسام ومدارج

محبت کے دو پیرائے ہیں:عقلی محبت طبعی محبت

ان دونوں میں سب سے قوی اول الذکر صورت ہے، جس میں غلبہ حال یا کسی کیفیت کے آگے انسان بے بس ولاچار نہیں ہوتا، بلکہ عقل وخرد سے استدلال کے بعد اس کو دل سے تسلیم کرتا ہے اور اس کی عقیدت کا دل سے معترف ہوتا ہے۔

کتب حدیث میں متعدد مقامات پر یہ بحث ذکر کی جاتی ہے کہ ایک صاحب ایمان کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی حبّ طبعی کی مقتضی ہے یا حبّ عقلی پر اکتفا کمال ایمان کے واسطے کافی ہے ؟ چناں چہ اس سلسلہ میں علماء نے اس پر نہایت عرق ریزی و جانفشانی کے ساتھ، سیرِ حاصل بحث کرکے، اس کو مستقل تصانیف کی صورت میں امت کے سامنے پیش کرکے، ایمان کامل کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔
جمہور محدثین کی رائے یہ ہے کہ ایمانِ کامل کے لیے محض محبتِ عقلی درکار ہے، جب کہ صوفیائے کرام کی ایک بڑی جماعت حب طبعی کی قائل ہے۔
مشہور حنفی عالم ملا علی قاری  نے اپنی شرح مرقاة المفاتیح میں ایک اور قسم کا اضافہ کیا ،جس کو حب ایمانی سے تعبیر کیا ہے، جس کا حاصل ومنتہی یہ ہے کہ انسان کا اپنی تمام مادی ونفسانی خواہشات پر شریعت اور اس کے احکامات کو ترجیح دینا ہے ۔(مرقاة المفاتیح:1/68)
فیصلہ کُن رائے
محدث العصر ”علامہ محمد یوسف بنوری ر حمہ اللہ نے اس سے متعلق ایک فیصلہ کُن رائے پیش کی ہے، جس کی تایید ذخیرہ احادیث سے ہوتی ہے، حضرت فرماتے ہیں:
”حب نبوی کا مدار محض عقل وطبع پر کرنا مناسب نہیں، بلکہ ان کا مجموعہ مطلوب ہے، جس میں حبّ عقلی کے زینہ پر قدم جمائے حبّ طبعی منزل ومنتہی ہے“۔ (توضیحات شرح مشکوٰة:1/163، المکتبة العربیة)
اسی عشق ومحبت ہی کے سبب حقیقی عاشق اپنے محبوب کی ہر ہرادا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اسے محفوظ کرتا ہے، اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلمکی جملہ عادات واطوار، حتی کہ امور غیر اختیاریہ۔جس کا اختیار کرنا انسانی قدرت و بساط سے باہر ہے۔کو بھی محبت و عقیدت کے ساتھ بیان کیا ہے، جو ان کے کمالِ عشق پر بیّن دلیل ہے۔
أسوہ حسنہ کا خصوصی امتیاز
آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی بھی پہلو زیر ِپردہ نہیں ہے، بلکہ جو کچھ ہے وہ تاریخ کے آئینہ میں سب پر عیاں ہے، جس میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم وروح، ظاہر وباطن ، آداب ورسوم کو سنوار سکتا ہے اور ایسی روشن زندگی ہی انسانیت کے واسطہ نمونہ ولائق اقتدا بن سکتی ہے۔
”لاتعجبن لحسود راح ینکرھا تجاھلا وھو عین الحاذق․“(نشر الطیب، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله)
ترجمہ:کوئی بھی عقل وخرد کا حامل شخص جو ان کے فضائل وکمالات کے اعتراف سے غفلت برتنے کی وجہ سے آبی و انکاری ہو تو اس پر تعجب مت کرو، حسد کی آگ اس کو انکار پر مجبور کیے ہوئے ہے۔
متعدد حضرات صحابہ آپ کے حلیہ مبارک ، عادات واطوار بیان کرنے کی وجہ سے”وصّاف رسول“کے لقب سے سرفراز ہوئے، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام سرفہرست ملتا ہے، ایک طویل روایت میں انہوں نے آپ کی ذات گرامی سے وابستہ امور غیر اختیاریہ کو بیان کرنے کی وجہ”أتعلّق بہ“جملہ میں بیان فرمائی ہے، جس کی توضیح میں شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ یوں رقم طراز ہیں:
”تاکہ ان (امور غیر اختیاریہ) کو محفوظ کرکے بقدر وسعت ان کو عملی زندگی کا حصہ بناؤں“۔ (خصائل نبوی حدیث:7/17، دارالاشاعت)
شرح الحدیث قد وقامت کی کیفیت
(کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس بالطویل البائن ولا بالقصیر) یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم حد اعتدال سے زائد طویل وقصیر نہ تھے، بلکہ میانہ قد والے تھے، شارحین حدیث نے اس نکتہ پر تنبیہ کی ہے کہ یہاں راوی نے محض لمبا قد ہونے کی نفی نہیں کی، بلکہ اس لمبائی میں حد اعتدال سے تجاوز کے وہم کو دور کیا ہے، لہٰذا یہ جملہ اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں راوی فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی جماعت کے ہمراہ تشریف فرماہوتے تو ان میں قد وقامت کے لحاظ سے ممتاز معلوم ہوتے تھے۔(جمع الوسائل:1/23)
مکمل الخلق لاخلق یشابھہ
لہ اعتدال فلا طول ولاقصر
ترجمہ:آپ کی ذات گرامی صورت جسمانیہ میں کامل الخلقت ہے، مخلوق میں اس کی نظیر وشبیہ تک نہیں ، آپ میں اعتدال تھا ، نہ طول تھا، نہ کوتاہ قامتی۔
چہرہ انور کا حسن وجمال
(ولا بالأبیض الأمھق ولا بالأدم) الأمھق:یہ أبیض کی صفت مختصہ ہے، ا س کے علاوہ کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ یہ عربی زبان کی وسعت پر بیّن دلیل ہے، اس سے مراد خالص سفیدی ہے، جیسا کہ چونا وغیرہ ہوتا ہے۔(النھایة لابن الاثیر:4/374)
الأدم:گندم گوں رنگ کا ہونا، جس میں سرخی کا بالکل اختلاط نہ ہو۔
چناں چہ آپ کے چہرہ مبارک سے متعلق امام ابن حجر عسقلانی  لکھتے ہیں:
”ذخیرہ احادیث پر غور کرنے سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلمکا مقصدچہرے کی اس سفیدی کی نفی کرنا ہے جو سرخی کی حسین آمیزش سے خالی ہو۔“ (جمع الوسائل في شرح الشمائل، ص:13، ط۔تالیفات اشرفیہ)
موئے مبارک کی تفصیل
(ولا بالجعد القطط ولا بالسبط):الجعد: یہ بالوں کے گھنگھریالے پن کو کہتے ہیں، جب کہ ”السبط“اس کے برعکس بالکل سیدھے اور سپاٹ بالوں کو کہا جاتا ہے۔
شارح حدیث ملا علی قاری اس حدیث کے ذیل میں ایک دقیق ولطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”نبی اکرم ا کے بالوں میں قدرے گھنگھریالہ پن اورسپاٹ تھا، جس میں حکمت یہ ہے۔ واللہ اعلم عربوں کے بالوں میں گھنگھریالہ پن ،جب کہ عجمیوں کے بالوں میں سیدھا وسپاٹ پن غالب دیکھا گیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ان دونوں اصناف کا جامع بناکر، آپ کی بعثت کی عمومیت اورپیش کردہ شریعت کی عالمگیریت سے امت کو روشناس کیا گیا ہے۔ (جمع الوسائل في شرح الشمائل، ص:14)
علمائے متاخرین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زُلف مبارک کی تین صورتیں ذکر کی ہیں:
وفرة:جس میں بال کانوں کی لُو تک پہنچتے ہوں
لمّة:جس میں بالوں کی درازی کان کی لو سے نیچے اورکاندھے سے اوپر تک ہو۔
جمّة:جس میں بالوں کی لمبائی کاندھے تک پہنچتی ہو۔ (الصحاح، کذا ذکرہ النووی)
تاجِ نبوت سے سرفرازی کا شرف
(بعثہ اللہ تعالیٰ علی رأس أربعین سنة) اکثرانبیائے کرام علیہم السلام کو چالیس برس کی عمر میں نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے۔(شرح مواھب للزرقانی:1/63)، جس کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس عمر میں انسانی قوی مضبوط ہوکر وحی کا بار اٹھانے کے متحمل ہوجاتے ہیں،جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے:﴿ولما بلغ أشدہ واستوی اٰتیناہ حکما وعلما﴾ اس میں اکثر مفسرین نے چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر نبوت سے سرفرازی مرادلی ہے، کما قال ابن عباس رضی اللہ عنہ۔(تفسیر قرطبی:13/258، ط دارالکتب المصریة، قاہرة)
”فأقام بمکة عشر سنین وبالمدینة عشر سنین“نبوت سے سرفرازی کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے دس سال مکہ اور کم وبیش دس سال مدینہ میں قیام کیا۔
اس پر ایک اشکال و ارد ہوتا ہے کہ مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبوت کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے تیرہ برس مکہ میں قیام کیا۔ پھر حدیث مذکورہ میں دس سال کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟
شارحین نے اس کا جواب دیا ہے کہ عربوں میں اعداد وشمار میں اکائیوں کو حذف کرکے محض دہائیوں پر اکتفا کا رواج عام ہے، جس کے مختلف نظائر کلامِ عرب میں ملتے ہیں ۔
(فتوفاہ اللہ تعالی علی رأس ستین سنة)
نوٹ:یہاں بھی راوی نے اکائیوں کو حذف کیا ہے، چوں کہ آپ کی رحلت باتفاق مؤرخین تریسٹھ برس کی عمر میں ہوئی۔
نیز جن روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت پینسٹھ برس کی عمر میں ہوئی، اس کی توجیہ یہ ذکر کی جاتی ہے کہ راوی نے آپ کے سنِ ولادت ووفات کومستقل شمار کیا ہے۔
بالوں کی سیاہی
”ولیس فی رأسہ ولحیتہ عشرون شعرة بیضاء “آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر اور داڑھی کے بالوں میں بیس بال بھی سفیدی تک نہ پہنچے تھے۔
ترمذی شریف کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں ان بالوں کو گننا چاہتا تو ان کی تعداد دس کے عدد کوپہنچتی تھی۔ مگر یہ حقیقتاً کوئی تعارض نہیں، بلکہ یہ اختلاف درحقیقت نظر وفکر پر مبنی ہے، ہر ایک نے جو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے نقل کیا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک عجیب نکتہ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ تریسٹھ برس کی عمر کے باوجود سر کے بالوں پر سیاہی کا غالب ہونا ممکن ہے کہ اس میں ازواج مطہرات کی رعایت برتی گئی ہو، چوں کہ عام طور پر بالوں کی سفیدی عورتوں کو طبعا ناگوار گزرتی ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اطہر سے بُعد ودوری کا سبب ہے۔(شرح شمائل،ص:26)
وصلی اللہ وسلم علی سید الأنبیاء والمرسلین․

سیرت سے متعلق