حکومتوں کے قوانین جرائم کے افعال تو روک سکتے ہیں۔ لیکن جرائم کی نفرت دل میں نہیں بٹھا سکتے۔ زانی زنا سے اور چور چوری سے قانون کی وجہ سے رُک سکتا ہے، لیکن زنا اور چوری کی نفرت اس کے دل میں قوانین سے نہیں بیٹھ سکتی، جرائم کی نفرت اور معصیت سے بیزاری اہل الله کی صحبت ومعیت سے نصیب ہوتی ہے۔
الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سیئات اعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ۔ ونشھد ان لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ، ونشھد ان سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، ارسلہ الله إلی کافة للناس بشیرا ونذیرا، وداعیا إلیہ باذنہ وسراجا منیراً․
امابعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ﴾․ (سورہ توبہ ،آیت:119)صدق الله العلی العظیم․
کثرتِ علم کے باوجود بے عملی کثرت سے ہے
بزرگان محترم!
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں حق تعالیٰ نے ایک بہت اہم مضمون بیان فرمایا ہے۔ جس پر انسان کی دین داری کی بقا موقوف ہے۔ اگر کوئی دین دار بننا چاہے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے یہ مشاہدہ ہے کہ آج کل تقریروں، جلسوں اور لٹریچر کی کمی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی دینی حالت تنزلی میں ہے۔ صرف دین ہی نہیں بلکہ دنیا کے اعتبار سے بھی تنزلی کا شکار ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جب تک اسباب مرض معلوم نہ ہوں، اس وقت تک مریض کا علاج ناممکن ہے۔ اب دین میں کمی اس وجہ سے تو نہیں کہ کم علمی ہو۔ کیوں کہ اس زمانے میں علم کے ذرائع اشاعت جتنے موجود ہیں وہ پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ اسی طرح آج جو جلسے ہوتے ہیں وہ بھی ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں ایک ہزار دو ہزار آدمی تو معمولی بات ہے اوربعض جگہ تو لاکھوں تک بھی شرکت ہوتی ہے۔ بلکہ آج کل تو تمام دنیا ایک جلسہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ ایک شخص ریڈیو میں بولتا ہے، مشرق ومغرب تک اس کی آواز پہنچتی ہے۔ اور صرف دنیوی باتیں ہی نہیں، بلکہ ترجمے اور تفسیریں بھی مختلف ممالک میں سنی جاتی ہیں۔ آپ کا ریڈیو پاکستان روزانہ ترجمہ قرآن مجید نشر کرتا ہے او رمسائل تو بچہ بچہ جانتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دین میں پختگی نہیں ،جو پہلے زمانوں میں تھی دوسرا ذریعہ نشر علم کا قلم ہے۔ آج کے زمانے میں اس کی بھی کمی نہیں۔ قلم کی علماء نے دس قسمیں لکھی ہیں۔ پہلی قلم لوح محفوظ والی قلم ہے۔ جس کے متعلق حدیث شریف میں ہے کہ :”خلق الله القلم، فقال لہ: اکتب قال: ما أکتب؟ قال: اکتب ماکان ومایکون“ او رایک قلم وہ ہے جس سے روزانہ کے حالات لکھے جاتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و سلم شب معراج میں جب عرش کے قریب پہنچے، تو قلموں کی کھسکھساہٹ سنی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کس چیز کی آواز ہے۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ دفتر ہے، جس میں مخلوق کے واقعات کو لکھا جاتا ہے اورایک ایک انسان دن میں لاکھوں حرکتیں کرتا ہے۔ معلوم نہیں وہ دفتر بھی کتنا بڑا ہو گا۔
ایک قلم وحی ہے۔ وہ یہ کہ وحی آتی تھی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم زید بن حارثہ یا کسی دوسرے صحابی کو بلوا کر لکھوا دیتے تھے۔ اسی قسم پر ہمارے دین کی بقا موقوف ہے۔ ایسے ہی اگر حدیث کی کتابت نہ ہوتی تو اتنی کتب بھی ہمارے پاس موجود نہ ہوتیں۔ پس یہ ذخیرہ احادیث اور قرآن کریم قلم کے ذریعہ ہی محفوظ کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہم نماز، روزہ، حج وغیرہ کے احکام پمفلٹوں میں شائع کرتے ہیں۔
ایک قلم تصوف ہے، جس سے تصوف کے ضروری مسائل اور تزکیہٴ نفوس کے طریقے محفوظ کیے جاتے ہیں او رایک قلم سیاست ہے، جس سے تمام سیاسی معاملات محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ دین کے سلسلے میں آج جتنی قلم کاریاں ہیں وہ پہلے کسی زمانہ میں نہ تھیں۔ امام اوزاعی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی قوم تصنیف میں مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حجاز کے کتب خانوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کتابیں محفوظ ہیں۔ اندلس کے کتب خانوں کے متعلق ایک عیسائی عورت اپنی کتاب ” حاضر الاندلس وغاربھا“ میں لکھتی ہے کہ تعصب میں آکر عیسائیوں نے ارادہ کیا کہ مسلمانوں کا لٹریچر ضائع کر دیا جائے۔ چناں چہ حکومت کی طرف سے اس کام کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا گیا، جس کاکام یہ تھا کہ کتب خانوں کو جلائے یا دریا برد کر دے۔ وہ عورت لکھتی ہے کہ پچاس برس تک یہ مہم جاری رہی۔ تاتاریوں نے حکومت بغداد کے کتب خانوں کو دریا میں ڈال دیا۔ تو وہ ایک بڑا پُل بن گیا۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ ایک ماہ تک دریا کا پانی سیاہ رہا۔ جب ایک کتب خانہ کی یہ حالت تھی تو باقیوں کا کیا حال ہو گا؟! انجیل کے شباب کے زمانہ میں بھی عیسائی اتنے کتب خانے نہ بنا سکے اور نہ ہی یہودی تورات کے شباب کے زمانے میں ایسے کتب خانے بنا سکے۔ اور آج بھی جو انہوں نے تصانیف کی ہیں وہ بھی مسلمانوں کی برکت سے ہیں۔
اندلس میں مسلمانوں نے جو یونی ورسٹیاں بنائی تھیں، موجودہ یورپ کی ترقی انہیں کی مرہون منت ہے۔ وہیں سے یورپ کے لوگ پڑھ کر آئے اور اپنے ملک میں علم پھیلایا۔ اسی کی برکت ہے کہ آج عیسائی اس قابل ہیں کہ تصنیف کرسکیں او ران کو اقرار ہے کہ یہ مسلمانوں ہی کے فیض سے ہے۔
ماحول کا اثر
الغرض مسائل کی اشاعت کثرت سے ہے ،لیکن اس کے باوجود دین مسلمانوں میں نہیں پھیلتا۔ اور نہ ہی سلف کی طرح ایمان میں مضبوطی ہے اور نہ ہی ہمارا دل ایسا ہے کہ اعمال ِ صالحہ اس کی طبیعت ثانیہ بن جائیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری معاشرت غیر اسلامی ہے… اور ماحول بھی غیر اسلامی بن گیا۔ دارالعلوم دیوبند میں دو ہزار کا عملہ ہے۔ ممکن نہیں کہ وہاں کوئی بے نماز ی ہو۔ اذان ہوتے ہی سب کے سب ہر طرف سے دوڑتے ہیں۔ یہ تمام ماحول کا اثر ہے۔ ورنہ وہاں کوئی نماز کے متعلق کہنے والا نہیں ہوتا۔
امام غزالی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ ہر کام پہلے ریا ہوتا ہے، پھر عادت ہوتی ہے، پھر عبادت ہو جاتی ہے۔ چناں چہ حدیث میں ہے: ”مروا صبیانکم بالصلوٰة اذا بلغوا سبعاً، واضربوھم علیھا اذا بلغوا عشراً“ ․ترجمہ:” اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہو جائیں اور مارکر نماز پڑھاؤ جب کہ دس سال کے ہو جائیں۔“
یہ مار کر نماز پڑھانا حقیقی نماز نہیں، کیوں کہ وہ ڈر کے مارے پڑھتا ہے، یہاں تک کہ سجدہ کرتے ہوئے بھی ایک آنکھ سے دیکھتا رہے گا۔ جب دیکھا کہ باپ نہیں بھاگ جائے گا۔ لیکن جب اس کو عادت پڑ گئی اور ساتھ ساتھ کچھ علم آگیا، تو خیال کرے گا کہ یہ بہت ضروری چیز ہے۔ تو یہی عبادت بن جائے گی ۔…
عارف رومی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں #
بہر دنیا بہر دین وبہر نام
الله الله کردہ باید والسلام
اس لیے نمازی کو اس وجہ سے نہیں رکنا چاہیے کہ شاید یہ ریا ہو۔
ظاہر کا اثر باطن پر
حضرت سفیان ثوری رحمة الله علیہ جو فقہ کے امام ہیں۔ مگر ان کا مذہب مدوّن نہیں ہوا۔ وہ فرماتے ہیں:”طلبنا العلم لغیر الله، فابٰی ان یکون الا الله․“
ہم نے علم غیر الله کے لیے طلب کیا ،لیکن علم تو صرف الله تعالیٰ کا ہو کر رہا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ظاہر کا اثر باطن پر بھی پڑتا ہے۔ مثلاً اگر ایک آدمی عورتوں کا سا لباس پہن لے، تو چند دن کے بعد اس کا دل یہ چاہے گا کہ وہ کلام بھی عورتوں کی طرح کرے، بلکہ تمام حرکات وسکنات عورتوں جیسی کرے اسی طرح اگر کوئی بتکلف علماء کا سا لباس پہن لے تو وہ مخلوق کی خاطر بہت سے گناہوں سے بچے گا۔ ایسی ہی اگر کوئی درویشوں کا سا لباس پہن لے، تو اس کا اثر بھی قلب پر پڑے گا۔ اگر کفار کا سا لباس پہننا شروع کر دے تو چند دنوں میں دیگرافعال بھی کفار کی طرح ہی کرنے لگے گا۔
اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ :”فان لم تبکوا فتباکوا“
یعنی اگر تمہیں رونا نہ آئے، رونے کی شکل ہی بنا لو مقصد یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے ہاں بھی ظاہری افعال کا اثر حقوق افعال کا سا مرتب ہوتا ہے۔ رونے کی شکل بنانے میں وہی اجر وثواب ملے گا، جو حقیقةً الحاح وزاری پر ملتا ہے بہرحال ظاہر کا اثر نہ صرف باطن پرمرتب ہوتا ہے، بلکہ ایک درجہ میں عندالله بھی بلحاظ اجروثواب اس کا اعتبار ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ و سلم جب غزوہ حنین سے واپس آرہے تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا، کفار کے بہت سے بچے مسلمانوں کے لشکر کے پاس جمع ہو گئے، ان میں حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ بھی تھے، جب مؤذن نے آذان کہی تو ان بچوں نے بھی نقل اتارنا شروع کی۔ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان کو پکڑ کر لاؤ۔ سب بچے تو بھاگ گئے، مگر حضرت ابومحذورہ رضی الله عنہ ان میں سے کچھ بڑے تھے۔ انہیں بھاگتے ہوئے شرم آئی، وہ نہ بھاگے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے جب ان کو حاضر کیا گیا۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اسی طرح نقل اتارو او رکہو الله اکبر الله اکبر حضرت ابو محذورہ نے کہہ دیا، پھر آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ کہو : اشھد ان لا الٰہ الا الله
ان کو تامل ہوا۔ کیوں کہ اس میں توحید کا اقرار تھا۔ لیکن دبے لفظوں سے کہہ دیا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ کہو: اشھد ان لا الہ الا الله
تو حضرت ابو محذورہ نے دوبارہ بھی کہہ دیا۔ پھر آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ کہو اشھد ان محمداً رسول الله
اس میں حضرت ابو محذورہ کو زیادہ تامل ہوا۔ کیوں کہ توحید کے تو کسی درجہ میں مشرکین مکہ بھی قائل تھے۔ چناں وہ کہا کرتے تھے۔ لبیک اللھم لبیک، لا شریک لک لبیک الاشر یکا ھو لک․
اور قرآن مجید میں بھی ہے کہ :﴿قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ﴾
․ یعنی اگر آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے پوچھیں کہ ساتوں آسمانوں اور زمین کو اور اس کے بڑے عرش کو کس نے پیدا کیا، تو وہ ضرور کہیں گے کہ الله تعالیٰ نے پیدا کیا توحید کے تو کسی درجہ میں قائل تھے۔ تو توحید کے کلمات کہنے میں اس قدر تامل نہ ہوا۔ لیکن رسالت کے وہ منکر تھے اور سارا جھگڑا رسالت کے نہ ماننے پر تھا۔ اس لیے ا بو محذورہ پہلے تو چپ ہو گئے۔ لیکن پھر دبے لفظوں میں کہا اشھد ان محمداً رسول الله آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ زور سے کہو تو ابو محذورہ نے زور سے دوسری مرتبہ بھی کہا۔
ابو محذورہ رضی الله عنہ نے یہ اذان اسلام کی حالت میں نہیں کہی تھی محض نقالی تھی، لیکن اس کا اثر دل پر اتر گیا۔ کہنے لگے کہ یا رسول الله! اب تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہوں۔ اب اذان میں شوافع، احناف کے خلاف ہیں۔ شوافع کہتے ہیں کہ ترجیح صفت اذان میں سے ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ یہ تعلیم تھی۔ یہ فقہاء کے اختلاف ہیں۔ لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو محذورہ نے جب ظاہر سے اسلام کا اقرار کیا تو اس کا اثر دل میں بھی اتر گیا۔ اور اسلام قبول کر لیا اس لیے نبی کریم صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کر اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل ہی بنا لو۔ پس اگر نماز کو جی نہبھی چاہے تو بھی نماز نہ چھوڑنی چاہیے، مگر یہ چیزیں ماحول سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ماحول اچھاہو تو بچے بھی نمازی بن جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مطالبہ پاکستان کے وقت بچوں کے کھیل بھی جلسے او رجلوس بن گئے تھے، کیوں کہ اس وقت ماحول ہی ایسا تھا۔
حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمة الله علیہ کے سامنے ایک نوجوان طالب علم آیا اور جلدی سے نماز پڑھ کر چل دیا۔حضرت نے فرمایا کہ تونے نماز اچھی طرح سے کیوں نہ پڑھی؟ اس کے منھ سے نکلا کہ حضرت! میں چھوٹی کتابیں پڑھتا ہوں۔ حضرت کو غصہ آیا اور فرمایا کہ یہ اعمال تو ماں باپ سے ورثہ میں ملتے ہیں۔ ان میں کتابوں کی ضرورت نہیں، لیکن یہ جب ہوتا ہے جب ماں باپ بھی ایسے ہی ہوں۔ اگر عیسائی ذہنیت کا ماحول بن جائے تو دل اسی طرف مائل ہونے لگے گا۔
تربیت میں ماحول کا اثر
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة الله علیہ ایک دفعہ ایک شادی کے سلسلے میں تھانہ بھون تشریف لے گئے۔ توخیال ہوا کہ حضرت حاجی (امداد الله صاحب مہاجر مکی) صاحب کی زیارت بھی کر لوں۔ چناں چہ حضرت حاجی صاحب کومعلوم ہو گیا کہ یہ فطرت ِ سلیمہ رکھتے ہیں۔ تو آپ نے پوچھا کہ آپ کسی سے بیعت بھی ہوئے یا نہیں؟ آپ نے کہا کہ نہیں۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ پھر مجھ سے بیعت ہو جاؤ۔ حضرت گنگوہی نے کہا کہ میں اس شرط پر بیعت ہوں گا کہ آپ مجھے ذکر وشغل کا حکم نہ فرمائیں گے۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو بیعت ہونے کو کہا ہے۔ شغل کا تو میں نے کہا ہی نہیں اور وعدہ بھی فرمایا کہ آئندہ بھی نہیں کہوں گا۔ حضرت حاجی صاحب نے بیعت فرمایا اور یہ فرمایا کہ دو تین دن یہاں ٹھہر جاؤ آپ وہیں تھانہ بھون میں تین دن ٹھہرے، جب رات کے وقت اڑھائی تین بجے دیکھا کہ سب لوگ اٹھ کر تہجد ادا کر رہے ہیں۔ حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ کو شرم آئی، انہوں نے بھی اُٹھ کر نماز تہجد پڑھی پھر جب لوگوں کو ذکر وشغل میں دیکھا، آپ بھی ذکر میں مشغول ہو گئے۔ دوسرے دن پھر یہ حالت ہوئی۔ تیسرے دن خود بخود خوشی سے تہجد پڑھی اور ذکر وشغل میں مشغول ہو گئے۔ تیسرے دن حضرت کے پاس گئے اورکہنے لگے کہ حضرت آپ نے تو سب کچھ ہی کرا دیا۔حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تھوڑاہی کہا تھا۔ میں نے وعدہ خلافی نہیں کی۔ اب آپ جاسکتے ہیں، حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ نے عرض کیا کہ اب تو میں نہیں جاتا چالیس دن وہاں ٹھہرے اور اس تھوڑے عرصہ کے بعد خلافت لے کر واپس ہوئے۔ بس یہ عبادت پہلے ریا تھی، پھر عادت ہوئی، پھر عبادت ہو گئی اورساتھ ہی خلافت بھی مل گئی۔
میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ جب میر ی عمر آٹھ برس کی تھی۔ ایک دفعہ میرا گنگوہ جانا ہوا، وہاں ذکر وشغل کا ماحول تو تھا ہی۔ گنگوہ کی مسجد میں بہت سے دھوبی کپڑے دھوتے تھے، وہ جب کپڑے کو مارتے تو إلا الله کی ضرب بھی ساتھ کہتے۔ یہ ماحول کا اثر تھا ،ورنہ ان کو پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
مقولہ مشہور ہے۔”ہرچہ درکان نمک رفت نمک شد“ بس ماحول کا اثر یہی ہے۔ جو نیک ماحول میں ہو گا، اس کا بھی اثر ضرور ہو گا حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کا بھی ایک ماحول تھا کہ جو بھی اس میں آتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ اور ان کا ماحول بھی بہت قوی تھا۔ حتی کہ حضرات انبیا ء علیہم السلام کے بعد انہیں کا درجہ تھا۔ اُمت کا اجماع ہے کہ ”الصحابة کلھم عدول“ وہ معصوم تو نہیں تھے ،لیکن محفوظ تو ضرور تھے۔اُمت کا اتفاق ہے کہ کوئی شخص کتنا بڑا غوث اور قطب بن جائے، لیکن ادنیٰ صحابی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے کہ جو ماحول ان کو میسر آیا وہ کسی کو میسر نہ آسکا۔ ایسے ماحول سے ابوجہل جیسا بد بخت ہی متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے۔ اور جبری طور پر تو وہ بھی مومن تھا۔ چناں چہ اپنے گھرمیں کہتا تھا کہ بات تو ٹھیک ہے ،لیکن اگر ہم رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو مان لیں، پھر ان کی غلامی کرنی پڑے گی۔ اسی سے ان کو عار تھی بہرحال اگر ایک گھرانہ یہ عہد کرے کہ ہم گناہ چھوڑ دیں گے، تو ان کے ماحول میں جو داخل ہو گا۔ انہی کی طرح ہو جائے گا۔
قول وفعل میں مطابقت کا اثر
حضرت مولانا عبیدالله صاحب سندھی ایک سیاسی مفکر تھے۔ روس کے انقلاب میں وہیں تھے۔ فرماتے تھے کہ میں اسٹالن سے ملا اور اسلامی نظام او را س کے اصول مع دلائل اس کے سامنے رکھے۔ تو اسٹالن نے کہاکہ یہ بالکل ٹھیک ہے او راگر دنیا میں کوئی نظام جاری ہوا تو اسلام ہی جاری ہو کر رہے گا۔ لیکن یہ بتائیے کہ اس کا کوئی عمل دنیا میں بھی موجود ہے… اس پر مولانا خاموش ہو گئے تو آج دنیا قول کو نہیں دیکھتی بلکہ فعل کا مطالبہ کرتی ہے۔ امام مالک رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: فمن وافق قولہ فعلہ فنجا ومن لم یوافق قولہ فعلہ فقد ھلک یعنی جس آدمی کا قول اس کے فعل کے موافق ہوا، نجات پا گیا اور جس کا قول فعل کے موافق نہ ہوا، وہ ہلاک ہوگیا آج اسلامیہ جمہوریہ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن دنیا اس قول کو نہیں دیکھتی، بلکہ عمل کو دیکھتی ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ایک عملی نقشہ پیش کریں، ایک شخص بڑے سے بڑا عالم ہو۔ لیکن جب تک وہ اپنے کہے کے مطابق عمل نہ کرے، اس کو اپنے قول کا خود بھی تذبذب رہتا ہے۔
ماحول قوانین حکومت سے بھی بڑھ کر ہے
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے پاس آنے والوں میں نماز روزہ وغیرہ کا اہتمام تو تھا ہی۔ مگر حضرت کے ہاں یہ بھی قانون تھا کہ کوئی کسی کے لیے اذیت کا موجب نہیں ہو گا۔ چناں چہ تھانہ بھون کی خانقاہ میں ایک دفعہ کسی صاحب کا ایک رومال گر پڑا، لیکن کسی نے وہاں سے نہ اٹھایا اور تین دن تک پڑا رہا۔ ماحول کی وجہ سے کسی کو چرانے کی ہمت نہ ہوئی، اسی وجہ سے حجروں کو تالا لگانے کا دستور ہی نہیں تھا۔
حجاز کی حکومت ہے۔ وہاں بادشاہ کا جذبہ یہ ہے کہ اسلامی قانون نافذ ہو۔ اب ایک عورت زیور پہن کر سفر کرتی ہے۔ تو اس کو کسی قسم کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ تلواروں اور بندوقوں سے دلوں میں ڈر پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس اور ہتھیاروں کی کمی نہیں۔ لیکن دنیا میں فسق وفجور کی کثرت ہو رہی ہے۔
ہم حج پر گئے تو دیکھا کہ چند بوریاں بھری ہوئی رکھی ہیں۔ ایک شخص نے پولیس میں جاکر خبر دی کہ فلاں جگہ کھجوروں کی بوریاں پڑی ہیں۔ پولیس نے کہا یہ ٹھیک ہے، لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا کہ ان میں کھجوریں ہیں؟ معلوم ہوا کہ تونے ٹٹول کر دیکھی ہیں؟ او رچرانے کا موقع تلاش کرتا رہا۔ لیکن موقع نہیں ملا۔ اس شخص کو اس پر بھی سزا ملی۔
ہندوستان میں مختلف میلے ہوتے ہیں، مسلمان بھی ہندؤوں کو دیکھ کر میلے کرنے لگے ہیں۔ ان میں ہر طرح سے فسق وفجور اور چوریاں ہوتی ہیں۔ لیکن مکہ مکرمہ میں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے او رکبھی چوری نہیں ہوتی۔ مکہ والے کبھی چوری نہیں کرتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے غلطی سر زد نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ غلبہ دیانت کا ہے۔ مگر چور کا ہاتھ ایک دفعہ کاٹا جائے تو برسوں تک چوری سے نجات ملتی ہے۔ اسلامی حدود رجم اور قطع ید وغیرہ کو وحشیانہ سزا کہنا انہی سے ہوسکتا ہے جن کے نزدیک زنا یا چوری کوئی غیر وحشی فعل ہیں، ادیان سماویہ میں زنا سے بڑا کوئی جرم نہیں تھا۔ ایک عورت کے زنا کرنے سے سارا خاندان بدنام ہو جاتا ہے۔ شہرت پر الگ دھبہ آتاہے اور نسل کا بھی اختلاف ہوتا ہے۔ تو یہ فعل بھی تو وحشی ہے، اگر وحشی فعل پر وحشیانہ سزا ہو اس میں کیا جرم ہے ؟ طرہ تویہ ہے کہ آج کل قانون میں اس کوجائز قرار دیا گیا ہے کہ صرف جبراً زنا کرنا ہی جرم ہے۔ فریقین کی رضا ہو جائے تو جرم ہی نہیں۔ بہرحال ان چیزوں کا ماحول کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
حکومتوں کے قوانین جرائم کے افعال کو تو روک سکتے ہیں، لیکن جرائم کی نفرت دل میں نہیں بٹھلا سکتے۔ زانی زنا سے اور چو رچوری سے قانون کی وجہ سے رُک سکتا ہے، لیکن زنا او رچوری کی نفرت اس کے دل میں قوانین سے نہیں بیٹھ سکتی۔ جرائم کی نفرت او رمعصیت سے بیزاری اہل الله کی صحبت ومعیت سے نصیب ہوتی ہے۔
غیبت کے متعلق الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتًا فکرھمتوہ﴾
کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے … ؟تو غیبت کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جو کہ نجس ہے۔ لیکن غیبت سے بچے گا کب؟ جب دل میں معاصی سے نفرت ہو گی۔ ورنہ حکومت کا قانون تو یہاں نہیں لاگو ہو گا۔
جھوٹ کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ انسان جب جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے منھ میں ایک بد بو پیدا ہو جاتی ہے اور فرشتہ اس کی وجہ سے اس سے دور ہو جاتا ہے، جب وہ جھوٹ ختم کر لیتا ہے تو وہ فرشتہ واپس آجاتا ہے، گویا فرشتے کو معصیت سے نفرت ہے۔ اسی طرح انسان میں جب ملکوتی صفات آتی ہیں وہ بھی معاصی سے متنفر اور بیزار ہو جاتا ہے تو یہاں حکومت کی طرف سے احتساب نہیں ہے۔ جس کی بنا پر جھوٹ سے بچے، لیکن دل میں معاصی سے نفرت آچکی ہے، اس لیے جھوٹ سے بھی بچے گا اورمعاصی سے بھی بچے گا۔
مشرکین کے بارے میں الله تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:﴿إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ﴾
یعنی مشرکین (اعتقادی طور پر) نجس اورناپاک ہیں معلوم ہواکہ شرک اور ایسے ہی دوسرے معاصی معنوی نجاستیں ہیں۔ آدمی جس طرح ظاہری نجاست کی آلودگی سے بچتا ہے اوردور بھاگتا ہے۔ اسی طرح جن کا باطنی احساس زندہ ہے وہ معنوی نجاستوں سے بچتے ہیں۔ اور اپنے باطنی احساس سے ان نجاستوں کو پہچانتے بھی ہیں حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص آپ کے پاس آرہا تھا کہ راستے میں ایک عورت پر نظر پڑ گئی۔ تو یہ نظر تو گناہ نہیں تھی۔ کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ ” النظرة الاولیٰ لک والثانیة علیک“
یعنی پہلی نظر میں کوئی گناہ نہیں اور دوسری میں گناہ ہے، لیکن اس شخص نے قصداً دوسری دفعہ بھی نظر اٹھا کر دیکھا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ ” ما للرجال یاتونناو فی قلوبھم اثر الزنا؟“
یعنی لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمار ے پاس آتے ہیں او ران کے دلوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے قلب ور روح کا حاسہ تیز تھا، جس سے یہ گناہ نظر آگیا تھا اور وہ تیز کیوں تھا؟ اس لیے کہ آپ کو صحبت نبوی میسر تھی۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ گناہ نظر آجاتے تھے۔
امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ جب مسجد میں آتے اور لوگ وضو کرتے ہوتے تو آپ نظر نیچی کر لیتے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان وضو کرتا ہے تو اس کے اعضاء کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ جب کلی کرتا ہے تو منھ کے گناہ جھڑتے ہیں۔ جب سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ جھڑتے ہیں او رجب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ جھڑتے ہیں۔ تو فرمایا کہ جب گناہ جھڑتے ہیں، مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شخص فلاں گناہ کا مرتکب ہوا ہے او راس سے مجھے بدظنی پیدا ہوتی ہے تو میں نظریں نیچی کر لیتا ہوں، تاکہ گناہ کا علم نہ ہو او ربدظنی پیدا نہ ہو جن کی روحانیت قومی ہوتی ہے ان کو معاصی نظر آجاتے ہیں۔
محامسبہٴ آخرت کی دنیا میں صورت مثالی
اور قیامت میں تو اعمال بھی سب کو نظر آنے لگیں گے۔ حدیث میں ہے کہ قیامت میں انسان کے سامنے دو چیزیں ہوں گی۔ ایک جہنم اور دوسرے اعمال کی صورت مثالی اعمال کی صورت مثالی کی مثال یہ ہے کہ دیوان غالب اب چھپا ہے۔ تو غالب نے جس شعر میں جس خیال کا اظہار کیا ہے۔ اس شعر کے نیچے اس کی تصویر میں اس خیال کو ظاہر کیا گیا ہے حدیث میں علم کو صورت مثالی دودھ بتائی گئی ہے اور نماز کی صورت مثالی حسین عورت اور سخاوت کی صورت مثالی ایک عظیم الشان درخت بتائی گئی ہے۔ جس کے سایہ میں سخی آدمی بیٹھے گا، جیسا کہ اس کی سخاوت سے دنیا میں غریبوں نے فائدہ اٹھایا یہ تو اعمال صالحہ کی صور مثالیہ ہیں۔ اسی طرح اعمال سیئہ کے بارے میں بھی حدیث میں ہے کہ جو شخص مال دار ہو اور وہ زکوٰة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا وہ خزانہ سانپ کی شکل میں متشکل ہو گا اور اس مال دار کے گلے کا طوق بن جائے گا ،جو اس کو کاٹے گا او رکہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، کیوں کہ مال کی ظاہری صورت بہت عمدہ ہوتی ہے او راس کا تصور بھی دل کو خوش کرتا ہے۔ چناں چہ ایک آدمی کے پاس اگر مال ہو وہ اسے خرچ بھی نہ کرتا ہو تو چوری ہو جانے پر اس کو بہت رنج ہوتا ہے اور اگر ناجائز طریق سے حاصل کیا جائے مثلاً چوری کی جائے تو اس میں ایک قسم کا زہر بھی ہوتا ہے کیوں کہ اس پر سزا ہوتی ہے۔ اس لیے اس عمل بد ( یعنی عدم اداءِ زکوٰة) کو سانپ کی شکل دی گئی۔حاصل یہ ہے کہ ہر عمل کو اس کے اوصاف کے مطابق شکل دی جائے گی… اور یہی صفات مذمومہ اگر خود آدمی میں راسخ ہو جائیں تو آخرت توآخرت، دنیا میں بھی آدمی پر اس کا پر تو پڑتا ہے۔ دیکھنے میں وہ صحیح شکل وصورت کے لحاظ سے آدمی ہی کے لباس میں ہے۔ مگر حقیقت آدمیت اس میں نہیں ہوتی۔ جن کو الله تعالیٰ نے بینائی دی ہے۔ وہ اس کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔
شیخ تقی الدین ابن دقیق العید بہت بڑے عارف بالله، صاحب کشف وکرامات تھے۔جب بغداد کی مسجد میں داخل ہوتے تو منھ پر نقاب ڈال لیتے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں مسجد میں جاتا ہوں تو کوئی کتا نظرآتا ہے اور کوئی خنزیر نظرآتا ہے تو میں منھ پر نقاب ڈال لیتا ہوں، تاکہ مسلمانوں سے بدظنی پیدا نہ ہو۔ یہ ایک الگ عالم ہے، جو اہل الله پر مخفی نہیں۔ وہ خوب واقف ہیں۔
اقبال کہتے ہیں #
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
مقاماتِ آہ وفغاں ابھی اور بھی ہیں
اس جہاں کی ایجادات نے اس صورت مثالی کو سمجھنا تو اب اور بھی آسان کر دیا ہے۔ چناں چہ سی آئی ڈی (C.I.D) کے محکمہ کے پاس ایسے آلات موجو دہیں جن کے ذریعے سے وہ ہرخفیہ بات کو معلوم کر لیتے ہیں اور تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، مجرم کو انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔ امریکا میں فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں حق تعالیٰ بھی اس وقت تک کسی کو سزا نہیں دیں گے۔ جب تک پہلے اس کو تمام زندگی کا ریکارڈ نہ دے دیں گے۔ اور پھر تمام اعمال کی صورت مثالیہ صفت کی صورت میں اس کے سامنے پیش کر دی جائے گی۔ ( جیسے کہ آج کل ٹی وی میں اعمال بعینہ موجود ومتشکل باقی رہتے ہیں)۔
حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے جس ٹکڑے پر کوئی نیک عمل کیا ہو گا۔ نماز پڑھی ہو گی تو وہ ٹکڑا گواہی دے گا۔ اور جس ٹکڑے پر کوئی گناہ کیا ہو گا، تو وہ ٹکڑا بھی گواہی دے گا کہ اس نے فلاں گناہ میرے اوپر کیا تھا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ ملائکہ علیہم السلامبھی گواہی دیں گے۔ اس سے بڑھ کر تمام اعضاء میں قوت گویائی دے دی جائے گی۔ اور زبان سے یہ قوت سلب کر لی جائے گی۔ تو جس عضو سے جو کام کیا ہو گا، وہ خود گواہی دے گا کہ اس نے فلاں کام میرے اوپر کیا ہے۔ اتنی حجتوں کے بعد اس کو انکار کی ہمت نہ ہوگی اورخود زبان حال سے اقرار کرے گا کہ میں اس سزا کا مستحق ہوں۔ پھر خواہ الله تعالیٰ معاف ہی فرما دیں یا سزا دیں۔ لیکن معافی اقرار گناہ کے بعد ہوگی۔
ترتیب اصلاح
دلوں کو متقی بنانا دین کا کام ہے۔انسان کا نہیں اور یہ ماحول کے بہتر ہونے سے ہوتا ہے او راس کی ابتدا اپنے گھر سے کرنی چاہیے، چناں چہ رسول الله صلی ا لله علیہ وسلم کو پہلے یہ فرمایا گیا:﴿قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا﴾
یعنی اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جب گھر نیکی کا نمونہ بن گیا، پھر حکم فرمایا:﴿وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾
تو آپ نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا او رایمان لانے کی تبلیغ کی۔ جن میں کچھ سعادت تھی، وہ متوجہ ہوئے او رایمان قبول کر لیا، اس کے بعد فرمایا:﴿لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَہَا﴾
وحی آپ کی طرف اتاری گئی، تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اردگر گرد والوں کو ڈرائیں پھر فرمایا:﴿لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا﴾
کہ آپ تمام جہان والوں کے لیے ڈرانے والے ہوں چناں چہ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کی طرف خطوط لکھے او رایمان کی تبلیغ کی۔ بس اصلاح کا یہی طریقہ ہے کہ اصلاح کی ابتدا پہلے اپنے گھر سے کرنی چاہیے۔ نیکی بدی میں انسان ایک بھیڑ چال ہے۔ بارہا کا میرا مشاہدہ ہے کہ اگر مجلس میں ایک نے مصافحہ کیا تو تمام ہی شروع ہو جاتے ہیں ایسے ہی اگرایک ابتدا کرے تو دوسروں سے بھی تمام بری عادتیں چھوٹ جاتی ہیں اور ترتیب بھی یہ ہونی چاہیے کہ اولا گناہوں کو چھوڑنا چاہیے، پھر نیکیوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ اور گناہوں میں بھی پہلے کبائر کو، پھر صغائر کو چھوڑنا چاہیے۔
حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اور اس نے عرض کیا کہ حضور میں ایمان تو لاتا ہوں مگر جتنے برے کام کرتا ہوں ان سب کو چھوڑنہیں سکتا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم صرف جھوٹ کو چھوڑ دینے کا وعدہ کرتے ہو؟ اس نے کہا … جی ہاں… اور خوشی خوشی یہ وعدہ کرکے چلا گیا۔ مگر پھر جب گناہ کا خیال آتا تو محاسبہ کا خیال پہلے آتا۔ چناں چہ جب شراب پینے چلا تو خیال ہوا کہ یہ فعل چھپے گا نہیں… یا جھوٹ بولوں گا یا پھر حد لگے گی اور رسوائی ہوگی۔ جب چوری کا جذبہ پیدا ہوا تو بھی خیال ہوا کہ چوری چھپے گی نہیں، خواہ مخواہ رسوائی ہوگی۔ تو چوری سے بھی رُک گیا آخر میں جب زنا کا جذبہ اٹھا تو بھی خیال ہوا کہ رسوائی ہوگی۔ کیوں کہ جھوٹ نہ بولنے کا سچا عہد کرکے ایمان قبول کیا تھا۔ تو اس عہد سے تمام ہی گناہ از خود چھوٹ گئے۔ چناں چہ یہ تینوں گناہ اس سے چھوٹ گئے۔ صبح کو حاضر ہوا تو عرض کی۔ یا رسول الله! آپ نے چھڑائی تو ایک برائی اور چھوٹ گئیں ساری برائیاں۔ طبیب کامل مختصر سا نسخہ ہی تجویز کیا کرتا ہے۔ جس سے تمام امراض کا علاج ہو جاتا ہے۔
حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور بیعت ہو گیا۔ کہنے لگا کہ مولوی جی! آپ نے پوچھا ہی نہیں میں تو افیون بھی کھاتا ہوں۔ تو آپ نے حرام کہہ کر افیون نہیں چھڑائی، بلکہ فرمایاکہ جتنی افیون کھاتے ہو، بیس روز تک اس سے نصف کھایا کرو۔ پھر بیس دن اس سے نصف کھایا کرو۔ کرتے کرتے ان شاء الله تعالیٰ چھوٹ جائے گی۔ لیکن وہ آدمی پکا تھا۔ جب سنا کہ یہ حرام ہے توایک دم ہی چھوڑ دی۔ خانقاہ سے چلا گیا اور بیمار ہو گیا، خوب دست جاری، چھ ماہ تک بیمار رہا۔ آخر صحت ہوئی تو حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پانچ روپے بھی آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ حضرت چوں کہ غریب آدمی سے کچھ لیتے نہیں تھے۔ اس لیے واپس کر دیے۔ اس نے کہا کہ حضرت میں چھ ماہ میں پانچ روپے کی افیون کھاتا تھا تو میرا نفس خوش ہوا کہ اچھا ہوا پانچ روپے بچ گئے۔ میں نے کہا یہ پانچ روپے اب نفس کے لیے نہیں ہیں، اب یہ افیون چھڑوانے والے کو ہی دینے ہیں۔ پھر آپ نے اس میں سے کچھ تھوڑا سا لے لیا۔
اصلاح کا عزم
آج ساری مصیبت ہی یہ ہے کہ اصلاح کا عزم ہی نہیں ہوتا۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ماحول بہتر نہیں۔ ماحول کوئی ایسی بارش تو نہیں جو آسمان سے برسے۔ آخر ماحول کا بہتر بنانا بھی تو عزم ہی سے ہوتا ہے #
تو ہی اگر نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں
ہریکے ناصح برائے ودیگراں۔ شریعت نے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے نفس سے ہمیشہ بدظنی رہے او راپنے سوا ہر ایک سے حُسن ظن ہو اور دنیانے اس کے برعکس کیا ہوا ہے، دہلی کے آخری تاج دار بادشاہ ظفر ان سے سلطنت چھن گئی تھی۔ آخر عمر میں صوفی ہو گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں #
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی جب اپنی برائیوں پہ نظر
تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
تو میں نے عرض کیا کہ دین کا اثر اس وجہ سے کم نہیں کہ علم نہیں، بلکہ معاشرہ خراب ہے۔ اس لیے پہلے ماحول او رمعاشرہ کی اصلاح کرنی چاہیے۔
آج خیرخواہی سے اسلامی نظام کا مطالبہ ہو رہا ہے او رحکومت بھی خیر خواہی ہی سے اس کو نافد کرنا چاہتی ہو گی۔ لیکن تمام کام قانون سے تو نہیں ہوتے، زنا کا اعلان حکومت تو نہیں کر رہی۔ یہ جو زنا ہو رہے ہیں، یہ ماحول کی خرابی سے ہیں۔ اسی طرح چوری دیکھ لیجیے، آج بھی چوری زنا قانوناً جرم ہے۔ گویا اسلامی نظام اگر مکمل طور پر نافذ نہیں، بعض اسلامی قوانین تو آج بھی نافذ ہیں۔ اس کے باوجود زنا چوری آج بھی ہو رہے ہیں۔ اگر کل اسلامی نظام نافذ ہو گیا اور معاشرت ایسی ہی رہی تو بھی زنا چوری ہوتے رہیں گے۔ اس لیے تمام کام حکومت پر ہی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کم از کم جتنے اجزاء اسلامی قانون کے نافذ ہیں ان پر تو عمل کرنا چاہیے۔ ان پر بھی عمل نہیں۔
میں نے یہ آیت پڑھی تھی جس میں صرف تقویٰ ہی نہیں، بلکہ صحبت صالح اختیار کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس لیے اہل علم اور درویش صوفیاء کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اچھی صحبت کی مثال عطار کی دکان سے دی ہے کہ اگر انسان جائے تو خوش بو لے کر آتا ہے، اگرچہ عطر نہ خریدے۔ اور بُری صحبت کی مثال لوہار کی دکان سے دی ہے، اگر آدمی جائے او رکچھ نہیں تو دھواں اس کو ضرور پہنچے گا، اگرچہ کپڑے نہ جلیں۔ بہرحال نیک صحبت اور صالحین کی معیت اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بقدرِ ضرورت آیت کی تشریح ہوگئی۔ وقت بھی کافی ہو گیا۔ اب میں ختم کرتا ہوں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو حسنِ خاتمہ نصیب فرما دے او راپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین!اللھم ربنا تقبل مناانک انت السمیع العلیم․
واٰخر دعوانا ان الحمدلله رب العٰلمین․