
صحابہ کا آپس میں مزاح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ خشک طبیعت زاہد یا راہب لوگ نہ تھے۔ ان کی محافل جہاں خوف و خشیتِ الٰہی سے لبریز ہوتی تھیں، وہاں مزاح کے پُربہار لمحات بھی ان کی محافل کا حصہ تھے۔ حضرت قرہ کہتے ہیں، میں نے امام ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا صحابہ آپس میں مزاح کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا، صحابہ انسان تھے اور ابن عمر جیسی زاہد شخصیت بھی مزاح کرتی تھی۔ (الھیثمی، 8، 89)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوست و احباب سے خود ہی مزاح نہیں فرماتے تھے، بلکہ صحابہ بھی بعض اوقات آپ سے مزاح کرتے اور آپ اس کے جواب میں خوب شفقت فرماتے۔
مسند احمد میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموشی اختیار فرماتے، بعض اوقات مسکراتے:وَکَانَ أَصْحَابُہُ یَذْکُرُونَ عِندَہُ الشِّعْرَ وَأَشْیَاءَ مِنْ أُمُورِہِمْ فِی الْجَاہِلِیَّةِ فَیَضْحَکُونَ وَرُبَّمَا تَبَسَّمَ․ (سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 148)
صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) آپ کی مجلس میں جاہلیت کے اشعار اور اشیاء کا ذکر کرتے اور ان پر ہنستے، کبھی کبھی آپ e بھی تبسم فرماتے۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن صحابہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ان کی طبیعتوں پر انقباض ہرگز نہ تھا، بلکہ ان کی طبیعتوں میں فرحت، خوش طبعی اور بشاشت تھی۔
لم یکن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متحزقین ولا متماوتین وکانوا یتناشدون الشعر فی مجالسہم ویذکرون امر جاھلیتہم واذا ارید احد منہم علی شيء من أمر اللہ تعالی دارت حمالیق عینیہ کانہ مجنون․ (الادب المفرد)
اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طبائع میں انقباض اورسٹریل پن نہ تھا، بلکہ وہ اپنی مجالس میں اشعار پڑھتے، جاہلیت کے دَور کی اشیاء کا ذکر کرتے، اگر ان میں سے کسی شے سے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی طرف اشارہ ہوتا تو ان کی آنکھیں دیوانوں کی طرح گھوم جاتیں۔
متماوتین کا معنی بیان کرتے ہوئے شیخ عبداللہ سراج الدین شامی لکھتے ہیں:”المراد انہم ما کانوا منکمشین علی نفوسہم ومنقبضین، بل کانوا منبسطین ومنطلقین“․ (سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :148)
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نفوس میں انقباض رکھنے والے نہ تھے، بلکہ وہ خوش طبع اور ظرافت والے تھے۔
مسلم نے سماک بن حرب سے روایت کیا ہے، میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:”اکنت تجالس رسول اللہ علیہ وسلم؟ فقال جابر نعم کثیرا کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقوم من مصلاہ الذی یصلی فیہ الصبح حتی تطلع الشمس فاذا طلعت قام وکانوا یتحدثون فیاخذون فی امر الجاھلیة فیضحکون وتبسم صلی اللہ علیہ وسلم․
کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ومجلس میں بیٹھے ہیں؟ فرمانے لگے بہت دفعہ، آپ جس جگہ فجر کی نماز ادا کرتے طلوع آفتاب تک وہاں تشریف رکھتے، جب سورج طلوع ہوجاتا تو پھر اٹھتے، صحابہ اس موقعہ پر امور جاہلیت کا تذکرہ کر کے ہنستے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تبسم فرماتے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہٴ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سے خیمہ میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: اندر آ جاؤ۔ خیمہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے میں نے عرض کیا:
اکلّی یا رسول اللّٰہ! کیا آقا! میں سارا داخل ہوجاوٴں؟ آپ نے فرمایا: کُلّکَ․ (مشکوٰة المصابیح، باب المزاح)سارے کے سارے داخل ہو جاؤ۔
مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! البتہ اُن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے کہیں زیادہ عظیم تھا۔ بلال بن سعد رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض، بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے۔ ہاں جب رات آ جاتی تو راہب بن جاتے تھے۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الضحک ص 407، وقال: رواہ البغوی فی شرح السنة)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسانے والے صحابی
بخاری شریف میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا۔
کان یضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسا دیتے تھے۔ (البخاری، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر)
یعنی گفتگو یا کوئی ایسا عمل کرتے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیتے۔ ان کو صحابہ ”مضحک النبی“ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسانے والا) کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس صحابی کے بارے میں مسند ابو یعلی میں ہے:
وکان یُہدی لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم العکة من السمن والعسل، فإذا جاء صاحبہ یتقاضاہ جاء بہ إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: أعط ہذا متاعہ، فما یزید النبی صلی اللہ علیہ وسلم أن یتبسم ویأمر بہ فیُعطی. (فتح الباري: 12 - 63)
کہ یہ رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بطور ہدیہ گھی اور شہد کا ڈبہ لایا کرتے، جب قرض پر دینے والا شخص ان سے قرض کا مطالبہ کرتا۔ تو اسے حضور کی خدمت میں لا کر عرض کرتے کہ اسے اس کا سامان دے دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیتے اور اس کی ادائیگی کا حکم دے دیتے۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:۔وکان لا یدخل إلی المدینة طرفة إلا اشتری منھا ثم جاء فقال: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہذہ ہدیتہ لک فإذا جاء صاحبہ یطلب ثمنہ جاء بہ، فقال: أعطِ ہذا الثمن، فیقول: ألم تہدہا إلي فیقول: لیس عندی، فیضحک، ویأمر لصاحبہ بثمنہ․ (فتح الباري: 12 - 64)
یہ شہر مدینہ میں جب بھی کوئی نئی اور عمدہ چیز دیکھتے تو اسے خرید کر لے آتے۔ اور عرض کرتے میرے پیارے آقا! یہ میں آپ کے لیے ہدیہ لایا ہوں۔ جب اس شے کا مالک اس کی قیمت کا مطالبہ کرتا تو اسے آپ کے پاس لے آتے اور عرض کرتے یا رسول اللہ ! اسے اُس شے کی قیمت عنایت کیجیے۔ آپ فرماتے: کیا تو نے مجھے وہ چیز بطور ہدیہ نہیں دی تھی؟ عرض کرتے میرے پاس اس کی قیمت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیتے اور اس کی ادائیگی کا حکم فرماتے۔
”الاصابہ“ میں حضرت حمار کے تذکرہ میں ہے کہ ان کا نام عبداللہ تھا، حمار ان کا لقب تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتے تھے۔ (حافظ ابن حجر نے الاصابہ: 1813 میں اسے بخاری کے حوالہ سے از طریق زید بن اسلم از اسلم از عمر رضی اللہ عنہما نقل کیا ہے۔ واقدی نے کہا ہے: یہ غزوہٴ خیبر کا واقعہ ہے۔)
فقیہ، محدث قاضی ابو علی حسن بن ابی القاسم بن بادیس القسمطینی کی کتاب ”فوائد الدرر وفرائد الفکر فی شرح مختصر السیر“ میں ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے تذکرہ میں ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساتی تھیں۔ ایک مرتبہ کہا: یا رسول اللہ! میں نے گذشتہ رات آپ کے پیچھے نماز پڑھی، رکوع میں میں نے اس ڈر سے اپنی ناک پکڑ لی کہ کہیں اس سے خون نہ ٹپکنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ (مرسل ہے، جیسا کہ الاصابہ 606 میں ہے، اسے ابن سعد نے روایت کیا ہے، ج 4 ص – 383- 384، حافظ ابن حجر نے کہا: ابو معاویہ از اعمش از ابراہیم الخ یہ روایت مرسل ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔)
حضرت نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری کی اپنے آقا سے محبت
امام زبیر بن بکار نے ”کتاب الفکاہة والمزاح“ میں حضرت نعیمان بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی نقل کیا ہے کہ وہ جب بھی شہر مدینہ میں کوئی اچھی چیز دیکھتے تو خرید کر اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور لے جاتے۔
وہ کہے گا میں غلام نہیں، تم نہ ماننا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بصریٰ میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ دو اور بدری صحابی نعیمان اور سویبط رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ زاد راہ کے انچارج حضرت سویبط تھے۔ راستے میں ایک مقام پر نعیمان نے ان سے کچھ کھانے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آمد کا انتظار کرو۔ حضرت نعیمان بہت مزاح کرنے والے اور ہنسانے والے تھے۔ وہ وہاں سے اٹھ کر قریب ہی کچھ ایسے لوگوں کے پاس گئے۔جن کو معاون کی ضرورت تھی، ان سے کہنے لگے۔ میرے پاس ایک غلام ہے، جو نہایت قوی، طاقت ور ہے، اگر تم خریدنا چاہو تو خرید لو۔ انہوں نے جب ہاں کہہ دیا تو کہنے لگے وہ بہت تیز زباں ہے، شاید تمہیں یہ کہے کہ میں غلام نہیں، بلکہ آزاد ہوں، تم نے اس کی سننی نہیں ہے، اگر تم نے اسے اس کی باتوں کی وجہ سے نہ خریدا تو مجھے پریشان کرے گا۔
انہوں نے یقین دلایا ہم خرید لیں گے۔ لہٰذا دس اونٹ اس غلام کی قیمت طے ہوئی اور ان کو ساتھ لا کر بتایا کہ سویبط غلام ہے۔ حضرت سویبط نے بہت کہا یہ جھوٹ ہے، میں غلام نہیں ہوں، لیکن انہوں نے کہا، ہمیں تیرے مالک نے پہلے یہ بات بتا دی تھی۔
فطرحوا الحبل فی رقبتہ فذہبوا بہ․ انہوں نے سویبط کے گلے میں رسی ڈالی اور انہیں لے گئے۔ (مسند احمد، 7: 446)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس آئے تو انہیں نعیمان نے سارا معاملہ بتایا۔ آپ اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر گئے۔ اونٹ واپس کیے اور سویبط کو لائے۔ جب اس کی خبر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وقت مجلس میں موجود تمام صحابہ کرام یہ واقعہ سن کر خوب مسکرائے۔
یہ گٹھلیوں سمیت کھا گئے
ایک دفعہ صحابہ نے حضور علیہ السلام کی مجلس میں کھجوریں تناول کیں، سبھی نے کھجوریں کھانے کے بعد گٹھلیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دیں۔ جب صحابہ فارغ ہوئے تو ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ! علی کے سامنے یہ تمام گٹھلیاں بتا رہی ہیں کہ یہ تمام کھجوریں انہوں نے ہی کھائی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً عرض کیا، معاملہ یہ ہے کہ کھجوریں تمام نے کھائی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ میں نے گٹھلیاں نکال دی ہیں اور یہ لوگ گٹھلیوں سمیت کھا گئے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، یمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر ہوا کہ ایک عورت کے ساتھ ایک ہی طہر میں تین افراد نے وطی کی، اولاد کس کی ہوگی؟ آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا کہ یہ بچہ تمہارا ہے؟ انہوں نے اقرار نہ کیا، پھر دوسرے سے پوچھا، انہوں نے بھی اقرار نہ کیا، پھر آپ نے دو دو سے ایک کے بارے میں پوچھا پھر بھی انہوں نے اقرار نہ کیا، فرمایا میں تم میں قرعہ ڈالتا ہوں جس کا نکلا بچہ اس کا ہو گا اور اس پر دیگر دو کے لیے دو تہائی دیت ہوگی۔
فا قرع بینہم فجعلہ لمن قرع فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی بدت أضراسہ․
ان کے درمیان قرعہ ڈالا اور اسے دے دیا جس کا قرعہ نکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر اتنے مسکرائے کہ مبارک داڑھیں نظر آئیں۔
صحابہ کرام کو تیراندازی اور تیراکی سیکھنے کا حکم
امام بخاری نے صحیح البخاری میں ”باب التحریض علی الرمی“ کے تحت اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ذکر کیا ہے: … ﴿واعدوا لہم ما استطعتم من قوة﴾․ (الانفال: 60)
اور تیار رکھو ان کے لیے (ہتھیاروں کی) قوت سے جس قدر تم میں استطاعت ہو۔
حافظ ابن حجر نے ”فتح الباری“ میں کہا ہے کہ اس آیت میں ”قوة“ کی تفسیر تیراندازی سے کی گئی ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر)، صحیح مسلم میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس آیت کی تفسیر میں یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: ”سنو! قوت تیراندازی ہے، قوت تیراندازی ہے، قوت تیراندازی ہے“۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب فضل الرمی، رقم الحدیث: 4946)
علامہ بیضاوی کا کہنا ہے کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراندازی کا خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا کہ (اس دور میں) یہ سب سے قوی ترین ہتھیار تھا۔ سنن ابی داؤد میں عقبہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تیر کے سبب اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے، تیر بنانے والا جو اس کے بنانے میں خیر کا امیدوار ہے، اسے پھینکنے والا اور اسے تیر انداز کے پاس واپس لانے والا، سو تم تیر اندازی اور گھڑ سواری کرو، تمہارا تیراندازی کرنا مجھے سواری کرنے سے زیادہ محبوب ہے“۔ (سنن ابی داوٴد، کتاب الجھاد، باب فی الرمی، رقم الحدیث 2513)
اسی روایت میں ہے کہ جس نے تیراندازی سیکھنے کے بعد عدم دلچسپی کے باعث اسے چھوڑ دیا اس نے کفران نعمت کیا۔
صحیح مسلم میں ہے جس نے تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں یا اس نے نافرمانی کی۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب فضل الرمی، رقم الحدیث: 4949)
علامہ اُبی کہتے ہیں: یعنی وہ ہم سے متصل نہیں اور ہمارے زمرے میں داخل نہیں۔ علامہ نووی نے کہا ہے کہ تیراندازی سیکھ کر بھول جانے میں یہ عظیم تنبیہ ہے اور ایسا کرنا شدید مکروہ ہے۔
ابن ابی جمرہ ”بہجة النفوس“ میں کہتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مقام سے گزرے جہاں بعض صحابہ تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں (اس میدان) سے اپنے جوتے اتار کر چلے اور فرمایا: جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ یعنی یہ عمل جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کا حق دار بناتا ہے۔
حافظ سیوطی نے ”الجامع الکبیر“ میں دیلمی از ابوسعید رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے: تیراندازی اور قرآن سیکھو۔ پھر دیلمی کے حوالے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ تیر اندازی سیکھو، کیوں کہ دو نشانوں کے درمیان جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ”الدر المنثور“ میں آیت کریمہ ﴿واعدوالہم ما استطعتم من قوة﴾ کی تفسیر ملاحظہ کریں۔
نماز مغرب اور عشاء کے درمیان انصار تیراندازی کی مشق کرتے تھے
امام بخاری نے صحیح میں ”باب وقت المغرب“ کے زیر عنوان رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ہم مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے، پھر ہم میں سے کوئی واپس جاتا اور (اجالے کی وجہ سے) اپنے تیر گرنے کی جگہ دیکھ لیتا۔ (صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، رقم الحدیث: 559)
امام احمد نے مسند میں علی بن بلال کے طریق سے انصار کے لوگوں سے نقل کیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے، پھر واپس لوٹتے اور تیر اندازی کرتے ہوئے اپنے گھروں تک آتے، ہمارے تیروں کے گرنے کی جگہیں ہم سے پوشیدہ نہ ہوتیں (تیر گرنے کی جگہ اجالے کے باعث نظر آتی تھی)۔ اس حدیث کا اسناد حسن ہے۔ (مسند امام احمد (حدیث رجال من الانصار رضی اللہ عنہم)، رقم الحدیث: 16529)
دوڑ میں گھوڑوں سے آگے نکل جانے والے صحابی
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے تذکرے میں ہے کہ آپ نہایت بہادر تیرانداز تھے، مصر میں جہاد کے ارادہ سے تشریف لائے تھے۔ آپ دوڑ کے مقابلہ میں پیدل ہوتے ہوئے گھوڑوں سے آگے نکل جاتے تھے۔ (الاصابہ ج3 ص 127)
صحابہ کرام تھکاوٹ دور کرنے کے لیے تفریحی مشاغل اختیار کرتے تھے
ابن ابن شیبہ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کم عقل اور معمولی لوگ نہیں تھے، اپنی مجلسوں میں اشعار پڑھتے، دور جاہلیت کی باتیں سنا، سنایا کرتے تھے، لیکن جب کسی دینی معاملے میں گفتگو کرنا چاہتے تو ان کی آنکھوں کے پپوٹے دیوانوں کی آنکھوں جیسے نظر آنے لگتے تھے (پوری توجہ اور انہماک سے دینی گفتگو کرتے اور سنتے تھے)۔
ابن الانباری نے ابو بکرالثقفی سے مرفوعاً روایت کیا ہے کبھی یہ اور کبھی یہ ہوتا، یعنی کبھی قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مفاہم ومعانی میں غور و خوض ہوتا اور کبھی شعر و شاعری اور خوش طبعی۔
علامہ مناوی کا کہنا ہے کہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ طالب علم کو چاہیے اپنے ذہن کو تفریح مہیا کرے، کبھی شعر وشاعری سے، کبھی قصہ کہانی سے، کیوں کہ جب غورو فکر کی صلاحیت اکتاہٹ میں بدل جائے تو مفہوم تک رسائی ناممکن ہو جاتی ہے اور اسے کوئی پسند نہیں کرتا اور کوئی انسان اپنے ذہن کو سمجھنے پر مجبور نہیں کر سکتا اور دل کو زبردستی مائل کرنے پر قادر نہیں ہے۔
قاضی عیاض نے ام زرع والی حدیث کی شرح میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں اپنے نفس کو باطل میں تازہ دم کرتا ہوں، تاکہ وہ حق کے قبول کرنے میں سستی اور اکتاہٹ کا شکار نہ ہو (یعنی بطور تفریح ایسے مباح کام کرتا ہوں جو چنداں مطلوب نہیں ہوتے، مگر نئے سرے سے نیک اعمال کے حصول کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر ایسا کرتا ہوں)۔
شیخ عبد القادر الفاکہی المکی نے ”منہاج الاخلاق السنیة فی مباہج الاخلاق السنیة“ میں اُبی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ بعض نامعقول باتوں میں مشغول ہوتا ہوں، تاکہ تازہ دم ہو کر حق کے لیے زیادہ فرحت و سرور حاصل کروں۔ علامہ فاکہی کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کسی مباح لہو میں مشغول ہوتا ہوں۔
قاضی عیاض نے محمد بن اسحاق کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مجلس کرتے تو ان سے فرماتے ہمیں ترش چیز دو، لوگ اہل عرب کی باتیں کرنے لگتے، پھر آپ علمی شغل جاری کرتے، پھر اسی طرح کہتے، ایسا متعدد بار ہوتا تھا۔
”منھاج“ الفاکہی میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے ساتھیوں کی درس میں سستی ملاحظہ کرتے تو فرماتے ترش چیزیں لاؤ، یعنی خوش طبعی کی چیزیں پیش کرو، اشعار سناوٴ، کیوں کہ جس طرح بدن تھک جاتے ہیں اسی طرح روح بھی تھک جاتی ہے۔
قاضی عیاض نے کہا ہے ترش چیزیں (کھٹاس) لانے کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب تم حدیث، فقہ اور علوم قرآن کی تحصیل وتدریس سے تھک جاوٴ تو اشعار اور اہل عرب کے واقعات میں مشغول ہوجاوٴ، جس طرح اونٹ میٹھے پودے چرنے سے اکتا کر ترش اور نمکین پودے چرنے لگتا ہے۔
حضرت سواد بن قارب کے اشعار پر تبسم
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سواد بن قارب کو دیکھا تو فرمایا:
”مرحبا بسواد بن قارب قد علمنا ما جاء ک“․
سواد بن قارب خوش آمدید اور ہم جانتے ہیں جو کچھ تم لائے ہو۔
انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے کچھ اشعار کہے ہیں، آپ سماعت فرمائیے۔اتانی ربی بعد لیل وہجعہولم یکن فیما بلوت بکاذب
(رات کو خواب میں میرے پاس میرے رب کی تشریف آوری ہوئی اور اس بارے میں میں قطعاً جھوٹا نہیں ہوں۔)ثلاث لیالی قولہ کل لیلةاتاک نبی من لویٴ بن غالب
(تین راتوں سے اس کا یہی ارشاد ہے کہ تمہارے پاس لویٴ بن غالب خاندان سے نبی کی تشریف آوری ہو چکی ہے۔)فاشہد ان اللہ لا شیء غیرہوانک مأمون علی کل غائب
(میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ مخفی وغائب معاملہ کے امین ہیں۔)وانک ادنی المرسلین شفاعةالی اللہ یا ابن الاکرمین الاطایب
(آپ کی شفاعت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے مقبول ہے اور آپ مکرم و معزز خاندان سے ہیں۔)فمرنا بما یاتیک یا خیر من مشیٰوان کان فیما جاء شیب الذوائب
(اے زمین پر سب سے افضل ذات! ہمیں اپنی تعلیمات سے آگاہ فرمائیے۔)
ارشاد سننے کے بعد
فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال: افلحت یا سواد․ (دلائل النبوة للبیھقی، 292)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور کہا: اے سواد! تم نے کام یابی حاصل کرلی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مزاح
حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مذاق کی بات کی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے کہا: ”یا رسول اللہ! بعض دعابات ہذا الحی من کنانة“ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! اس قبیلہ کی بعض مزاح کی باتیں قبیلہ کنانہ سے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بل بعض مزحنا ہذا الحی“ بلکہ یہ خاندان ہمارے مزاح کا ایک حصہ ہے۔ (حیاة الصحابہ ص 573 ج 2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا مزاح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور بی بی سودہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، میں نے قلیہ تیار کیا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا، میں نے کہا، کھاؤ، نہیں تو تمہارے منھ پر لگا دوں گی، انہوں نے کہا، میں نہیں کھاؤں گی، میں نے پیالہ میں سے لے کر ان کے منھ پر لیپ دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم دونوں کے بیچ میں بیٹھے تھے، اپنا پاؤں بیچ میں سے ہٹا لیا، تا کہ وہ بھی اپنا عوض مجھ سے لیں، انہوں نے پیالے میں ہاتھ ڈال کر میرے منھ پر پھیر دیا، آپ بیٹھے ہنستے رہے۔ (مذاق العارفین ص 182 ج 3) سوکنوں میں محبت کا اندازہ لگائیے۔ رضی اللہ عنہن۔
ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ کا مزاح
ضحاک بن سفیان کلابی نہایت بدصورت آدمی تھے، جب وہ بیعت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی وہاں موجود تھیں، اس وقت تک پردے کا حکم نہ ہوا تھا۔ بیعت کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس دو بیبیاں اس سرخ عورت (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے اچھی ہیں، اگر آپ نکاح کریں تو ایک کو میں آپ کے واسطے بھیج دوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پوچھا کہ وہ خوب صورت ہیں یا تم؟ انہوں نے کہا میں ان سے کہیں اچھا ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال وجواب سے ہنس پڑے کہ ایسی صورت ہونے پراپنے آپ کو خوب صورت جانتے ہیں۔ (مذاق العارفین ص 182 ج 3)
ایک صاحب کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسانا
ایک آدمی عبداللہ نامی جس کا لقب گدھا تھا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا اور وہ کھانے پینے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ موجود ہوتا تھا۔ ایک روز اسے لایا گیا تو ایک آدمی نے کہا اللہ اس پر لعنت کرے، یہ اکثر آموجود ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس پر لعنت نہ کرو، بلاشبہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہے۔ (البدایہ والنہایہ اردو ص 688 ج 6)
صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپس میں ایک دوسرے کو بطور مزاح خربوزہ مارنا
حضرت بکر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم مزاح میں ایک دوسرے پر خربوزے پھینکتے تھے، لیکن جب حقیقت اور کام کا وقت ہوتا تو اس وقت مردِ میدان ہوتے۔
حضرت قرة رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن سیرین رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ کیا
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں ہنسی مذاق کیا کرتے تھے؟ حضرت ابن سیرین رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہاں، وہ عام لوگوں جیسے ہی تھے، چناں چہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ مزاح میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
یحب الخمر من مال الندامیویکرہ ان تفارقہ الفلوس
ترجمہ: وہ (بخیل ہے، اس لیے) اپنے ہم نشینوں کے مال سے شراب پینا چاہتا ہے اور مال کی جدائی سے اسے بڑی ناگواری ہوتی ہے۔ (حیاة الصحابہ ص 574 ج 2)
آئینہ ٹوٹ گیا
حضرت پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کی جلالتِ شان سے کون ناواقف ہے؟ کسی نے آپ کو ایک بہت ہی قیمتی چینی آئینہ ہدیةً دیا تھا۔ حضرت کبھی کبھی اس میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے، اتفاقاً وہ آئینہ خادم کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ کیا، اس کو بڑا ہی ڈر ہوا کہ حضرت عتاب فرمائیں گے، اس نے ڈرتے ڈرتے حضرت سے عرض کیا از قضاء آئینہ چینی شکست (قضاء و قدر کی وجہ سے وہ چینی آئینہ ٹوٹ گیا) تو حضرت نے یہ سن کر فی البدیہہ فرمایا خوب شد، اسباب خود بینی شکست (اچھا ہوا کہ خود بینی کا ذریعہ اور سبب ٹوٹ گیا)۔(حضرت تھانوی کے پسندیدہ واقعات ص: 50)
الغرض مزاح ایک سنت مستحبہ ہے، جو لوگ اسے اپنے وقار اور شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں، جب یہ شانِ نبوت کے خلاف نہیں، شانِ صحابیت کے خلاف نہیں، شانِ ولایت کے خلاف نہیں، تو ہماشما کی شان کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟
حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ کا ایک اعرابی کے ساتھ مزاح
حضرت ربیعہ بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنی اونٹنی مسجد کے باہر بٹھا کر اندر چلا گیا، حضرت نعیمان بن عمر وانصاری رضی اللہ عنہ، جنہیں ”النعیمان“ کہا جاتا تھا، ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہمارا گوشت کھانے کو بہت دل چاہ رہا ہے، اگر تم اس اونٹنی کو ذبح کر دو اور ہمیں اس کا گوشت کھانے کو مل جائے تو بہت مزہ آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں اونٹنی کی قیمت اس کے مالک کو دے دیں گے۔ چناں چہ حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ نے اس اونٹنی کو ذبح کر دیا، پھر وہ دیہاتی باہر آیا اور اپنی اونٹنی کو دیکھ کر چیخ پڑا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہائے! ان لوگوں نے میری اونٹنی کو ذبح کر دیا۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نعیمان نے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نعیمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل پڑے اور ان کا پتہ کرتے کرتے آخر حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچ گئے، حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ اس کے اندر ایک گڑھے میں چھپے ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے اوپر کھجور کی ٹہنیاں اور پتے وغیرہ ڈال رکھے تھے، چناں چہ ایک آدمی نے اونچی آواز سے یہ کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں نے اسے نہیں دیکھا، لیکن انگلی سے اس جگہ کی طرف اشارہ کر دیا جہاں حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ چھپے ہوئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جا کر انہیں باہر نکالا تو پتوں وغیرہ کی وجہ سے ان کا چہرہ بدلا ہوا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! جن لوگوں نے آپ کو میرا پتہ بتایا ہے انہوں نے ہی مجھے کہا تھا کہ اس اونٹنی کو ذبح کردو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اور ان کا چہرہ صاف کرنے لگے اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو اس اونٹنی کی قیمت ادا کی۔ (حیاة الصحابہ ص 74، ج 2)
حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ کی خوش طبعی
حضرت عبد اللہ بن مصعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت مخرمہ بن نوفل بن صہیب زہری رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں ایک نابینا بڑے میاں تھے، ان کی عمر ایک سو پندرہ سال تھی، ایک دن وہ مسجد میں پیشاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے شور مچا دیا، حضرت نعیمان عمرو بن رفاعہ بن حارث بن سواد نجاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہیں مسجد کے ایک کونے میں لے گئے اور کہا کہ یہاں بیٹھ کر پیشاب کر لو اور انہیں وہاں بٹھا کر خود وہاں سے چلے گئے، انہوں نے وہاں پیشاب کر لیا تو لوگوں نے شور مچا دیا، پیشاب کرنے کے بعد انہوں نے کہا تمہارا بھلا ہو، مجھے یہاں کون لایا تھا؟ لوگوں نے کہا: نعیمان بن عمرو۔ انہوں نے کہا اللہ اس کے ساتھ یہ کرے اور یہ کرے (یعنی انہی بددعا دی) اور میں بھی نذر مانتا ہوں کہ اگر وہ میرے ہاتھ لگ گئے تو میں انہیں اپنی اس لاٹھی سے بہت زور سے ماروں گا، چاہے اس کا کچھ بھی ہو جائے۔ اس واقعہ کو کافی دن گزر گئے، یہاں تک کہ حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی بھول گئے۔ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد کے کونے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑی یکسوئی سے نماز پڑھا کرتے تھے، ادھر ادھر توجہ نہ فرمایا کرتے۔ حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کیا آپ نعیمان رضی اللہ عنہ کو مارنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، وہ کہاں ہیں؟ مجھے بتاؤ، حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ نے لا کر انہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑا کر دیا اور کہا یہ ہیں، مار لو، حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھوں سے لاٹھی اس زور سے ماری کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سر میں زخم ہو گیا، لوگوں نے انہیں بتایا کہ آپ نے تو امیر المومنین کو مار دیا ہے، حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو زہرہ نے جب یہ سنا تو وہ سب جمع ہوگئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ نعیمان (رضی اللہ عنہ) پر لعنت کرے، تم نعیمان کو چھوڑ دو، کیوں کہ وہ جنگ بدر میں شریک ہوا تھا (اس لیے ان کی رعایت کرنی چاہیے)۔ (حیاة الصحابہ ص 576 ج 2)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خوش طبعی
حضرت انیسہ کہتی ہیں کہ محلہ کی لڑکیاں اپنی بکریاں لے کر دودھ نکلوانے کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں خوش کرنے کے لیے فرماتے کیا تم چاہتی ہو کہ میں ابن عفراء کی طرح تمہیں دودھ نکال کر دوں؟ (حیاة الصحابہ، ص 564، ج2)
حضرت ابن المسیب سے منقول ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تاجر آدمی تھے۔ روزانہ صبح جا کر خرید و فروخت کرتے۔ ان کا بکریوں کا ایک ریوڑ بھی تھا، جو شام کے وقت ان کے پاس آتا، کبھی اس کو چرانے خود جاتے اور کبھی کوئی اور چرانے جاتا، اپنے محلہ والوں کی بکریوں کا دودھ بھی نکال دیا کرتے۔ جب یہ خلیفہ بنے تو محلہ کی ایک لڑکی نے کہا (اب تو حضرت ابو بکر خلیفہ بن گئے ہیں لہٰذا) ہمارے گھر کی بکریوں کا دودھ اب کوئی نہیں نکالا کرے گا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا نہیں، میری عمر کی قسم! میں آپ لوگوں کے لیے دودھ ضرور نکالا کروں گا اور مجھے امید ہے کہ خلافت کی ذمہ داری جو میں نے اٹھائی ہے یہ مجھے ان اخلاق کریمانہ سے نہیں ہٹائے گی جو پہلے سے مجھ میں ہیں۔ چناں چہ خلافت کے بعد بھی محلہ والوں کے لیے دودھ نکالا کرتے تھے اور بعض دفعہ از راہ مذاق محلہ کی لڑکی سے کہتے اے لڑکی، تم کیسا دودھ نکلوانا چاہتی ہو، جھاگ والا یا بغیر جھاگ کے؟ کبھی وہ کہتی جھاگ والا اور کبھی کہتی بغیر جھاگ والا، بہرحال وہ جیسے کہتی ویسے یہ کرتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوش طبعی
حضرت صالح کمبل فروش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری دادی جان نے یہ بیان کیا کہ میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک درہم کی کھجوریں خریدیں اور انہیں اپنی چادر میں ڈال کر اٹھانے لگے تو میں نے ان سے کہا یا کسی مرد نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کی جگہ میں اٹھا لیتا ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، (میں نے یہ کھجوریں بچوں کے لیے خریدی ہیں، اس لیے) بچوں کا باپ ہی ان کے اٹھانے کا زیادہ حق دار ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی خوش مزاجی
حضرت ہریمؒ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک گدھے پر سوار ہیں، جس کی پیٹھ ننگی ہے اور انہوں نے سنبلان مقام کی بنی ہوئی چھوٹی قمیص سی پہن رکھی تھی، جو نیچے سے تنگ تھی، ان کی پنڈلیاں لمبی تھیں اور ان پر بال بہت تھے، قمیص ان کی اونچی تھی، جو گھٹنوں تک پہنچ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بچے پیچھے سے ان کے گدھے کو بھگا رہے ہیں، میں نے بچوں کو کہا کہ تم امیر سے پرے نہیں ہٹتے؟ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا انہیں چھوڑ دو، اچھے بُرے کا توکل پتہ چل جائے گا۔ (ایضاً، ص 568)
حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ مدائن کے گورنر تھے، ایک دفعہ قبیلہ بنو تیم اللہ کا ایک شامی آدمی آیا، اس کے پاس بھوسے کا ایک گٹھڑ تھا، اسے راستے میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ملے، انہوں نے گھٹنے تک کی شلوار اور چغہ پہن رکھا تھا، اس آدمی نے ان سے کہا لو، میرا یہ گٹھڑ اٹھا لو، وہ آدمی ان کو پہچانتا نہ تھا۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے وہ گٹھڑ اٹھا لیا، جب اور لوگوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو انہوں نے انہیں پہچان لیا اور اس آدمی سے کہا کہ یہ تو ہمارے گورنر ہیں۔ اس آدمی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں اسے تمہارے گھر تک پہنچا دوں گا۔ دوسری سند کی روایت میں ہے کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تمہاری خدمت کی نیت کی ہے، اس لیے جب تک میں اسے تمہارے گھر تک نہیں پہنچاؤں گا، اسے (سر سے اتار کر) نیچے نہیں رکھوں گا۔ (حیاة الصحابہ، ص 568 ج 2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خوش مزاجی
حضرت مکحول ازدی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں مسجد کے کونے میں ایک آدمی کو چھینک آئی تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے (از راہ مزاح) فرمایا: اگر تم نے الحمدللہ کہا تو پھر یرحمک اللہ ۔ (حیاة الصحابہ، ص 508 ج 2 )
بہت ہنسانے اور مسکرانے والے
حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیبیوں میں سے کسی کے ساتھ تنہائی میں ہوتے تھے تو آپ کا برتاؤ (عمل) کیسا ہوتا تھا؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تمہارے مردوں کی طرح ہوتا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ نفیس اور نرم خو، بہت ہنسانے اور مسکرانے والے تھے۔
اثنائے درس میں خوش وقتی اور تفریحی باتیں
حضرات صحابہ اپنی مجلسوں اور حلقوں میں نہایت انبساط ونشاط کے ساتھ تعلیم دیتے تھے، وہ نرے خشک بھی نہیں تھے، بلکہ خوش طبع، خوش خلق اور خوش وقت تھے، اپنے تلامذہ کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے، موقعہ بہ موقعہ تفریحی اور خوش کن باتیں کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ دلوں کو سکون دو اور ان کے لیے حکمت کے لطائف و ظرائف تلاش کرو، جب دل پر جبر کیا جائے گا تو اندھا ہو جائے گا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ جسم کی طرح دل بھی ملول ہوتے ہیں، ان کے لیے حکمت اور لطائف تلاش کرو۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے دل کو کبھی کبھی لغو باتوں سے بہلاتا ہوں تا کہ اس سے حق اور صحیح بات کے بارے میں قوت ملے ۔ (الفقیہ والمتفقہ اور جامع بیان العلم وغیرہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر پنجشنبہ (جمعرات) کو وعظ بیان کرتے تھے، ان کا وعظ بڑا دل نشین اور بہت پُر اثر ہوتا تھا، لوگوں نے ان سے کہا کہ کیا اچھا ہو کہ آپ ہم کو روزانہ وعظ سنایا کریں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کو تم لوگوں کے جمع ہونے کی خبر ملتی ہے، مگر میں تمہاری گھبراہٹ اور اکتاہٹ کو پسند نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے ہم کو ناغہ ناغہ سے وعظ سنایا کرتے تھے۔ (بخاری)
ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اخلاق وعادات بیان کیجیے ، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ہم جب دنیا کی باتیں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ دنیا کی باتیں کرتے اور جب ہم آخرت کی باتیں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ آخرت کی باتیں کرتے اور جب ہم کھانے کی باتیں کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کھانے کی باتیں کرتے، میں یہ تمام باتیں تم لوگوں سے بیان کروں گا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طویل الصمت قلیل الضحک تھے، زیادہ خاموش رہتے اور کم ہنستے تھے۔ بسا اوقات صحابہ آپ کے سامنے اشعار پڑھتے تھے اور اپنی باتیں کر کے ہنستے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما دیتے تھے۔ (الفقیہ والمتفقہ ج 2ص 110 و 111)
ابو خالد دالبی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مجلسوں میں بیٹھا کرتے تھے وہ حضرات آپس میں اشعار سنتے سناتے تھے اور زمانہٴ جاہلیت کی جنگوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ (جامع بیان العلم ج 1 ص 105)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بڑے خوش مزاج اور ظریف الطبع انسان تھے، ان کی مجلس میں اس قسم کی باتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ ابن عباس کی مجلس میں گئے، تو انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھو، آج میری طبیعت میں نشاط وانشراح ہے، سورہٴ بقرہ اور سورہ یوسف کے بارے میں سوال کرو۔(جامع بیان العلم ج 1 ص 115)
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ اپنی مجلسوں اور حلقوں میں بعض اوقات تفریحی باتیں بیان کرتے تھے، جن میں حکمت ودانائی کی باتیں ہوتی تھیں اور طالب علموں کی اکتاہٹ دور کرنے اور ان میں نشاط پیدا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً خوش کن واقعات و اشعار سنایا کرتے تھے۔
حدیث ام زرع
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ گیارہ عورتیں یہ معاہدہ کر کے بیٹھیں کہ اپنے اپنے خاوند کا پورا پورا حال سچا سچا بیان کر دیں گی، کچھ چھپائیں گی نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
(1) ایک عورت ان میں سے بولی کہ میرا خاوند ناکارہ دبلے اونٹ کے گوشت کی طرح ہے (کہ زیادہ مرغوب نہیں ہوتا) اور بایں ہمہ سخت دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو کہ نہ پہاڑ کا راستہ سہل، جس کی وجہ سے وہاں چڑھنا ممکن ہو اور نہ وہ گوشت ایسا کہ اس کی وجہ سے سو (100) دقت اٹھا کر اس کے اتارنے کی کوشش کی جائے اور اس کو اختیار کیا جائے۔
(2) دوسری بولی کہ میں اپنے خاوند کی بات کہوں تو کیا کہوں (اس کے متعلق کچھ ذکر کرنا نہیں چاہتی) مجھے یہ ڈر ہے کہ اس کے عیوب شروع کروں تو خاتمہ کا ذکر نہیں، اگر کہوں تو برا بھلا سب ذکر کروں۔
(3) تیسری بولی کہ میرا خاوند لم ڈھینگ (احمق) ہے، اگر میں کبھی کسی بات میں بول پڑوں تو فوراً اطلاق، اگر چپ رہوں تو ادھر ہی لٹکی رہوں۔
(4) چوتھی نے کہا میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح معتدل المزاج ہے، نہ گرم ہے نہ ٹھنڈا، کسی قسم کا خوف نہ ملال۔
(5) پانچویں نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا بن جاتا ہے اور جب باہر جاتا ہے تو شیر بن جاتا ہے اور جو کچھ گھر میں ہوتا ہے اس کی تحقیقات نہیں کرتا۔
(6) چھٹی بولی کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب نمٹا دیتا ہے اور جب پیتا ہے تو سب چڑھا جاتا ہے، جب لیٹتا ہے تو اکیلا ہی کپڑے میں لیٹ جاتا ہے، میری طرف ہاتھ بھی نہیں بڑھاتا، جس سے میری پراگندگی معلوم ہو سکے۔
(7) ساتویں کہنے لگی کہ میرا خاوند صحبت سے عاجز نامرد، بلکہ اتنا بے وقوف کہ بات بھی نہیں کر سکتا، دنیا میں جو کوئی بیماری کسی میں ہو وہ اس میں موجود ہے، سر پھوڑ دے یا بدن زخمی کر دے یا دونوں ہی کر گزرے۔
(8) آٹھویں نے کہا کہ میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم اور خوش بو میں زعفران کی طرح مہکتا ہوا ہے۔
(9) نویں نے کہا میرا خاوند رفیع الشان، بڑا مہمان نواز، اونچے مکان والا، بڑی راکھ والا ہے، دراز قد والا ہے، اس کا مکان مجلس اور دارالمشورہ کے قریب ہے۔
(10) دسویں نے کہا میرا خاوند مالک ہے، مالک کا کیا حال بیان کروں، وہ ان سب سے جواب تک کسی نے تعریف کی ہے یا ان سب تعریفوں سے جو میں بیان کروں گی، بہت ہی زیادہ قابل تعریف ہے۔ اس کے اونٹ بکثرت ہیں، جو اکثر مکان کے قریب بٹھائے جاتے ہیں، چراگاہ میں چرنے کے لیے کم جاتے ہیں، وہ اونٹ جب باجہ کی آواز سنتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہلاکت کا وقت آگیا۔
(11) گیارہویں عورت ام زرع نے کہا میرا خاوند ابو زرع تھا، ابو زرع کی کیا تعریف کروں؟ زیوروں سے میرے کان جھکا دیے (کھلا کھلا کر) چربی سے میرے بازو پر کردیے، مجھے ایسا خوش وخرم رکھا کہ میں خود پسندی اور عجب میں اپنے آپ کو بھلی لگنے لگی، مجھے ایک ایسے غریب گھرانہ میں پایا جو بڑی تنگی کے ساتھ چند بکریوں پر گزارہ کرتے تھے، وہاں سے ایسے خوش حال خاندان میں لایا جن کے یہاں گھوڑے، اونٹ، کھیتی کے بیل اور کسان (ہر قسم کی ثروت موجود تھی، اس سب کے باوجود اس کی خوش خلقی کہ) میری کسی بات پر برا بھلا نہیں کہتا تھا، میں دن چڑھے تک سوتی تو کوئی جگا نہیں سکتا تھا، کھانے پینے میں ایسی وسعت کہ سیر ہو کر چھوڑ دیتے تھے (اور ختم نہ ہوتا تھا)۔ ابو زرع کی ماں (میری خوش دامن) بھلا اس کی کیا تعریف کروں؟ اس کے بڑے بڑے برتن ہمیشہ بھرپور رہتے تھے، اس کا مکان نہایت وسیع تھا۔ ابو زرع کا بیٹا بھلا اس کا کیا کہنا؟ وہ بھی نور علی نور، ایسا پتلا دبلا چھریرے بدن کا کہ اس کے سونے کا حصہ (یعنی پسلی وغیرہ) ستی ہوئی ٹہنی یا ستی ہوئی تلوار کی طرح سے باریک۔ بکری کے بچہ کا ایک دست اس کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی۔ ابو زرع کی بیٹی بھلا اس کی کیا بات؟ ماں کی تابع دار، باپ کی فرماں بردار، موٹی تازی سوکن کی جان تھی۔ ابوزرع کی باندی کا کمال کہ ہمارے گھر کی بات کبھی بھی باہر جا کر نہ کہے، کھانے تک کی چیز بے اجازت خرچ نہیں کرتی، گھر میں کوڑا کباڑ نہیں ہونے دیتی، صاف و شفاف رکھتی ہے۔ ہماری یہی حالت تھی کہ ایک دن صبح کے وقت جب کہ دودھ کے برتن بلوئے جا رہے تھے، ابو زرع گھر سے نکلا، راستہ میں ایک عورت پڑی ہوئی ملی، جس کے کمر کے نیچے چیتے جیسے دو بچے اناروں سے کھیل رہے ہوں، پس وہ کچھ ایسی پسند آئی کہ مجھے طلاق دے دی اور اس سے نکاح کر لیا، اس کے بعد میں نے ایک اور سردار شریف آدمی سے نکاح کر لیا، جو شہسوار ہے اور سپہ گر۔ اس نے مجھے بڑی نعمتیں دیں اور ہر قسم کے جانور اونٹ، گائے، بکری وغیرہ وغیرہ سے ایک ایک جوڑا مجھے دیا اور یہ بھی کہا کہ ام زرع خود بھی کھا اور اپنے میکہ میں جو چاہے بھیج۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی ساری عطاؤں کو جمع کروں تب بھی ابوزرع کی چھوٹی سی چھوٹی عطا کے برابر نہیں ہوسکتی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قصہ سنا کر مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میں بھی تیرے لیے ایسا ہی ہوں، جیسا کہ ابوزرع ام زرع کے واسطے۔
(ف) اس کے بعد اور احادیث میں یہ بھی آتا ہے مگر میں تجھے طلاق نہیں دوں گا۔ طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر فرمایا کہ حضرت ابوزرع کی کیا حقیقت؟ آپ میرے لیے اس سے بہت زیادہ بڑھ کر ہیں۔ حق تعالیٰ جل شانہ ہر مسلم زوجین کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع بھی نصیب فرما دیں کہ یہ عفت کا باعث ہوتا ہے۔ آمین۔ (خصائل شرح شمائل ص 135)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات مزاح کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ حدیث ام زرع بھی نقل کر دی جائے کہ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح میں سے ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے:
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ، خوش طبعی اور حسن اخلاق میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام زرع کی طویل بات کا سنانا بھی ہے“۔ (تاریخ ابن کثیر ص 688 ج 6)