صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے کامل الایمان ہونے کی وجہ

idara letterhead universal2c

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے کامل الایمان ہونے کی وجہ

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی زندگی اور دل ودماغ میں جو خاص تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود تھا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان حضرات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی اور اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں جو تأثیر رکھی ہے وہ کسی اور کی صحبت میں نہیں، لیکن اس صحبت کا اثر اس پر ہوتا ہے جو طالب ہوتا ہے، معاند پر اثر نہیں ہوتا، بقول علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ: ”صحابہ رضی اللہ عنہم قابلِ کامل تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاعلِ کامل تھے، اس لیے ان کا ایمان بہت قوی تھا۔ ﴿اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُوٴْمِنُوْنَ حَقاًّ﴾ (سورة الانفال: ۴) ترجمہ: یہ لوگ سچے ایمان والے تھے“۔

وہ کامل ایمان والے تھے اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق اس کے لوازمات میں سے ہے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے یہ نعمت نصیب ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ ان کے ہاں جنت کے تذکرے ہوتے رہتے تھے، اسی طرح دوزخ کا ذکر، موت کی یاد اور قرآن کی تدبر وتفکر کے ساتھ تلاوت، خشوع وخضوع کے ساتھ نماز، یہ سب اثر تھا اسی ایمانِ کامل کا اور یہ فیض تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) تمام کے تمام کامل الایمان تھے۔ جیسا کہ تمام انبیاء کامل الایمان تھے۔

پھر ان میں فرقِ مراتب ہے، جیسے انبیاء میں فرق مراتب ہے، اسی ایمانِ کامل کی وجہ سے صحابہ کرام کو صوفیا کے مجاہدات کی ضرورت نہیں پڑی، پھر تابعین کے دور میں چوں کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم موجود تھے ان کے صحبت کا اثر تابعین میں بھی آیا۔

تبع تابعین کے دور سے انحطاط شروع ہوا، یعنی تابعین کے دور جیسی بات نہ رہی، پھر تبع تابعین کے بعد ایمان وعمل کی کم زوری میں اضافہ ہی ہوتا رہا تو اولیاء اللہ نے اس کے حصول کے لیے خاص خاص مجاہدات تجویز کیے اور طریقے بتائے، تاکہ اللہ تعالیٰ سے ارتباطِ خصوصی پیدا ہو جائے، ایسے لوگ بہت کم کم اور خال خال ہوتے ہیں جن کو ان مجاہدات کی ضرورت نہیں ہوتی۔

میں نے سنا ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرمایا کہ انہیں ضرورت نہیں کہ صوفیاء کے اشغال اور طریقے اختیار کریں، اللہ تعالیٰ نے ان کو روحانی ترقی کے لیے فطری صلاحیت عطا کی ہے، لیکن اس طرح کے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔

مجالس علم و ذکر سے متعلق