مولاناسید ابوالحسن ندویفرماتے ہیں کہ ”اس حکایت کو سننے سے پہلے یاد رکھو کہ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب قدس سرہ حضرت سید احمد صاحب کو ان کے ابتدائے وقت سے ”میرصاحب“ کہا کرتے تھے اور حضرت مولانا عبدالحئی صاحب اور ہم سب معتقد لوگ ”میاں صاحب“ کہا کرتے تھے اور مولانا عبدالحی مولانامحمد اسماعیل کو میاں محمد اسماعیل کہا کرتے تھے، چوں کہ اس حکایت کو ہم لفظ بلفظ بیان کریں گے اور یہ الفاظ اس میں آئیں گے اس واسطے ان الفاظ کے یادرکھنے کو کہا اب وہ حکایت سنو۔
ایک روز اس عاجز مسکین نے حضرت عالم ربانی مولانا عبد الحئی سے عرض کیا کہ آپ جو اس قدر میاں صاحب سے اعتقاد رکھتے ہیں اور روپے پیسے کپڑے وغیرہ دنیاوی چیزوں کو چھوڑ کر میاں صاحب کی صحبت اختیار کیے ہیں اور آپ کے بدن پر جو کپڑا ہے اس کے سوا آپ کے پاس کہیں کپڑا بھی نہیں اور آپ جب میاں صاحب کے رو برو بات کرتے ہیں، تو تر ساں ولرزاں رہا کرتے ہیں، تو واللہ! آپ ہم سے سچ بیان کیجیے کہ آپ نے میاں صاحب سے کیا پایا جو اپنا حال ایسا بنایا؟!
مولانا نے فرمایا کہ ان شاء اللہ میں سچ بیان کروں گا ، سنو میرا یہ حال تھا کہ میں سلوک الی اللہ اورمشاہدہ حاصل کرنے کا بڑا مشتاق تھا ، تب میں نے مولانا شاہ عبد العزیز قدس سرہ سے عرض کیا کہ مجھ کو آپ سلوک الی اللہ کی تعلیم کیجیے اور اس سے قبل میں بہت ہندی اور ولایتی مرشدوں سے توجہ لے چکاتھا ،مگر میرا مقصود حاصل نہ ہوا تھا، تب آپ نے مجھ کو حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کے پاس بھیجا ،وہاں بھی چند روز توجہ لیتا رہا، مگر میرا مقصد حاصل نہ ہوا، تب میں نے حضرت مولانا سے پھر عرض کیا کہ یہخادم حضور کی توجہ کا محتاج ہے اور حضور دوسرے مقام میں بھیجتے ہیں، ہم کو آپ خود تعلیم کیجیے۔ تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں بہت بڈھا اورکم زور ہوں اور مجھ میں بہت دیر بیٹھنے کی طاقت نہیں ، یہ مقصد تمہارا میر احمد صاحب سے حل ہو گا، تم ان سے بیعت کرو، تب آن جناب کا یہ فرمانا مجھ کو بہت شاق گذرا اور میں ناراض ہو کر چپ رہا، پھر کئی بار اور بھی عرض کیا وہی جواب پایا۔
چند روز کے بعد یہ واقعہ در پیش ہوا کہ میں اور حضرت میاں صاحب اور میاں محمد اسماعیل مدرسے کے ایک ہی مکان میں رہا کرتے تھے، ایک شب کو بعد عشاء کے جب ہم تینوں شخص پلنگوں پر سوئے تب میاں صاحب نے فرمایا کہ:
”مولانا مجھ کو حضرت رب العالمین نے محض اپنے فضل وکرم سے بطور الہام کے خبر دی ہے کہ فلانی تاریخ فلانے سفر میں تو جائے گا، فلانے مقام میں یہ ہوگا ، فلا نے مقام میں وہ ہوگا اور اس قدر لوگ مرید ہوں گے“۔
وعلی ہذاالقیاس سب باتیں بیان کیں، پھر دوسرے روز بھی ایسی ہی عجیب و غریب باتیں بیان کیں، اسی طرح سے کئی روز تک مکہ معظمہ کے سفر اور جہاد کے سفر اور جہاد کے واقعات کا بیان بہ تفصیل تمام فرمایا۔
تب ہم نے اور میاں محمد اسماعیل نے مشورہ کیا کہ اگر یہ سب باتیں سچ بیان کرتے ہیں تو بلا شبہ بہت بڑے شخص اور قطب ہیں، ان سے کچھ فیض لینا بہت ضروری ہے، سو آؤ کسی بات میں ان کا امتحان لیں۔ میاں محمد اسماعیل نے کہا کہ آپ ہم سے بڑے ہیں، آپ ہی تجویز کر کے کسی بات میں امتحان لیجیے ، آخر کو جب پھر رات کو میاں صاحب نے پکارا کہ مولانا! ہم نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی بزرگی میں کچھ شبہ نہیں ، مگر ہمیں ان سب باتوں سے کیا فائدہ؟ کچھ ہم کو عنایت کیجیے۔ فرمایا کہ مولانا کیا مانگتے ہو؟ ہم نے کہا حضرت! ہم یہی مانگتے ہیں کہ جیسی نماز صحابہ کرام ادا کرتے تھے، ویسے ہی دور کعت ہم سے ادا ہو، یہ کہا اور میاں صاحب یک بارگی خاموش ہو گئے اور اس روز پھر کچھ نہ بولے، تب ہم لوگوں سے فقط یہ زبانی با تیں تھیں، اصل باتوں سے ان کو کچھ علاقہ نہیں، مگر ہمیشہ کی دوستی محبت کی مروت سے ہم لوگ کچھ نہ بولے کہ اب شرمندہ کرنا کیا ضرور اور چپ ہو کے سور ہے۔
پھر آدھی رات کے کچھ قبل حضرت میاں صاحب نے پکارا: مولانا! اس پکارنے سے مجھ کوشعریرہ ہوا اور بدن پر روئیں کھڑے ہو گئے اور اس جناب سے مجھ کو بڑا اعتقاد آ گیا، تب میں نے جواب میں کہا:”حضرت“ تب فرمایا کہ” جاؤ اس وقت اللہ کے واسطے وضو کرو“ تب میرے بدن پر تشعریرہ ہوا اورمیں نے کہا کہ بہت خوب اور تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا:”مولانا سن لو!“ میں دوبارہ حضرت کے پاس حاضر ہوا فرمایا ”تم نے خوب سمجھا ، میں نے کیا کہا ؟ میں نے کہا کہ اللہ کے واسطے وضو کرو“ پھر میں نے کہا،بہت خوب اور چلا دو تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا اور اسی طرح فرمایا اسی طرح تین بار کیا اور تیسری بار جاکے وضو کرنے لگا تو ایسا حضور دل اور حق سبحانہ کے خوف سے میں نے ادب کے ساتھ وضو کیا کہ ایسا وضوکبھی نہ کیا تھا، پھر وضو کر کے حضرت کے حضور میں حاضر ہوا، فرمایا کہ:جاؤ اللہ رب العالمین کے واسطے اس وقت دورکعت نماز پڑھو ،تب میرے بدن پر تشعریرہ ہوا اور نماز کے واسطے چلا۔
دو تین قدم چلا تھا کہ پھر پکارا اور میں حضور میں حاضر ہوا، فرمایا کہ تم نے خوب سمجھایا نہیں ؟ میں نے کہا کہ جاؤ، اس وقت اللہ رب العالمین کے واسطے دورکعت نماز پڑھو۔ میں نے کہا: ”بہت خوب!“ اورنماز کے واسطے چلا، پھر تیسری بار بلایا اور ویساہی سمجھا دیا، جب میں نے ایک گوشے میں نماز شروع کی تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی ایسا مشاہدہ جلال میں غرق ہوا کہ ہوش ہی باقی نہ رہا اور اس قدر رویا کہآنسو سے داڑھی تر ہو گئی اور اس قدر نماز میں غرق ہو گیا کہ دنیا کی یاد مطلق نہ باقی رہی اور نہایت خوف اور لذت کے ساتھ میں نے دو رکعت نماز پڑھی۔
اب دو رکعت پڑھی تو خیال کیا کہ میں نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی تھی ، پھر سلام پھیر کے دوبارہ نیت کی، دوسری بار دو رکعت پڑھی۔ جب پڑھ چکا تو خیال کیا کہ فاتحہ میں سورة کو ضم نہ کیا تھا، پھر شروع کیا اسی طرح ہر بار ایک ایک واجب کے ترک کرنے کا خیال آتا تھا اور نماز کو ناقص سمجھ کر دہراتا تھا، واللہ اعلم، سو رکعت یا زیادہ کم پڑھی ہوگی کہ صبح صادق کا وقت قریب ہوا، پھر آخر کو نا چار ہو کے سلام پھیرا اوربہت شرمندہ ہوا کہ میری استعداد اس طرح کی ناقص ہے کہ دو رکعت پوری بھی حضور دل کے ساتھ نہ پڑھ سکا اور اتنے بڑے کامل شیخ کو میں نے آزمایا، اب اگر وہ پوچھیں کہ تم نے دور کعت اللہ کے واسطے پڑھی تو میں کیا جواب دوں گا ؟ میں تو حضور دل کے ساتھ جیسا کہ حق نماز پڑھنے کا ہے ویسے دورکعت بھی نہ پڑھ سکا ، اسی سوچ میں شرم کے دریا میں غرق ہو گیا اور اپنے قصور کا معترف ہو کے اللہ سبحانہ کے خوف سے استغفر اللہ استغفر اللہ کہنا شروع کیا۔
جب اذان ہوئی تب مجھ کو ہوش آیا اور یاد پڑا کہ صحابہ کرام کا یہی حال تھا کہ تمام رات عبادت کرتے اور پچھلی رات استغفار کرتے تھے، ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”والمستغفرین بالاسحار“اور سوچا کہ بلا شبہ یہ بڑے کامل مرشد ہیں کہ ان کے کلام سے میرا مقصد پورا ہوا اور جونعمت مدت دراز کی محنت سے حاصل نہ ہوئی تھی سوان کے ایک دم کے فرمانے سے حاصل ہوئی، پھر میں مسجد گیا اور قبل نماز فجر کے میں نے حضرت میاں صاحب سے بیعت کی اور صبح کی نماز کے بعد محمدمیاں اسماعیل سے میں نے رات کا قصہ پورا بیان کیا، کیوں کہ وہ مجھ کو صادق جانتے تھے، انھوں نے بھی حضرت صاحب سے بیعت کی۔
پھر میں دن کو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز کے پاس گیا اور رات کا قصہ بیان کیا اور اپنے بیعت کرنے کا بیان کیا، آپ نے فرمایا:”بارک اللہ بارک اللہ!خوب کیا !میں تم سے اسی واسطے کہا کرتا تھا،کیوں میاں ،تم نے میر صاحب کا کمال دیکھا ؟ “تب میں نے عرض کیا کہ” حضرت! میں نے بہت درویشوں کی خدمت کی اور بہت طریقوں کے موافق میں نے شغل اور مراقبہ کیا، میرا مقصد کبھی نہ حاصل ہوا، حضرت سید صاحب نے ایک بات زبان سے کہہ دی اور میں اپنا دلی مقصد پا گیا ۔حضرت یہ کون سا طریقہ کہلاتا ہے؟ فرمایا میاں! ایسے لوگ کسی طریقے کے محتاج نہیں ہوتے ، ایسے لوگ جوزبان سے کہیں وہی طریقہ ہے، ایسے لوگ خود صاحب طریقہ ہوتے ہیں“۔حضرت مولانا کے فرمانے سے اور بھی زیادہ مجھ کو حضرت میاں صاحب کے مرشد طریقت ہونے کا یقین ہوا اور میرا اعتقاد اور بھی زیادہ ہوا۔
اہمیت نماز پر صوفیائے کرام کے اقوال
…حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں ہر صوبہ کے افسران کو ایک خط میں ترغیب نماز پر لکھا کہ:”ان اہم امورکم عندی الصلوة، من حفظہا او حافظ علیہا حفظ دینہ، ومن ضیعہا فہو لما سواہا اضیع․“ (مؤطا ومرقاة)
میرے نزدیک تمہارے کاموں میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری نماز ہے ،جس نے نماز کی حفاظت کر لی ، اس نے پورے دین کی حفاظت کر لی اور جس نے نماز کو ضائع کر دیا تو وہ دین کے دیگر کاموں کو تو بہت زیادہ بر باد کرے گا۔
∗…جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو ظاہری وضو کرتا ہوں اور باطنی وضو کرتا ہوں ،ظاہری وضو پانی سے کرتا ہوں اور باطنی وضو تو بہ سے کرتا ہوں۔ ( حضرت حاتم اصم )
∗…حضرت عروة الوثقی فرماتے ہیں کہ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ کی رویت نہیں ہو سکتی ہے ،البتہ رویت کی مثل ممکن ہے اور وہ نماز میں ہے۔ (ارشاد الطالبین )
∗…ایک دوسرے عالم کا فرمان ہے:
”نمازی لوگ اللہ کی زمین پر اس کے خدام (عبادت کرنے والے ) ہیں۔“
∗… مشائخ فرماتے ہیں کہ:
”آسمانوں میں نماز پڑھنے والے فرشتوں کو خادم الرحمن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور وہ فرشتے اس وجہ سے تمام مرسلین فرشتوں پر فخر کرتے ہیں ۔“
∗…جب ایک مؤمن دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو فرشتوں کی دس قطاریں اس پر تعجب کرتی ہیں اور ہر قطار میں دس ہزار فرشتے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایک لاکھ فرشتوں پر اس کے ساتھ فخر کرتا ہے۔ (قوت القلوب)
∗…جو کوئی نماز نہ پڑھے گا وہ شخص کتنی ہی عبادت اور نیکی اور خیرات اور عمل صالح کرے ، اس کا نفس کبھی بھی نہ بنے گا۔ (حضرت مولانا علی کرامت علی جون پوری )
جماعت کے فوت ہونے پر افسوس
∗…کہتے ہیں کہ حاتم کی ایک دفعہ جماعت فوت ہوگئی، بعض احباب تعزیت کرنے لگے تو رو کر کے کہا اگر میرا ایک بیٹا فوت ہو جاتا تو آدھا بلخ میری تعزیت کو آتا اور آج میری جماعت فوت ہو گئی احباب میں سے چند ایک نے ہی تعزیت کی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اگر بیٹے سب فوت ہو جاتے تو مجھے اتنا صدمہ نہ ہوتا جو ایک جماعت کے فوت ہونے سے ہوا ہے۔(تنبیہ الغافلین )
∗…نماز کا دنیا میں وہ مقام ہے جو آخرت میں دیدار الہی کا ہے۔
اب آپ ہی خود سمجھ لیجیے کہ اپنی نمازوں کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کی ہمیں کتنی فکر اور کوشش کرنی چاہیے۔ (دین شریعت )
∗…ایک نمازی کا فرمان ہے:
”نماز آخرت کی چیز ہے، جب میں نماز میں داخل ہوتا ہوں تو دنیا سے نکل جاتا ہوں“۔
∗…ایک بزرگ سے پوچھا گیا:
کیا نماز میں آپ کو کوئی چیز یاد آتی ہے؟
فرمایا!کیا نماز سے بھی کوئی محبوب تر چیز ہو سکتی ہے جو یاد آئے ؟
∗…حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ فرمایا کرتے:
”آدمی کی سمجھ داری یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اپنی ضروریات پوری کرے، تاکہ جب نماز شروع کرے تو اس کا دل ہر چیز سے فارغ ہو“۔
∗…روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر نے نماز پڑھی اور مختصر سی نماز ادا کی ،ان سے پوچھا گیا:اے ابوالیقظان (بیدار رہنے والے ) آپ نے اس قدر ہلکی پھلکی نماز پڑھی ؟“
فرمایا:”کیا تم نے دیکھا کہ میں نے حدود نماز میں کچھ بھی کمی کی؟“
انھوں نے عرض کیا:”نہیں“
فرمایا میں نے جلدی کر کے شیطانی سہو ووسوسہ کو پیچھے ڈال دیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بندہ جو نماز بھی پڑھتا ہے (اس میں سے ) اس کے لیے نہ تہائی نماز لکھی جاتی ہے، نہ نصف لکھی جاتی ہے، نہ چوتھائی،نہ پانچواں حصہ، نہ چھٹا حصہ اور نہ دسواں حصہ نماز لکھی جاتی ہے“۔
اور فرمایا کرتے:
”بندے کی نماز صرف اسی قدر لکھی جاتی ہے جو اس نے سمجھی“
صرف وہی نماز قبول ہے جو اس نے سمجھی
∗…امام عبدالواحد بن زید نے بھی یہی بتایا اور فرمایا کہ اس پر اجماع ہے اور فرمایا:
”علماء کا اس پر اجماع ہے کہ بندے کے لیے نماز صرف وہی ہے جو اس نے سمجھی“۔
∗…اور حضرت حسن نے فرمایا:
”جس نماز میں تیرا قلب حاضر نہ ہو وہ ثواب کی جانب کے مقابلہ میں سزا کی جانب زیادہ تیزی (سے لے جاتی ہے)۔(قوت القلوب)
∗…فرمایا: حضرت حاجی صاحب نے فرمایا: اگر ایک حاضری میں بادشاہ ناراض ہو جائے تو کیا دوسری با ر وہ دربار میں گھسنے دے گا؟ ہر گز نہیں، بس جب تم ایک مرتبہ نماز کے لیے مسجد آ گئے اس کے بعد پھر توفیق ہوئی تو سمجھ لو کہ پہلی نماز مقبول ہوگئی اور تم مقبول ہو۔ (مجالس مفتی اعظم )