نام ونسب اور سن پیدائش
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی، شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی کے خاندان میں تقریبًا 1143ئھ میں پیدا ہوئے، سلسلہٴ نسب سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے، یہ خاندان ہمیشہ علم وفضل کا گہوارہ رہا اور اس خاندان میں یکے بعد دیگرے بہت سے افراد زینت آراء منصبِ قضا رہے، جیسا کہ خود قاضی صاحب نے لکھا ہے: ”فقیر وبرادر فقیر وپدر فقیر وجد فقیر بخدمت قضا مبتلا شدند“۔
تحصیل علوم
قاضی صاحب پر آغاز زندگی ہی سے وہ آثار نمایاں تھے جو ان کے علم وفضل کا پتہ دے رہے تھے، ذہانت وذکاوت، قوت فکر، سلامتی عقل میں قدرت نے آپ کو غیر معمولی حصہ عطا فرمایا تھا … چناں چہ آپ نے صرف سات سال کی عمر میں قرآن پاک سینہ میں محفوظ کیا اور سولہ سال کی عمر میں قاضی صاحب تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کے عالم باعمل تھے، آپ نے حدیث کی تکمیل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے کی تھی۔
مطالعہٴ کتب
صرف یہی نہیں کہ درسی کتابوں سے فراغت حاصل کر لی بلکہ طالب علمی کے زمانہ ہی میں کتب درسیہ کے علاوہ محقق مصنفین کی تقریبا ساڑھے تین سو خارجی کتابوں کا مطالعہ بھی فرمالیا۔
تحصیل علوم باطنی
علوم ظاہری کی تحصیل سے فراغت کے بعد باطنی علوم کی طرف توجہ فرمائی اور ابتداء ً شیخ محمد عابد سنانی سے بیعت سلوک کی اور انہوں نے اگر چہ جلد ہی سلوک کے تمام مراحل پچاس توجہ میں طے کرادیے اور فناء قلب کے درجہ سے شرف بقا لیا، تاہم علوم ابھی تشنہٴ تکمیل تھے کہ شیخ موصوف کی وفات ہوگئی، قدرت ایسے طالبانِ حق کی تشنگی کب برداشت کرتی ہے، مرزا جان جاناں حبیب اللہ مظہری شہید کا چشمہٴ فیض طالبان حق کے لیے چشمہٴ حیوان بنا ہوا تھا، قدرت نے اس کی طرف قاضی صاحب کی رہ نمائی کی اور قاضئ صاحب اس شیخ وقت کے دربار میں حاضر ہو کر آخری مقامات طریقہ نقشبندیہ مجددیہ تک پہنچ گئے، قاضئ صاحب کی تفسیر مظہری اس تعلق کی آئینہ دار ہے، منامات مبارکہ میں شیخ عبد القادر جیلانی اور اپنے جد امجد شیخ جلال الدین عثمانی سے بھی روحانی تربیت وبشارات ملیں۔
جلالت شان وعلو مقام
ایک طرف صلاحیت کے ساتھ طلب صادق، دوسری طرف شیخ وقت کی توجہ کامل، اب مراتب کا اندازہ وہی اصحاب باطن لگا سکتے ہیں جن کا نفس مطمئنہ خود عالم ملکوتی کی سیر کا شہباز رہا ہو، ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ خود شیخ نے قاضی صاحب کو ”علم الہُدیٰ“ کا لقب عنایت فرمایا اور شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی نے آپ کو ”بیہقی وقت“ قرار دیا، مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میرے دل میں ثناء اللہ کی بڑی ہیبت ہے، اس میں ملکوتی صفات ہیں، فرشتے اس کی تعظیم کرتے ہیں، قیامت کے دن اگر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا سے کیا تحفہ لایا تو میں ثناء اللہ کو پیش کر دوں گا۔
طاعت وزہد وخدمتِ خلق
آپ کا بیشتر وقت طاعت وعبادت اور یاد خداوندی میں گزرتا، روزانہ سو رکعت نماز اور ایک منزل تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا معمول تھا، پوری عمر عہدہٴ قضاء کی مصروفیتوں کے ساتھ ظاہری وباطنی علوم کی نشر واشاعت میں صرف کرتے اور خلق خدا کو فیض پہنچاتے رہے، چناں چہ پیر محمد اور سید محمد وغیرہ نے سلوک وطریقت میں آپ سے تکمیل کی۔
تصنیفات وتالیفات
تیس کے لگ بھگ ہیں، جن میں سے فقہ میں ایک نہایت مفصل ومبسوط کتاب ہے جس میں ہر مسئلہ کے ماخذ ودلائل اور مختاراتِ ائمہ اربعہ جمع کیے ہیں، نیز جو مسئلہ آپ کے نزدیک زیادہ قوی ہوا اس کو ایک مستقل رسالہ میں ”الاخذ بالاقویٰ“
کے نام سے جمع کیا ہے، دیگر تصنیفات یہ ہیں:
(3) تفسیر مظہری: نہایت عمدہ کتاب ہے، جس میں قدیم مفسرین کے اقوال اور جدید تاویلات اور فقہی مسائل کا استنباط کیا ہے، ندوة المصنفین دہلی سے دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ (4) ما لا بد منہ: یعنی وہ چیز جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ فن فقہ میں فارسی زبان میں ہے اور چوں کہ اس کتاب کے مسائل ہر مسلمان کے لیے جاننا ضروری ہیں، اس لیے مصنف نے اس کتاب کا یہ نام رکھا ہے، یہ کتاب تمام مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہے۔ (5) السیف المسلول: یہ شیعہ کے رد میں ہے۔ (6) ارشاد الطالبین: سلوک میں ہے۔ (7) تذکرة الموتٰی والقبور (8) تذکرة المعاد (9) حقوق الاسلام (10) الشہاب الثاقب (11) رسالہ در حرمت متعہ (12) رسالہ در حرمت واباحت سرود (13) وصیت نامہ وغیرہ۔
وفات
1225ئھ میں آپ کی روح واصل بحق ہوئی اور آپ کا جسم ہمیشہ کے لیے پانی پت کی پاک سر زمین کے سپرد کر دیا گیا، ”فَہُمْ مُکْرمُونَ فِي جَنّٰتِ النَّعِیْم“
وفات کا تاریخ مادہ ہے۔
با برکت کفن
کسی متبرک کپڑے میں کفن دینا سنت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر صاحب زادی زینب رضی اللہ عنہا کے کفن میں ڈلوائی تھی، اسی کے پیش نظر قاضی صاحب نے وصیت کی تھی کہ جو چادر اور رضائی حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ کی عطا کردہ ہے اس کو میرے کفن میں شامل کیا جائے۔
الباقیات الصالحات
آپ کے تین صاحب زادے تھے (1) احمد اللہ، یہ آپ کے بڑے صاحب زادے تھے، جو بہت بڑے عالم تھے اور قاضی صاحب کی حیات ہی میں وفات پاگئے تھے، قاضی صاحب نے وصیت نامہ میں ان کے متعلق لکھا ہے ”در خاندان فقیر ہمیشہ علماء شدہ آمدہ اند کہ در ہر عصر ممتاز بودند واز فرزندان فقیر احمد اللہ این دولت رسانیدہ بود، خدایش بیا مرزد رحلت کرد“۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پسر قابلِ میراث پدر کیوں کر ہو؟
(2) کلیم اللہ (3) دلیل اللہ۔ یہ قاضی صاحب کے چھوٹے بیٹے تھے۔