شیخ اسماعیل ہنیہ شہید 

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید 

مولانامحمد اعجاز مصطفی

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم ، بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکریٹری، فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور اسلامی مزاحمتی رہ نماؤں میں سے ایک تھے، جو فلسطین کو صہیونی قبضے سے آزاد کرانے کی تگ و دو میں رہتے تھے، نیز شیخ احمد یاسین شہید کے دفتر کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔ انہیں31/جولائی2024ء کو ایران کے دارالخلافہ تہران میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایران کے صدر مسعود زشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے، ایران آئے ہوئے تھے ، کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ان کی اقامت گاہ کو نشانہ بنایا گیا ، جس میں وہ اپنے ایک محافظ سمیت شہید ہو گئے۔ انہیں بجا طور پر ”فلسطینی مزاحمت کی علامت“ اور ”شہید قدس“ کا لقب دیا گیا ہے۔

شیخ ہنیہ کا تعلق غزہ شہر کے ساحل پر واقع پناہ گزین کیمپ سے تھا، جہاں وہ ایک پناہ گزین خاندان میں1962ء میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اسماعیل ہنیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اسماعیل ہنیہ نے غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور دوران طالب علمی اسلامی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے، جو بعد میں حماس کی صورت میں سامنے آئی۔ 1987ء میں اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی انتفاضہ (انقلاب) کے دوران ہنیہ فلسطینی نو جوانوں کے احتجاج میں شامل رہے اور اسی دوران حماس کی بنیاد رکھی گئی ۔ آپ نے ایک انٹرویو میں اپنے بارے میں یوں روشنی ڈالی ہے:

”میرے والد صوفیا میں سے تھے ، وہ شیخ طریقت تھے ، ان کے پاس مشائخ آتے تھے اور وہ ذکر کی مجالس قائم کرتے تھے۔ میں اس ماحول میں پلا بڑھا ، ہمارے گھر کے قریب ہی خانقاہ ہوا کرتی تھی ، وہاں میرے والد صاحب مجالس قائم کرتے تھے ، میں ان مجالس ذکر کو دیکھا کرتا تھا ، تعزیتی مجلسیں ہوتی تھیں، ان میں تین دن تک قرآن کریم پڑھا جاتا تھا، میں بھی بعض مجالس میں قرآن کریم پڑھتا تھا، تعزیتی مجلسوں میں شریک ہوتا تھا، خاص طور پر اس وقت جب میں کچھ بڑا ہو گیا تھا، ستر کی دہائی کے آغاز میں۔ نیز میرے والد محترم مسجد کے مؤذن تھے ، مسجد ہمارے گھر سے قریب تھی ، وہ نماز فجر کی اذان کا اہتمام کرتے تھے، میری عمر تقریباً چھ سال تھی ، وہ روزانہ مجھے جگاتے تھے، میں ان کے لیے چراغ لے کر جاتا تھا، کیوں کہ اس وقت مسجد اور راستوں میں بجلی نہیں ہوتی تھی ، میں جا کر مسجد کے دروازے کھولتا ، وہ اذان دیتے، پھر میں ان کے ساتھ نماز ادا کرتا ۔ میرے بننے میں ، میرے افکار تشکیل پانے میں، میرے نفس کو دین اور شعائر اسلام کے قریب کرنے میں، حتی کہ صوفیت کے قریب کرنے میں یہ پہلی تربیت تھی، جو مجھ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئی “۔

اسماعیل ہنیہ شہید کئی دفعہ اسرائیل کے توسط سے گرفتار ہوئے اور 1989ء میں تین سال تک انہیں قیدخانے میں رکھا گیا۔1992 ء میں انہیں حماس اور تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے کئی سرگرم کارکنوں کے ساتھ ایک سال کے لیے لبنان کے جنوب میں مرج الزہور نامی جگہ پر جلا وطن کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ شہید نے6/مئی2017ء کو خالد مشعل کے بعد حماس کی سیاسی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے وہ 2006ء میں فلسطین کے عام انتخابات میں کام یاب ہو کر فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، تاہم جون 2007ء میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا۔ ہنیہ کو امریکا نے2018ء میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔ اپنی عمر کے آخری سالوں میں وہ قطر میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اسماعیل ہنیہ شہید اپنی جدو جہد اورسیاسی سرگرمیوں کے دوران مزاحمتی بلاک کے راہ نماؤں کے ساتھ تعاون اور رابطے میں رہے۔

اسماعیل ہنیہ شہید کے چند جملے

”ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم تسلیم نہیں کریں گے، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔“

” خدائے واحد کے حکم سے قلعے نہ گریں گے، نہ قلعے ٹوٹیں گے اور نہ عہدوں کو ہم سے چھین لیا جائے گا۔“

” ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں ۔“

اسماعیل ہنیہ کا قتل حماس کے لیے ایک بڑا نقصان ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ماضی میں بھی حماس کے راہ نماؤں کو قتل کیا جاتا رہا ہے ، جس نے فلسطینی مزاحمت کو کم زور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔اسماعیل ہنیہ کی زندگی فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کی جدو جہد کے لیے وقف تھی اور ان کا نام فلسطینی تحریک کے اہم راہ نماؤں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ 6/مئی2017 ء کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوری نے سیاسی شعبے کاسر براہ منتخب کیا۔

اسماعیل ہنیہ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی اور ان کے 13بچے تھے ، جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے اور چار پوتے ، پوتیاں 10اپریل2024ء کو غزہ کی پٹی پر عید کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے تھے ۔ حماس سے منسلک میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے بیٹے ایک گاڑی میں سفر کر رہے تھے، جب غزہ کی پٹی میں ایک کیمپ کے قریب انھیں نشانہ بنایا گیا۔ اسماعیل ہنیہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ: اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ان کی شہادت پر دنیا کے مختلف سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں اورتنظیموں کا رد عمل سامنے آیا اور مختلف اسلامی ممالک میں ان کے قتل کے خلاف مظاہرے کیے گئے ۔ ان کی پہلی نماز جنازہ تہران میں ادا کی گئی، جس میں کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ دوسرے روز ان کا جسد خاکی قطر لے جایا گیا، جہاں مسجد محمد بن عبدالوہاب میں ان کی دوسری نماز جنازہ کے بعد انہیں سپردخاک کیا گیا۔

ہم جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو جہاد فلسطین کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ سمجھتے ہیں ، اُن کے ورثاء اور لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی شہادت کی برکت سے ارض فلسطین کو آزادی نصیب فرمائے ، قبلہ اول کو صہیونیوں کے قبضے سے آزاد فرمائے اور مجاہدین فلسطین کو کام یاب و کام ران فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین!