اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے،اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں اورانعامات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہر وقت شکر بجا لائیں اوراپنی زندگی میں اس کی عادت کو اپنائیں،شکر کی حقیقت یہ ہے کہ احسان کرنے والے کے احسان و نعمت کا اعتراف اور اس نعمت کو اس کی فرماں برداری میں استعمال کرنا ہے اورپوشیدہ اور ظاہری طور پر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرماں برداری میں سخت کوشش و محنت کرنا اور ناشکری یہ ہے کہ اس کے انعام کو اس کی نافرمانی میں استعمال کرنا۔
چناں چہ ارشاد باری ہے :
سو تم مجھے یاد کیا کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔(البقرة:2/152)
دوسری جگہ ارشادباری ہے:
اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اورایمان لے آؤ؟ اور اللہ (ہر حق کا) قدرشناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔(النساء :4/147)
ایک اورمقام پر ارشاد فرمایا:
اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر (و ناشکری)پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکرگزاری کرو (تو) اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے۔(الزمر:7/39)
اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا جہاں اللہ کی رضا کا سبب ہے، وہیں نعمتوں میں اضافہ کا بھی سبب بنتاہے، جیسا کہ اللہ تعالی ٰنے خود قرآن کریم میں بیان فرمایاہے،اکثر دیکھا گیاہے کہ ناشکری کرنے کے سبب اللہ رب العزت نعمت کو سلب فرمالیتے ہیں اور شکر کی وجہ سے نعمت کو بڑھا بھی دیتے ہیں، اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ نعمتوں میں برکت ہو اور نعمتیں سلب نہ ہوں تو ہمیں دل اور زبان اورظاہری اعضاء سے اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، یعنی دل میں اس نعمت کی قدر ہو، زبان سے اس نعمت کا اقرار ہواور نعمت کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو اور ظاہری اعضاء سے منعم کی نعمتوں کے ملنے کے سبب سے ایسے افعال صادر ہوں جو منعم کی بڑائی کو ظاہر کریں۔
احادیث مبارکہ میں جابجا شکر کی فضیلت کو بیان کیاگیاہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم رات کے وقت اس قدر قیام فرمایا کرتے کہ دونوں قدم مبارک پر ورم آجاتا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں:یا رسول اللہ!آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں شکرگزار بندہ بنوں؟ (أخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب التفسیر)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس بات سے(بھی)راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کا شکر ادا کرے یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے۔ (أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار)
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کی(اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہے اور یہ مقام اس کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اس کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے۔(أخرجہ مسلم فی الصحیح، کتاب الزہد والرقائق)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:کھانے پر شکر کرنے والا درجہ میں صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے۔ (أخرجہ الترمذی فی السنن، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر موقع کی جو دعائیں منقول ہیں مثلا کھانا کھانے کی، نئے کپڑے پہننے کی، سونے کی، سو کر اٹھنے کی، نئے پھل کھانے کی، مسجد میں جانے اور مسجد سے باہر آنے کی ،گھر سے نکلنے کی، وغیرہ ان سب کا مقصد بھی اللہ کی حمد اور شکر اداکرناہے۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کی نعمتوں پر ہر وقت شکر گزار رہیں،نعمتوں کی قدرکریں اور اپنے اندریہ عادت ڈالیں کہ دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر پر نظرہو اور دینی اعتبار سے اپنے سے اوپر والے پر نظر ہو تو اس سے جہاں ہمیں نیک اعمال میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا، وہیں پر شکرگزاری کی عادت بھی ہمارے اندر پیدا ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے۔