شاہ ولی اللہ صاحب کے تجدیدی کارنامے

idara letterhead universal2c

شاہ ولی اللہ صاحب کے تجدیدی کارنامے

اصلاحِ عقائد و دعوت الی القرآن
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی

شاہ صاحب کے دائرہ تجدید کی وسعت اور تنوع

شاہ صاحب سے اللہ تعالیٰ نے تجدید و اصلاح امت ، دین کے فہم صحیح کے احیا ، علوم نبوت کی نشر و اشاعت اور اپنے عہد وملت کے فکر و عمل میں ایک نئی زندگی اور تازگی پیدا کرنے کا جو عظیم الشان کام لیا ، اس کا دائرہ ایسا وسیع اور اس کے شعبوں میں اتنا تنوع پایا جاتا ہے، جس کی مثال معاصر ہی نہیں، دور ماضی کے علماء و مصنفین میں بھی کم نظر آتی ہے، اس کی وجہ (توفیق اور تقدیر الہٰی کے ماسوا ) اس عہد کے حالات کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے، جو شاہ صاحب کے حصہ میں آیا اور وہ جامعیت،علو ہمت اور مخصوص تعلیم وتربیت بھی شاہ صاحب کے خصائص میں سے ہے، اس سب کا نتیجہ تھا کہ شاہ صاحب نے علم و عمل کے اتنے میدانوں میں تجدیدی و اصلاحی کارنامہ انجام دیا کہ ان کے سوانح نگار اور اسلام کی تاریخ دعوت و عزیمت پر قلم اٹھانے والے کے لیے ، ان کا احاطہ اور ان سب کا تفصیلی تحلیلی جائزہ لینا دشوار ہو گیا ہے اور جو اس کا ارادہ کرے اس کی زبان بے اختیار فارسی کے اس مشہور شعر کے ساتھ شکوہ سنج ہو جاتی ہے #
            دامان نگہ تنگ وگل حسن تو بسیار
            گلچین نو بہار تو دامان گلہ دارد

ہم ان کو اگر علیحدہ علیحدہ بیان کریں تو ان کے حسب ذیل عنوانات ہوں گے۔

1…اصلاح عقائد و دعوت الی القرآن۔

2…حدیث وسنت کی اشاعت و ترویج اور فقہ وحدیث میں تطبیق کی دعوت وسعی ۔

3…شریعت اسلامی کی مربوط و مدلل ترجمانی اور اسرار ومقاصد حدیث وسنت کی نقاب کشائی ۔

4… اسلام میں خلافت کے منصب کی تشریح، خلافت راشدہ کے خصائص اور اس کا اثبات اور ردّرفض۔

5…سیاسی انتشار اور حکومت مغلیہ کے دور احتضار(انحطاط) میں شاہ صاحب کا مجاہدانہ وقائدانہ کردار۔

6…امت کے مختلف طبقات کا احتساب اور ان کو دعوت اصلاح و انقلاب ۔

7…علمائے راسخین اور مردان کار کی تعلیم و تربیت، جوان کے بعد اصلاح امت اور اشاعت دین کا کام جاری رکھیں۔

ہم سب سے پہلے اصلاح عقائد و دعوت الی القرآن کے عنوان کو لیتے ہیں کہ تجدید دین، و اصلاح امت کا کام کسی دور اور کسی ملک میں بھی شروع کیا جائے تو اس کو اولیت حاصل ہو گی اور اس کے بغیر احیائے دین وملت کی جو کوشش بھی کی جائے گی وہ نقش بر آب اور عمارت بے اساس ہوگی، قرآن نے انبیاء علیہم السلام کے واقعات و مکالمات سے اور مستند تاریخ نے نائبین انبیاء اور علمائے ربانیین کے طرز عمل اور ترتیب کار سے اسی حقیقت کو ثابت کیا ہے اور قیامت تک یہ ہر اس اصلاح و تجدید کا دستور العمل رہے گا، جس کا مزاج نبوی اور جس کا نظام قرآنی ہوگا۔

عقائد کی اہمیت

مصنف یہاں پر ایک سابقہ تحریر کا اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہے:
”اس دین کا سب سے پہلا امتیاز اور نمایاں شعار عقیدہ پر زور اور اصرار اور سب سے پہلے اس کا مسئلہ حل کر لینے کی تاکید ہے ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سلم تک تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام ایک معین عقیدہ کی (جوان کو وحی کے ذریعہ ملا تھا) دعوت دیتے اور اس کا مطالبہ کرتے رہے اور اس کے مقابلہ میں کسی مفاہمت یا دست برداری پر تیار نہ ہوئے ، ان کے نزدیک بہتر سے بہتر اخلاقی زندگی اور اعلیٰ سے اعلیٰ اسلامی کردار کا حامل، نیکی و صلاح ، سلامت روی اور معقولیت کا زندہ پیکر اور مثالی مجسمہ، خواہ اس سے کسی بہتر حکومت کا قیام، کسی صالح معاشرہ کا وجود اور کسی مفید انقلاب کا ظہور ہوا ہو ، اس وقت تک کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتا ، جب تک وہ اس عقیدہ کا ماننے والا نہ ہو، جس کو لے کر وہ آئے اور جس کی دعوت ان کی زندگی کا نصب العین ہے اور جب تک اس کی یہ ساری کوششیں اور کاوشیں صرف اس عقیدہ کی بنیاد پر نہ ہوں، یہی وہ حد فاصل، واضح اور روشن خط ہے جو انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی دعوت، اور قومی راہ نماؤں، سیاسی لیڈروں، انقلابیوں اور ہر اس شخص کے درمیان کھینچ دیا گیا ہے، جس کا سر چشمہ فکر و نظر انبیائے کرام کی تعلیمات اور ان کی سیرتوں کے بجائے کوئی اور ہو“۔

”حقیقت یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے ذریعہ جو علوم و معارف انسانوں تک پہنچے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ اور ضروری واہم علم خدا تعالیٰ کی ذات، صفات اور افعال کا علم اور اس مخصوص تعلق کا تعین ہے، جو خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے درمیان ہونا چاہیے، یہ علم سب سے برتر وافضل علم ہے، اس لیے کہ اس پر انسانوں کی سعادت و فلاح دنیوی اور نجات اخروی موقوف ہے اور یہی عقائد واعمال اور اخلاق و تمدن کی بنیاد ہے، اس کے ذریعہ انسان اپنی حقیقت سے واقف ہوتا، کائنات کی پہیلی بوجھتا اور زندگی کا راز معلوم کرتا ہے، اس سے اس عالم میں اپنی حیثیت کا تعیُّن کرتا اور اس کی بنیاد پر اپنے ہم جنسوں سے اپنے تعلقات استوار کرتا ہے اور اپنے مسلک زندگی کے ہارے میں فیصلہ اور پورے اعتماد و بصیرت اور وضاحت کے ساتھ اپنے مقاصد کا تعین کرتا ہے“۔

خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اس امت کے ساتھ جو خصوصی رابطہ اور تائید و نصرت، رضا و محبت اور غلبہ وعزت کا جو مؤکد وعدہ ہے، وہ محض عقائد صحیحہ، ایمانی صفات و خصوصیات اور خاص طور پر خالص اور بے آمیز عقیدہ توحید کی بنا پر ہے، ارشاد ہے:﴿وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾․(سورة آل عمران:139)

ترجمہ:اور (دیکھو!)بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا، گرتم مؤمن (صادق)ہو تو تم ہی غالب ہو گے۔
نیز کھلے لفظوں میں فرمایا گیا ہے :

﴿وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِینَہُمُ الَّذِی ارْتَضَیٰ لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَیْئًا وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِکَ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ﴾․(سورة النور،آیت:55)

ترجمہ:”جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مستحکم و پائے دار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا، وہ میری عبادت کریں گے (اور ) میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں“۔

انبیاء کے نائبین برحق اور علمائے ربانی جوالله تعالیٰ کے دین کی فطرت اور اس کے مزاج سے واقف ہوتے ہیں، وہ اس کو کسی جگہ پر قائم کرنے کے لیے پہلے زمین کو پورے طور پر صاف و ہموار کرتے ہیں، وہ شرک اور جاہلیت کی جڑیں اور رگیں (خواہ وہ وثنیت قدیمہ کی یادگار ہوں یا قومی و مقامی اثرات کا نتیجہ ) چن چن کر نکالتے اور ان کا ایک ایک بیج بِن بِن کر پھینکتے ہیں اور مٹی کو بالکل الٹ پلٹ دیتے ہیں، چاہے ان کو اس کام میں کتنی ہی دیر لگے اور کیسی ہی زحمت اٹھانی پڑے، وہ نتیجہ کے حصول میں کبھی عجلت اور بے صبری سے کام نہیں لیتے ۔

”شرک“ (مختلف شکلوں میں ) نوع انسانی کی سب سے خطر ناک اور پرانی بیماری ہے، وہ اللہ کی غیرت اور اس کے غضب کو بھڑکانے کے ماسوا، بندوں کے روحانی، اخلاقی اور تمدنی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے، وہ انسان کی قوتوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے، ان کی صلاحیتوں کا خون کرتا ہے، قادر مطلق پر اس کے یقین، اس کی خود اعتمادی اور خود شناسی کا خاتمہ کر دیتا ہے اور سمیع و بصیر اور صاحب قدرت و علم ، صاحب جو دو عطا اور مغفرت و محبت والے خدا کی محفوظ و مستحکم پناہ سے نکال کر اور اس کی لامحدود صفات اور نہ ختم ہونے والے خزانوں کے فوائد سے محروم کر کے، کم زور وعاجز ، فقیر و حقیر مخلوقات کے زیر سایہ پناہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے، جن کی جھولی میں کچھ نہیں“۔

عقیدہٴ توحید کی از سرنو تبلیغ و تشریح کی ضرورت

مصنف نے”تاریخ دعوت و عزیمت“ کے حصہٴ دوم میں جو شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ کے ساتھ مخصوص ہے، امام ابن تیمیہ کے زمانہ میں مشرکانہ عقائد ور وسوم کے عنوان کے ذیل میں لکھا تھا:

”غیر مسلم وعجمی اقوام کے اختلاط، اسماعیلی و باطنی حکومت کے نفوذ واثر ، نیز جاہل و گم راہ صوفیوں کی تعلیم و عمل سے عام مسلمانوں میں مشرکانہ عقائد ورسوم کا رواج ہو چلا تھا، بہت سے مسلمان اپنے دینی پیشواؤں ، مشائخ طریقت اور اولیاء و صالحین کے بارے میں اس طرح کے غالیانہ اور مشرکانہ خیالات اور عقیدہ رکھنے لگے تھے، جو یہود و نصاری حضرت عزیر و مسیح اور اپنے احبار ورہبان کے متعلق رکھتے تھے، بزرگان دین کے مزارات پر جو کچھ ہونے لگا تھا، وہ ان سب اعمال ورسوم کی ایک کام یاب نقل تھی، جو غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور مقدس شخصیتوں کی قبروں پر ہوتے تھے، اہل قبور سے صاف صاف استعانت و استغاثہ کا معاملہ ہونے لگا تھا ، ان سے فریاد اور ان کی دہائی دینے سوال اور دعا کرنے کا رواج ہو گیا تھا، ان کی قبور پر بڑی بڑی مسجدیں تعمیر کرنے اور خود قبور کو سجدہ گاہ بنانے ، ان پر سال بہ سال میلہ لگانے اور دور دور سے سفر کر کے وہاں آنے کا عام دستور تھا، کھلی قبر پرستی، خدا سے بے خونی اور صاحب مزار سے خوف وخشیت ،اللہ اور شعائر اللہ سے استہزا واستخفاف، بے باکی اور شوخ چشمی، بزرگوں کے ساتھ اعتقاد الوہیت کے درجہ تک مشاہدہ و مزارات کا حج اور بعض اوقات حج بیت اللہ پر اس کی ترجیح، کہیں کہیں مساجد کی ویرانی اور کس مپرسی اور مشاہدہ ومزارات کے رونق کا اہتمام ، اس زمانہ کی جاہلانہ زندگی کے وہ خط و خال تھے، جن کے دیکھنے کے لیے بہت دور جانے اور بہت غور سے کام لینے کی ضرورت نہ تھی“۔

یہ مصر و شام و عراق جیسے ممالک کا حال تھا، جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مبارک ہاتھوں فتح کیا تھا، جو مرکز اسلام ، مہبط وحی اور مسکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے بہت قریب اور مربوط تھے، جہاں کی زبان عربی تھی، جس میں قرآن مجید نازل ہوا، جہاں قرآن وحدیث کے درس کا سلسلہ ایک دن کے لیے موقوف نہیں ہوا اور جہاں علوم حدیث اورشرح حدیث پر عظیم ترین کتابیں لکھی گئیں۔

اس کے مقابلہ میں ہندوستان (وہ بھی بارہویں صدی کے ہندوستان ) کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے، جہاں اسلام ترکستان، ایران اور افغانستان کا چکر کاٹ کر ان لوگوں کے ذریعہ پہنچا جو براہ راست فیضان نبوت سے مستفیض نہیں ہوئے تھے اور جن میں سے بہت سے اپنے نسلی اور قومی اثرات سے بالکلیہ آزاد نہیں ہو سکے تھے، پھر ہندوستان میں ہزاروں برس سے ایک ایسا مذہب، فلسفہ اور تہذیب حکم رانی کر رہے تھے جن کے رگ وپے میں وثنیت اور شرک جاری و ساری تھا اور جو ان آخری صدیوں میں وثنیت کا سب سے بڑا نمائندہ اور جاہلیت قدیم کا امین و محافظ رہ گیا تھا، یہاں برہمنیت اور دوسرے مشرکانہ ماحول سے منتقل ہو کر ہندوستان کیمسلمان آبادی کا ایک بڑا حصہ آغوش اسلام میں آیا تھا، پھر یہ بھی ذہن میں تازہ رہے کہ اس ملک کا (طویل تر مدت میں ) قرآن وحدیث سے براہ راست وہ رابطہ نہیں رہا تھا، جو ایران کے اثر سے علوم حکمت اور فلسفہ ٴیونان سے رہا، علوم دینیہ میں اگر اس کا علمی و درسی طور پر رابطہ رہا تو فقہ، اصول فقہ، علم کلام سے، جن کا موضوع اور میدانِ بحث، مسائل و جزئیات اور اصول استنباط مسائل اور عقائد پر فلسفیانہ بحث سے ہے، عقائد کی اصلاح اور توحید کی ابتدائی دعوت نہیں۔

ہندوستان کے مذاہب، فلسفوں اور یہاں کے رسوم و عادات کا دسویں ہی صدی میں مسلم معاشرہ پر جو اثر پڑ چکا تھا، اس کا اندازہ حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کے اس مکتوب سے لگایا جا سکتا ہے، جو انھوں نے اپنی ایک ارادت مند نیک خاتون کے نام لکھا ہے ، جس سے مراسم شرک کی تعظیم، غیر اللہ سے استمد اد اور طلب حوائج کے مشرکانہ عقیدہ، اہل کفر کے تہواروں کی تعظیم اور ان کے رسوم و عادات کی تقلید، بزرگوں کے لیے حیوانات کو نذروذبح کرنے، پیروں اور بیبیوں کی نیت سے روزے رکھنے اور سیتلا سے خوف اور اس کی تعظیم (جس کو چیچک کی بیماری کی ذمہ داردیوی سمجھا جاتا تھا)تک کی ہندوانہ ذہنیت اور توہم پرستی کا اندازہ ہوتا ہے، جو مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو چکی تھی، اس عہد پر اور سو برس گزر جانے کے بعد اور قرآن وحدیث سے براہ راست قوی اور عام رابطہ نہ پیدا ہونے کی وجہ سے عقائد میں جو خلل غیر اسلامی بلکہ منافی اسلام، عقائد واعمال کا جواثر اچھے اچھے گھرانوں پر پڑا ہو، اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

شاہ صاحب کے زمانہ میں غیر مسلموں کے اثرات، قرآن وحدیث سے ناواقفیت اور دوری اور نتائج و خطرات اور عوام کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی سے آنکھیں بند کر کے موثر کوشش کے طویل خلانے ہندوستان میں جو صورت حال پیدا کر دی تھی اور دین حنیفی کے (جس میں شرک کے کسی پر چھائیں کی گنجائش نہ تھی) متوازی جو نظام عقائد اور مسلم معاشرہ کی زندگی کے میدان میں جاہلیت کا جو سبزہ ٴخود رو پیدا ہو گیا تھا ، اس کا کچھ اندازہ خود شاہ صاحب کی کتابوں کے بعض اقتباسات سے ہو سکتا ہے۔

” تفہیمات “میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی حدیث ہے تم مسلمان بھی آخر کار اپنے سے پہلے کی اُمتوں کے طریقے اختیار کر لوگے اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھا ہے، وہاں تم بھی قدم رکھو گے، حتیٰ کہ وہ اگر کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی ان کے پیچھے جاؤ گے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! پہلی اُمتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور کون؟“اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
سچ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ، ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں، جنھوں نے صلحاء کو ارباب من دون اللہ بنالیا ہے اور یہود و نصاری کی طرح اپنے اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں، جو کلام شارع میں تحریف کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ نیک لوگ اللہ کے لیے ہیں اور گنہگار میرے لیے ، یہ اسی قسم کی بات ہے جیسی یہودی کہتے تھے کہ:﴿لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَةً﴾․(سورہ بقرہ، آیت:80) (ہم دوزخ میں نہ جائیں گے اور گئے بھی تو بس چند روز کے لیے ) سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے، صوفیہ کو دیکھو تو ان میں ایسے اقوال زبان زد ہیں، جو کتاب وسنت سے مطابقت نہیں رکھتے ، خصوصاً مسئلہ توحید میں اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شرع کی انہیں بالکل پروا نہیں ہے“۔

اپنے شہرہٴ آفاق رسالہ الفوز الکبیر میں تحریر فرماتے ہیں:
”اگر تم کو (عہد جاہلیت کے ) مشرکین کے عقائد و اعمال کے اس بیان کے صحیح تسلیم کرنے میں کچھ تو قف ہو، تو چاہیے کہ اس زمانے کے تحریف کرنے والوں کو، علی الخصوص جو دار الاسلام کے نواح میں رہتے ہیں، دیکھو کہ انھوں نے ولایت کی نسبت کیا خیال باندھ رکھا ہے، وہ لوگ باوجودیکہ اولیائے متقدمین کی ولایت کے معترف ہیں، مگر اس زمانے میں اولیاء کے وجود کو قطعاً محال شمار کرتے ہیں ، اور قبروں اور آستانوں پر پھرتے ہیں اور طرح طرح کے شرک میں مبتلا ہیں اور تحریف وتشبیہ نے ان کے اندر کس قدر رواج پکڑا ہے، موافق حدیث صحیح:” لتتبعن سنن من کان قبلکم “(تم اپنے پیشرو لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے )ان آفات میں سے کوئی آفت بھی نہیں رہی ، جس پرآج مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت کار بند اور اس کے مانند دیگر امور کی معتقد نہ ہو۔” عافانا اللہ سبحانہ عن ذلک“․

روشن مینار سے متعلق