جسم وروح کی صحت کے راہ نما اصول

idara letterhead universal2c

جسم وروح کی صحت کے راہ نما اصول

ضبط و تحریر: ابو عکاشہ مفتی ثناء اللہ خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، تاکہ ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہوسکیں۔ (ادارہ)

الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونوٴمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ وحدہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولٰنا محمداً عبدہ ورسولہ، ارسلہ بالحق بشیرا ونذیرا وداعیا إلی اللّٰہ بإذنہ وسراجا منیرا، أما بعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، یایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ وقولوا قولا سدیدا یصلح لکم أعمالکم ویغفر لکم ذنوبکم ومن یطع اللّٰہ ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیما․ صدق اللّٰہ مولنا العظیم․

اس دنیا میں آج جتنے بھی انسان بس رہے ہیں، رہ رہے ہیں، وہ خواہ مغرب میں رہتے ہوں یا مشرق میں، شمال میں رہتے ہوں یا جنوب میں، عام طور پر ہر شخص پریشان ہے اور وہ پریشانی بڑھ رہی ہے، وہ کم یا ختم نہیں ہو رہی اور اس پریشانی کے اسباب بھی بہت ہیں اور آج کل کی سمجھ اور آج کل کی عقل کے اعتبار سے اس کے لیے علاج اور اس کی اصلاح کی کوشش بھی طرح طرح کی ہے اور پھر وہ جو پریشانیاں ہیں اور مشکلات ہیں ان کے کچھ نام بھی رکھ لیے ہیں، عام طور پر ہر مشکل میں مبتلا شخص جب کسی معالج کے پاس جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کو ڈپریشن ہے اور اس کا آپ کو علاج کرنا ہوگا اور یہ ڈپریشن آج ساری دنیا میں ہے، ہر آدمی ڈپریشن میں مبتلا ہے اور ڈپریشن کا مطلب کیا ہے؟ پریشانیوں کی انتہا، بے چینی، بے قراری، بھوک نہیں لگ رہی، نیند نہیں آرہی، طرح طرح کے خیالات آتے ہیں، طرح طرح کے خطرات اور خوف محسوس ہوتا ہے اور وہ بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک نارمل آدمی اگر اس طرح کے آدمی کو دیکھ لے تو وہ حیران ہو جاتا ہے۔

ایک دفعہ ایک دوست کے ساتھ ان کے ایک دوست کے ہاں ہمارا جانا ہوا، بہت بڑا گھر، بہت بڑا ڈرائنگ روم، دنیا جہاں کے اسباب اور سہولتیں، آسائشیں، وہ صاحب مکان اور وہ میزبان جن کے ہاں ہم گئے ہوئے تھے، وہ ڈرائنگ روم میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے چھوٹی ٹیبل کے اوپر پانی کا جگ اور گلاس رکھے ہوئے تھے اور صوفے کے ایک کونے پر میں بیٹھا ہوا تھا اور دوسرے کونے پر وہ میزبان بیٹھے ہوئے تھے اور دوسرے ساتھی جو ہمیں لے گئے تھے وہ ذرا فاصلے پر بیٹھے ہوئے تھے، باتیں کرتے کرتے اچانک ایسا ہوا کہ وہ صاحب اچھل گئے اور اس طرح اچھلے کہ ان کا ہاتھ پانی کے جگ پر پڑا تو پانی کا جگ بھی دور گرا، گلاس بھی گرے، میں پریشان کہ یاخدا! کیا ہوگیا اس کو؟ اور وہ کانپ رہا ہے، تو وہ دوست جو ہمیں لے گئے تھے وہ بھی جلدی سے قریب آگئے، ان کو سنبھالا اور پوچھا، تو انہوں نے چھت کی طرف اشارہ کیا، جب ہم نے دیکھا تو وہاں ایک چھپکلی تھی!!

یہ کیا ہے؟ خوف ہے، ایک چھپکلی کا اتنا خوف، بہت سے لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، لال بیگ سے ڈرتے ہیں، پاوٴں سے اس کو مار دو، لیکن یہ سارے خطرات، خدشات، خوف یہ دن بدن ترقی کرتے ہیں اور اس حد تک پہنچ جاتے ہیں۔

میں عرض کر رہا ہوں کہ ہر آدمی پریشان ہے اور جو جتنا زیادہ دنیا میں مبتلا ہے اس کی پریشانی اتنی زیادہ ہے، بظاہر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے پاس یہ سہولت بھی ہے، یہ سہولت بھی ہے اور آپ اپنے آپ کو اس سے کم تر سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ بے چارہ قابل رحم ہے، ایک چھپکلی کا اتنا خوف، یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، ہوسکتا ہے آپ اور بہت سی مثالیں جانتے ہوں۔

خوب یاد رکھیے کہ جو اللہ سے نہیں ڈرتا، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے، پھر وہ ہر ایک سے ڈرتا ہے، اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے، چوں کہ آدمی اندر سے خالی ہے اور اندر اللہ تعالی کا خوف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی عظمت، کبریائی نہیں ہے اور بجائے اس کے کہ مرض کی صحیح تشخیص ہوتی اور اس کا صحیح علاج ہوتا، نہیں بس دوائیں ہیں اور میں آپ کو پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو اس طرح کا علاج کرتے ہیں ان کو سائیکاٹرِسٹ کہتے ہیں، یہ معالج کی ایک قسم ہے، جیسے آج کل اسپیشلائیزیشن ہے، اردو میں ان کو ماہر نفسیات کہتے ہیں، جو بھی مریض ان کے پاس جاتا ہے اور میں نے عرض کیا کہ کوئی بھی ایسا نہیں جو پریشان نہ ہو، سب پریشان ہیں، کوئی بیوی کے حوالے سے پریشان ہے، کوئی بچوں کے حوالے سے پریشان ہے، کوئی ماں باپ کے حوالے سے پریشان ہے، کوئی اور دیگر رشتہ داروں کے حوالے سے پریشان ہے، کوئی پڑوسیوں کے حوالے سے پریشان ہے، دفتر کے معاملات ہیں، کاروباری مسائل ہیں۔ تو چوں کہ ہر آدمی ان کے پاس پریشان ہو کر ہی جاتا ہے، پریشان ہوتا ہے۔ تو اس کو دوا لکھ کر دیتے ہیں اور میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ وہ دوا نہیں ہوتی، وہ نشہ ہوتا ہے، وہ مسکن، تسکین پہنچانے والی نشے کی گولیاں ہوتی ہیں، جو بہت بڑی بڑی دوائیاں بنانے والی کمپنیاں بناتی ہیں، جب ابتدا میں مریض جاتا ہے تو اس کو بہت تھوڑی مقدار میں وہ دوا دی جاتی ہے، جب وہ اس کو استعمال کرتا ہے تو اسے سکون ملتا ہے، کہتا ہے ڈاکٹر بہت شان دار ہے، نیند بھی آتی ہے، سکون بھی ملتا ہے، لیکن ایک دو مہینہ کھانے کے بعد جسم اس دوا کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر بھوک ختم، نیند ختم، بے چینی شروع اور پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے پہلے اگر اس کو مثال کے طور پر 0.5 ملی گرام کی دوا دی تھی، تو اب وہ اعشاریہ ختم کردیتے ہیں۔ 1 ملی گرام کی دوا اس کو دے دیتے ہیں، آدھی مقدار بڑھا دی اور کمپنی کانام بدل دیا، دوا وہی ہے، پہلے ”الف“ کمپنی کی دے رہے تھے، اب ”ب“ کمپنی کی دوا لکھ دی، مریض سمجھتا ہے ڈاکٹر نے دوا تبدیل کردی، دوا نہیں تبدیل کی، دوا وہی ہے، وہی نشہ ہے، مقدار بڑھا دی، اور آپ کو مطمئن کرنے کے لیے اور آپ سے جو ایک ہزار پانچ ہزار فیس لی ہے اس حوالے سے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے انہوں نے کمپنی کا نام بدل دیا، اب جب آپ نے میڈیکل اسٹور سے دوا لی تو اب ڈبہ دوا کا بدلا ہوا ہے تو سمجھتے ہیں کہ دوا بدل دی، حالاں کہ دوا وہی ہے دوا نہیں بدلی اور اس کے نتیجے میں آدمی کے حواس اور آدمی کے اعصاب نشے کی وجہ سے کم زور سے کم زور تر ہوتے جاتے ہیں۔

میں عرض کر رہا ہوں کہ ہر آدمی پریشان ہے اور وہ پریشانی اس وجہ سے ہے کہ اندر ”اللہ“ نہیں ہے، یہ جو آدمی آپ کے سامنے بیٹھے باتیں کر رہا ہے، یہ ایک آدمی نہیں ہے، آپ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ بھی ایک نہیں ہیں، 2 ہیں،ایک وہ آدمی ہے جو آپ سے باتیں کر رہا ہے اور ایک وہ آدمی ہے جو اندر ہے، بہت سی دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ میں آپ سے ہنس کر بات کر رہا ہوں، آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں آپ سے خوش ہوں، لیکن اندر والا آدمی اس وقت آپ پر غصے میں ہے۔

کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کا چہرہ ان کے ملنے کا انداز، رویہ وہ بڑا سخت ہوتا ہے تو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھ پر غصے میں ہے اور مجھ سے ناراض ہے، حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، وہ بے چارہ خلقی اور فطری طور پر ایسا ہے، وہ اندر سے بڑا کریم اور مہربان ہے۔

ہمارے حضرت رحمة اللہ علیہ کے ایک دوست تھے اور وہ بڑی عمر کے تھے، چناں چہ ان سے ہمارا بھی بڑا تعلق رہا، لیکن ان کا چہرہ بہت سخت چہرہ تھا، جو ملتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ وہ تو بہت سخت آدمی ہیں، حالاں کہ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد جو ان کا سلوک ہوتا تھا، آدمی تو سلوک سے پہچانا جاتا ہے، ان کا جب سلوک سامنے آتا تھا تو لگتا تھا کہ ان سے زیادہ تو مہربان کوئی نہیں، جب وہ اچھا سلوک کر رہے ہوتے تھے تب بھی ان کے چہرے کی سختی اسی طرح ہوتی تھی۔

تو یہ آدمی ایک نہیں دو ہیں اور یہ جو باہر والا آدمی ہے اور اندر والا آدمی ہے، ان دونوں کی بہترین اصلاح کا جو طریقہ ہے وہ فقط اسلام میں ہے۔

ہمارا یہ جو ظاہری جسم ہے، جس کے پیچھے ہم سب دیوانے ہیں، ساری محنت ظاہری جسم کے لیے ہے، کپڑا ہم اسی کو پہناتے ہیں، حسن اور خوب صورتی ہم اسی میں پیدا کرتے ہیں، توانائی اور طاقت سب اس کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی سیب کھاتا ہے اس کی طاقت کے لیے، کوئی بادام کھاتا ہے، فلاں اور فلاں… یاد رکھیے کہ اس ظاہری جسم کی اصلاح کا طریقہ بھی اسلام میں ہے اور آپ کو تعجب ہوگا کہ اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے ہیں تو ان سب نے بتایا ہے اور آخر میں اس پر مہر امام الانبیاء سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی ہے اور وہ طریقہ کیا ہے؟ وہ تین چیزیں ہیں: تقلیل طعام، تقلیل منام اور تقلیل کلام۔

کم کھانا، ہمارے حضرت والد ماجد رحمة اللہ علیہ بہت کم کھاتے تھے، بلکہ اکثر روزہ رکھتے تھے، تو چوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک مقام عطا فرمایا تھا، تو وہ پورے ملک میں، پوری دنیا میں سفر کرتے تھے۔ عام طور پر ہمارے مدارس میں پروگرام ہوتے ہیں، جلسے ہوتے ہیں، تووہ ہمارے حضرت کو لے جاتے تھے، جب حضرت اپنے کام سے، مثلاً بخاری شریف کا سبق پڑھانا ہے یا اور کوئی بیان کرنا ہے تو جیسے ہی فارغ ہوتے تو فرماتے چلو، اب جو میزبان ہوتے وہ عرض کرتے کہ حضرت کھانا تیار ہے۔ دستر خوان لگا ہوا ہے۔ لیکن حضرت کھانا نہیں کھاتے تھے، میزبان بہت اصرار کرتے، ادھر سے بھی اصرار، اُدھر سے بھی اصرار، ہر آدمی اصرار کر رہا ہے، تو حضرت سب کو قریب کرتے اور فرماتے کہ اب تک جتنے لوگ بھی مجھ پر اصرار کر رہے ہیں سب کہہ رہے ہیں کہ کھانا کھائیں، آپ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کہہ رہا ہو کہ کھانا نہ کھائیں، جب کہ کھانا نہ کھانے کی سنت وہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے کم کھانا، سب کہہ رہے ہیں کھانا کھاوٴ، کوئی ایک بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ کہ کھانا نہ کھاوٴ، پھر حضرت رحمة اللہ علیہ ایک واقعہ سناتے، بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا، کہ ایک ہندو تھا اور وہ اپنے نظریات کا بہت بڑا علم بردار تھا اور وہ مسلمانوں کو چیلنج کرتا تھا مناظرے کا، چناں چہ اس نے چیلنج کیا، بہت سے علماء نے چیلنج قبول کیا، لیکن اس نے کہا نہیں میں ان چھوٹے مولویوں سے بات نہیں کرتا، مولوی قاسم سے مناظرہ کروں گا اور کسی سے نہیں کروں گا۔ مراد تھی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمة اللہ علیہ۔

حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ اس وقت آخری عمر میں تھے اور بہت بیمار تھے، لوگوں نے آکر عرض کیا کہ حضرت! وہ تو آپ کے علاوہ کسی اور سے مناظرہ کے لیے تیار ہی نہیں اور مسلمانوں کو ایک بہت بڑی آزمائش درپیش ہے، اگر کوئی مقابلہ نہیں کرے گاتو وہ اپنا نظریہ پھیلائے گا، حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے، مجھے لے چلو، سہارن پور کے قریب ایک چھوٹا شہر ہے، وہاں یہ مناظرہ تھا، چناں چہ حضرت تشریف لے گئے، میزبان جس نے مناظرے کا انتظام کیا ہوا تھا، اس کا بڑا گھر تھا، اس میں اس نے اس ہندو کی رہائش کا بھی انتظام کیا تھا اور حضرت کی رہائش کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور کمروں کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ آخری کمرہ اس ہندو کا تھا اور اس سے پہلے والا کمرہ حضرت کا تھا، چناں چہ اس ہندو کے کمرے میں جتنی آمدورفت ہوتی تھی وہ حضرت کے کمرے کے سامنے سے ہوتی تھی، جب صبح ہوئی تو بڑے بڑے طشت اور ان کے اندر حلوے ، ترکاری، پراٹھے، ابلے ہوئے انڈے، سب اس ہندو کے کمرے میں حضرت کے کمرے کے سامنے سے جارہے ہیں حضرت کے خادم سمجھے کہ شاید اس کمرے میں بہت سارے لوگ ہیں اور ان کے لیے یہ ناشتہ جا رہا ہے، لیکن جب انہوں نے تفتیش کی اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اندر تو ایک آدمی ہے اور وہ سارے کے سارے طشت خالی ہو کر باہر آرہے ہیں۔

یا خدا! یہ آدمی ہے کہ کیا چیز ہے؟! اکیلا آدمی اتنا کھا رہا ہے، بہت تشویش ہوئی خادموں کو اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ بھائی! یہ تو مناظرہ ہے، رات کو مناظرہ ہوگا، یہ کم بخت ہندو ہے، اگر اس نے اسٹیج پر حضرت سے یہ کہہ دیا کہ مولانا صاحب، پہلے تو ہم آپ کھانے کا مناظرہ کرلیں، بعد میں علمی مناظرہ ہوتا رہے گا، تو ہمارے حضرت کا حال تو یہ ہے کہ وہ تو پورا دن کچھ کھاتے ہی نہیں، تو پھر کیا ہوگا؟! اور عوام کا حال یہ ہے کہ جو ذرا سی کسی چیز میں کام یاب ہوگیا تو لوگ کام یابی کا شور مچا دیتے ہیں، کہیں پریشانی نہ ہو جائے، خادموں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا؟

چناں چہ یہ خادم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں گئے اور جا کر ساری صورت حال بتائی، حضرت نے اپنے خادموں کو غور سے دیکھا اور فرمایا: تم لوگ اتنے عرصے سے میرے ساتھ ہو، تمہیں اس کی سمجھ کیوں نہیں آئی؟ حضرت نے فرمایا: بھائی! اگر وہ ہم سے کھانے کا مطالبہ کریں گے تو ہم کہیں گے کہ زیادہ کھانا یہ بہائم اور چوپایوں کی صفت ہے، گائے بہت کھاتی ہے، بھینس بہت کھاتی ہے، ہاتھی بہت کھاتا ہے، اگر کھانے میں مقابلہ کرنا ہے تو ہم تمہارے سامنے کسی بیل کو لا کر کھڑا کر دیتے ہیں، اس سے مقابلہ کرلو اور نہ کھانا، کم کھانا یہ انسان کی خوبی ہے، نہ کھانے میں ہم سے مقابلہ کر لو۔

میں عرض کررہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم کھانے کی ترغیب دی ہے اور کم کھانے کے جو مبارک اثرات جسم پر پڑتے ہیں اس کا آپ تصور نہیں کرسکتے، اسی طرح کم سونا، ضرورت کے مطابق آدمی سوئے، اور اس کا طریقہ شریعت نے بتایا ہے کہ مغرب کے بعد کھانا کھائے اور مغرب کی نماز کے بعد جب کھانا کھالیا تو عشاء تک آدمی بیدار رہے، عشاء کی نماز پڑھنی ہے، توکھانا کھانے کے بعد تھوڑا چلے گا، ادھر بیٹھے گا، ادھر بیٹھے گا، عشا کی نماز کا وقت آئے گا تو وضو کرنے جائے گا، وضو کرے گا، پھر نماز کے لیے مسجد جائے گا، مسجد میں سنت پڑھے گا، فرض پڑھے گا، سنت، نفل، وتر پڑھے گا، نماز کے بعد پھر چل کر گھر آئے گا، تو اب جو مغرب کے بعد کھانا کھا یا ہے تو یہ کسی نہ کسی درجے میں ہضم ہوجائے گا۔ اور حکم یہ ہے کہ عشا کی نماز کے بعد سو جاوٴ۔

آپ مجھے بتائیں کہ اگر انسان عشا کی نماز کے بعد سو جائے تو فجر کی نماز کے لیے اٹھنے کے لیے الارم کی ضرورت ہوگی؟! خود بخود آنکھ کھلے گی، ہوسکتا ہے تہجد میں آنکھ کھل جائے اور نیند آپ بھر پور لیں گے، اب فجر کے بعد سونے کی ضرورت نہیں، چناں چہ اس کا یہ دن طلوع ہوتے ہی مبارک، دماغ تازہ، دل تازہ، اعضاء وجوارح تازہ، یہ اپنی دنیا کی محنت کے لیے اور دنیا کے کاموں کے لیے بالکل تیار ہے اور آدھا دن گزرنے کے بعد اگر کھانا ہو تو بھی تھوڑا سا کھاوٴ، صبح کا ناشتہ ہو اور پھر دوپہر کو انسان تھوڑا سا کھالے، اس کے بعد سنت یہ ہے کہ تھوڑا سا قیلولہ ہو اور وہ قیلولہ گھنٹوں کا نہیں ہوتا، منٹوں کا ہوتا ہے، 15 منٹ مل جائیں، بیس منٹ مل جائیں، آدھا گھنٹہ مل جائے۔

چناں چہ پہلی چیز کم کھانا اور دوسری چیز کم سونا اور تیسری چیز ہے کم بولنا۔

بہت سے لوگوں کو آپ نے دیکھا ہوگا، ایک دفعہ ہم سفر میں تھے اور میرے سامنے جو دو آدمی بیٹھے تھے وہ تقریبا پانچ گھنٹے تک بغیر ایک منٹ کے وقفے کے مسلسل بولتے رہے اور کام کی باتیں نہیں، بالکل فضول باتیں۔

تو ان فضول باتوں کی بجائے، اگر آپ قرآن کریم کی تلاوت کرلیں، ذکر کرلیں یا ویسے ہی خاموش بیٹھ جائیں تو اس میں فائدہ زیادہ ہے۔

اور یہ یاد رکھیں کہ جو آدمی زیادہ بولتا ہے تو سچ کی مقدار تو کم ہے، وہ تھوڑی دیر میں ختم ہوجاتا ہے، اب چوں کہ بولنے کی بیماری لگ گئی ہے لہٰذا بولنا ہے، تو اب سچ تو ختم ہوگیا ہے، اب غیبت چل رہی ہے، جھوٹ چل رہا ہے، فضول باتیں، بے مقصد، لا یعنی، جن کا نہ دین سے کوئی تعلق اور نہ دنیا سے کوئی تعلق، نہ دینی فائدہ اور نہ دنیا کا فائدہ ۔

چناں چہ اگر آدمی ان تین باتوں پر عمل کرلے۔ تقلیل طعام، تقلیل منام اور تقلیل کلام تو اس کا یہ جو ظاہری جسم ہے یہ بہت مبارک ہو جائے گا۔

اور جو اندر کا انسان ہے، جو اصل ہے، جس پر موت واقع نہیں ہوگی، ظاہری جسم پر تو موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن وہ اندر والا انسان نہیں مرے گا، وہ باقی رہے گا، وہ کبھی ختم نہیں ہوگا، اس کی جو غذا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے، جہاں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آجائے انسان اس پر عمل کرے۔

اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: ﴿یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ ورسولہ﴾

جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت کرے گا، ﴿فقد فاز فوزا عظیما﴾، تو اس نے بہت بڑی کام یابی حاصل کرلی۔

یہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں، چناں چہ ہم اپنے اس جسم کو بھی بہتر کریں، اس لیے کہ اگر یہ جسم نہیں ہے تو ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرسکتے اور اگر یہ جسم صحیح سلامت ہوگا صحت مند ہوگا تو ہمارے لیے نماز پڑھنا آسان، روزہ رکھنا آسان، حج کرنا بھی آسان، دین کے کاموں کو کرنا بھی آسان اور جو اندر والا آدمی ہے اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آسان۔

اللہ تعالی ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مجالس خیر سے متعلق