سیرت نبوی کو دوسری زبانوں میں پیش کرنے کی ضرورت

سیرت نبوی کو دوسری زبانوں میں پیش کرنے کی ضرورت

مولانا محمد واضح رشید حسنی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکارم اخلاق ، نوازش و کرم گستری، شفقت و ملاطفت اور دل داری و دل نوازی میں ساری انسانیت کے امام ومقتدیٰ تھے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ﴾ (بے شک آپ بہت عظیم اخلاق کے حامل ہیں ) (القلم:4)عفو و درگزر، تحمل و برد باری،کشادہ قلبی اور قوت برداشت میں آپ کا جو مقام تھا وہاں تک اہل ذہانت کی ذہانت اور شعراء کے خیال و تصور کی بھی رسائی نہیں ہو سکتی ، آپ کی نوازش و کرم اور بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ دل داری اور احسان اور عفو و درگزر کی سیکڑوں مثالیں سیرت نبوی کی کتابوں میں موجود ہیں۔

قومی و مذہبی عصبیت سے بالا تر ہو کر اور صاف و کھلے ذہن سے سیرت نبوی کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمایاں و ممتاز صفت رحمت للعالمین ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی عفو و درگزر ، رحم و کرم، رحمت و مودت اور شفقت و دل داری کیآئینہ دار ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور صحابہ کرام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سلوک کا بنیادی جو ہر رحمت و کرم گستریہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں ہی کے لیے رحمت نہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے رحمت تھے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینََ﴾ (اے محمد( صلی الله علیہ وسلم)! ہم نے تم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے )۔ ( الانبیاء :107)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ صفت آپ صلی الله علیہ وسلم کے تمام اقدامات اور کارروائیوں میں نمایاں اور غالب نظر آتی ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں کتنے نازک مرحلے آئے ، کیسی ہی سختیوں، کٹھنائیوں اور آزمائشوں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو گزرنا پڑا لیکن کسی بھی حال میں شفقت و مودت، رحمت وکرم گستری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو اپنے ہی قبیلہ کے لوگوں نے سخت سے سخت تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں ، آپ کا بائیکاٹ کیا گیا ، راہ حق میں روڑے اٹکائے گئے، لیکن ہر حال میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا جذبہ ٴرحمت غالب رہا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ صفات آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی ذات تک محدود نہ تھیں، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے اثر سے صحابہ کرام میں بھی جلوہ گر تھیں، قرآن کریم کہتا ہے :﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنجِیلِ﴾ (سورة الفتح:29)(محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ تیز ہیں کافروں کے مقابلہ میں اور مہربان ہیں آپس میں، تو انھیں دیکھیے گا (اے مخاطب! )کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں، کبھی سجدہ کر رہے ہیں، اللہ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں ، ان کے آثار سجدہ کی تاثیر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں، یہ ان کے اوصاف تو ریت اور انجیل میں ہیں۔)

دو سری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾ (سورة الفرقان:63 )(اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو ز مین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جہالت والے بات چیت کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں خیر ۔)

ایک دوسرے موقع پر قرآن کہتا ہے :﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ، وَالَّذِینَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ، وَالَّذِینَ ہُمْ لِلزَّکَاةِ فَاعِلُونَ، وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ، إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ، فَمَنِ ابْتَغَیٰ وَرَاء َ ذَٰلِکَ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ، وَالَّذِینَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُون، وَالَّذِینَ ہُمْ عَلَیٰ صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ، أُولَٰئِکَ ہُمُ الْوَارِثُون، الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ ﴾․(المؤمنون: آیات: 1تا11)(یقینا وہ مؤمنین فلاح پاگئے جو اپنی نماز میں خشوع رکھنے والے ہیں اور جو لغو بات سے برکنار رہنے والے ہیں اور جو اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں اور جو اپنی شرم گاہوں کی نگہ داشت رکھنے والے ہیں، ہاں! البتہ اپنی بیویوں اور باندیوں سے نہیں کہ ان پر کوئی الزام نہیں ، ہاں! جو کوئی اس کے علاوہ کا طلب گار ہوگا سوایسے ہی لوگ تو حد سے نکل جانے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں اور اپنی نمازوں کی پابندی رکھنے والے ہیں ، بس یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں، جو فردوس کے وراث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔

مندرجہ بالا آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت و مودت، شفقت و ملاطفت، دل داری و دل نوازی اور عفو و درگزر اسلام کی بنیادی اور نمایاں صفات ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف انسانوں ہی کے ساتھ شفقت و رحمت کی تعلیم نہیں دی، بلکہ حیوانات اور حشرات الارض کے ساتھ بھی رحمت و شفقت اور نرمی و ہم دردی کی تعلیم دی ،احادیث اور سیرت نبوی کی کتابوں میں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔

لیکن یہ عجیب تضاد ہے کہ مغربی مصنفین خصوصاً مستشرقین نے سیرت نبوی کے اس پہلو کوبالکل نظر انداز کر دیا ہے اور بعض تاریخی اور تادیبی کارروائیوں سے استدلال کر کے بڑی دیدہ دلیری اور دیدہ دانستہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ ) تشدد اور طاقت کے استعمال کے داعی تھے اور اسلام تشدد اور جبر کی تعلیم دیتا ہے۔ مستشرقین نے آپ کی رحمت للعالمینی اورعفو و درگزری کی صفت کو سنگ دلی سے تبدیل کر دیا ہے، آج مغرب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیتعلق سے جو تصور قائم ہے وہ انہیں بدنیت مستشرقین کا دیا ہوا ہے، جو ان کے ذہنوں اور دلوں میں ایسا راسخ ہو گیا ہے کہ زمانہ کی ترقیوں اور بحث و تحقیق کے میدان میں نئی نئی تحقیقات و انکشافات کے باوجود آج تک تبدیل نہیں ہو سکا ،حتی کہ مغرب کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس بات کی زحمت گوارہ نہیں کرتا کہ وہ صاف اور کھلے ذہن سے سیرت نبوی کا مطالعہ کرے اور حقیقت حال کا پتہ لگائے، حالاں کہ جو لوگ سیرت نبوی کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرتے ہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت للعالمینی اور عفود در گزر کی صفت کا اعتراف کرتے ہیں، بہت سے حقیقت پسند اور انصاف پسند یورپین دانش وروں نے اسلام کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کیا، تو وہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور اس کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی سابقہ معلومات نا واقفیت پر مبنی تھیں ، بعض بدنیت مغربی مورخین اور مستشرقین نے اس کا اظہار کیا کہ سیرت نبوی کے موضوع پر ان کے لکھنے کا مقصد محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کا تعلق ختم کرنا اور ان کے دلوں سے آپ کی محبت، والہانہ شیفتگی اور آپ کے تقدس کو ختم کرنا ہے، ان خطر نا ک مستشرقین میں سرفہرست مندرجہ ذیل ہیں ، ولیم میور، واشنگٹن آرونگ، آربری(A.J. Arberry)، الفرڈگیوم (A.Geom)، (گولڈزہیر (Goldizher)، (زویمر(S.M.Zweimer)، گرون بام (G.Vom Grunbaum)، فلیب ہٹی(P.H.Hititi)، وینسنک (A.J.Wensink)، لوی ماسنیون (Massignon)، مارگولیوتھ(D.S.Mangoliouth)

زہریلے مواد پر مشتمل ان کتابوں کو اسلام سے موروثی عداوت اور صلیبی جنگوں کے اثر سے عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، اس جانبدارانہ، حاقدانہ تصور کو تاریخ، قصہ اور ناول کے ذریعہ عام کیا گیا ، اس کے مطابق فلمیں بنائی گئیں اور عالم اسلام کے سماجی، سیاسی واقعات کو اسلام کی تعلیم اورخودذات رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور نصاب تعلیم میں داخل کی گئیں ، صرف یہی نہیں بلکہ سیرت نبوی پر کام کرنے والے مصنفوں نے اور خود مسلم سیرت نگاروں اور مورخین نے انہیں کتابوں پر اعتماد کیا، جس کی وجہ سے یورپ کے ساتھ ساتھ خود عالم اسلام میں سیرت نبوی کے تعلق سے غلط حقائق و معلومات عام ہوگئیں اور مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ اس سے متاثر ہوا۔

مستشرقین نے یہ کتابیں ایسے وقت میں تصنیف کیں جب کہ پوری دنیا پر مسلمانوں کو سیاسی غلبہ حاصل تھا اور دوسری طرف یورپ جہالت و گم راہی سے نکل کر روشنی کی جانب گام زن تھا اور مسلم فاتحین کا رعب اس پر چھایا ہوا تھا، اس کے ساتھ ساتھ یورپ خانہ جنگی سے دوچار تھا، سو سالہ، تیسسالہ، دہہ سالہ اور تین سالہ جنگیں یورپین خانہ جنگی کی واضح مثالیں ہیں، جن میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوا اور خون آشام خانہ جنگیوں کی وجہ سے زندگی سے مایوسی عام ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم فاتحین کی کام یابیوں اور اسلامی تہذیب و تمدن کے عروج کو دیکھ کر یورپ احساس کم تری کا شکار ہو گیا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کینہ وحسد، بغض و عناد پیدا ہو گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز خاکوں کی اشاعت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو غلط طریقہ سے پیش کیا جانا اس دشمنی و عناد کی واضح دلیل ہے۔

مغرب فطری طور پر بزدل اور کمزور ہے اور بزدل ہمیشہ دشنام طرازی کا سہارا لیتا ہے، یورپین مورخین کی یہ کتابیں اس کا بین ثبوت ہیں، جب کہ مسلمانوں کی فطرت جواں مردی، بہادری، کرم فرمائی اور کشادہ قلبی ہے اور بہادر کم زوروں کے ساتھ عفوو درگزر ، عدل گستری، دل داری و رواداری سے پیش آتا ہے، تاریخ اسلام میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔

یورپ نے مسلمانوں کے عہد اقتدار و غلبہ میں دو بدو جنگ کرنے کے بجائے، مکر و فریب، عیاری ومکاری، چال بازی، بہتان تراشی و افترا پردازی اور کذب بیانی کا راستہ اختیار کیا اور مسلمانوں کے خلاف فکری وتہذیبی جنگ چھیڑ دی۔
یورپ کی علمی بیداری کے اوائل میں اسلام کے تعلق سے ایک کتب خانہ وجود میں آیا، جس کا بیشتر حصہ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا، لیکن یورپ نے اسلامی موضوعات پر تحقیق وریسرچ میں اس حقیقت پسندی اور غیر جانب داری کا ثبوت نہیں دیا جو دوسرے علوم وفنون کے میدان میں نظر آتی ہے، بلکہ اسلام کے تعلق سے اس روش اورنہج پر قائم رہا جو صلیبی جنگوں کے زمانہ میں رائج تھا اور صلیبی عہد کے تصورات و خیالات کو یورپین اہل قلم جوں کا توں نقل کرتے آ رہے تھے، حالاں کہبحث تحقیق کی رو سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپ دوسرے میدانوں کی طرح اس میدان میں حقیقت پسندی اور غیر جانب داری کا ثبوت دیتا، اس ضمن میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا یہ بیان بڑی اہمیت کا ہے، جو اس نے انڈونیشا کے اپنے ایک دورے میں دیا ہے کہ عالم اسلام اور مغرب کے تعلقات ماضی کی تاریخ پر قائم ہیں اور اب ماضی کو بھول کر حال کی روشنی میں تعلقات استوار کرنا چاہیے ۔

یورپ میں غیر جانب دار اور انصاف پسند اہل قلم بھی ہیں، جنھوں نے عام نہج سے ہٹ کر صداقت و سچائی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے تعلق سے یورپ میں رائج غلط اور گم راہ کن تصورات کو بے بنیاد ٹھہرایا ہے، لیکن یہ کتا بیں یورپ میں رواج نہ پاسکیں، کیوں کہ آج بھی اسلام کے تعلق سے اہل یورپ کے ذہن و دماغ مسموم ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے انصاف پسند مورخین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل و کمال اور انسانیت پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے احسان کے معترف ہیں مثال کے طور پر” لامر ٹائن“” ڈیورانٹ“” ٹوماس کارلائل“ ”جاک ریسلر “”ہو برٹ جارج ویلیس“ اور” ہنری“ جیسے اہل علم اور دانش وروں نے اپنی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہوسلم کی انسانیت نوازی کا صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے، لیکن ناکام صلیبی جنگوں کے عہد سے اسلام سے بغض و عناد اور نفرت و عداوت کا جو ماحول چلا آ رہا ہے، اس کی وجہ سے وہی کتا ہیں مقبول عام ہوئی ہیں جن میں اسلام کے تئیں زہر یلا مواد ہوتا ہے اور وقتا فوقتا یورپ میں اسلام اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے متعلق جو گستاخانہ اور اہانت آمیز لٹریچر شائع ہوتا ہے یا فنکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیجو اہانت آمیز خاکے شائع کرتے ہیں، اس سب کی بنیا دو ہی قدیم تصور ہے جو یورپی قوموں کی ذہنوں میں رچ بس گیا ہے اور یورپ کے نصاب تعلیم میں وہی کتابیں داخل ہیں جو اسلام مخالف اور گم راہ کن حقائق ومعلومات پر مشتمل ہیں، جس کی وجہ سے بچپن ہی سے ذہنوں میں اسلام اور نبی کریم صلی اللہ صلی الله علیہ وسلم کی غلط تصویر قائم ہو جاتی ہے۔

گزشتہ مہینوں میں نبی انسانیت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد، عالم اسلام میں زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے، تو یورپ کے فنکاروں نے اپنی گستاخی کا عذر پیش کیا کہ ان کے فکر و خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایساہی تصور بٹھلایا گیا ہے، پیغمبر انسانیت ان کی تحقیق و معلومات کے مطابق ویسے ہی تھے، جیسا انھوں نے ان کارٹونوں میں دکھایا ہے اور ان کا یہ اقدام اظہار رائے کی آزادی پر مبنی ہے، جو یورپ میں سب کو حاصل ہے، لندن سے شائع ہونے والے میگزین ”ایکنامسٹ“ نے لکھا ہے کہ مستشرقین کی کتابوں میں اس سے بھی زیادہ افسوس ناک اور اہانت آمیز خیالات ملتے ہیں، اس میگزین نے مستشرقین کے بدترین تصورات کے نمونے بھی شائع کیے ہیں ، مستشرقین کے جواب میں مسلم سیرت نگاروں نے جو کتابیں تصنیف کی ہیں، ان سے اہل مغرب کے اسلام کے تئیں بغض و عناد اور عداوت و دشمنی کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

مسلم اہل قلم اور مفکرین کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ یورپ کی اس علمی وفکری یلغار کا مقابلہ کرتے،لیکن افسوس کہ وہ اپنی تمام تر توجہات یورپ کے عسکری حملے کے دفاع میں صرف کرنے کی وجہ سے اس بھیا نک فکری و علمی یورش پر توجہ نہ دے سکے، حالاں کہ یورپ عالم اسلام پر اپنے استعماری حملے سے قبل ہی اس خاموش سنگین علمی و فکری جنگ کی ابتدا کر چکا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے سیرت نبوی پر ایک قیمتی ذخیرہ تیار کیا اور سیرت نبوی کا موضوع مسلم مصنفین کا پسندیدہ اور محبوب موضوع رہا ہے، اسی حب رسول اور ذات نبوی سے والہانہ تعلق و شیفتگی کے نتیجہ میں ان کے قلم سے ایسی نادر اور بیش قیمت کتا بیں وجود میں آئیں جن سے اہل ایمان کے قلوب عشق رسول کی روشنی سے منور و فروزاں ہوتے ہیں۔ اور ان کے دلوں میں حب رسول کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،چناں چہ مختلف مواقع پر اس جذبہ کا مظاہرہ و مشاہدہ خوب ہوا، پورا عالم اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز خاکوں کے خلاف دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آیا، لیکن مسلم مصنفین کی کتابیں مسلمانوں ہی کی زبانوں میں ہیں اور یقینا ان کتابوں نے حب رسول اور اتباع سنت کے جذبہ کو خوب فروغ دیا ہے، اسی طرح نعتیہ قصائد نے بھی مسلمانوں میں شوق و سرور اور عقیدت کے جذبات کو اور جلا بخشی ہے، لیکن یورپ کے نظریہ کو ان کتابوں کے ذریعہ نہیں بدلا جاسکتا، بلکہ یورپ کے تصورات کو ان کی زبانوں میں سیرت پر لٹریچر پیش کرنے سے بدلا جا سکتا ہے، بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق کارٹونوں کے خلاف رد عمل کے اثر سے یورپ میں سیرت نبوی کے متعلق کتابوں کی مانگ اتنی بڑھی کہ اس کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے، لیکن افسوس یورپین زبانوں میں سیرت کا مواد کمیاب ہے۔

اس وقت عالم اسلام میں مختلف اسلامک سینٹر، اکیڈمیاں ، مسلم ادارے اور اسلامی مراکز ہیں، جو بحسن و خوبی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، یقینا یہ انتہائی اہم اور مبارک فریضہ ہے،اس کے ذریعہ ہزاروں لوگ راہ یاب ہورہے ہیں، لیکن اسلام اور سیرت نبوی کو علمی و فکری انداز میں پیش کرنا بھی وقت کا اہم فریضہ اور مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے، جو کسی طرح بھی دعوتی فریضہ سے کم اہمیت کی حامل نہیں، بلکہ تقریباً دونوں کی حیثیت یکساں ہی ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کی اہمیت و افادیت اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاب ناک حقیقی زندگی کو اہل یورپ کے سامنے علمی و عصری انداز میں پیش کیا جائے ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی اس پہلو پر مسلم اہل قلم کی توجہ مبذول کرائی ہے، انھوں نے کہا” سیرت نبوی کی تدوین یورپ کی زبانوں میں ہونی چاہیے، سیرت نگاری کے میدان میں یہ ایک خلا ہے اسے پر کیا جانا چاہیے، اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے انھوں نے عملی نمونہ پیش کیا کہ انٹرنیٹ پر سیرت نبوی سے متعلق ایک ویب سائٹ شروع کر دی، چناں چہ اسلامی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ تاریخ اسلام اور سیرت نبوی کے موضوع پرعلمی انداز میں ایسی کتابیں تصنیف کریں جن میں ذات رسول کے متعلق کیے جانے والے تمام اعتراضات کا تشفی بخش اور قابل اطمینان جواب ہو، اسی کے ساتھ حالات اور یورپی مزاج و مذاق کا بھر پور خیال رکھا گیا ہو، اس لیے کہ اس قسم کے شکوک و شبہات صرف غیر مسلموں کے ذہنوں ہی میں نہیں پائے جاتے ،بلکہ یورپ کی نئی نسل اور مغربی تعلیم یافتہ مسلم طبقے کے ذہنوں میں بھی یورپ کے گم راہ کن باطل نظریات کی وجہ سے نت نئے شکوک و شبہات نے جگہ بنالی ہے۔

اہانت آمیز خاکوں کے خلاف عالم اسلام میں آنے والی احتجاجی آندھیوں کے جھونکے کچھ تھمسے گئے ہیں، احتجاجی مظاہرین ذات نبوی سے متعلق اپنی عقیدت و محبت اور جاں نثاری والفت کا ثبوت پیش کرچکے ، اب ان ارباب علم وفضل اور اصحاب اختصاص کی باری ہے جنہوں نے یورپ کو قریب سے دیکھا ہے اور وہاں کی تہذیب و ثقافت اور زبانوں سے آشنا ہیں کہ وہ اس مشن کا بیڑا ٹھائیں اور سیرت رسول و تاریخ اسلام کو یورپ کے مزاج کے مطابق پیش کریں،کیوں کہ اسی طریقہ سے یورپ کے فکری انحراف کو راہ مستقیم پر لایا جا سکتا ہے اور یہ وقت کا ایک اہم اسلامی فریضہ ہے،جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

سیرت سے متعلق