سید نا حسن کی شان استغنا اور مقام جو دوسخا

سید نا حسن کی شان استغنا اور مقام جو دوسخا

مولانا ابوبکر حنفی شیخوپوری

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اطہار روئے زمین کے وہ مقدس ترین افراد تھے جن کے ہر عمل سے بوئے صداقت آتی تھی، ان کے اوصاف حسنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال تربیت کے عظیم مظاہر تھے، یہ ایسا پاکیزہ شجرہ تھا جس کی ہر شاخ تازہ سے حسن کر دار کے پھول مہکتے تھے ، ان کی روائے تطہیر آج تک جہان پر رحمت فگن ہے ، یہ وہ آستانہ عالیہ ہے جہاں سے امت کو زندگی گزارنے کے ایسے راہ نما اصول ملے جن کی بدولت انسانی قدریں بلند ہوئیں اور مذہب اسلام کی شناخت کو بقا حاصل ہوئی ، اس گلشن رسالت کے ایک گل معطر، خاندان نبوی کے چشم وچراغ، سید نا حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ شیر خدا سید نا علی المرتضی اور خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہما کے سب سے بڑے صاحب زادے تھے، آپ رضی اللہ عنہ کے حصے میں یہ اعزاز آیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیدائش کے وقت انہیں گود میں لیا، ان کے کان میں اذان کہی اور ساتویں دن عقیقہ کروایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک آٹھ سال تھی، چوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کے عہد طفولیت کے آٹھ سال آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں گزرے تھے، اس لیے نانا حضور کی تربیت کا رنگ واضح طور پر آپ رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات میں دکھائی دیتا تھا اور اپنے اعمال و اخلاق اور عادات و اطوار سے نانا اور بابا کاعکس نظر آتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اوصاف میں سب سے نمایاں وصف آپ رضی اللہ عنہ کا مقام سخا اور شان استغنا ہے، راہ خدا میں بے دریغ خرچ کرنا آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا محبوب مشغلہ تھا ۔ از راہ عقیدت لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو جو ہدایا اور تحائف دیتے تھے، بالخصوص امیر المومنین سید نا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے پہنچنے والا بھاری بھر سامان اور نقدی رقوم ، انہیں اپنے استعمال میں لانے کی بجائے فقراء اور مساکین میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے ، سارا دن سائلین کا تانتابندھارہتاتھا اور اپنی جھولیاں بھر کرلوٹتا تھا، ایک مرتبہ کسی نے آپ رضی اللہ عنہ سے سوال گیا:حضرت!آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ کیوں نہیں لوٹاتے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں خود اللہ کے در کا فقیر ہوں ، اس لیے مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ خود رب کا منگتا ہو کر کسی منگتے کو تہی دست واپس بھیج دوں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے جود وسخا کے واقعات سے کتب سیر بھری پڑی ہیں، چند واقعات نذر قارئین ہیں۔

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے چارلاکھ درہم میں باغ خریدا، کچھ عرصے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو باغ کے سابقہ مالک کے بارے میں پتا چلا کہ اس نے وہ باغ انتہائی مجبوری کی حالت میں بیچا تھا اور اس وقت وہ شدید معاشی تنگی اور بد حالی کا شکار ہے ، آپ رضی اللہ عنہ چوں کہ بہت زیادہ رقیق القلب تھے اور کسی کی پریشانی آپ رضی اللہ عنہ سے نہیں دیکھی جاتی تھی ، اس لیے اس شخص کو بلایا اور وہ باغ اسے واپس کر دیا۔ ایک درہم کی قیمت آج کی تاریخ میں پاکستانی کرنسی کے مطابق چھہتر اعشاریہ بیس روپے ہے، اس کو چار لاکھ سے ضرب دیں تو جواب تین کروڑ چار لاکھ اسی ہزار آتا ہے۔ اندازہ کیجیے!اتنی بڑی رقم یک لخت ایک مجبور کے ہاتھ میں تھما دینا کوئی معمولی بات نہیں ، یہ سخاوت کی وہ اعلی مثال ہے جس کا یقین کرنا بھی آج کے مادیت زدہ ذہنوں کے لیے مشکل ہے، لیکن جو ہستی اپنی نانی سیدہ خدیجہ رضی اللہعنہا کی دریا دلی کی عینی شاہد ہو، اپنے والد ذی قدر کے مقام سخا سے آشنا ہو اور اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے دریائے عفو وکرم میں غوطہ زن ہوئی ہو، اس کے لیے راہ خدا میں اتنی بھاری رقم بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

مشہور صوفی بزرگ حضرت علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز، معروف زمانہ اور مقبول عوام وخواص تصنیف ”کشف المحجوب“ میں حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان کے دروازے پر آ کر انہیں گالیاں دینی شروع کردیں، آپ رضی اللہ عنہ نے انتہائی صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کیے رکھی ، جب وہ چپ ہو گیا تو اس سے فرمایا:اے اعرابی؟ کیا تجھے بھوک لگی ہے؟ کیا تجھے کچھ پینے کی طلب ہے؟ یا کسی اور مصیبت نے تجھے گھیر رکھا ہے؟ اگر کوئی ایسی بات ہے تو اس سلسلہ میں تیری کیا مدد کر سکتا ہوں ؟ اس کے بعد غلام کو حکم دیا کہ درہموں کی تھیلی اس کو لا کر دے دو۔ پھر اس عنایت اور مہربانی پر احسان نہیں جتلا یا، بلکہ بے انتہا انکساری اور عاجزی کے ساتھ فرمایا: معاف کرنا!اس وقت میرے پاس دینے کے لیے اتناہی تھا، اگر اس کے علاوہ کچھ اور موجود ہوتا تو وہ بھی تجھے دے دیتا، اس کمال شفقت کو دیکھ کر وہ اعرابی بے اختیار بول اٹھا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادے ہیں ، میں نے یہ سب کچھ محض آپ کے حلم و بردباری کا امتحان لینے کے لیے کیا ہے۔

حجة الاسلام حضرت امام غزالی رحمہ اللہ احیاء العلوم میں رقم طراز ہیں کہ ایک سائل آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اپنی تنگ دستی کی شکایت کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے پچاس ہزار اشرفیاں (سونے کے سکے ) دینے کا حکم فرمایا ، غلام نے یہ اشرفیاں سائل کو دیں تو اس سے اٹھائی نہ گئیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے ایک مزدور کا انتظام کیا اور اس کی اجرت بھی اپنی طرف سے ادا کی۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا عام معمول یہی تھا کہ جو دوسخا کے معاملے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے، البتہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آتی کہ کوئی شخص ان پر پہلے احسان کرتا تو اس کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرماتے ، اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل سیر نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ، آپ، آپ کے بھائی حضرت حسین اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہم حج کو جارہے تھے کہ اونٹ مع سامان کے گم ہو گیا ، جب بھوک اور پیاس نے بے تاب کیا تو اجازت لے کر ایک بڑھیا کی کٹیا میں چلے گئے اور کچھ کھانے پینے کو طلب کیا ، بڑھیا نے انہیں بکری کا دودھ پیش کیا ، دودھ نوش کر کے فرمایا:کچھ کھانے کو بھی ملے گا ؟ بڑھیا نے کہا:یہ بکری ہے، اسے ذبح کر کے کھا لیجیے، چناں چہ بکری کو ذبح کر کے اس کا گوشت تناول فرمایا، پھر فرمایا: ہم قریش والوں کی روایت یہ ہے کہ ہم احسان کا بدلہ دیتے ہیں، لہذا کبھی مدینہ آنا ، ہم آپ کے احسان کا بدلہ دیں گے۔ یہ کہہ کر اپنی منزل کو روانہ ہو گئے ، کچھ دیر کے بعد جب اس بڑھیا کا خاوند آیا تو اس سے بہت خفا ہوا کہ انجانے لوگوں کو بکری ذبح کر کے کھلا دی ، وقت گزرتا رہا، ان میاں بیوی پر فقر و مفلسی کے دن آگئے، چناں چہ یہ سفر کر کے مدینہ پہنچے تو اتفاقاً حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا اور ہزار بکریاں اور ہزار دینار اس کو عطا کیے، پھر اپنے غلام کے ہم راہ اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، انہوں نے بھی ہزار بکریاں اور ہزار دینار اس کو دیے ، اس کے بعد انہیں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا تو انہوں نے دونوں بھائیوں کے ہدیہ کے برابر دو ہزار بکریاں اور دو ہزار دیناران کے حوالے کر دیے ، یوں ایک بکری کے عوض چار ہزار بکریاں اور چار ہزار دینار دے کر اس عورت کے احسان کا بدلہ چکا دیا۔

بہشت کے باسی سے متعلق