حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی مختصر سوانح
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے تھے۔ دین ِاسلام اور اسلامی تاریخ کی سب سے پہلی ایمانی، روحانی، علمی اور دینی درس گاہ دارِ ارقم میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تربیت میں رہے، مکہ مکرمہ کے امیر ترین خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی چپل حضرموت علاقہ سے اورآپ کا لباس یمن سے خصوصی طور پر لایا جاتا تھا، ناز ونعمت میں بڑے ہوئے، جسم اتنا ملائم تھا کہ حبشہ کی ہجرت کے وقت جب پیدل چلے تو پاوں سے خون جاری ہوگیا۔ اسلام لانے کے بعد اس تمام ناز ونعمت کی قربانی دی، جو بدن ریشم جیسا نرم لباس پہننے کاعادی تھا، اسی بدن پر رسیاں کسی گئیں۔ اسلام کی خاطر اپنا مال، آرام، عیش وعشرت کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ انعام عطا فرمایا جو کسی اور اُمتی کو نہ مل سکا کہ مدینہ منورہ کی طرف اسلام کے سب سے پہلے مثالی اور کام یاب مبلغ وسفیر بنائے گئے۔ غزوہ اُحد میں شہادت سے نوازے گئے۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، مصعب بن عمیر، ج:3، ص:96، دار الحدیث، القاہرة)
آپ کی زندگی کے نمایاں پہلو
آپ کی اسلامی زندگی کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں:
مدینہ منورہ کی طرف داعی بناکر بھیجا جاناغزوہ بدر اور غزوہ اُحد میں مہاجرین کے علم بردار اس مضمون میں آپ کی زندگی کے پہلے نمایاں پہلو کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
12نبوی میں جب بیعتِ عقبہ اولیٰ ہوئی، تو مدینہ منورہ سے آئے ہوئے انصاری حضرات نے، حضور ا سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی معلم دیجیے، جو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم دے اور نماز کی امامت کروائے، حضور ا نے حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو دینِ اسلام کا سب سے پہلا سفیر بنا کر ان کی طرف بھیجا۔ مدینہ منورہ میں آپ کی دعوت کا عرصہ ایک سال سے بھی کم ہے، لیکن اتنے قلیل عرصہ میں دعوت اتنی پھیلی کہ مدینہ منورہ کا کوئی گھرانہ اسلام سے خالی نہ رہا۔ قبیلہ بنو عبد الاشہل قبیلہ اوس کی بڑی شاخ تھی، ان میں سے ایک شخص کے علاوہ پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہو گیااور بعد میں وہ صاحب بھی غزوہ اُحد کے موقع پر اسلام میں داخل ہوئے، وہیں شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے اور بغیر کوئی نماز پڑھے سیدھے جنت میں پہنچ گئے، جنہیں اُصیرم رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے۔ اگلے سال 13نبوی کو مدینہ منورہ کے ستر سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے حاضر ہوئے اور آپ ا کے ہاتھ پر بیعت کی، جسے بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔
آپ کا دعوتی نصاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک خصوصی نصاب دے کر بھیجا، وہ دعوتی نصاب تین نکات پر مشتمل ہے:
1.. تعلیمِ قرآن 2.. اقامتِ صلوٰة 3.. تفقہ فی الدین
(سیر اعلام النبلاء للذہبی، ذکر مبدا خبر الانصار، ج1:، ص298:، دار الحدیث، القاہرة)
دعوتی نصاب کی اہمیت و خصوصیت
تعلیمِ قرآن:
سماوی اور غیر سماوی ادیان کی تاریخ میں ہدایت و اصلاح، عقائدونظریات، حکومت وسیاست، تہذیب و ثقافت، مالی اور معاشی نظم وضبط، اخلاقی اقدار اورفنونِ حرب کے اعتبار سے سب سے موثر ترین کتاب قرآن کریم ہے، ہدایت ِانسانی کا کوئی نصاب اور کوئی دعوت قرآن کریم کی تعلیم کے علاوہ نا مکمل ہے۔
اِقامتِ صلوٰة :
کلمہ طیبہ کے بعد اسلام کا اولین فریضہ، دینِ اسلام کا امتیازی نشان اور اللہ تعالیٰ سے براہ ِراست تعلق کا مضبوط ذریعہ نماز ہے۔
تفقہ فی الدین
دین کی اس قدر سمجھ کہ مسلمانوں میں اسلامی روح، دینی مزاج اور الہامی صلاحیت و بصیرت نکھر کر سامنے آجائے تفقہ فی الدین کہلاتا ہے۔
تفقہ فی الدین اسلامی دعوت کا اہم ترین اور لازمی جز ہے، اس کے علاوہ دعوت کا فریضہ مکمل طور پر ادا نہیں ہوسکتا، حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے تفقہ کا درس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا اور یہ تفقہ جب انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں منتقل کیا گیا، تو ان کے اجتہادی فیصلے قیامت تک کے لیے دینِ اسلام کا حصہ بن گئے، جمعہ کی نماز کا قیام حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ذریعہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجتہادی فیصلہ تھا، جو انہوں نے تفقہ فی الدین کے نتیجہ میں کیا ، جو عن قریب آگے چل کر دینِ اسلام کا مکمل فریضہ بن گیا۔ اور حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پہلے وہ شخص کہلوائے جنہوں نے مکہ مکرمہ سے بھی پہلے مدینہ منورہ میں جمعہ کا قیام فرمایا۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی، ذکر مبدا خبر الانصار، ج1:، ص:98، دار الحدیث، القاہرة(
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور اسلامی اَسالیب ِ دعوت
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت قرآن کریم کے اصولِ دعوت کے عین مطابق تھی، اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں دعوت کے تین اسلوب بیان فرماتے ہیں: ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَُ﴾(النحل:125)
1.. حکمتِ بالغہ 2.. موعظہ حسنہ 3.. مجادلہ حسنہ
آپ نے جس طرح حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دعوت دی، وہ ان تینوں چیزوں کا مظہر ہے، سیرت اور تاریخ کی کتب میں اس کا مفصل تذکرہ موجود ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ بنی ظفر کے چشمہ پر چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ بنی عبدالا شہل کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے رفیق اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس داعی ِاسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو، جو یہاں آکر ہمارے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو گم راہ کرتا ہے۔ اگر میرا اسعد بن زرارہ سے رشتہ داری کا تعلق نہ ہوتا (سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے) تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا۔ یہ سن کر اُسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے نیزہ اُٹھایا اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ کے پاس آکر انتہائی سخت لہجہ میں مخاطب کرتے ہوئے کہا:
تمہیں یہاں آنے کی کیسے جرات ہوئی؟ تم ہمارے کم زور اورضعیف الاعتقاد لوگوں کو گم راہ کرتے ہو۔ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو یہاں سے چلے جاو۔
اس قدر ناروا اور سخت گفتگو کے باوجود حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے بڑی نرمی سے فرمایا:
آپ تشریف رکھیں اور ایک بار ہماری دعوت سن لیں۔ اگر کوئی بات معقول اور آپ کی مرضی کے مطابق ہو تو قبول کرلیجیے گا اور اگر ہماری بات آپ کو پسند نہ آئے تو ہم خود یہاں سے چلے جائیں گے۔
اُسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا:یہ تم نے انصاف کی بات کی ہے، اور متوجہ ہو کر سننے لگے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور پھر اسلام کے عقائد ومحاسن کو اس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا کہ تھوڑی ہی دیر میں اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے دل میں ایمان کا نور چمکنے لگا اور بے تاب ہوکر کہنے لگے:کیسا اچھا مذہب ہے!اور کیسی بہتر ہدایت ہے!اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:غسل کیجیے، پاک صاف ہوجائیے، کپڑے بھی پاک صاف کرلیجیے اور اس کے بعد حق کی گواہی دیجیے اور نماز ادا کیجیے۔
چناں چہ اُسید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے، غسل کیا، کپڑے پاک کیے، کلمہ توحید پڑھا اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر کہنے لگے: میرے پیچھے ایک شخص ہے، اگر اس نے بھی تمہاری پیروی کرلی تو اس کے بعد اس کی قوم سے کوئی فرد اسلام سے باہر نہ رہے گا۔ میں ابھی اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں، وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے۔ جب وہ واپس لوٹے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا:واللہ!اسید جس حالت میں گیا تھا، اس سے بالکل جدا حالت میں واپس آرہا ہے۔ جب وہ آکر مجلس میں کھڑے ہوئے تو سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا:تم نے کیاکیا؟ انہوں نے کہا:ان دونوں سے گفتگو کی، واللہ!مجھے ان دونوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا اور میں نے انہیں منع بھی کردیا ہے اور دونوں نے اقرار کیا ہے کہ جیسا تم پسند کرو، ہم ویسا ہی کریں گے۔ البتہ مجھے خبر ملی ہے کہ بنی حارثہ، اسعدبن زرارہ کوقتل کرکے تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے، چناں چہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غصے سے بھرے ہوئے بڑی تیزی سے اُٹھے کہ کہیں بنی حارثہ ان کوواقعتًا قتل ہی نہ کردیں، ان کے ہاتھ سے نیزہ لے کر تیزی سے ان کی طرف گئے۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہاں حالات بالکل ٹھیک ہیں، تو وہ سمجھ گئے کہ اسید رضی اللہ عنہ نے یہ حیلہ صرف اس لیے کیا ہے، تاکہ مجھے ان لوگوں کی باتیں سنوائی جائیں، چناں چہ انہوں نے جاتے ہی ان کوگالیاں دینا شروع کردیں اور اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
اے ابوامامہ!سنو، اگر تمہارے اور میرے درمیان رشتہ داری نہ ہوتی تو تمہیں یہ جرات قطعاً نہ ہوتی کہ تم ہمارے محلہ میں آکر ایسی باتیں کرتے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کی گفت گو اور گالم گلوچ کو بڑے تحمل کے ساتھ سنا اور بڑی نرمی سے کہا:آپ ایک بار ہماری دعوت سن لیں، اگر کوئی بات آپ کی مرضی کے مطابق ہو اور آپ کو پسند آئے تو اسے قبول کرلیجیے گا اور اگر اسے ناپسند کریں تو ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور کردیاجائے گا۔
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تم نے انصاف کی بات کہی۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور سورہ زخرف کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں اور اسلام کا نقشہ کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ وہ فوراً ہی مسلمان ہوگئے اور جوش میں بھرے ہوئے اپنے قبیلہ بنی عبد الاشہل کی طرف آئے اور ان سے کہا:اے بنی عبدالاشہل!تم اپنے درمیان مجھے کس مقام کا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا:آپ ہمارے سردار، آپ سب سے زیادہ خویش پرور، بہترین رائے والے اور بڑی عقل والے ہیں۔ انہوں نے کہا:تو تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنامجھ پر حرام ہے جب تک تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاو اور پھر شام ہونے سے پہلے پہلے قبیلہ بنی عبدالاشہل نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زیرِ اثر اسلام قبول کرلیا۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ذکر مبدا خبر الانصار، ج:1، ص:98، دار الحدیث، القاہرة)
داعی کی دس صفات حضرت مصعب بن عمیرص کی سیرت کی روشنی میں
سیدنا مصعب بن عمیرص کی ذاتی زندگی، ان کے اسلوبِ دعوت اور منہجِ تبلیغ کا دقیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا ایک موثر ترین مبلغ، داعی اور سفیرِ اسلام کو دس صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک صفت بھی مکمل طور پر کسی مبلغ اور داعی میں نہ پائی جائے تو اس کی دعوت وہ برگ و بار نہیں لا سکتی اور اس قدر موثر اور پھل دار نہیں ہوسکتی جتنی ہونی چاہیے اور بہت ممکن ہے کہ ایسی دعوت کے معاشرہ میں برے نتائج ظاہر ہوں۔
1.. طلبِ علم:
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے فوراً بعد اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ دارِ ارقم میں طالب علم رہے، جس کے معلم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی، آپ ہجرتِ حبشہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی تربیت میں رہے۔ دین کا صحیح علم صاحبِ شریعت سے سیکھا اور سمجھا۔
طلبِ علم داعی اور مبلغ کے لیے لازمی شرط ہے، علم کے حصول کے بغیر شریعت کا داعی اور ترجمان بننا شریعت کے لیے انتہائی خطرناک چیز ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص میڈیکل کی تعلیم کے بغیر،از خود اپنے مطالعہ سے ڈاکٹر بن جائے، یقینا یہ شخص انسانی معاشرے اور انسانی جانوں کا دشمن ثابت ہوگا اور سرکاری اور غیرسرکاری کسی بھی سطح پر ایسا ڈاکٹر قابلِ قبول نہیں ہوسکتا، اسی طرح دینی تعلیم کے حصول اور اس کے صحیح فہم کے بغیر، از خود مطالعہ کرکے بننے والا مبلغ، داعی اور شریعت کا ترجمان اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کے ایمان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
2.. علم میں پختگی
علم کے حصول کے بعد اگلا درجہ علم میں پختگی، اس کی عملی مشق اور اس میں رسوخ کا ہے۔ اگر علم کا حصول برائے نام ہو یا شریعت کے کسی خاص پہلو کا مطالعہ کیا ہوا ہو، تو ایسا شخص بھی شریعت کی کامل و مکمل تشریح اور کامل دین کا ترجمان نہیں بن سکتا۔ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی علمی پختگی اُن کے اسلوبِ دعوت اور آپ ا کے اعتماد سے مکمل طور پر عیاں ہوتی ہے۔
3.. اخلاص وللہیت:
دینی علوم کا حصول دنیاوی مقاصد، شہرت، طمع، حبِ جاہ اور حبِ مال ہو تو ایسا علم دنیا وآخرت میں وبالِ جان اور ابدی رسوائی کا ذریعہ ہے، کئی احادیثِ مبارکہ میں اس بارے میں وارد ہوئی ہیں۔
4.. عمل صالح:
علم میں پختگی اور رسوخ کی پہلی سیڑھی عمل صالح ہے، جو علم بغیر عمل کے ہووہ غیر پھل دار درخت کی مانند ہے، ایسا علم اپنے اور دوسروں کے ایمان کے لیے نقصان دہ ہے۔داعی کا اگر اپنی دعوت پر عمل ہی نہ ہو تو سامنے والے پر دعوت کا مثبت اثر ہونے کے بجائے برا اثر پڑتا ہے، اور اس کی وجہ سے دینِ اسلام میں مزید شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اقامتِ صلوٰة کی ذمہ داری سونپی گئی، جواولین اور بلند ترین عمل صالح ہے۔
5.. لوگوں کے مرتبہ کے اعتبار سے گفت گو کرنا:
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سرداروں سے سرداروں کے لب ولہجہ میں، ان کے مقام ومنزلت کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی ذہنی سطح کے اعتبار سے گفت گو کرتے تھے اور دیگر لوگوں سے ان کے مقام کے اعتبار سے۔اس ضمن میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی دعوتیگفت گو کو، بطور خاص ذہن میں رکھنا چاہیے۔
6.. اپنی دعوت پر مکمل یقین:
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اپنی دعوت پر اتنا یقین تھا کہ سامنے والے مخاطبین سے فرماتے:ہماری گفت گو اور ہماری دعوت سن لو، اگر معقول، دل پسند اور حق پر مبنی نہ ہوتو آپ اس سے بہتر چیز کی طرف ہماری راہ نمائی کردیجیے گا۔ یہ اسلوب وہاں اختیار کیا جاتا ہے جہاں انسان کو اپنی بات کی حقانیت اور اس کی تاثیر پر مکمل یقین ہو۔
7.. اطمینان و وقار اور بے خوفی:
داعی کا لازمی اور خصوصی وصف اطمینان اور پروقار رہناہے، کیوں کہ دعوت کے کام میں کسی بھی نا گوار صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اپنے قبیلہ کے سردار بھی ہیں اور نیزہ لے کر غصہ کے عالم میں آپ کے پاس آرہے ہیں، لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مکمل مطمئن ٹھہرے رہے اور فرمایا:کیا ہی اچھا ہوگا، اگر آپ ہماری دعوت سن لیں گے، اگر اچھی بات ہو تو قبول کرلیں، کیوں کہ آپ تو سردار ہیں اور سردار اچھی بات لینے کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اگر بری لگے تو ہماری دعوت سے اِعراض کر لیجیے گا، یہی انداز سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی رکھا گیا۔
8.. اخلاقِ حسنہ سے متصف ہونا:
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر انتہائی با اخلاق تھے، مسکرا کر ملنے کے عادی تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ لوگ ان کی مجلس میں بیٹھنا اور ان سے باتیں کرنا بہت پسند فرماتے تھے۔
9.. زبانی فصاحت :
داعی کا ترجیحی وصف یہ ہے کہ زبانی فصاحت، لسانی بلاغت اور جملوں کی ادائیگی میں شستگی رکھتا ہو۔ حضرت سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا انداز ِگفت گو اتنا نرالہ اور موثر ہوتا تھا کہ آپ کی مجلس سے اُٹھنا لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔
10.. قرآن کریم سے استدلال:
داعی اور مبلغِ اسلام کے لیے لازمی اور ضروری وصف یہ ہے کہ وہ اپنی دعوت کو قرآن کریم سے مزین کرے، قرآن کی دعوت، کائنات کی موثر ترین دعوت ہے، قرآنی قصص کا بیان، قرآنی آیات کی تلاوت اور قرآنی دلائل بیان کرنے سے نہ صرف دعوت موثر بنتی ہے، بلکہ ایسی دعوت کو دوام وبقا اور جاودانی ملتی ہے۔
دین اسلام الحمد للہ کامل ومکمل دین ہے، جس کا نصاب قرآن وسنت ہے اور اس نصاب میں دینی دعوت کے ہر پہلو کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے، اس لیے اسے بلاسند جھوٹے قصوں کے سہارے کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور مجھ جیسے تمام طلبہ کو ان صفات سے متصف فرمائیں اور اپنے دین کا داعی، مبلغ، سفیر اور حقیقی ترجمان بنائیں۔