اسلامی اخلاق میں صداقت و امانت دو ایسے جامع اوصاف ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسانی اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے۔ سچائی و امانت داری کی صفت سے عاری انسان ناتمام اور ادھورا شمار ہوتا ہے۔ سچ بولنے سے معاشرے میں عزت ملتی ہے، لوگوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ سچ کی بدولت انسان راحت و اطمینان کی زندگی جیتا ہے۔
سچائی کو اختیار کرنے سے چہرہ پر رونق رہتا ہے۔ سچ انسان کو نجات دلاتا ہے، جھوٹ ہلاک و برباد کرتا ہے۔ سچائی کو آدمی مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے تو رفتہ رفتہ مقام صدیقیت حاصل کر لیتا ہے، جب کہ کذب اور دروغ گوئی انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ جھوٹ کی وجہ سے انسان کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے، جھوٹا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے، جھوٹ بولنے کی وجہ سے قلبی سکون و اطمینان سے انسان محروم رہتا ہے۔
رحمت کے فرشتے اس سے کوسوں دور رہتے ہیں اور شیطان اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہونے کے باعث اللہ کے یہاں اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
تم سچائی کو لازم پکڑ لو، کیوں کہ سچائی نیکی کی طرف راہ نمائی کرتی ہے اور بے شک نیکی جنت میں پہنچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے بچو، کیوں کہ جھوٹ نافرمانی کی طرف رہ نمائی کرتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
بہر حال!جھوٹ ایک گناہ نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کی جڑ اور بنیاد ہے، اسی لیے اس کو ام الامراض کہا جاتا ہے۔
انسانی زندگی کا دوسرا اہم وصف امانت داری ہے، جس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جامع انداز میں فرمایا کہ:اس شخص کا ایمان مکمل نہیں ،جس میں امانت و دیانت داری کی صفت نہیں ۔“
عام طور سے لوگ امانت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص نے کچھ پیسے یا اپنی کوئی چیز ہمارے پاس لاکر رکھ دی اور ہم نے اس کو حفاظت سے رکھ دیا، اس کو خود استعمال نہیں کیا، کوئی خیانت اس میں نہیں کی، جوں کی توں واپس کر دی تو حق امانت ادا ہو گیا۔
بلا شبہ امانت کا ایک پہلو یہ بھی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں جہاں امانت کا لفظ آیا ہے ،اس کے معنی اور مفہوم میں وسعت ہے، اس کے اندر بڑی کشادگی ہے، بہت ساری چیزیں اس کے دائرے میں آجاتی ہیں۔
سب سے پہلی چیز جو امانت کے اندر داخل ہے وہ ہماری زندگی ہے، جو ہمیں ملی ہے۔اسی طرح ہمارا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک امانت ہے، ہم اس کے مالک نہیں۔ یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ زبان جس سے ہم بولتے ہیں، یہ کان جن سے سماعت کا کام لیتے ہیں، یہ ناک جس سے سونگھتے ہیں، یہ ہاتھ جن کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ پیر جن سے چلنے کا کام لیا جاتا ہے، یہ سب امانت ہیں، جو اللہ رب العزت نے بلا کسی محنت و مشقت محض اپنے فضل سے عطا کیے ہیں۔ دینی ودنیوی منافع کی خاطر انھیں استعمال کرنا اور ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانا یہ امانت ہے اور ان اعضاء کو ایسے مواقع پر استعمال کرنا جس سے اللہ کی نافرمانی لازم آئے یہ خیانت ہوگی۔
اسی طرح زندگی کے یہ لمحات جو گذر رہے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، ان لمحات و ساعات کو ایسے کام میں صرف کرنا جو دنیا وآخرت کے لحاظ سے فائدہ مند ہو یہ امانت داری ہے۔ اور اللہ کی نافرمانی اور ناراض کرنے والے کاموں میں زندگی گزارنا یہ امانت میں خیانت ہوگی۔
مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ امانت و دیانت کا تعلق صرف کسی چیز سے یا پیسوں سے نہیں، بلکہ امانت میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے ساتھ کسی کا حق متعلق ہو اور جس کی حفاظت اور مالک کی طرف ادائیگی انسان پر لازم ہو۔ اس بنا پر کہا جائے گا کہ عالم کے پاس علم امانت ہے۔ کسی مسجد ومدرسہ کے متولی ومہتمم کے پاس مسجد و مدرسہ امانت ہے۔ حاکم اور فرماں رواں کے پاس اقتدار امانت ہے۔ صاحب ثروت اور متمول لوگوں کے پاس دولت امانت ہے۔ مکتب و مدرسہ کے معلم، اُستاذ کے پاس شاگرد امانت ہیں۔ باپ کے پاس اولاد امانت ہے۔ بیوی کے پاس عزت و آبرو امانت ہے۔ ہر انسان کے پاس اس کی جان اور اس کے اعضاء امانت ہیں، ہماری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ امانت ہے۔
پیارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی میں یہ دونوں صفت نمایاں طور پر تھیں، بچپن سے ہی آپ صداقت و امانت کے پیکر تھے۔ نبوت سے پہلے بھی پورے مکہ میں آپ صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے، یعنی آپ سچے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر کبھی جھوٹ نہیں آتا تھا۔ آپ امانت دار تھے، جو لوگ آپ کے پاس امانت رکھواتے تھے اُن کو پورا بھروسہ تھا کہ آپ اس امانت کا حق ادا کریں گے۔ چناں چہ ہجرت کے موقع پر صورت حال یہ تھی کہ کفار نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے، آپ کے خلاف قتل کے منصوبے بنا رہے تھے، اس حالت میں اللہ کے حکم سے آپ کو رات کے وقت اپنے شہر مکہ مکرمہ سے نکلنا پڑا، ایسے حساس اور نازک ماحول میں جب کہ لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں، آپ کو یہ فکر تھی کہ میرے پاس جو لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں ان کو اگر پہنچاؤں گا تو راز کھل جائے گا کہ میں یہاں سے جا رہا ہوں ۔ اس وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک فرد کی امانت اس کے مالک تک پہنچانے کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ اپنا امین و معتمد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنایا اور پابند کیا کہ وہ تمام امانتوں کو واپس کر دیں، اس کے بعد ہی ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں۔
وہ امانتیں صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تھیں، بلکہ کافروں کی بھی تھیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کر رہے تھے، ان کی امانتوں کو بھی ان تک واپس پہنچانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظام فرمایا۔ امانت داری اورسچائی کے معاملہ میں، یہ تھی ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی، پاکیزہ اور تاب ناک سیرت۔
آج مسلم معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ جھوٹ، خیانت، مکر و فریب اوردھو کہ جیسی خبیث اور رذیل عادتوں کی قباحت و برائی ذہنوں سے نکلتی جا رہی ہے اور ان چیزوں کو ہنر، عقل مندی و ہوشیاری کا نام دیا جانے لگا۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے کہ معصیت اور گناہ کی برائی اورقباحت ہی دل سے نکل جائے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نہ صرف مسلمان کے لیے، بلکہ ہر فرد بشر کے لیے ایک کھلی کتاب ہے۔ جن قوموں اور جس خطہ کے لوگوں نے اسلامی عادات و اخلاق کو اپنایا اور ان کو عملی زندگی کا حصہ بنایا، وہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے لگے اور مسلمان نے اپنے دین ِفطرت کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کی وہ پسماندگی اور پست حالی کا شکار ہو گئے۔ اگر واقعی ہم اسلام کے سچے نام لیوا ہیں اور ایک اچھے مہذب انسان کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بھولے اور چھوڑے ہوئے سبق کو پھر سے دوہرانا ہوگا اور اسلامی تعلیمات و ہدایات کو اختیار کرنا ہوگا ، جن پر عمل کر کے یقینا ہمیں دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود حاصل ہوگی، اور معاشرے میں بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جائیں گے۔