دعاؤں کے متعلق ہدایات و سنتیں

idara letterhead universal2c

دعاؤں کے متعلق ہدایات و سنتیں

مولانا مفتی عبد الشکور قاسمی رحمہ اللہ

حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ دعا ہی عبادت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:اور تمہارے پروردگار نے کہہ دیا ہے کہ مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ دعا ہی عبادت ہے۔ کیوں کہ عبادت کی حقیقت اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل و کم تر کر کے عبودیت کا اظہار کرنا اور یہ چیز دعا میں بطریق اولیٰ حاصل ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم م نے فرمایا:دعا عبادت کا مغز ہے۔ عبادت میں بھی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی بڑائی کا اظہار کیا جاتا ہے اور دعا میں بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جاتا ہے۔ حدیث بالا میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی اہمیت کے سلسلہ میں قرآن مجید کی آیت تلاوت فرمائی، تاکہ معلوم ہو جائے کہ دعا کا حکم من جانب اللہ ہے۔ اس آیت مبارکہ کا آخری حصہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا عبادت ہے۔

چناں چہ اس کے بعد آگے ارشاد فرمایا:جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہعنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

اس آیت مقدسہ میں عبادت سے مراد دعا ہے، جس کو بڑائی وتکبر کی وجہ سے ترک کرنے پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، یعنی جو شخص اپنے کو مستغنی سمجھ کر دعا چھوڑ دے، یہ علامت کفر ہے۔ ورنہ عام دعا ئیں فرض یا واجب نہیں، البتہ مستحب اور افضل ہیں اور حدیث پاک کی رو سے موجب برکت اور قرب الہٰی کا ذریعہ ہیں۔ دعا کے متعلق ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اسی کو پکارنا سچ ہے اور وہ اس کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں وہ نہیں کام آتے ان کے کچھ بھی، مگر جیسے کسی نے پھیلائے دونوں ہاتھ پانی کی طرف کہ آپہنچے اس کے منھ تک اور وہ کبھی نہ پہنچے اس تک اور جتنی پکار ہے کافروں کی سب گم راہی ہے۔ یعنی پکارنا اس کو چاہیے جو ہر قسم کے نفع وضرر کا مالک ہے۔ پس اللہ رب العزت کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں نفع و ضرر ہے؟ غیر اللہ کو اپنی مدد کے لیے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنویں کی منڈیر پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ اے پانی! میرے منھ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے کہ قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ پانی اگر اس کی مٹھی میں ہو تب بھی خود چل کر اس کے منھ تک نہیں جا سکتا۔ پکارنے کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ زمین و آسمان کی ساری مخلوقات ہر وقت اور ہر لحظہ اس کی محتاج ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اسی سے (اپنی اپنی حاجتیں) سب آسمان و زمین والے مانگتے ہیں، وہ ہر وقت ایک نئی شان میں رہتا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کی محتاج ہیں اور اس سے اپنی حاجات مانگتی ہیں۔ ساری مخلوقات مختلف خطوں اور مختلف زبانوں میں اس سے اپنی حاجات ہر وقت مانگتی رہتی ہیں۔

دعا سے متعلق ہدایات و سنتیں

∗…حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمہارا رب بہت حیادار، کریم اور بغیر مانگے دینے والا ہے۔ جب کوئی بندہ اس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تواللہ تعالیٰ کو انہیں خالی واپس کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب دعا میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ اپنے منھ پر نہ پھیر لیتے۔ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کے اندرونی حصہ کے ساتھ مانگو اور جب تم دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو اپنے منھ پر پھیر لو، یعنی دعا مانگتے ہوئے جب ہاتھوں کو اٹھاؤ تو ہاتھوں کا رخ یعنی ہتھیلیاں منھ کے سامنے رہیں۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر دعا ہاتھ اٹھا کر مانگی جائے تو فراغت پر ہاتھ منھ پر پھیر لینے چاہییں ، لیکن اگر دعا بغیر ہاتھ اٹھائے مانگی جائے تو پھر ہاتھوں کا منھ پر پھیرنا ضروری نہیں۔

∗… حضرت جابررضی الله عنہکہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے لیے بد دعا نہ کرو اور اپنی اولاد کے لیے بد دعا نہ کرو، اور نہ اپنے مال و اسباب وغیرہ کے لیے بد دعا کرو۔ مبادا کہیں وہ ساعت حاصل ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ ہر سوال پورا کرتا ہے اور پھر تمہاری بد دعا قبول ہو جائے۔

∗…حضرت عکرمہ رضی الله عنہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ:سوال کرنے کا ادب یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے برابر یا ان کے قریب تک اٹھاؤ۔ جب کہ استغفار کا ادب یہ ہے کہ تم اپنی انگلی کے ذریعہ اشارہ کرو۔ اور دعا میں انتہائی تضرع و زاری یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو (آگے کی طرف) دراز کرو۔ انگلی سے اشارہ کرو، اس سے مراد شہادت کی انگلی ہے۔ مقصود اس سے نفس امارہ اور شیطان کو ملامت کرنا اور ان کے شر سے پناہ مانگنا ہے۔

∗…حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ:تمہارا اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ اٹھانا بدعت ہے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اکثر سینہ سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اٹھانے کی مقدار کا فرق حالات ومواقع کے اختلاف پر مبنی تھا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اکثر اپنے سینہ تک ہی ہاتھ اٹھاتے تھے۔ لیکن بعض مواقع پر مونڈھوں تک اٹھاتے اور کسی خاص موقع پر مونڈھوں سے اوپر بھی اٹھاتے تھے۔ لیکن حضرت ابن عمر رضی الله عنہما نے جن لوگوں کو یہ تنبیہ کی وہ لوگ اس فرق کو مد نظر نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ہر دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ اوپر اٹھانے لگے تھے۔ اس لیے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما نے ان کے اس طرز عمل سے بیزاری کا اظہار کیا اور اسے سنت کے خلاف قرار دیا۔

∗… حضرت ابو ہریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ ایک تو باپ کی دعا، دوسری مسافر کی دعا اور تیسری مظلوم کی دعا۔ باپ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کے حق میں، خواہ دعا کرے یا بد دعا کرے۔ دونوں جلدی قبول ہو جاتی ہیں۔ اور جب باپ کی دعا قبول ہوتی ہے توماں کی دعا بطریق اولی قبول ہوتی ہے۔

مسافر کی دعا کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ مسافر کی دعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اس کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور اس کی بد دعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اسے تکلیف اور ایذا پہنچاتا ہے۔ یا پھر یہ مطلب ہے کہ مسافر کی دعا مطلقاً قبول ہو جاتی ہے خواہ وہ اپنے لیے کرے یا دوسرے کے لیے۔

مظلوم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مظلوم کی مدد کرتا ہے اور اس کو تسلی و دلاسہ دیتا ہے اور پھر مظلوم اس کے حق میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جو شخص مظلوم پر ظلم کرتا ہے یا جو شخص ظالم کی حمایت و تائید کر کے مظلوم کو مزید تکلیف پہنچاتا ہے اور مظلوم اس شخص کے حق میں بد دعا کرتا ہے، تو اس کی بد دعا قبول ہو جاتی ہے۔ سنن ترمذی کی ایک اور روایت میں ہے، آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی:

روزہ دار کی دعا، جب وہ افطار کرتا ہے۔

لوگوں کے سردار و حاکم کی دعا، جو عدل و انصاف کرے۔

مظلوم کی دعا، جب مظلوم دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بادلوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے اوراس دعا کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت فرماتے ہیں:مجھے اپنی عزت کی قسم! میں تیری مدد ضرور کروں گا، اگر چہ وہ کچھ مدت بعد ہی ہو۔

∗…حضرت عبد اللہ بن عمررضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بہت جلد قبول ہونے والی دعا کسی غائب کے لیے کی جانے والی دعا ہے۔

∗… حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرے کی ادائیگی کے لیے اجازت مانگی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا:اے میرے بھائی!اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک کر لینا اور دعا کے وقت ہمیں بھول نہ جانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم نے یہ ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی ۔ آں حضرت صلی اللہعلیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔سے دعا کی درخواست کی۔ سبحان اللہ!اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اچھے لوگوں سے دعائے خیر کی درخواست کرنی چاہیے، خواہ وہ مرتبہ کے لحاظ سے کمتر ہی کیوں نہ ہوں۔

∗…حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرتا ہے وہ دعا قبول کی جاتی ہے۔ اور بندے کے سر کے قریب ایک فرشتہ متعین ہے، جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے :اے اللہ!اس کی دعا قبول کر اور اس کے لیے بھی اس کی دعا کو قبول فرما۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کے لیے دعا کے دروازے کھول دیے گئے اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا اس سے زیادہ اچھی نہیں مانگی گئی کہ انسان اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرے۔“ لفظ عافیت ایک بڑا جامع لفظ ہے جس کے معنی ہیں دنیا وآخرت کی تمام آفات و مصائب سے سلامتی و حفاظت اور ہر دینی و دنیوی ضرورت کا پورا ہونا۔ لہٰذا عافیت دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کو شامل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے ۔ کیوں کہ ترک دعا اللہ تعالیٰ کے آگے بڑائی جتانے اور اس سے بے نیازی برتنے کی علامت ہے۔ اسی لیے سنن ترمذی کی ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام حاجتیں اپنے رب سے ہی مانگے ۔
اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بڑی عمدہ مثال ہے کہ ایک طرف تو وہ جب اللہ تعالیٰ کے دیدار کے مشتاق ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سب سے بڑی اور عظیم الشان درخواست پیش کی:اے میرے رب!تو مجھ کو اپنی زیارت کرا کہ میں تیرا دیدار کروں۔ دوسری طرف جب وہ کھانے پینے کے محتاج ہوئے تو پروردگار ہی سے عرض کیا:اے رب! تو جو بھی خیر میری طرف اتارے، میں اس کا انتہائی محتاج ہوں۔ لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ہر حاجت ،خواہ وہ کتنی ہی ادنی کیوں نہ ہو، رب تعالیٰ کے حضور پیش کریں اور اس سے اپنی مرادیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انتہائی مہربان ہیں اور مانگنے والوں کو عطا کرتے ہیں۔

∗… عاجز آ کر دعا مانگنا نہ چھوڑو، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک وہ گناہ یا ناتہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا اور جلدی نہیں کرتا۔ عرض کیا گیا:یا رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم )!جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دعا مانگنے والا بار بار کہنے لگے کہ میں نے دعا مانگی، لیکن میں نے اسے قبول ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور پھر وہ تھک کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنا ہی چھوڑ دے۔ بسا اوقات انسان کو دعا کی قبولیت نظر آتی ہے اور بعض مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ دعا قبول ہی نہیں ہو رہی، اس کا جواب مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جو مسلمان دعا مانگتا ہے، ایسی دعا کہ جس میں نہ تو گناہ کی کسی چیز کی طلب ہو اور نہ ناتہ توڑنے کی خواہش تو اللہ تعالی اسے اس دعا کے نتیجے میں تین چیزوں میں سے ایک ضرور دیتا ہے۔ یا تو جو مانگا و وہی مل گیا یا یہ کہ اس کی مطلوبہ چیز کے بدلے اس کو آخرت کا عظیم ثواب دے دیا گیا یا یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی، مگر کوئی آفت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )!اب تو ہم بہت زیادہ دعائیں مانگا کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کا فضل بہت زیادہ ہے۔

معارف القرآن میں لکھا ہے کہ قبولیت دعا کے لیے اگر چہ اس آیت مذکورہ میں بظاہر کوئی شرط نہیں، یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے، یہاں تک کہ شیطان ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ دعا کے لیے کوئی وقت شرط ہے، نہ طہارت اور نہ با وضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو قبولیت دعا کے لیے مانع اور رکاوٹ قرار دیا گیا ہے لہٰذا ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا مانگنا حرام ہے۔ وہ دعا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول نہیں ہوتی ۔ اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:بعض آدمی بہت سفر کرتے ہیں اور آسمان کی طرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب!یا رب!کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں، مگر ان کا کھانا پینا حرام، لباس حرام اور ان کی حرام ہی سے پرورش ہوئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی؟ اسی طرح ایک جگہ آپ ا نے فرمایا:غافل کی دعا قبول نہیں کی جاتی ۔ یعنی بے پرواہی کے ساتھ، بغیر دھیان دیے، صرف دعا کے کلمات دہرانے سے دعا قبولیت کی مستحق نہیں ہوتی۔