جس طرح کائنات کی ہر چیز میں ایک صورت ہے اور ایک روح ہے، اسی طرح اعمال شرعیہ میں بھی ایک روح ہے اور جیسے وہاں ہر صورت کی ایک خاص روح ہے جو دوسری صورت میں نہیں آسکتی۔ اسی طرح یہاں ایک روح دوسرے میں نہیں آسکتی۔اب سمجھیے کہ سارے اعمالِ شرعیہ کا مقصود تقویٰ ہے۔ مثلاً نماز سے عاجزی وانکساری کی صورت میں تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ روزے میں تزکیہٴ نفس کی صورت میں۔ جہاد میں شجاعت کی صورت میں، صدقہ میں انفاق مال کی صورت میں اور قربانی سے جاں نثاری کی صورت میں تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔
اگر آپ نے قربانی کی بجائے نماز پڑھ لی،تو نماز سے عاجزی اور بندگی کا تقویٰ تو ملا۔ مگر قربانی(کی صورت حاصل ہونے والا تقویٰ) کا تو نہ ملا۔ پس اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے اور صدقہ دے دے تو قیامت کے دن اس کو صدقہ کا ثواب ملِ جائے گا، مگر قربانی کا مطالبہ باقی رہے گا۔ اور یہ سوال ہو گا کہ قربانی کیوں نہیں کی؟
الحمدلله نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادی لہ․ ونشھد ان لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ أرسلہ الله إلیٰ کافة للناس بشیرا ونذیراً وداعیا الیہ باذنہ وسراجاً منیراً․ امابعد:
قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ماعمل ابن اٰدم من عمل یوم النحر احب الی الله من اھراق الدّم وانہ لیاتی یوم القیامة بقرونھا واشعارھا و اظلافھا، وان الدم لیقع من الله بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبو ابھا نفساً․( او کما قال علیہ الصلوٰة والسلام)․(ترمذی وابن ماجہ)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بقرہ عید کے دن انسان کے تمام نیک اعمال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب عمل قربانی کا ہے اور یہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگ، بال او رکھال کے ساتھ ( صحیح سالم ) آئے گی اور یقینا ( قربانی کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے حق تعالیٰ کے یہاں مقبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے، سو قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔
تمہید
بزرگان محترم!
یہ حدیث جو اس وقت آپ کے سامنے بیان کی( اور جس کا ترجمہ بھی آپ کو معلوم ہوچکا ہے ) احکام قربانی پر مشتمل ہے۔ جو اس وقت تقریر وجلسہ کا موضوع ہے، تقریر تو مختصر ہو گی۔ اس لیے کہ اوّل تو یہ مسئلہ جزئی ہے اور جزئیات میں تفصیل نہیں ہوتی، کیوں کہ بسط وتفصیل تو اصول میں ہوا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ ایک عام مسئلہ ہے اور اس سے کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں جو واقف نہ ہو۔ قربانی کا عمل کوئی سال کا عمل نہیں، بلکہ صدیوں سے یہ عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس لیے بھی اس میں تفصیل کی ضرورت نہیں۔ تو نہ نفس مسئلہ میں تفصیل کی گنجائش، اس کے عام ہونے کی بنا پر نہ تفصیل کی ضرورت۔
اُصولِ ثلاثہ تکوینیہ
اُصولِ اول… مسئلہ کی شرح سے پہلے ایک اصول سمجھ لیجیے اور یہ اصول جس طرح تکوینی ہے اسی طرح تشریعی بھی ہے، وہ یہ کہ الله تعالیٰ نے اس کا ئنات کا ذرہ ذرہ دو چیزوں سے ملا کر بنایا ہے۔ ایک روح ایک جسم۔ یعنی ہر چیز کی ایک صورت ہے، ایک اس کی حقیقت۔ ایک اس کی ہیئت اورایک ماہیت۔ یایوں کہیے کہ ایک اس کا ظاہری حصہ ہے او رایک باطنی غرض تمام انسان ، کل حیوانات، نباتات، جمادات کی جہاں ایک صورت ہے وہاں اس کی ایک حقیقت بھی ہے، ایک اس کا بدن اور ایک اس کی روح ہے۔ اور ہر بدن میں خدا تعالیٰ نے اس کے مناسب روح ڈالی ہے۔ جب حق تعالیٰ کی توجہ کائنات کی طاقتوں اور بدن بنانے کی طرف متوجہ ہوئی، تویہی اصول مدنظر تھا۔
سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے کہ اوّل انسان کا بدن تیار کیا جاتا ہے جس کی ابتداء”نطفہ“ یعنی ایک گندے قطرہ سے ہوئی ہے۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے۔
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَاماً فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْن﴾․(سورہ مومنون،آیت:14-12)
یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ ( یعنی گندے قطرے) سے بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنا دیا۔ پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا۔ سو کیسی شان ہے الله کی ،جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔
تو روح ڈالنے سے پہلے ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے،جس کی تیاری میں زمین کیقوتیں بھی متوجہ ہوتی ہیں، آسمان کی بھی۔ آفتاب کی طاقتیں بھی متوجہ ہوتی ہیں اور ہواؤں کی بھی۔ غرض جب کائنات کی ساری قوتیں مل کر ڈھانچہ تیار کر لیتی ہیں تو پھر اس میں روح ڈال دی جاتی ہے۔ یہی صورت سارے جمادات، نابات اور حیوانات کی ہے۔
دوسرا اصول
جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس کائنات کی کوئی چیز بقا نہیں رہ سکتی جب تک بدن اور روح ملے ہوئے نہ ہوں۔ گویا بدن کی بقا روح پر موقوف ہے او رروح کی باقی بدن پر۔ اگر آپ نے بدن کو پھوڑ کر خستہ وخراب کر دیا یا وہ خود ہی قدرتی طور پر خراب ہو گیا اوراس میں سکت باقی نہ رہی تو پھر اس میں روح نہیں ٹھہرتی، بلکہ پرواز کر جاتی ہے، اس لیے کہ بدن ہی روح کو سنبھالے رکھتا ہے۔
غرض انسان میں جب تک روح ہے تو وہ انسان ہے، ورنہ لاشہ ہے جو بیکار ہے، پھر جس طرح مجموعہ بدن کے لیے مجموعہ روح ہے ،اسی طرح بدن کے ہر ہر چیز کے لیے ایک روح ہے ،جو اسی کے ساتھ رہ سکتی ہے، اگر اس جز کو ختم کر دیا جائے تو یہ روح بھی نہ رہے گی۔ یہ نہ ہو گا کہ اگر ایک جز کو ختم کر دیں تو اس کی روح کسی دوسرے جز میں پہنچ جائے۔ مثلاً آنکھ ہے، اس کی روح قوت بینائی ہے، اگر آنکھ پھوڑ دی جائے تو یہ نہیں ہوتا کہ دیکھنے کی قوت مثلاً ناک میں آجائے، بلکہ یہ قوت ہی باقی نہیں رہتی، اسی طرح ناک ہے اس میں سونگھنے کی قوت ہے، وغیرہ۔
حاصل یہ کہ خداو ند تعالیٰ نے جس قدر قویٰ پیدا کیے ہیں ان میں روح اور قوت بھی ساتھ ساتھ پیدا کر دی ہے اور یہ دونوں مل کر کائنات کا حصہ بنتے ہیں۔ اگر دونوں کو الگ کر دیا جائے تو اسی حقیقت کو ” موت “ کہتے ہیں اور اس علیحدگی سے کائنات کی تمام اشیاء ختم ہو جاتی ہیں۔ ایک دوسرا اصول اور سمجھ لیجیے جو اسی سے متعلق ہے کہ بدن کے اندر جو قوتیں چھپی ہوئی ہیں ان کی پہچان ان ابدان ہی کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ مثلاً قوت بینائی کی شناخت آنکھ سے کی جاتی ہے اور قوت ِ سماعت کی کان سے۔ غرض یہ صورتیں ان قوتوں کے تعارف کا ایک ذریعہ ہیں، اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو یہ تعارف ختم ہو جائے۔ اس اصول کاحاصل یہ ہوا کہ ” بدن روح کی پہچان کا ذریعہ ہے۔“
تیسرا اُصول
اب تیسرا صول اور سمجھ لیجیے کہ اگر آپ روح تک کوئی اثر پہنچانا چاہیں تو وہ بدن ہی کے ذریعے پہنچاسکتے ہیں۔ اس عالم میں براہِ راست روح کو متاثر کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔
مثلاً اگر آپ روح پر گرمی کا عمل کرنا چاہیں تو بدن کو آگ کے سامنے لے جائیں گے، جب پہلے بدن گرم ہو جائے گا، اس کے بعد روح کو گرمی پہنچے گی او راگر ٹھنڈک پہنچانا چاہیں تو آپ بدن پر پانی ڈالیں گے یا اس پر برف ملیں گے یا وضو کریں گے، وغیرہ ،غرض ہر تاثیر کے لیے بدن ذریعہ ہے۔ بغیر بدن کے روح پر اثرات نہیں پہنچ سکتے۔
اصول ثلاثہ تشریعیہ
توا ب تین اصول معلوم ہوئے کہ بدن سے تین کام لیے جاتے ہیں؛ اول روح کے قرار وقیام کا۔ دوسرے روح کے تعارف او رپہچان کا اورتیسرے تاثر کا اور یہ تینوں باتیں اس قدر ظاہر ہیں کہ ان پر کسی دلیل کے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔
اور یہ تینوں اصول جس طرح تکوینی ہیں، اسی طرح تشریعی بھی ہیں، یعنی اعمال شرعیہ میں بھی ایک صورت ہے او رایک روح اور بغیر صورت کے روح کا باقی رہنا ناممکن ہے اسی طرح اگر روح تک کوئی اثر پہنچانا چاہیں تو وہ صورت ہی کے ذریعہ پہنچ سکتا ہے، اس کی مثالوں سے شریعت بھری پڑی ہے مثال کے طور پر وضوکو لیجیے کہ اس کی ایک صورت ہے او رایک روح۔ اس کی صورت تو وہ خاص ہیئت اور افعال ہیں جو انسان وضو کرنے کے وقت اختیار کرتا ہے۔ یعنی ایک خاص طرح بیٹھ کر اعضاء کا دھونا وغیرہ اور یہی ہیئت اس کے تعارف کا ذریعہ ہے۔ چناں چہ آپ وضو کر رہے ہوں تو ہر شخص آپ کو دیکھ کر پہچان لے گا کہ آپ وضو کر رہے ہیں۔ کھانا نہیں کھا رہے۔ کیوں کہ کھانا کھانے والے کی ہیئت اور ہے یہ تو اس کی صورت ہے او رایک اس کی روح ہے۔ یعنی طہارت حاصل کرنا، تاکہ انسان دربارِ الہٰی میں حاضری کے قابل ہو سکے اور ایک اس کی تاثیر ہے، یعنی وہ خاص قسم کا انشراح جو انسان کے قلب میں وضو کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ طہارت اورانشراح بغیر وضو کی صورت اختیار کیے کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا اسی طرح غسل کی بھی ایک صورت ہے، یعنی تمام جسم کو دھونا او رایک اس کی روح ہے یعنی طہارت اور صفائی او راس کی تاثیر فرح وانبساط ہے اب اگر کوئی شخص تمام عمر غسل نہ کرے تو اس کو فرح وانبساط کی وہ خاص کیفیت کبھی بھی نصیب نہ ہو گی ۔ الغرض ہر چیز کی روح حاصل کرنے کے لیے اس کی صورت کا اختیارکرنا ضروری ہے۔ اسی طرح آپ نماز کو لیجیے کہ اس کی صورت نیت باندھ کر کھڑا ہونا اور رکوع وسجود وغیرہ ادا کرنا، اور اس کی روح خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا او راپنی عبدیت وبندگی کا اظہارکرناہے ، اگر آپ نماز کی ہیئت اختیار نہ کریں تو بندگیکی یہ خاص صورت کبھی بھی حاصل نہ ہو گی۔ اس طرح زکوٰة اور روزہ وغیرہ عبادات ہیں کہ ہر ایک کی ایک روح اورایک صورت ہے۔
محبوبات نفس کی قربانی
تویہ جو”قربانی“ ہے۔ اس کی بھی ایک صورت ہے او رایک روح۔ صورت تو جانور کا دبح کرنا ہے او راس کی حقیقت ایثار نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے او رتقرب الی الله ہے تو ظاہر ہے کہ یہ روح بغیر جانور ذبح کیے کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ یہ بات پہلے معلوم ہو چکی کہ ہر صورت میں اس کے مطابق روح ڈالی جاتی ہے۔ نماز میں نماز کی روح۔ زکوٰة میں زکوٰة کی روح اور قربانی میں قربانی کی روح ڈال جاتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ نے اس کی جو صورت مقرر کر دی ہے۔ وہی اختیار کرنا پڑے گی۔ تب وہ روح اس میں ڈالی جائے گی۔اگر وہ کسی چیز کی قربانی طلب کریں تو قربانی دینی ہوگی۔
﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﴾
ترجمہ:” یعنی تم خیر کامل کبھی حاصل نہ کرسکو گے، یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز کوخرچ نہ کرو گے“۔
اور مال محبوب چیز ہے۔ مال میں سے بھی جانور زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ کیوں کہ جان دار ہونے کی وجہ سے اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی بے جان چیز ضائع ہو جائے تو آدمی دوسری گھڑ کر بناسکتا ہے، بخلاف جان دار کے کہ اگر فنا ہو گیا تو دوسرا نہیں ملتا اور یہ مال تو ایسی چیز ہے کہ فنا ہو کر ہی نفع پہنچاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ رکھا ہوا ہو تو وہ بیکار ہے، اس سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا۔ جب تک کہ اس کو خرچ نہ کرے۔ تو جب دنیوی منافع اس کو خرچ کیے بغیر نہیں مل سکتے تو ” رضاءِ حق“ جو اعلی ترین نفع ہے وہ محبوبات قربان کیے بغیر کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟
اور محبوبات کیا ہیں؟ جان، مال، اولاد، عزت آبرو غیرہ۔
چناں چہ ارشاد ہے:﴿إِنَّ اللَّہَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الْجَنَّةَ﴾․(سورہ توبہ، آیت:111)
ترجمہ:” یعنی بے شک الله تعالیٰ نے مسلمانوں کی جانوں اور مال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا۔“
غرض آپ کو ان میں سے ہر چیز لٹانی ہو گی۔ تب کہیں بندگی کا اظہار ہو گا۔ درحقیقت جنت تو ایمان کے بدلے میں ملے گی اوراعمال تو ایمان کی شناخت کا ذریعہ ہیں۔ جیسے اگر سونا خریدا جائے تو اس کو کسوٹی پر گھسا کر دیکھا جاتا ہے، اگر کھرا ہے تو اس کی قیمت ادا کرتے ہیں، ورنہ نہیں۔ تو اس جگہ قیمت سونے کی ہوتی ہے، لکیروں کی نہیں ،جو کسوٹی پر پڑ جاتی ہیں۔
بس اسی طرح آخرت کے بازار میں جنت کے عوض ایمان کی قیمت ادا کرنا ہو گی اور یہ ہمارے اعمال ان لکیروں کی طرح ہمار ے ایمان کی پختگی کی علامت ہیں۔ اس لیے جنت حاصل کرنے کی غرض سے ہمیں ”محبوباتِ نفس“ کو قربان کرنا لازمی ہے۔ اگر مال خرچ کرنے کا حکم ہو تو مال خرچ کرو۔ جان دینے کا حکم ہو تو جان نثار کرو۔ عزت کی ضرورت ہو تو وہ بھی قربان کرو۔ یہی عشق کی پختگی کی علامت ہے۔
ایک صحابی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ … یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم)! مجھے آپ سے محبت ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوچ کر کہو، کیا کہتے ہو؟ انہو ں نے پھر یہی عرض کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا کہ سوچ کر کہو کیا کہتے ہو؟ انہوں نے تیسری بار بھی یہی عرض یا کہ مجھے آپ( صلی الله علیہ وسلم) سے محبت ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مصیبتیں جھیلنے کو ، فقر وفاقہ کی زندگی بسر کرنے کو اور آفتیں جھیلنے کو تیار ہو جاؤ اور ظاہر بات ہے کہ عاشق اپنی محبت کا ثبوت اس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک مصیبتیں نہ جھیلے۔ اسی لیے ارشاد ہے:
﴿الم ،أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللَّہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن﴾․(سورہ العنکبوت، آیت:3-1)
ترجمہ:” یعنی کیا لوگوں کا خیال ہے کہ محض ” اٰمنا“ کہنے سے ان کا چھٹکارا ہو جائے گا۔ اور ان کی آزمائش نہ ہو گی… حالاں کہ ہم نے آزمایا ان سے پہلے لوگوں کو، پس ضرور معلوم کرلے گا الله تعالیٰ سچے لوگوں کو اور ضرور معلوم کر لے گا جھوٹوں کو“۔
روحِ قربانی اور شبہ کا جواب
غرض اصل بیان یہ تھا کہ جس طرح اعمال کی روح ضروری ہے اسی طرح ان کی صورت بھی مطلوب ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں صورت اصل ہے او رروح اس کے تابع اور آخرت میں معاملہ برعکس ہو گا، روح اصل ہوگی اور صورت تابع تواب یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں جس طرح ہر چیز کی روح کی بقا کے لیے صورت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اعمالِ شرعیہ کی روح کی بقا کے لیے ان کے جسم وصورت کی ضرورت ہے۔
اگر کوئی شخص کہے کہ اعمال میں تو اصل روح ہے۔اس لیے روح کو لے لو اور صورت کو چھوڑ دو۔ تو اس کو چاہیے کہ یہ عمل پہلے اپنے اوپر جاری کرے کہ اپنے بدن کو ختم کر دے اور خود کشی کرے کہ بس میں تو روح کو باقی رکھوں گا۔ لیکن اگر خود بغیر صورت کے نہیں رہ سکتے تو پھر آخر اعمال شرعیہ میں یہ عمل جراحی کیوں کیا جاتا ہے؟
جیسا کہ شروع میں معلوم ہوچکا کہ کائنات میں جس طرح مجموعہٴ بدن کے لیے مجموعہٴ روح ہے۔ اسی طرح ہر ہر جز کی علیحدہ علیحدہ روح بھی ہے۔ جیسے آنکھ میں بینائی کی قوت اس کی روح ہے۔ وغیرہ اسی طرح سارے اعمال شرعیہ کی ایک روح ہے او رپھر ہر ہر عمل کی علیحدہ علیحدہ بھی روح ہے او را س روح کا نام ” تقویٰ“ ہے۔ چناں چہ قربانی کے متعلق ارشاد ہے:
﴿لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلَٰکِن یَنَالُہُ التَّقْوَیٰ مِنکُمْ ﴾
․ ترجمہ:” یعنی خدا تعالیٰ کو قربانی کا گوشت او رخون نہیں پہنچتا۔ لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“
تو قربانی کی روح بھی تقویٰ ہے۔ سو اگر کوئی یہ کہے کہ جب قربانی سے تقوی مقصود ہے تو قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے، بلکہ تقوی اختیار کر لو۔ کافی ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پھر سارے اسلام کو چھوڑ کر بس تقویٰ ہی اختیار کر لو۔ کیوں کہ روزہ کے متعلق ارشاد ہے :﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․(سورہ بقرہ)
ترجمہ:” تم پر روزوں کا حکم ہوا جیسے تم سے اگلے لوگوں پر حکم ہوا تھا۔ شاید کہ تم پرہیز گار ہو جاؤ“۔
تو روزہ کا حاصل بھی تقوی ہی ہے نماز کے متعلق ارشاد باری ہے کہ:﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنْکَرِ﴾․(سورہ عنکبوت)
ترجمہ:” نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔
جس کا حاصل تقویٰ ہے۔ لہٰذا نماز اور روزہ بھی چھوڑئیے۔ پھر ارشاد ہے کہ:﴿لَّیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون﴾․(سورہ بقرہ:177)
ترجمہ:” مشرق اور مغرب کی طرف منہ کر لینا نیکی نہیں، ہاں نیکی یہ ہے کہ جو الله اور قیامت کے دن اور ملائکہ او رکتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اس کی محبت پر مال دے رشتہ داروں کو، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوالیوں کو اور گردنیں چھڑانے میں۔ او رنماز قائم کرے اور زکوٰة دے او رجو لوگ اپنے عہد پورے کریں اور تنگی وسختی میں صبر کرنے والے۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں“۔
لیجیے سارے اسلام کا حاصل تقویٰ نکلا۔ اس لیے سب کو چھوڑ کر بس تقویٰ اختیار کر لیجیے لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ جس طرح ہر ہر جز کی روح علیحدہ ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا تقوی جداگانہ ہے۔ تو جو تقوی گوشت پوست کے ذریعہ پہنچتا ہے او رحاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسری عبادت، صدقہ وغیرہ سے کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟! مثلاً زید کی روح کو گدھے کے قالب میں اگر منتقل کر دیا جائے۔ تب بھی وہ زید نہ بنے گا۔ بلکہ گدھا ہی رہے گا۔ اس طرح صدقہ صدقہ ہی رہے گا۔ قربانی کا قائم مقام اسے کیسے کہا جاسکتا ہے ؟!تو دنیا میں چو ں کہ بغیر صورت کے چارہ نہیں۔
اس لیے قربانی کرنی ہی پڑے گی۔ ہاں! آخرت میں پہنچ کرآپ قربانی نہ کریں ،کیوں کہ وہاں صورت ضروری نہیں۔ لیکن اگر آپ نے دنیا میں اعمال کی صورت کو ترک کر دیا تو یقین رکھیے کہ آپ نے اس کی روح کو بھی فنا کر دیا۔ اسی لیے نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد ہے :” الایمان سر، والاسلام علانیة“ ایمان پوشیدہ چیز ہے او راسلام ظاہر۔
اور چوں کہ قربانی کا قائم مقام صدقہ یا کوئی عبادت نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” ما عمل ابن اٰدم من عمل یوم النحر احب الی الله من اھراق الدم“․
ترجمہ:” بقر عید کے روز سب سے زیادہ محبوب عمل قربانی ہی ہے“۔
تو اس روز سوائے اس عمل کے دوسرا عمل کیسے اس کا قائم مقام ہوسکتا ہے؟ اور حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ رضی الله عنہم نے عرض کیا:” یا رسول الله ما ھذہ الاضاحی؟“ یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم)!
یہ قربانیاں کیا ہیں؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” سنة ابیکم ابراہیم“
تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ نے استفسار کیا کہ:”فمالنا فیھا یا رسول الله“ یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم )!
اس میں ہمارا کیا نفع ہے؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” بکل شعرة حسنة“
قربانی کے ہر بال پر ایک نیکی ملے گی۔
تو یہ اجروثواب صدقہ وغیرہ پر کیسے مرتب ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ صدقہ میں بال کہاں ہیں؟ تو بات دراصل وہی ہے کہ ہر صورت میں اس کے مطابق روح ڈالی جاتی ہے۔
قربانی کی حقیقت
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا۔ مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھیے ان کو یہ گوارا نہ ہوا۔ اس لیے حکم دیا تم جانور ذبح کر دو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کر دیا چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب کے ذریعے بشارت دی گئی کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کریں۔ اب دیکھیے کہ یہ حکم اول تو اولاد کے بارہ میں دیا گیا اور اولاد بھی کیسی؟ فرزند اور فرزند بھی ناخلف نہیں، بلکہ نبی معصوم ،ایسے بچے کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ حقیقت میں انسان کو اپنی قربانی پیش کرنا آسان ہے، مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو ذبح کرنا بڑا سخت مشکل کام ہے، مگر حکم خدا وندی تھا۔ اس لیے آپ نے اپنے بیٹے کی محبت کو پس پشت ڈالا۔ اور حکم خداوندی کے سامنے سر جھکا دیا۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر منیٰ کے منحر میں تشریف لائے اور فرمایا بیٹا! مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کردوں… تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فوراً فرمایا:﴿افعل ما تؤمر﴾جو آپ کو حکم ہوا ہے ضرور کیجیے۔
اگر میری جان کی ان کو ضرورت ہے تو ایک جان کیا؟ اگر ہزار جانیں بھی ہوں تو نثار ہیں۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رسیوں سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے، چھری تیز کی۔ اب بیٹا خوش ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربان ہو رہا ہوں۔ ادھر باپ خوش ہے کہ میں اپنے بیٹے کی قربانی پیش کر رہا ہوں۔ چناں چہ حکم خداوندی کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائی، تو چھری کند ہو گئی اور اس وقت حکم ہوا:﴿قد صدقت الرؤیا انا کذلک نجزی المحسنین﴾․
”بے شک آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکوں کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں“۔
اب ہم اس کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیجتے ہیں اورتمہارے بیٹے کی جان کے عوض، ایک دوسر ی جان کی قربانی مقرر کرتے ہیں۔ چناں چہ اسی دن سے گائے، مینڈھا یا بکری وغیرہ قربانی کے لیے فدیہ مقرر ہو گیا۔
قربانی اور صدقہ میں فرق
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہذبح کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے، چناں چہ اس سے انسان میں جاں سپاری اور جاں نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ اس کی روح ہے، تو یہ روح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی؟ کیوں کہ قربانی کی روح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی روح مال دینا ہے۔ پھر اس عبادت کا صدقہ سے مختلف ہونا اس طرح بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کا کوئی دن متعین نہیں۔ مگر اس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے اور اس کا نام بھی یوم النحر اور عیدالاضحی یعنی قربانی کا دن رکھا گیا۔
جہاں تک قربانی کے مسئلہ کا تعلق ہے تو یہ سلفاً خلفاً ایسی ہی ہوتی چلی آئی ہیں، حضرات انبیاء علہیم السلام کا بھی او رامت کا بھی اس پر اجماع ہے۔ انبیائے بنی اسرائیل میں سب کے یہاں قربانی تھی۔ آئمہ کرام کا بھی اس پر اجماع ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابویوسف کے یہاں قربانی سنت ہے او رامام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے۔ یہ اس کے حکم میں اختلاف ہے او رائمہ کے دقائق ہیں۔ مگر قربانی کی مشروعیت میں سب متفق ہیں اور اگر یہ کوئی غیر شرعی عمل ہوتا تو احادیث میں اس کی صفات وغیرہ کیوں بیان کی جائیں؟
چناں چہ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی:” ان نستشرف العین والاذن، وان لانضحی بمقابلة ولامدابرة ولا شرقاء ولا خرقآء“․
ترجمہ:” ہم قربانی کی آنکھ او رکان کو خوب دیکھ بھال لیا کریں ہم ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہوا ہو اور نہ جس کاکان پیچھے سے کٹا ہوا ہو اور نہ جس کا کان چرا ہوا ہو اور نہ جس کے کانوں میں سوراخ ہو“۔
اس کے علاوہ بھی بعض اوصاف مذکو رہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے احکام صدقہ سے بالکل جدا ہیں۔ اس لیے اس میں صدقہ کے احکام سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ پھر ساری امت آج تک بلا اختلاف اس عمل کو کرتی چلی آرہی ہے اور تعامل امت سب سے بڑی دلیل ہے۔
منکرین قربانی پر طریق ردّ
قربانی کے متعلق تو اب بیان ہو چکا ،لیکن اگر کہا جاوے کہ آپ تو حدیث سے استدلال پیش کررہے ہیں ،حالاں کہ ہم حدیث کو حجت ہی نہیں مانتے۔ تو ایسے لوگوں سے پھر قربانی کے مسئلہ میں جھگڑا نہیں۔ بلکہ پھر تو حدیث کے حجت ہونے میں گفت گو ہے۔
یہ ایک اُصولی اختلاف ہے، ایسے لوگوں سے یہ سوال کیا جاوے گا کہ آپ قرآن مجید کو جو کلام الله تسلیم کرتے ہیں تو اس کا کلام الله ہونا کیسے معلوم ہوا؟
اگر یہ جواب ہے کہ خود قرآن سے معلوم ہوا۔ تو یہ ”مکابرہ“ ہے یعنی جو دعوی ہے وہی دلیل ہے۔ اور یہ صریح غلطی ہے۔ ورنہ پھر یہ بھی تسلیم کر لیجیے کہ حدیث کا کلام رسول صلی الله علیہ وسلم ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ درحقیقت جو شخص احادیث کا انکار کر رہا ہے وہ قرآن مجید کے کلام الله ہونے کا بھی منکر ہے۔ کیوں کہ قرآن بغیر حدیث کے حجت نہیں بن سکتا۔ جس طرح کوئی شخص بغیر رسول کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا ،اسی طرح کلام الله تک بغیر کلام رسول صلی الله علیہ وسلم کے رسائی ناممکن ہے۔ کیوں کہ لغت کے زور سے اگر کلام ا لله کو حل کیا گیا تو وہ خدا تعالیٰ کی مراد نہ ہوگی، بلکہ اس شخص کی اپنی مراد ہو گی۔
جب تک پیغمبر یا پیغمبر کے نائبین کسی آیت کی مراد کو بیان نہ کریں وہ شریعت نہیں بن سکتی ،کیوں کہ کلام کی بعض خصوصیات ایسی ہوتی ہیں جو کاغذ پر نہیں آسکتیں، بلکہ لب ولہجہ سے تعلق رکھتی ہیں ، میں اس کی مثال اردو کے ایک جملے سے دیا کرتا ہوں۔ وہ جملہ ہے” کیا بات ہے“۔ اس کے لب ولہجہ بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں۔ چناں چہ کبھی اس کو استفسار حال کے واسطے استعمال کیا جاتا ہے او رکبھی تعجب کے لیے، کبھی تعظیم شان کے لیے او رکبھی تحقیر کے لیے۔ اب اگر یہ جملہ کاغذ پر لکھ کر کسی کو بھیج دیں تو کیا وہ شخص اس کو پڑھ کر متکلم کی مراد کو سمجھ سکے گا؟ ہر گز نہیں، بلکہ جو کچھ وہ سمجھے گا وہ اس کی اپنی مراد ہو گی۔ چناں چہ اگر یہ شخص اس وقت تعجب کی حالت میں ہو گا تو اس کو تعجب کے لیے سمجھے گا اور اگر استفسار حال کا اس پر غلبہ ہو گا تو اسی کے لیے سمجھے گا۔ تو یہ کیفیات کاغذ پر نہیں آسکتیں #
گر مصور صورت آں دلستاں خواہد کشید!
لیک حیرانم کہ نازش را چال خواہد کشید
یعنی مصور تو صرف محبوب کی صورت بناسکتا ہے۔ اس کے نازو انداز کو کیسے اس میں ڈھال سکتا ہے؟
طریق رد
اس کے علاوہ ایک چیز ” عرف“ ہے۔ یعنی کلام میں بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اہل عرف کے پاس رہ کر ہی سمجھ میں آسکتی ہیں۔ چناں چہ دیوبند میں ایک صاحب تھے، جو کلکٹر کے یہاں میر منشی تھے۔ کلکٹر اگرچہ انگریز تھا۔ مگر اس کو یہ خیا ل تھا کہ میں اردو بہت اچھی جانتا ہوں، چناں چہ اکثر وہ ان میر منشی صاحب سے بھی کہا کرتا تھا کہ #
ول میر منشی!” ہم تم سے زیادہ اردو جانتے ہیں“۔
اور یہ بے چارے منشی اس کا یہ جملہ سن کر خون کے سے گھونٹ پی کر رہ جاتے ،کیوں کہ ملازمت کا سوال تھا۔ آخر ایک روز اس نے کسی بات پر میز پر ہاتھ مارکر کہا ”ول میر منشی! ہم تم سے زیادہ ارد وجانتے ہیں“ ۔اس مرتبہ ان کو بھی جوش آگیا او رانہوں نے سوچ لیا کہ ملازمت رہے یا نہ رہے، مگر کم از کم ایک مرتبہ اس کو جواب تو دے ہی دوں۔ چناں چہ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے میز پر مکہ مار کر کہا کہ:
”صاحب بہادر! اردو کی ابجد بھی نہیں جانتے۔“
یہ سن کر وہ انگریز بڑا حیران ہوا او رکہا کہ تم ہمارا امتحان لو۔ انہوں نے کہا اگر میں امتحان لوں تو صاحب بہادربغلیں جھانکنے لگیں۔ اب تو صاحب بہادر واقعی بغلیں جھانکنے لگے کہ اس کا کیا مطلب ہوا۔ بہت غور کیا، مگر خاک سمجھ میں نہ آیا۔ آخر کہا کہ تین دن کی مہلت دو۔ انہوں نے کہا کہ سات دن کی مہلت ہے۔ غرض اس نے اس جملے کو لغت میں تلاش کیا، مگر لغت میں کیا ملتا؟ لغت میں تو بغل مل گیا اور جھانکنا مل گیا۔ مگر یہ پورا جملہ کہاں ملتا؟ آخر اس نے سات دن کے بعد کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرف بغل کو اٹھا کر دیکھ لیا اور ادھر کی بغل کو اسی طرح دیکھ لیا۔ میرے منشی یہ سن کر ہنس پڑے۔ تب اس نے پوچھا کہ پھر اس کا مطلب کیا ہے ؟ میر منشی نے کہا کہ اس شرط پر بتاؤں گا کہ پھر کبھی اردو دانی کا دعوی نہ کرو۔ چناں چہ اس نے اقرار کیا او رانہوں نے اس کا مطلب بتایا کہ دراصل یہ جملہ تحیر سے کنایہ ہے۔ یعنی اگر صاحب بہادر کا امتحان لیا جائے تو وہ حیرت میں پڑ جائیں۔ اور اس قسم کی غلطیاں واقع ہونے کے متعدد واقعات ہیں۔ غرض کلام کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جو ”عرف“ سے متعلق ہیں۔ غیر اہل عرف ان کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ جب ہماری زبان اور کلام میں محاورات ہیں تو قرآن مجید میں بھی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب تھی۔ تو اب جو لوگ قرآن مجید کو سمجھنا چاہیں ان کو چاہیے کہ اہل عرف کی طرف رجوع کریں۔ یعنی جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کی طرف اور جو معنی وہ بتائیں ان کو صحیح سمجھیں۔ اس لیے قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ﴾․(سورہ جمعہ)
ترجمہ:” خداتعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان پڑھ لوگوں میں ایک رسول بھیجا، جو انہی میں سے ہے، ان کو خدا تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اوران کے قلوب کوصاف کرتا ہے او ران کو کتاب او رحکمت کی باتیں تعلیم کرتا ہے، حالاں کہ وہ لوگ اس سے قبل صریح گم راہ تھے“۔
اب دیکھیے! اس آیت میں خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے تین فرائض بیان فرمائے۔ یعنی تلاوت ، تزکیہ وتعلیم ، اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کا کام صرف آیتیں پڑھ کر سنا دینا ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مطالب ومعانی کی تعلیم بھی پیغمبر علیہ السلام کے فرائض میں د اخل ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں کے قلوب کو پاک کریں۔ کہ وہ قرآن کے معانی سمجھنے او راس کو محفوظ رکھنے کے قابل ہو سکیں یہی وجہ ہے کہ آیت میں ”تزکیہ“ کو تعلیم پر مقدم کیا، تاکہ معلوم ہو جائے کہ تزکیہ حاصل کیے بغیرانسان کو قرآن مجید کے معانی سمجھنے کی استعداد حاصل نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے قلوب کا ایسا تزکیہکیا کہ وہ حضرات پھر قرآن کے معانی کو اسی طریقے سے سمجھنے لگے، جس طرح حضور صلی الله علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی، پھر صحابہ نے تابعین کے قلوب کا تزکیہ کیا اور انہوں نے تبع تابعین کا۔ غرض اسی طرح سلسلہ وار آج تک یہ معانی ومطالب محفوظ ہیں۔ اس لیے ہمیں ادنیٰ سے ادنیٰ نکتہ بھی بغیر استاد کے سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ قرآن مجید ہمارے پاس امانت ہے، جس طرح ہم لفظوں کے امین ہیں، اسی طرح ہم معانی کے بھی امین ہیں اور ہم کیا؟ خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم بھی الفاظ ومعانی دونوں کے امین تھے۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ شروع شروع میں آیات کورٹنے کی کوشش فرماتے، تاکہ بھول نہ جائیں۔ اس لیے وحی نازل ہوئی: ﴿لَاتُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ﴾․(سورہ قیامہ)
ترجمہ:” آپ قرآن پڑھنے کی خاطر وحی کے دوران میں زبان بھی نہ ہلائیے“۔
اور زبان کیوں نہ ہلائیے اس لیے کہ:﴿إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ﴾
”ہمارے ذمے ہے اس کا جمع کرنا اور آپ سے پڑھوانا“۔
پھرآپ صلی الله علیہ وسلم کو کیا کرنا چاہیے؟
﴿فاذا قرأنہ قاتبع قراٰنہ ثم ان علینا بیانہ﴾․
”جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت سنتے رہیے۔ پھر ہم ہی اس کا مطلب بیان کریں گے“۔
اس آیت میں حق تعالیٰ صاف صاف فرمارہے ہیں کہ اس کا بیان بھیہمارے ذمہ ہے۔ اگر اس کے مطالب ومعانی خود سمجھ میں آسکتے تو یہ کیوں فرمایا جاتا اورجب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی سمجھ میں نہ آسکتے تھے تو کسی اور کا تو کیا منھ ہے؟
یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات صحابہ رضی الله عنہم کسی آیت کے متعلق آپ اسے سوال کرتے تو آپ ا اس پر غور فرماتے رہتے۔ پھر کبھی تومن جانب الله آپ ا کے قلب مبارک میں اس کا مطلب ڈال دیا جاتا۔ ورنہ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے استفسار فرماتے۔ اگر ان کو معلوم ہوتا تو آپ ا سے عرض کر دیتے۔ ورنہ وہ فرماتے کہ میں حق تعالیٰ سے پوچھ کر بتاؤ ں گا۔ تو قرآن مجید کے معانی اس طرح آپ کو من جانب الله بتائے گئے اور جب صحابہ اور خود حضو راکرم ا کو معانی کے متعلق استفسار کی ضرورت پڑتی تھی۔ حالاں کہ آپ ا اہل ِ زبان بھی تھے۔ نور نبوت سے منو ربھی تھے۔ پھر کسی او رکو کیا حق ہے کہ وہ بغیر حدیث کے قرآن فہمی کا دعوی کرے؟ غرض آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن مجید کے موجد یا مخترع نہ تھے، بلکہ الفاظ ومعانی میں امین تھے۔ جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا وہ آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کو تعلیم فرما دیتے۔ اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کے قلوب کو مانجھا اور تزکیہ فرمایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد صحابہ بھی مسائل پر اسی طرح غور کرتے جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم غور فرمایا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے تابعین کے دلوں کو اسی طرح مانجھا اور انہوں نے اپنے شاگردوں کو اسی طرح تزکیہ باطن سے آراستہ کیا اور یہ سلسلہ آج تک اسی طرح جاری ہے۔ ہم کو قرآن مجید کے جو مطالب پہنچے ہیں وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے شاگردوں سے پہنچے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانہ میں ہر شخص قرآن مجید کامفسر نہ بن سکتا تھا۔ جب تک کسی ایسے ہی استاذ کا شاگرد نہ ہو اور جو شخص قرآن مجید یا حدیث کی تفسیر وغیرہ بیان کرتا، اس سے سند پوچھی جاتی تھی۔ اگر وہ شخص مستند ہوا، اس کی بات قابل قبول سمجھی جاتی تھی، ورنہ رد کر دی جاتی تھی۔
مگر آج کل چوں کہ ناواقفیت کا زمانہ ہے او رخدا کا خوف لوگوں کے دلوں میں کم ہے، اس لیے ہر وہ شخص جو ذرا عربی جانتا ہو وہ مفسر قرآن بننے کا مدعی ہے اور لوگ بغیر کسی تحقیق کے اس کی پیروی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
حالاں کہ قرآن مجید کے مطالب صرف ان ہی لوگوں سے حاصل کرنے چاہییں جو خود صحیح سمجھتے ہوں۔ یعنی بزرگوں کے صحبت یافتہ اور عالموں کے شاگرد ہوں، تاکہ ان کے اند ربھی تزکیہٴ نفس کا وہ وصف موجود ہو جس کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔
حقیقت میں صحابہ رضی الله عنہم جو ساری امت سے افضل ہیں وہ اسی صحبت کی برکت سے ہیں کہ ان کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جیسی شخصیت کی صحبت نصیب ہوئی، جس سے ان کے دل صاف ہو گئے کہ اس میں صرف حق بات ہی سما سکتی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے شاگردوں کو اس نہج پر ڈالا اور ان کے قلوب کی صفائی وتزکیہ کیا۔”اولٰئک اصحاب محمد۔ واصحاب ابوبکر، واصحاب عمر“ غرض یہ حضرات تھے کہ ان پر حق کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔
حاصل یہ کہ کتاب الله تک ہم بغیر رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم کے نہیں پہنچ سکتے۔ او رہم کو کتاب الله کے اندر غور وفکر کرنے کی بھی جبھی اجازت ہے جب کہ پہلے حضور صلی الله علیہ وسلم اس کا مطلب بیان فرماویں۔ چناں چہ خدا تعالیٰ کا راشاد ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ﴾․(سورہ نحل)
ترجمہ:” او رہم نے نازل کیا آپ کی طرف قرآن مجید کو، تاکہ آپ بیان فرماویں لوگوں کے لیے جوان کی طرف نازل ہوا، تاکہ وہ فکر کریں“۔
دیکھے اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاس﴾
فرمایا کہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن مجید کا مطلب بیان کریں، اس کے بعد ﴿یَتَفَکَّرُون﴾
ہے۔ یعنی اس کے بعد لوگوں کو غور وفکر کی اجازت ہے۔ تاکہ لوگ غور وفکر کرنے میں شریعت کی حدود سے نہ نکل جائیں۔
درحقیقت اگر ہر شخص اپنی اپنی عقل اور فہم کے مطابق غور کرنا شروع کر دے تو قرآن مجید ایک کھیل تماشہ بن جائے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے بھی حدود وقیود مقرر کی جائیں۔ چناں چہ کر دی گئیں۔ اب کسی کو بغیر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ” بیان“ کے قرآن مجید کی تفسیر کی اجازت نہیں۔ اور چوں کہ کلام الله کا مطلب سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں۔ اس لیے ہمیشہ حق تعالیٰ نے ہر کتاب کے ساتھ ایک نبی ضروربھیجا،چناں چہ اگر تورات آئی تو حضرت موسی علیہ السلام بھی تشریف لائے۔ صحف آدم علیہ السلام اگر دنیا میں آئے تو آدم علیہ السلام بھی تشریف لائے۔ اور انجیل کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور زبور کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام کو معبوث فرمایا اور سب سے آخر میں قرآن مجید کے ساتھ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا گیا، ورنہ اگر صرف عربی دانی اور لغت کے زور سے کلام ِ الہی کو حاصل کیا جاسکتا تو حضرات انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری کی کیا ضرورت تھی؟ بلکہ یہ ہوا کرتا کہ ایک کتاب کسی فرشتہ کے ذریعہ سے بیت الله کی چھت پر رکھوا دی جایا کرتی او راعلان کرا دیا جاتا کہ لوگو! یہ خدا کی کتاب ہے، اس پر عمل کرو۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ کتاب کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھانے اور پڑھانے کی بھی ضرورت تھی۔ ورنہ ہر شخص قرآن مجید سے اپنے نفس کے مطابق مطلب گھڑ کر استدلال کر لیا کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ حب حضرت علی رضی الله عنہ نے حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کو خوارج سے مناظرہ کرنے کو بھیجا تو ہدایت فرمائی کہ ان کے سامنے قرآن سے استدلال مت کرنا۔ بلکہ احادیث سے استدلال کرنا۔
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کو تعجب ہوا اور سوال فرمایاکہ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ حالاں کہ قرآن مجید کو میں خاص طور پر سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے میر ے حق میں دعا فرمائی:” اللھم علمہ القراٰن“ یا الله! ابن عباس
کو قرآن کا فہم عطا فرما۔
حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا کہ بے شک تم قرآن مجید کو صحیح سمجھتے ہو، مگر” القراٰن ذو وجوہ“
( یعنی قرآن مجید کے الفاظ سے متعدد مطالب نکل سکتے ہیں) اس لیے تم صحیح مطلب بیان کرو گے اور لوگ اس کا غلط مطلب بیان کر دیں گے۔ اور الفاظ سے کسی ایک کی بات متعین نہ ہو گی۔ اس لیے تم حدیث سے استدلال پیش کرنا۔ کیوں کہ حدیث نے قرآن کے معانی متعین کر دیے ہیں، جس میں کسی تاویل اور کید نفس کی گنجائش نہیں رہی۔
یہی وجہ ہے کہ زمانہ سابق میں بھی جب کبھی کوئی فرقہ ایسا ہوا کہ اس نے دین میں تحریف کا ارادہ کیا تو اس نے سب سے پہلے حدیث کا انکار کیا۔ کیوں کہ حدیث ہوتے ہوئے کسی قسم کی تحریف کا احتمال ہی نہیں رہتا۔ اس لیے اس نے پہلیاس کانٹے کوراہ سے ہٹایا ،مگر ساری دنیا جانتی ہے کہ آج وہ لوگ ختم ہو گئے او ران کے ساتھ ان کی تحریفات بھی ختم ہو گئیں اور حدیث پر عمل کرنے والے اب بھی باقی ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گے۔ الغرض حدیث کے بغیر قرآن نہیں سمجھ میں آسکتا۔ اور عجیب بات ہے کہ علماء صلحاء کا تو قول حجت ہو، مگر نبی کا کلام حجت نہ ہو۔
تقریر کا اصل موضوع تو قربانی کا مسئلہ تھا، جس میں زیادہ تفصیل نہ تھی، مگر درمیان میں چوں کہ کچھ اصولی بحث آگئی ،اس لیے بات ذرا طویل ہو گئی ،اگرچہ اس اصولی بحث کو بہت مختصربیان کیا گیا۔ تاہم بحمد الله ضروری باتیں آگئیں او ریہ معلوم ہوگیا کہ حدیث پر بھی ایمان ضرور ی ہے۔ اب پھر اصل مسئلہ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
متعلقات قربانی کی وضاحت
اس جگہ یہ اشکال کہ قربانی کرنے سے جانور ختم ہو جائیں گے۔
لوگوں کا یہ خیال ہی غلط ہے، کیوں کہ روزانہ جو لاکھوں جانور بطور ذبیحہ کے کاٹے جاتے ہیں عید کے دن وہ ذبح نہیں ہوتے، اس طرح کچھ معمولی سا فرق پڑتا ہے، جو کسی طرح بھی قابل اعتنا نہیں۔ پھر اس روز بعض ایسے لوگوں کو بھی گوشت پہنچ جاتا ہے جو سال میں ایک آدھ دفعہ ہی کھاسکتے ہیں۔ پھر اُن کی سار ی کھالیں غربا، ومساکینمیں تقسیم ہوتی ہیں۔ غرض بہت سے منافع اس سے حاصل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جو روپیہ قربانی میں صرف ہوتا ہے، اس کو مہاجرین وغیرہ کی امداد میں صرف کیا جائے۔ تو بے شک مہاجرین کی امداد ضروری ہے، مگر ہر کام کے لیے اسلام کے گلے پر چھری کیوں چلتی ہے؟کچھ اپنی خواہشات نفس پر بھی تو چھری چلائیے اور غیر شرعی اخراجات کو بند کرکے مہاجرین کی امداد کیجیے۔ مثلاً سینما ہے ،شراب ہے اور دوسرے فضول اخراجات ہیں۔
حاصل یہ کہ اب یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز میں ایک صورت ہے او رایک روح ہے۔ اسی طرح اعمال شرعیہ میں بھی ایک روح ہے۔ اور جیسے وہاں ہر صورت کی ایک خاص روح ہے جو دوسری صورت میں نہیں آسکتی۔ اسی طرح یہاں بھی ایک روح دوسرے میں نہیں آسکتی۔
سواب سمجھیے کہ سارے اعمال ِ شرعیہ کا مقصود تقوی ٰہے۔ مثلاً نماز سے عاجزی وانکساری کی صورت میں تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ روزے میں تزکیہ نفس کی صورت میں ، جہاد میں شجاعت کی صورت میں، صدقہ میں انفاق مال کی صورت میں اور قربانی سے جان نثاری کی صورت میں تقویٰ حاصل ہوتا ہے، اب اگر آپ نے قربانی کے بجائے نماز پڑھ لی، تو نماز سے عاجزی اور بندگی کا تقویٰ تو ملا، مگر قربانی ( کی صورت میں حاصل ہونے والا تقویٰ) کا نہ ملا، پس اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے اور صدقہ دے دے تو قیامت کے دن اس کو صدقہ کا ثواب مل جائے گا، مگر قربانی کا مطالبہ باقی رہے گا۔ اور یہ سوال ہوگا کہ قربانی کیوں نہیں کی؟ بالکل اسی طرح جیسے کوئی نماز تو پڑھتا رہا اور روزہ نہ رکھا تو روزہ کا مطالبہ ہو گا کہ کیوں نہ رکھا تھا ؟
اس کی ایک مثال سے سمجھ لیجیے کہ آپ نے ایک نوکر رکھا، جس کے سپرد آپ نے کھانا پکانے اورکھانا کھلا نے کی خدمت سونپی۔ اب اس نوکر نے یہ کیا کہ کھانا تو پکایا نہیں مگر گھر کو صاف کرکے آئینہ بنا دیا۔ ہر چیز فرینے سے رکھ دی، جھاڑو بھی دی، فرش بھی دھویا، جالے بھی صاف کیے۔ اب جب آپ گھر پہنچے اور دیکھا کہ ملازم نے گھر کو بہت صاف ستھرا کر رکھا ہے تو یقینا آپ خوش ہوں گے، مگر جب کھانے کے وقت آپ کو معلوم ہو گا کہ اس نے کھانا نہیں پکایا، تو یقینا آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تونے کھانا کیوں نہیں پکایا؟ تو کیا وہ ملازم جواب دے سکتا ہے کہ صاحب! میں نے گھر تو صاف کر دیا۔ اب کھانے کا مطالبہ کیسا؟ ظاہر ہے کہ اس سے یہی کہا جائے گا کہ یہاں جو کام تیرے سپرد کیا تھا وہ تو تونے کیا نہیں او رایک ایسا کام کیا جوفی الجملہ اگرچہ اچھا ہے، مگر تیرے سپرد نہ تھا۔ اس لیے تجھ کو یہ کام کھانا کھلانے کے بعد کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح صدقہ وخیرات تو عبادت نافلہ ہیں اور قربانی واجب ہے۔ تو صدقہ دینے سے اس کا مطالبہ باقی رہے گا۔
حاصل یہ کہ آپ جو صورت اختیار کریں گے، اسی کی روح اس میں ڈالی جائے گی۔جیسے انسان کی صورت میں انسان کی روح۔ اور حیوان کی صورت میں حیوان کی۔ پھر قربانی کی روح صدقہ میں کیوں کر آسکتی ہے؟ اس لیے کہ قیامت میں ہر ایک عمل کی مختلف صورتیں ہوں گی۔ مثلاً جو شخص مسجد بناتا ہے اس کوجنت میں مکان ملتا ہے۔ روزہ دار کے لیے قیامت کے دن دسترخوان بچھایا جائے گا۔ اسی طرح قربانی کے متعلق ارشاد ہے کہ:”انہ لیاتی یوم القیامة بقرونھا واشعارھا واظلافھا“․
ترجمہ:” قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اورکھالوں کے ساتھ موجود ہو گا۔“
اس جگہ ان اجزاء کا ذکر ہے جن کو ہم بے کار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ یعنی اس کے ردی اجزاء پر بھی ثواب دیا جائے گا۔ تو جواصلی چیز یعنی گوشت ہے، اس پر کیوں ثواب نہ ملے؟ پھر آگے ارشاد ہے:”ان الدم لیقع من الله بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبو ابھا نفسا“․
ترجمہ:” قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل وہ خدا تعالیٰ کے یہاں مقبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ تم اس عمل کو کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرو“۔
تو یہ مقبولیت کا درجہ بھی قربانی کے ساتھ خاص ہے۔
مسئلہ کا بیان تو ہوچکا۔ مگر ایسے جزئی مسائل میں جو اجماعی چیزیں ہیں شبہ پیش آنا انتہائی تنزل او رانحطاط کی علامت ہے۔ اب تک علماء کو صرف اصول کو ثابت کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ مگر افسوس اب جزئیات ومسلمات کو بھی ثابت کرنا پڑتاہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ علماء کے کے ذمہ اس کا ثابت کرنا نہیں، یہ تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ثابت کریں۔ مگر میرا مقصد یہ ہے کہ اگر ہماری یہی رفتار رہی تو کہاں تک جزئیات کو ثابت کیا جائے گا؟کچھ چیزیں مسلمات سے بھی رہنے دیجیے، یہ تو نہ ہو کہ ہر چیز کے لیے دلیل کی ضرورت پڑنے لگے۔ یہ انتہائی پستی او رتنزل کی دلیل ہے، جس کی وجہ علم دین کی طرف سے لاپرواہی اور بے توجہیہے ،جس کا علاج بجز اس کے کہ آپ لوگ علم دین حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں۔ کچھ نہیں اور میرا یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسرے علوم وفنون حاصل نہ کریں۔ بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں۔ تاکہ روز مرہ کے موٹے موٹے مسائل میں آپ کو شبہات پیش نہ آئیں اور آپ کو ہر شخص اپنی خواہشات کا غلام نہ بناسکے۔ بلکہ آپ کو خود بھی حق وباطل میں امتیاز کی تھوڑی سی بصیرت حاصل ہو۔ قرآن مجید کا ترجمہ بھی کسی سے تعلیم کے طور پر حاصل کریں، خود دیکھنے میں ہزاروں غلطیوں کا احتمال ہے۔
اگر آپ کو کسی مسئلہ میں شبہ ہو او راس کی وضاحت کی ضرورت ہو تو خود اپنی عقل سے کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے، علماء کی طرف رجوع کیجیے کہ دین بالکل بے غبار ہے، بشرطیکہ آپ سمجھنے کا قصد رکھتے ہوں اور آپ کی بحث کا پیرا یہ تحقیقی وتعمیر ی ہو۔ ہٹ دھرمی اور ضد کو اس میں ادنیٰ بھی دخل نہ ہو۔
اب میں ختم کرتا ہوں۔ دعا کیجیے کہ خدا تعالیٰ ہم کو شرور وفتن سے بچائے اور راہ مستقیم پر قائم رکھے او رایمان پر خاتمہ نصیب ہو۔
اٰمین یا رب العٰلمین، والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ واٰصحابہ واتباعہ اجمعین․
برحمتک یا ارحم الراحمین.