قرآن حکیم سے صحیح سفارش کا استنباط
1… ﴿وَقَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہُ نَاجٍ مِّنْھُمَا اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ﴾․ (یوسف: آیة: 42)
جب دونوں قیدی جیل خانہ سے بلائے گئے، ایک رہائی کے لیے دوسرا سزا کے لیے، تو جس شخص پر رہائی کا گمان تھا اس سے یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ کرنا (کہ ایک شخص بے قصور قید میں ہے)۔
(ف) یوسف علیہ السلام نے جیل سے رہائی کے لیے اس قیدی سے کہا کہ جب بادشاہ کے پاس جاوٴ گے تو میرا بھی ذکر کرنا کہ وہ بے قصور جیل میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو مصیبت سے بچانے کے لیے کوشش کا واسطہ بنانا توکل کے خلاف نہیں۔ مگر اللہ جلّ شانہ کو اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے لیے ہر جائز کو شش بھی پسند نہیں کہ کسی انسان کو اپنی رہائی کا ذریعہ بنائیں، ان کے اور حق تعالی کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہونا ہی انبیاء علیہم السلام کا اصلی مقام ہے۔ شاید اسی لیے قیدی حضرت یوسف علیہ السلام کے اس کہنے کو بھول گیا اور ان کو مزید کئی سال جیل میں رہنا پڑا۔ (معارف القرآن ص 59، ج 5)
2… ﴿ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا﴾․ (الکھف، آیة 66)
کیا میں آپ کے ساتھ رہوں اس پر کہ مجھے کچھ سکھلا دیں جو کچھ آپ کو سکھایا گیا ہے؟
حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ اس آیت سے صحیح سفارش کا استنباط کرتے ہیں کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علوم سیکھو۔ آپ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے، انہوں نے پوچھا کیوں آئے؟ فرمایا: ﴿ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا﴾ میں علوم سیکھنے کے لیے تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، حالاں کہ حضرت موسی علیہ السلام کے علوم کے سامنے حضرت خضر علیہ السلام کے علوم کیا چیز تھے۔ جو کچھ بھی تھے ان کے سیکھنے کی درخواست کی۔ مگر اس میں دیکھنا یہ ہے اور کتنی عجیب بات ہے، اس گفتگو میں یہ نہیں فرمایا کہ میں خدا کا بھیجا ہوا ہوں، یہ فرماتے تو اعلی درجہ کی سفارش ہوتی، سو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آج کل جو سفارش لکھا کر لے جاتے ہیں یا جا کر کسی کا نام لے لیتے ہیں۔ بعض اوقات اس سے دوسرے پر بار ہوتا ہے، دیکھیے یہ نہیں ظاہر فرمایا کہ میں حق تعالی کے ارشاد سے آیا ہوں، کیوں کہ یہ سن کر کہ حق تعالی کا ارشاد ہے، پھر چون وچرا نہ کریں گے، آزادی نہ رہے گی، چناں چہ حضرت خضر علیہ السلام نے نہایت آزادی سے شرطیں لگائیں۔ (آداب المعاشرت، ص 26 ، آداب یومیہ، حصہ سوم ص 264)
3… ﴿مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّکُنْ لَّہُ نَصِیْبٌ مِّنْھَا، وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّکُنْ لَّہُ کِفْلٌ مِّنْھَا، وَکَانَ اللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شیْءٍ مُّقِیْتًا﴾․ (النساء آیة 85)
جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں اس کو بھی ملے اس میں سے ایک حصہ اور جو کوئی سفارش کرے بری بات میں اس پر بھی ہے ایک بوجھ اس میں سے اور اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا۔ (النساء، آیة 85)
سفارش کی حقیقت اور اس کے احکام اور اقسام
مَنْ یَّشْفَعُ شَفَاعَةً حَسَنَةً الخ اس آیت میں شفاعت یعنی سفارش کو اچھی اور بُری دو قسموں میں تقسیم فرما کر اس کی حقیقت کو بھی واضح کر دیا اور یہ بھی بتلا دیا کہ نہ ہر سفارش بُری ہے اور نہ ہر سفارش اچھی، ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ اچھی سفارش کرنے والے کو ثواب کا حصہ ملے گا اور بُری سفارش کرنے والے کو عذاب کا، آیت میں اچھی سفارش کے ساتھ نَصِیْبٌ کا لفظ آیا ہے اور بُری سفارش کے ساتھ کِفْلٌ کا اور لغت میں دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی کسی چیز کا ایک حصہ، لیکن عرفِ عام میں لفظ نَصِیْبٌ اچھے حصہ کے لیے بولا جاتا ہے اور لفظ کِفْلٌ اکثر بُرے حصہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اگر چہ کہیں اچھے حصہ کے لیے بھی لفظ کِفْلٌ استعمال ہوا ہے، جیسے قرآن کریم میں کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہ ارشاد ہے۔
شفاعت کے لفظی معنی ملنے یا ملانے کے ہیں، اسی وجہ سے لفظِ شفعہ عربی زبان میں جوڑے کے معنی میں آتا ہے اور اس کے بالمقابل لفظِ وتر بمعنے طاق استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے شفاعت کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ کسی کم زور طالب حق کے ساتھ اپنی قوت ملا کر اس کو قوی کر دیا جائے یا بے کس اکیلے شخص کے ساتھ خود مل کر اس کو جوڑا بنا دیا جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جائز شفاعت وسفارش کے لیے ایک تو یہ شرط ہے کہ جس کی سفارش کی جائے اس کا مطالبہ حق اور جائز ہو، دوسرے یہ کہ وہ اپنے مطالبہ کو بوجہ کم زوری خود بڑے لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا، آپ پہنچا دیں، اس سے معلوم ہوا کہ خلافِ حق سفارش کرنا یا دوسروں کو اس کے قبول پر مجبور کرنا شفاعت سیّئہ یعنی بُری سفارش ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سفارش میں اپنے تعلق یا وجاہت سے طریقہ دباؤ اور اجبار کا استعمال کیا جائے تو وہ بھی ظلم ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اسی لیے وہ بھی شفاعت سیّئہ میں داخل ہے۔
اب خلاصہٴ مضمون آیتِ مذکورہ کایہ ہو گیا کہ جو شخص کسی شخص کے جائز حق اور جائز کام کے لیے یا جائز طریقہ پر سفارش کرے تو اس کو ثواب کا حصہ ملے گا اور اسی طرح جو کسی نا جائز کام کے لیے یا نا جائز طریقہ پر سفارش کرے گا اس کو عذاب کا حصہ ملے گا۔
حصہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے سفارش کی گئی ہے وہ جب اس مظلوم یا محروم کا کام کر دے تو جس طرح اس کام کرنے والے افسر کو ثواب ملے گا، اسی طرح سفارش کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا۔ (معارف القرآن، جلد دوم، ص 497)
احادیث مبارکہ
سفارش پر ہدیہ قبول کر لینے کی مذمت
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی شخص کی سفارش کی، پھر سفارش کرانے والے سے اس نے کوئی ہدیہ قبول کر لیا تو اس نے اپنے اوپر سُود کے دروازوں میں ایک بہت بڑا دروازہ کھول لیا۔ (ابوداؤد)
سفارش کرنے کی فضیلت
(2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں معتکف تھے۔ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور سلام کر کے (چُپ چاپ) بیٹھ گیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تمہیں غم زدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں۔ کیا بات ہے؟ اُس نے کہا اے رسول اللہ کے چچا کے بیٹے! میں بے شک پریشان ہوں کہ فلاں کا مجھ پر حق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس قبر والے کی عزت کی قسم! میں اس حق کے ادا کرنے پر قادر نہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اچھا کیا میں اس سے تیری سفارش کروں؟ اس نے عرض کیا کہ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔ حضرت ابن عباس یہ سن کر جوتہ پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے، اس شخص نے عرض کیا کہ آپ اپنا اعتکاف بھول گئے۔ فرمایا بھولا نہیں، بلکہ میں نے اس قبر والے (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سُنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا۔ (یہ لفظ کہتے ہوئے) ابن عباس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے۔ (بیہقی)
(ف) اس جگہ ایک مسئلہ کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے بھی مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، اگر اعتکاف واجب ہو تو اس کی قضا واجب ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورتِ بشری کے علاوہ کسی ضرورت سے بھی مسجد سے باہر تشریف نہیں لاتے تھے۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کا یہ اعتکاف نفلی اعتکاف تھا۔
(3) فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں ہوتا ہے۔ (بہشتی زیور، حصہ ہفتم، ص 119)
(4) حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی سائل یا کوئی صاحبِ حاجت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (صحابہ سے) فرماتے کہ تم سفارش کر دیا کرو، تم کو ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جو چاہے حکم دے (یعنی میری زبان سے وہی نکلے گا جو اللہ تعالی کو دلوانا ہوگا) مگر تم کو مفت کا ثواب مِل جائے گا۔ اور یہ اس وقت ہے جب جس سے سفارش کی جائے اس کو گرانی نہ ہو، جیسا یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا۔ (حیوة المسلمین، ص 158 بحوالہ بخاری ومسلم)
(5) ابو احمد ناصح نے اپنے فوائد میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے کسی بھائی مسلمان کی حاجت پوری کرنے میں سعی کرے (اس میں سفارش وغیرہ بھی آگئی) خواہ وہ سعی کام یاب ہو یا ناکام رہے، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیں گے، اس کو دو پروانے ایک جہنم کی آگ سے اور دوسرے نفاق سے براء ت کے لکھ دیے جاویں گے۔ (بہشتی زیور، حصہ ہفتم، ص 119)
(6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہ․ (رواہ البزاز عن ابن مسعود، والطبرانی عنہ و عن سھل بن سعد، بحوالہ مظہری)
”یعنی جو شخص کسی نیکی پر کسی کو آمادہ کر دے اس کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے جیسا اس نیک عمل کرنے والے کو“۔ (معارف القرآن ص 499، جلد 2)
(7) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیوہ اور غریبوں کے کاموں میں سعی کرے (اس میں سفارش وغیرہ بھی آگئی) وہ ثواب میں اس شخص کے مثل ہے جو جہاد میں سعی کرے۔ (حیوة المسلمین، ص 157 بحوالہ بخاری ومسلم)
غیر شرعی سفارش کی مذمت
احادیث مبارکہ
(1) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”مخزومہ قریشیہ“ جو ایک عزت دار عورت تھی، اس نے ایک دفعہ چوری کرلی تھی، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے حق میں سفارش کرنی چاہی، تو اسامہ رضی اللہ عنہ کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تواللہ تعالی کی حد میں سفارش کرنا چاہتا ہے؟ تم سے پہلے اسی قصور میں لوگ ہلاک ہوئے کہ جب کوئی غریب آدمی قصور کرتا تو اس پر حد جاری کرتے اور اگر کوئی عزت دار آدمی گناہ کرتا تو اس کو چھوڑ دیا کرتے تھے، خدا کی قسم! اگر (بفرضِ محال) میری بیٹی ”فاطمہ“ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ (صحاح)
(2) حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کی سفارش اللہ کی حد جاری کرنے میں حائل ہوئی تو وہ شخص ہمیشہ اللہ کے غضب اور غصہ میں گرفتار رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنی سفارش سے باز آجائے۔ (طبرانی)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کی حد جاری کرنے میں سفارش کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی حکومت میں مقابلہ کیا اور جس نے کسی مقدمہ میں مدعا علیہ کی اعانت کی اور بدون اس علم کے اعانت کی کہ حق کیا ہے اور کس کی جانب ہے تو وہ شخص اللہ کے غصہ میں گرفتار رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی امداد سے باز آجائے۔ (دوزخ کا کھٹکا، ص 155 بحوالہ طبرانی)
(4) ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اَعَانَ عَلی قَتْلِ مؤمنٍ بشطر کلمةٍ لقی اللہ مکتوب بین عَیْنَیْہِ: آئسٌ من رَّحمة اللّٰہِ․ (مظہری)
جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں ایک کلمہ سے بھی مدد کی تو وہ قیامت میں حق تعالے کی پیشی میں اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی پیشانی پر یہ لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ومایوس ہے۔ (معارف القرآن، ص 499 ج 2)
ف: ثابت ہوا کسی کو گناہ پر آمادہ کرنا یا سہارا دینا بھی گناہ ہے۔
سفارش کی شرعی حیثیت
(1) حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آزاد کردہ لونڈی تھیں، حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، بعد آزاد ہو جانے کے ان کو اختیار تھا کہ حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہیں یا نہ رہیں۔ چناں چہ انہوں نے نکاح میں رہنا پسند نہیں کیا، حضرت مغیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اِن کے ساتھ بہت محبت تھی، گلیوں میں پریشان پھرا کرتے تھے، حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حالت پر رحم آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بریرہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سفارش لائے کہ بریرہ مغیث رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لو۔ دیکھیے سفارش کی یہ حقیقت ہے جو آگے معلوم ہوتی ہے، حضرت بریرہ پو چھتی ہیں کہ یا رسول اللہ! یہ حکم ہے یا سفارش؟ عجیب گہرا سوال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفارش ہے۔ انہوں نے کہا میں نہیں قبول کرتی۔ (کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت فرض ہے، سفارش حکم مباح میں داخل ہے کہ اس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا دونوں طرح اختیار ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، آج اگر کوئی مرید پیر سے کہہ تو دے میں آپ کی سفارش قبول نہیں کرتا، تو غضب ہو جائے گا، پیر فورا ہی کہہ دے گا کہ مرتد ہوگیا ہے۔ (حسن العزیز، ص 228 ج 1)
(2) ایک شخص فارس کا رہنے والا تھا، جو شوربا اچھا پکاتا تھا، ایک دفعہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آج میں نے کچھ شوربا پکایا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے چلیں (اور شور با نوش فرمائیں) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ بھی؟ اُس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہم بھی نہیں، وہ واپس چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد پھر حاضر ہوا اور پھر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، وہ پھر واپس چلا گیا، تیسری مرتبہ پھر حاضر ہوا اور اب چوں کہ اس کی رائے بدل گئی تھی اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی لے چلنا منظور کر لیا۔
ف: دیکھیے، اس فارسی کے انکار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا متغیر نہ ہوئے۔ سو سفارش یہ ہے کہ اگر مخاطب قبول نہ کرے تو شفیع کو ذرا ناگواری نہ ہو اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کیسی آزادی عطا فرما رکھی تھی، جب تک اپنی رائے نہیں بدلی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کو قبول نہیں کیا۔ یہی سفارش کی حقیقت ہے، مگر آج اس کو بالکل بدل دیا ہے، آج کل تو اگر کوئی بزرگ سفارش کریں اور معتقدین قبول نہ کریں۔ تو بیچارے معتقدین پر قیامت برپا ہو جائے اور مصیبت آجائے۔ (مقالات حکمت 218)
سفارش میں زبر دستی کرنا شر عامذ موم ہے
غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ سفارش میں زبر دستی کرنا، قطع نظر اس سے کہ شرعًا مذموم ہے، ترتُّبِ نتیجہ کے اعتبار سے بھی مناسب نہیں، کیوں کہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اگر اس کو آزاد رکھا جائے اور کام کرنے نہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا تو وہ بشاش اور شگفتہ ہو گا اور خوش ہو کر زیادہ مدد کرے گا۔ (مقالات حکمت ص 220)
سفارش میں بعض اوقات جبر اور دباؤ ہوتا ہے، ایسی حالت میں سفارش جائز نہیں، ﴿فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیئًا مَرِیئًا﴾ (نساء، آیة 4) نیز حدیث لا یحل مالُ امرءٍ مسلمٍ الاَّ بطیب نفسٍ منہ (کسی شخص کا مال حلال نہیں ہے مگر اس کی رضا مندی سے) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ طیب شرطِ حلت ہے اور بغیر طیب نفس کے مال حلال نہیں ہوتا۔ اور نفس مال سے ارفع (بلند) ہے، اس لیے اس میں بدرجہ اولیٰ جبر نا جائز ہوگا، یہی حالت چندہ وصول کرنے کی ہے، جبریہ سفارش نہ کرنے میں یہ بھی مصلحت ہے کہ دین کا نفع جو اس شخص شفیع سے پہنچتا ہے جبر کی صورت میں اس میں کمی آجاتی ہے، کیوں کہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شخص دباوٴ ڈال کر کام لیتا ہے تو لوگ اس سے بچنے لگتے ہیں۔ (یعنی جو پیر اپنے مریدوں سے جبریہ سفارش سے کام لیتا ہے، لوگ اس سے دین کا علم حاصل کرنے سے رُکتے ہیں کہ پیر صاحب کہیں ایسے کام کرنے کا سفارش نہ کر دیں کہ جو ہمارے بس میں نہ ہو، اگر ہو بھی تو کہیں دنیوی دنیوی ضرر نہ اٹھانا پڑے) (مقالات حکمت ص 350)
سفارش اور متعلقہ مسائل
مسئلہ1: سفارش سے طیبِ خاطر کا اثر ہو تو جائز ہے، کیوں کہ اس اثر میں اذیت نہیں ہوتی۔
اگر یہ گمان ہو کہ وہ سفارش کرنے والے کے خلاف نہ کرنے پر مجبور ہو گا تو سفارش سے ایسا اثر ڈلوانا جائز نہیں ہے۔ (انفاسِ عیسٰی 4 ص 646)
مسئلہ2: سفارش کا جو اثر ہوتا ہے ایک شفیع کی محبت کی وجہ سے ہوتا ہے، جس میں طیبِ خاطر ہوتی ہے اور ایک عظمت کی وجہ سے ہوتا ہے، جس سے اذیت ہوتی ہے تو اگر سفارش سے طیب خاطر کا اثر ہو تو وہ جائز ہے، کیوں کہ اس اثر میں اذیت نہیں ہوتی ہے، بلکہ مسرت ہوتی ہے، مثلاً ایک شخص کو کسی سے محبت ہے تو اب یہ خیال کر کے کہ اگر وہ اپنے محب سے کہے گا تو وہ اپنے محبوب کا کہنا خوشی سے مان لے گا تو ایسی سفارش میں کچھ حرج نہیں اور اگر یہ گمان ہو کہ وہ سفارش کرنے والے کے خلاف نہ کرنے پر مجبور ہوگا تو سفارش سے ایسا اثر ڈلوانا جائز نہیں۔ (الافاضات الیومیہ، ص134، ج 15)
مسئلہ3: ناجائز امور میں کسی کی سفارش کرنا معصیت میں داخل ہے، کیوں کہ جس طرح مباح کام کی سفارش کرنے والے کو ثواب ملتا ہے اسی طرح غیر شرعی امور میں سفارش کرنے سے گناہ ملے گا۔
مسئلہ4: آج کل کی سفارش جبر واکراہ ہے کہ اپنے اثر سے دوسروں پر زور ڈالتے ہیں، جو شرعا جائز نہیں۔ اگر سفارش کی جاوے تو اس طرح کہ مخاطب کی آزادی میں ذرّہ برابر خلل نہ پڑے، وہ جائز، بلکہ ثواب ہے۔
مسئلہ5: اسی طرح کسی کی وجاہت سے کام نکالنا مثلاً کسی بڑے آدمی سے قرابت ہے اور اس کے کسی معتقد یا اثر ماننے والے کے پاس اپنی کوئی حاجت یا سفارش لے جائے اور قرائن سے معلوم ہو کہ وہ بطیب خاطر اس سفارش میں سعی نہ کرے گا، بلکہ محض اس بڑے آدمی کے تعلق اور اثر سے کہ بے توجہی میں وہ ناراض نہ ہو جائے تو اس طرح سے کام نکالنا یا کام کی فرمائش کرنا جائز نہیں۔ (آداب المعاشرت ص33)
مسئلہ6: سفارش حقیقت میں مشورہ کا ایک حصہ ہے، اگر کوئی کام واجب ہو تب تو سفارش مطلقاً جائز ہے، باقی مباح ہیں، آج کل میں سفارش کو جائز نہیں سمجھتا، آج کل کا رنگ دیکھ کر میں مباح میں سفارش کرنے کو جبر سمجھتا ہوں، مخاطب پر ایک قسم کا بار ڈالنا ہے، جو شرعًا بھی جائز نہیں۔ کیوں کہ ایک کو نفع پہنچاؤں، جو کہ مستحب ہے اور دوسرے کو تکلیف دوں، جو کہ حرام ہے۔ البتہ اگر ایسی سفارش ہو کہ یہ یقین ہو کہ مخاطب بالکل آزاد رہے گا، چاہے عمل کرے یا نہ کرے، یہ سفارش بے شک جائز ہے۔ (الافاضات الیومیہ، ص 264 ج3)
سفارش کے آداب
ادب 1- اپنے کسی خادم یا متعلق کو اپنا ایسا مقرّب مت بناوٴ کہ دوسرے لوگ اس سے دبنے لگیں یا وہ دبانے لگے، اس طرح اگر وہ کسی کا پیام یا سفارش تمہارے پاس لائے، سختی سے منع کردو، تاکہ لوگ اس کو واسطہ سمجھ کر اس کی خوشامد نہ کرنے لگیں، اس کو نذرانے نہ دینے لگیں، تمام لوگوں کا تعلق براہ راست اپنے سے رکھو، کسی شخص کو واسطہ مت بناؤ۔ ہاں! اپنی خدمت کے لیے ایک آدھ شخص خاص کر لو، مضائقہ نہیں۔ (آداب المعاشرت ص 40)
ادب 2- جب کسی شخص سے سفارش پیش کرنا ہو، جس کا ذکر پہلے بھی کرچکا ہوں تو دوبارہ پیش کرنے کے وقت بھی پوری بات کہنا چاہیے قرائن پر یا پہلی سفارش کے بھروسہ پر نا تمام بات نہ کہے، ممکن ہے مخاطب کو پہلی کی ہوئی سفارش یاد نہ رہی ہو اور غلط سمجھ جائے یا نہ سمجھنے سے پریشان ہو۔
ادب 3- سفارش کرتے وقت موقع محل کا بھی ضرور خیال رکھے، مثلاً ایسی حالت میں سفارش نہ کرے کہ وہ غصہ کی حالت میں ہو یاوہ کسی پریشانی میں الجھا ہوا ہو، خلاصہ یہ کہ مزاج شناسی سے کام لے کر سفارش کی جاوے تو زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
ادب 4- اگر قرینہ سے معلوم ہو جائے کہ سفارش کرنے سے دوسرے آدمی پر بوجھ ہو گا تو ایسی سفارش نہ کرے، بعض سفارش پر عمل کرنا اس آدمی کی مصلحت کے خلاف ہوتا ہے اور سفارش کرنے والے کے لحاظ اور اس کے دل کے ٹوٹنے کے خیال سے اپنی مصلحتوں کے خلاف کرنے پر اس کو مجبور ہونا پڑتا ہے اور اب سفارش کرنے والے تو اس خیال میں مست ہیں کہ ہم نے فلاں شخص کی حاجت پوری کر دی، مگر اس کی خبر نہیں کہ بلاوجہ اور ناحق دوسرے آدمی پر بوجھ ڈال کر اس کی مصلحتوں کا خون کیا، ایک نیکی کے لیے، جو کہ واجب نہ تھی، مفت کی برائیاں ذمہ لیں، اکثر لوگ ایک مصلحت تو دیکھ لیتے ہیں کہ ایک آدمی کو نفع پہنچ گیا، مگر ان نقصانوں کو نہیں دیکھتے جو دوسروں کو پہنچے۔ اگر سفارش کی ضرورت ہو تو صاف ظاہر کردینا چاہیے کہ تمہاری مصلحت کے خلاف نہ ہو تو یہ کام کرو، ورنہ خیر، تاکہ دوسرے آدمی پر بوجھ نہ پڑے۔ (معاشرت کے حقوق اور صوفی کا طریقہ، ص 17)
بدون تحقیق واقعہ سفارش نہیں کرنا چاہیے
ایک طالب علم نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم صاحب نے ایک غلطی پر مدرسہ سے خارج کر دیا ہے، حضرت والا ایک سفارشی خط تحریر فرمادیں کہ وہ مجھ کو مدرسہ میں داخل فرمالیں، فرمایا مجھ کو واقعہ کا علم نہیں ہے کہ وہ غلطی کیا ہے، جس کی وجہ سے تم کو نکالا گیا، دوسرے یہ بتاؤ کہ مدرسہ کے قواعد کے ماتحت تم کو نکالا گیا یا نہیں؟ عرض کیا نکالا تو قواعد ہی کے ماتحت، فرمایا تو اب سفارش کا مطلب یہ ہوگا کہ قواعد کوئی چیز نہیں جس کو جی چاہا خارج کر دیا، جس کو جی چاہا داخل اور بڑی بات تو یہ ہے کہ واقعہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں کہ وہ غلطی ثقیل ہے آیا خفیف؟ وہ کسی کے لیے مضر ہے یا نہیں؟ آئندہ احتمال اسی غلطی ہونے کا ہے یا نہیں؟ اس کو تو مہتمم مدرسہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ تم ایک عرصہ مدرسہ میں رہ چکے ہو، وہ تمہاری حالت سے بخوبی واقف ہیں۔ سفارش کس بنا اور کس اطمینان پر کروں؟ دوسرے یہ کہ میں سفارش کے باب میں بہت محتاط ہوں، پھر جس سفارش میں یہ احتمال بھی ہو کہ مخاطب خلاف نہ کر سکے گا، ایسی سفارش کرنا گویا تنگ کرنا ہے، اس کو میں شرعا جائز نہیں سمجھتا۔ (آداب المعاشرت، ص 178)
سفارش میں شریعت وعقل وغیرت وحیاومخاطب کی رعایت
فرمایا کہ میں سفارش نہیں کیا کرتا، ہاں! واقعات لکھا کرتا ہوں، تاکہ یہ جبر کا اثر ہو اور نہ ذلت کا اثر ہو، الحمد للہ شریعت کی، عقل کی، غیرت کی، حیا کی، مخاطب کی، سب کی رعایت رکھتا ہوں۔ (کمالات اشرفیہ ص387)
چناں چہ مدرسہ نانوتہ کا مستقل چندہ جو ریاست بھوپال سے آتا تھا جب اس کے بند ہو جانے کی خبر پر، کارکنانِ مدرسہ کی درخواست پر، جو سفارش لکھی ہے وہ حسب ذیل ہے:
بعد الحمد للہ والصلوة، احقر اشرف علی تھانوی عفی عنہ سے کارکنان مدرسہ ہذا نے توثیق کے لیے تصدیق کی درخواست کی، چوں کہ مدتِ طویلہ سے میرا سفر متروک ہے، اس لیے بجائے مشاہدہ کے روایات ثقات کی بنا پر جس کو میرا قلب بھی قبول کرتا ہے، مضمون ہذا کی تصدیق کرتا ہوں اور بجائے عادتِ متعارفہ سفارش کے، تعلیم دینی کی اعانت کے فضائل کی تذکیر کرتا ہو اور بعد تصدیق وتذکیر کے دعا کرتا ہوں، اس درخواست میں کام یابی عطا فرمادے۔ (کمالات اشرفیہ ص 387)
ایک شخص نے حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کے ذریعہ کسی امیر کے پاس ایک مقدار مال دینے کی غرض سے سفارش چاہی، حضرت والا نے عذر کیا کہ لوگوں پر جبر ہوتا ہے، اس لیے کسی کو تکلیف نہیں دیتا ہوں۔ اس شخص نے عجیب تأویل کی کہ مال بلاطیب خاطر دینا جبر ہے تو یہ ایک قسم کا مجاہدہ ہے، کیوں کہ جبر میں ایلام قلب ہے اور مجاہدہ میں بھی یہی ہے اور تم لوگوں کو مجاہدے بتلاتے ہی ہو تو اس مجاہدہ کے لیے بھی خط لکھ دو۔
حضرت والا نے جواب ارشاد فرمایا کہ ہرشخص کی حالت جدا گانہ ہے، جیسا مرض ہو ویسا علاج کیا جاوے گا، کسی کو مجاہدہ بالمال کی ضرورت ہے، کسی کو نہیں، پھر یہ کیا ضرور ہے کہ ُاس مخاطب کے لیے مجاہدہ کی یہی صورت اختیار کی جاوے؟ دوسرے اگر اس کو مجاہدہ بالمال ہی کی ضرورت ہو تو کیا ضرورت ہے کہ وہ مال تم ہی کو ملے؟! (مقالات حکمت ص 350)
مغلوبُ الحال متقی بزرگ کی حکایت
ایک صاحب سید امیر علی تھے، جو نہایت متقی وپرہیزگار تھے، یہ صاحب نواب وزیر الدّولہ کے مقرب تھے اور اہل حاجت کی سفارشیں بہت کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے نواب صاحب سے کوئی سفارش کی اور نواب صاحب نے وعدہ فرما لیا، مگر کسی وجہ سے اس کو پورا نہ کر سکے، اس پر سید امیر علی صاحب کو غصہ آیا، بھرے دربار میں نواب صاحب کو تھپڑ مار دیا، نواب صاحب کا ظرف دیکھیے کہ کچھ نہیں کہا اور خاموش ہو گئے، اس کے بعد جو سید صاحب کے عزیز واقارب ریاست میں موجود تھے نواب صاحب اُن کے پاس گئے اور اِن سے سید امیر علی کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ مجھے اس واقعہ سے ذرا ملال نہیں ہوا، انہوں نے تو تھپڑ ہی مارا ہے، اگر وہ میرے جوتے بھی مار لیتے تب بھی مجھے ملال نہ ہوتا، مگر ان سے ذرا اتنا کہہ دیا جائے کہ حق تعالے نے ریاست کا کام میرے سُپر دفرمایا ہے اور اس میں وقار قائم رہنے کی ضرورت ہے اور سر در بار ایسا کرنے سے سیاست میں خلل آتا ہے، اس لیے وہ دربار میں اس کا لحاظ رکھیں اور تنہائی میں انہیں اختیار ہے، چاہے وہ میرے جوتے مارلیں۔
ف: اِن بزرگ کا ایسا کرنا کسی حالت کے غلبہ پر محمول ہو گا، ورنہ بدون اس عذر کے ایسا کرنا جائز نہیں۔ (ارواح ثلاثہ، ص388)
سفارش کا آج کل لوگوں نے حلیہ بگاڑ دیا ہے
آج کل لوگوں نے سفارش کا حُلیہ بگاڑ دیا ہے، در حقیقت سفارش نہیں ہوتی، بلکہ تعلقات یا وجاہت کا اثر اور دباؤ ڈالنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر سفارش نہ مانی جائے تو ناراض ہوتے ہیں، بلکہ دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں، حالاں کہ کسی ایسے شخص پر ایسا دباؤ ڈالنا کہ وہ ضمیر اور مرضی کے خلاف کرنے پر مجبور ہو جائے، اکراہ واجبار میں داخل اور سخت گناہ ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی کے مال یا کسی کے حق پر زبردستی قبضہ کرلے، وہ شخص شرعاً اور قانوناً آزاد خود مختار تھا، آپ نے اس کو مجبور کر کے اس کی آزادی سلب کر لی، اس کی مثال تو ایسی ہوگی کہ کسی محتاج کی حاجت پوری کرنے کے لیے دوسر ے کا مال چُرا کر اس کو دے دیا۔ (معارف القرآن، ص 500 ج 2)
سفارش کا ثواب یا عذاب کام ہو جانے پر موقوف نہیں
سفارش کی حد یہی ہے کہ کم زور آدمی جو خود اپنی بات کسی بڑے تک پہنچانے اور اپنی حاجت صحیح طور پر بیان کرنے پر قادر نہ ہو تم اس کی بات وہاں تک پہنچا دو، آگے وہ سفارش مانی جائے یا نہ مانی جائے اور اس شخص کا مطلوبہ کام پورا ہو یا نہ ہو، اس میں آپ کا کوئی دخل نہ ہونا چاہیے۔ اس کے خلاف ہونے کی صورت میں آپ پر کوئی ناگواری نہ ہونی چاہییے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کہ سفارش کا ثواب یا عذاب اس پر موقوف نہیں کہ وہ سفارش کام یاب ہو، بلکہ اس ثواب وعذاب کا تعلق مطلق سفارش کر دینے سے ہے، آپ نے شفاعت حسنہ کر دی تو ثواب کے مستحق ہو گئے اور شفاعت سیئہ کر دی تو عذاب کے مستوجب بن گئے، خواہ آپ کی سفارش پر عمل ہو یا نہ ہو۔ (پس) یہی اصول ہونا چاہیے کہ سفارش کر کے آدمی فارغ ہو جائے، اس کے قبول کرنے پر مجبور نہ کرے۔
سفارش پر کچھ معاوضہ لینا رشوت ہے، جو حرام ہے
جس سفارش پر کوئی معاوضہ لیا جائے وہ رشوت ہے، حدیث میں اس کو حرام فرمایا ہے، اس میں ہر طرح کی رشوت داخل ہے، خواہ وہ مالی ہو یا یہ کہ اس کا کام کرنے کے عوض اپنا کوئی کام اس سے لیا جائے، سفارش کا کام بھی کسی دنیوی جوڑ توڑ کے لیے نہ ہو، بلکہ محض اللہ کے لیے۔ کم زور کی رعایت مقصود ہو، یہ سفارش کسی ایسے ثابت شدہ جرم کی معافی کے لیے نہ ہو جن کی سزا قرآن میں معین ومقرر ہے، تفسیر بحر محیط اور مظہری وغیرہ میں ہے کہ کسی مسلمان کی حاجت روائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا مانگنا بھی شفاعتِ حسنہ میں داخل ہے اور دعا کرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے۔ (معارف القرآن، ص 500، ج 2)