دنیا میں دو طرح کے قوانین کار فرما ہیں۔ ایک تکوینی او رایک تشریعی۔ تکوینی قوانین وہ ہیں جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور ان کو براہِ راست الله تعالیٰ چلا رہا ہے۔ مثال کے طور پر سورج کا طلوع وغروب ہونا، رات دن کا بدلنا، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا وغیرہ۔ یہ تمام نظام الله تعالیٰ کے تکوینی قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ انسان اگر چاہے بھی تو اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ اسی کو الله تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ:”تم الله تعالیٰ کی سنت (طریقہ) میں ہر گز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔“ (الفتح:23)
الله کے تکوینی نظام میں عدل کی کار فرمائی ہے۔ اس لیے ہر چیز اپنی جگہ کام کر رہی ہے۔ سورج اپنے وقت پر نکلتا ہے او راپنے وقت پر غروب ہو جاتا ہے۔ نہ معلوم کتنی مدتیں گزر گئیں، لیکن اس کی چال میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔ چاند اپنی تاریخوں پر نکلتا ہے اور رفتہ رفتہ بڑھتا ہے، پھر اپنی متعینہ تاریخوں پر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی اس میں فرق نہیں آتا۔ اگر کبھی سورج اور چاند میں گرہن لگتا بھی ہے تو وہ بھی خدا کے قانون کے مطابق لگتا ہے۔ اگر یہ نظام انسان کے ماتحت ہوتا تو طاقت ور ممالک غریب ممالک پر سورج کی روشنی بند ہی کر ڈالتے اور جب چاہتے دنیا کے ایک حصہ پر تاریکی مسلط کر دیتے۔
الله تعالیٰ کا دوسرا نظام تشریعی ہے۔ جس میں انسان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس میں الله تعالیٰ نے انسان کو اپنی پسند کا قانون عطا فرمایا ہے، لیکن اس کو مجبو رنہیں کیا کہ وہ اس کے قانون پر عمل کرے۔ مثال کے طور پر الله تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ دیے ،جن کو اچھے کام کے لیے استعمال کرنا چاہیے، ان ہاتھوں کو اگر ہم اپنے روز مرہ کے کاموں میں مدد وتعاون حاصل کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے میں استعمال کرتے ہیں، تو یہ الله تعالیٰ کی پسند کے مطابق ہو گا۔ لیکن ہم مجبور نہیں ہیں، ہم ان ہاتھوں سے کسی کو اٹھانے کے بجائے دھکا دے کر گرا بھی سکتے ہیں، ان ہاتھوں سے کسی کو کچھ دینے کے بجائے چھین بھی سکتے ہیں، مدد کرنے کے بجائے ظلم وزیادتی بھی کرسکتے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی کو دھکا دیں یا کسی سے کچھ چھینیں تو ہمارے ہاتھ شل ہو جائیں او رکام کرنا چھوڑ دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ الله تعالیٰ اول الذکر کاموں سے خوش ہوگا اور ثانی الذکر سے ناراض ہو گا۔ الله تعالیٰ کا حکم ہے کہ جس طرح تکوینی نظام عدل پر قائم ہے اسی طرح انسان تشریعی نظام میں بھی عدل سے کام لے، اگر انسان عدل سے کام لے گا تو دنیا میں اس کی زندگی میں امن ہوگا، سکون ہو گا، خوش حالی ہو گی، وہ محفوظ رہے گا اورمرنے کے بعد بھی اس کو ابدی اور دائمی جنتیں حاصل ہوں گی۔
الله تعالیٰ نے فرمایا:
” بے شک الله تعالیٰ عدل واحسان کرنے اور اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور فحاشی، منکرات اور سرکشی سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرنے والے بن جاؤ۔“ (النحل:90)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف او رتمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اوررشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، الله تعالیٰ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو او راگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو الله تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔“ (النساء:135)
عدل کی ضد ظلم ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہر شے کو اس کے مقام پر رکھا جائے اور ظلم یہ ہے کہ کسی شے کو اس کے مقام پر نہ رکھا جائے۔ عدل کے ثمرات امن وسکون ، خوش حالی اور ترقی کی شکل میں ملتے ہیں اور ظلم کا نتیجہ فتنہ وفساد، بدامنی اور خون ریزی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ عدل کا دور دورہ ہو گا تو انسانی معاشرہ امن وسکون کا گہوارا ہو گا اور عدل نہیں ہو گا تو ظلم وفساد ہو گا۔ آج ہم دنیا کے جس حصہ میں بھی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں وہ عدل کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ تازہ مثال اسرائیل اور فلسطین جنگ کی ہے۔ اہل فلسطین کیوں جنگ پر آمادہ ہوئے؟ اس لیے کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ اسرائیل او راس کو قائم کرنے والے ممالک کی نا انصافیاں آج تباہی کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ اس سے قبل کی تمام جنگوں کی تاریخ اٹھا لیجیے۔ ان کے اسباب میں آپ کو ظلم کار فرمانظرآئے گا۔
موجودہ دور میں ہر جگہ ناانصافی نظر آتی ہے، وہ بین الاقوامی ادارے جو دنیا میں امن کے نوبل انعام تقسیم کر رہے ہیں وہ خود ناانصافی اورظلم کا سرچشمہ ہیں، اقوام متحدہ جس کا قیام اس لیے ہوا کہ تھا کہ کوئی ملک کسی ملک پر ظلم نہ کرے، وہاں ظالموں کے حق میں ویٹو کیا جارہا ہے۔ ملک میں عدالتوں کے فیصلے، حکومت کی پالیسیاں، عدل سے عاری ہیں۔ اقتدار پر برا جمان لوگوں کے اشاروں پر، کسی عہدے ومنصب کے لالچ میں، کسی کے ڈر اور خوف سے عدالتیں فیصلے کر رہی ہیں۔ رائے دہندگان کو سامنے رکھ کر آئین کے صریح خلاف پالیسیاں بنائی جارہی ہیں، گواہ، وکیل او رجج رشوت لے کر گناہ گار او رمجرم کو باعزت بری کر رہے ہیں، بلقیس بانو کے مقدمہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، کس طرح ایک حکومت نے سزا یافتہ مجرمین کو سلاخوں سے رہا کر دیا ا ور مظلوم کو ایک بار پھر انصاف مانگنے کے لیے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ۔ ہماری بے ضمیری کا عالم یہ ہے کہ مجرمین اور قاتلین کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں انصاف کا حکم دیتا ہے۔ مجرم خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، وہ صاحب اثر ورسوخ ہی کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ وہ ملک کا حاکم ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ مجرم ہے تو اسے سزا ضرور ملے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ:”کسی قسم کی دشمنی تمہیں نانصافی پر آمادہ نہ کرے، انصاف کرو، یہ خدا ترسی کے زیادہ قریب ہے۔ الله تعالیٰ سے ڈرو، اس لیے کہ الله تعالیٰ تمہاری حرکتوں سے باخبر ہے۔“ (المائدہ:8)
اسلامی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دور رسالت میں ایک خاتون نے چوری کی، اس کا نام فاطمہ تھا، وہ معزز خاندان کی فرد تھی، کچھ لوگوں کے کہنے پر حضرت اسامہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس کی سزامیں تخفیف کے لیے سفارش کی۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:” کیا تم الله تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کر رہے ہو؟“ حضرت اسامہ نے معذرت کر لی۔ اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:” اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد( صلی الله علیہ وسلم) بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔“ (صحیح بخاری)
حضرت علی کے دور خلافت میں اسلامی عدالت کے قاضی حضرت شریح نے ایک معاملہ میں خود امیر المؤمنین حضرت علی کے خلاف فیصلہ دیا۔ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت علی کی زرہ گم ہو گئی، کچھ دن بعد وہی زرہ آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھی تو اسے پہچان لیا او رکہا کہ یہ زرہ میر ی ہے۔ یہودی نے کہا کہ یہ میرے قبضہ میں ہے، اس لیے میری ہے۔ آپ ثبوت لائیے اور قاضی سے فیصلہ کرائیے، چناں چہ قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، حضرت علی نے اپنے غلام اور اپنے بیٹے کو بطور گواہ پیش کیا، قاضی نے کہا کہ مالک کے حق میں غلام کی او رباپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں۔ اور زرہ یہودی کو دے دی۔ یہودی اس انصاف سے متاثر ہوا او راس نے کہا کہ یہ زرہ حضرت علی ہی کی ہے۔ اسی کے ساتھ اس یہودی نے اسلام قبول کر لیا۔
بہت دور نہ جائیے خو دہمارے ملک میں عدل جہانگیری مشہور تھا۔ ہم نے زنجیر عدل ایجاد کی۔ ہم جب تک عدل کرتے رہے دنیا پر حکم رانی کرتے رہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہماری گواہیاں معتبر تھیں، اس لیے کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک قطعہ زمین کی ملکیت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع تھا۔ یہ برٹش دور کی بات ہے۔ مقدمہ انگریز کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ دونوں فریق اپنے دعوے پر قائم تھے۔ انگریز جج نے مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا کوئی ہندو ایسا ہے جس کی گواہی پر آپ اطمینان کرسکتے ہوں؟ مسلمانوں نے انکار کر دیا۔ یہی بات جج نے ہندوؤں سے معلوم کی۔ انہوں نے آپسی تبادلہٴ خیال اور غور وفکر کے بعد کہا کہ ایک بزرگ ہیں، وہ بہت ایمان دار ہیں، ہم ان کی گواہی پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ جو کہہ دیں گے ہم مان لیں گے۔ جج نے ان کو بلانے کے لیے سپاہی بھیجے۔ جب سپاہی وہاں پہنچے تو بزرگ نے کہہ دیا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ کسی انگریز کی صورت نہ دیکھوں گا۔ سپاہیوں نے یہ بات جج کو بتائی۔ جج نے کہلا بھیجا کہ میری صورت نہ دیکھیں۔ میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہو جائیں اور گواہی دے دیں۔ اس شرط پر بزرگ تشریف لے آئے او رجج کی طرف پشت کرکے کھڑے ہو گئے۔ جج نے مقدمہ کی تفصیلات بتائیں او ران سے گواہی چاہی۔ بزرگ نے بڑے اطمینان سے کہا کہ اس زمین پر مسلمانوں کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ یہ زمین ہندوؤں کی ہے۔ جج نے ان کی گواہی پر ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اس کا بہت اثر ہوا اور بہت سے ہندو اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ : ” آج مسلمان ہار گئے، مگر اسلام جیت گیا۔“ یہ بزرگ شیخ محمود بخش سہارن پوری تھے۔ مفتی مظفر حسین ان ہی کے بھتیجے تھے۔
افسو س اس بات کا ہے کہ ہم خود عدل واانصاف کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اسی لیے ہمارا اعتبار ختم ہو گیا ہے او رہماری عزت جاتی رہی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا کھویا ہوا وقار واپس آجائے تو ہمیں انصاف قائم کرنے والا بننا ہوگا۔ ہمیں تو ظلم سے باز رہنے ، ظلم نہ سہنے اور ظلم کو آگے بڑھ کر روکنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو معزول کرکے ہمیں منصب امامت پر اس لیے فائز کیا تھا کہ ہم دنیا سے ظلم کو مٹا ڈالیں۔ ہمارے پاس تو خوف خدا کا وہ نسخہ تھا جس نے ہماری زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا تھا، دنیا نے ہمارے دور خلافت میں دیکھا تھاکہ ایک عورت دودھ میں پانی ملاتے ہوئے بھی ڈرتی تھی۔ مجرم اپنے جرم کا اقرار کرکے خود سزا کا مطالبہ کرتے تھے، تاکہ خدا کے یہاں جہنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ ہمیں حیات رسول کی شکل میں وہ اسوہ کاملہ عطا کیا گیا تھا جس سے ہم نے اپنی زندگیوں کو اس طرح منور کیا تھا کہ ساری دنیا اس نور سے جگمگا اٹھی تھی۔
آج ہر طرف جو ظلم ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر ہم خود کے ساتھ، خدا کے ساتھ، خدا کے پیغام کے ساتھ انصاف کرتے اور سماج ومعاشرے میں انصاف کو قائم کرتے تو ہمارے اقتدار کا سورج غروب نہ ہوتا۔ ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا چاہیے اوردیکھنا چاہیے کہ اپنی اولاد کے ساتھ، اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ، اپنے زیرِ دست افراد کے ساتھ ہمارا معاملہ کیا ہے؟ اگر ہم عدل پر کار بند ہیں تو یقین رکھیے! الله تعالیٰ ہمیں ضرور سرخ رو کرے گا اوراگر ہمارا رویہ غیر عادلانہ اور ظالمانہ ہے تو مزید رسوائیاں ہماری منتظر ہیں۔