
اسلام ایک عملی دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو عمل پیہم کی تاکید کرتا ہے اور وقت کودینی ودنیوی لحاظ سے قیمتی بنانے پر آمادہ کرتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے یہاں اس فکر کا بہت اہتمام تھا، چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں کسی چیز پر اتنا نادم نہیں ہوا جتنا اس دن کے گزرنے پر، جس کا سورج غروب ہوگیا اور اس دن میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور اسلامی کلینڈر کی بنیاد ہجرت کے یادگار پُر عزیمت واقعہ پر رکھی گئی ہے، یہ واقعہ بھی مسلمانوں کو عزیمت، دور اندیشی اور ایک زندہ وجاوید طرزِ فکرکی دعوت اور محنت ومجاہدہ کی زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اسلام میں جمود وتعطل ، سستی وبے کاری اور عجز وبے ہمتی کو نہایت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، چناں چہ زبان نبوت سے امت کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے ”اللھم انی اعوذ بک من العجز والکسل والجبن والبخل…الخ“ ”اے اللہ! میں عاجز رہنے اور سستی اور بزدلی اور بخل سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں“۔ اسی طرح رہبانیت اور ترکِ تعلقات ومعاشرت کو بھی اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے اور جگہ جگہ اجتماعیت کی اہمیت بیان کی گئی ہے، تاکہ مسلمان چھوٹے چھوٹے مفادات پر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے دنیا اور آخرت کے لحاظ سے امت کے عظیم تر اجتماعی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اپنی زندگی کو تشکیل دیں۔
نئے سال کی ابتداء اس لیے نہیں کہ اس کو خوشی یا غم کی یادگار کے طور پر چند رسموں کے ساتھ منا لیا جائے اور اپنے طرز حیات کی سابقہ کوتاہیوں پر برقرار رہا جائے، بلکہ سال نوکی آمد ہر انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اس کی قیمتی زندگی کا ایک سال مزید کم ہوچکا ہے اور وہ اپنے انجام اور حساب وکتاب کے قریب تر ہوگیا ہے۔ جلیل القدر تابعی حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تو ایام ہی کا مجموعہ ہے جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ گزر گیا۔
آج کل نئے اسلامی سال کو ایک نئے عزم کے ساتھ شروع کرنے کے بجائے اسے بدعات و رسومات کی نذر کردیا جاتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ معاشرے میں بے عملی کا ماحول بنتا ہے اور تعمیری سر گرمیوں سے محرومی میں ابتلاء ہوتا ہے، بلکہ بدعات کی نحوست کی وجہ سے انسان مسنون طرز زندگی سے دور ہوجاتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: جب کوئی قوم کسی بدعت کو ایجاد کرتی ہے تو اس کے مثل ایک سنت اٹھالی جاتی ہے، پھر قیامت تک وہ سنت ان لوگوں کی طرف لوٹائی نہیں جاتی۔(مشکاة المصابیح)
لہٰذا ایک مسلمان کا نئے اسلامی سال کی ابتداء میں طرز عمل یہ ہونا چاہے کہ وہ اس موقع پر اپنے محاسبہ کی طرف متوجہ ہو، حقوق اللہ اورحقوق العباد سے متعلق جو کوتاہیاں سابقہ زندگی میں اس سے سرزد ہوئیں ان کی تلافی کا بھرپور عزم کرے، مروجہ بدعات وخرافات اوررسومات قبیحہ سے مکمل اجتناب کرے اور توہم پرستی اور جہالت پر مبنی نظریات اور لایعنی امور سے بچتے ہوئے دینی اور دنیوی لحاظ سے مفید تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رہنے کی روش اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس حیات مستعار کی قدر کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!