7ستمبر 1974ء کا دن عشاقان مصطفی،فدایان ختم الرسل اور محبان خاتم النبیینصلی الله علیہ وسلم کے لیے ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔جب امت مسلمہ کے غیوراور عشق رسالت کے جذبہ صادق سے معمورمجاہدین ختم نبوت کی لازوال قربانیاں ،انتھک کاوشیں اورمساعی جمیلہ رنگ لائیں اور1953ء کی تحریک ختم نبوت میں تیرہ ہزارشہداء کے بہنے والے مقدس خون کی برکت اور بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے غداران ملک وملت اور دشمنانِ دین ووطن، فتنہ مرزائیت کے دونوں گروپوں قادیانی گروپ اورلاہوری گروپ کوغیرمسلم اقلیت قراردے کرقادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کردیا۔
پارلیمنٹ کایہ تاریخی اورجرأت مندانہ فیصلہ محض ایک اتفاقی امر،حادثاتی واقعہ اور مذہبی جنون کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جذباتی عنصر کا شاخسانہ نہیں تھا،بلکہ کئی دنوں پر مشتمل طویل بحث ومباحثہ میں فریقین کے دلائل سننے کے بعداراکین اسمبلی نے اس اہم مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے،اس کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے،اس کے تمام پہلووں کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اورمرزائیت کے گم راہ کن نظریات کی وجہ سے اسلام کے مجروح ہوتے ہوئے مذہبی تشخص کے پیش نظر،بڑی دیانت داری اور سلیقہ مندی سے انتہائی منصفانہ اورمعتدلانہ فیصلہ سنایا، جوپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ماتھے کا جھومراور اس کے خالص نظریاتی ریاست ہونے کی زندہ دلیل ہے۔حکومت وقت نے یہ کڑا فیصلہ کر کے تمام عالم اسلام، بالخصوص اسلامیان پاکستان کے دل جیت لیے۔ اس فیصلے کو برادر اسلامی ملکوں میں بڑی قدروتحسین کی نگاہ سے دیکھتے اور سراہتے ہوئے لائق تقلید قراردیا گیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی ممالک میں دین کا سچا درد رکھنے والے علماء کی کاوشوں سے قادیانیوں کوخارج از اسلام قراردلوایا گیا۔
تحریک کے عوامل و محرکات
قادیانیت کے اسلام مخالف نظریات اور وطن دشمن اقدامات کی وجہ سے1953ء میں انہیں غیر مسلم اقلیت قراردلوانے کے لیے ملک بھر کے چوٹی کے علماء کی قیادت میں ،جن میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرفہرست ہے ،ایک عظیم ملک گیر تحریک کے ذریعے آئینی وقانونی جدوجہدکا آغازہوا۔یہ تحریک بوجوہ اپنی منزل کے حصول میں بظاہر ناکام رہی اوراسے بہت زیادہ مالی وجانی نقصان اٹھانا پڑا ،لیکن عشق رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی جو چنگاری ناموس ختم نبوت کے چوکیداروں اور بے لوث خادموں میں اس تحریک کی وجہ سے بھڑک اٹھی تھی اورریاستی ظلم وجبرکی بنا پروقتی طورپر دب گئی تھی،وہی چنگاری74ء کی تحریک میں پھر سے بھڑکی اور قادیانیت کے خرمن پر قہر بن کر ٹوٹی۔یہ اس تحریک کا حقیقی سبب تھا اور اس کاظاہری سبب مرزائی غنڈہ گردی کاایک واقعہ بنا،جس کے رد عمل میں یہ تحریک چلتے چلتے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی اور قادیانیت کے کفر کے فیصلے پراختتام پذیر ہوئی۔
ریلوے اسٹیشن چناب نگر پر ہونے والا نزاع
واقعہ یہ ہواکہ29مئی1974ء کو ملتان نشتر کالج کے طلباء کاایک گروپ ہفتہ بھر کے سیاحتی دورے پربذریعہ ٹرین پشاور کی طرف روانہ ہوا۔جب ٹرین چناب نگر سٹیشن پر آکررکی تو قادیانیوں نے اپنے روز مرہ کے معمول کے مطابق ان طلبہ اورمسافروں میں اپنا لٹریچر تقسیم کرناشروع کر دیا۔ان غیرت مند طلباء نے دینی حمیت کی بنا پر اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مزید لٹریچر تقسیم کرنے سے روک دیااورتقسیم شدہ لٹریچرمسافروں سے واپس لے لیا،ساتھ ہی ”ختم نبوت زندہ باد“ کے فلک شگاف نعروں سے مسافروں کے بھرے ہوئے ڈبے کوہلاکررکھ دیا۔ملحدانہ اورگم راہ کن عقائدپرمشتمل موادبانٹنے والے ان باغیان مصطفی صلی الله علیہ وسلم کوعشاقان مصطفی صلی الله علیہ وسلم کایہ جوابی رویہ ایک آنکھ نہ بھایا،چناں چہ جوش انتقام میں بھڑکتے ہوئے ان قادیانی اوباشوں نے لڑائی کے لیے قریبی گراوٴنڈ میں ہاکی کھیلتے قادیانی نوجوانوں کو بلایا،وہ اپنی ہاکیوں سمیت آدھمکے اورسب مل کرابھی مارپیٹ کرنے ہی والے تھے کہ مسافروں اور ٹرین کے عملے کی مداخلت سے معاملہ رفع دفع ہوگیااورتصادم ہوئے بغیر ٹرین روانہ ہو گئی۔یادرہے کہ اس واقعہ سے قبل نشترمیڈیکل کالج ملتان میں طلباء کا انتخاب ہوا تھا ،جس میں ایک امیدوار قادیانی بھی تھا۔مسلمان طلباء نے اس انتخابی مہم میں قادیانی امید وار کی مخالفت میں محض قادیانیت کی بناء پر بھرپورکردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسے ذلت آمیزشکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،اس واقعہ کی وجہ سے بھی قادیانیوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتاتھا،دوسری طرف یہ لٹریچر کی تقسیم کاواقعہ ہوگیا،جس نے قادیانیت کے تندور میں جلتی کا کام دیا اور معاملہ شدید نزاع کی صورت اختیار کر گیا۔ ربوہ(چناب نگر)کے تخت وتاج پرمحض اپنے راج کاجبری حق سمجھنے والی نسل مرزائیت کی نظر میں یہ واقعہ ان کی خودساختہ ریاست کے معاملات میں دخل اندازی اوران کی عوام کے مذہبی حقوق کو سلب کرنے کے مترادف تھا،اس لیے انہوں نے اس کا موٴثر جواب دینے کے لیے ایک خفیہ حکمت عملی اپنائی، جس کے نقظہ آغاز میں انہوں نے اپنی سی آئی ڈی کے ذریعے ان طلباء کی پشاور سے ملتان واپس روانگی کا معلوم کیا۔اس مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے چناب نگر کے قادیانی ریلوے اسٹیشن ماسٹرنے نشتر آباداورسرگودھا کے اسٹیشن ماسٹرز سے بذریعہ فون رابطے کر کے اس پلان کوحتمی ترتیب دی۔طے یہ ہوا کہ جیسے ہی ٹرین چناب نگر اسٹیشن پر پہنچے گی تو پہلے سے تیار مسلح جتھے ان پر حملہ کرکے اپنے انتقامی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
چناں چہ جب ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد یہ طلباء اسی ٹرین کے ذریعے ملتان واپس لوٹے اور چناب نگرریلوے سٹیشن پر رکے تو اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریل کے اس ڈبے میں پہلے سے موجود قادیانی اوباشوں نے جونشتر آباد،لالیاں وغیرہ سے خاص طور پر اس مقصد کے لیے سوار ہوئے تھے،ان نہتے طلبہ پرڈنڈوں،مکوں، لاتوں، گھونسوں اورآ ہنی ہتھیاروں سے حملہ کر دیااوراتنا تشدد کیا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیے،جسم لہولہان کر دیے اورستم بالائے ستم یہ کہ ان کے پاس موجود ضروری سفری سامان اورنقدی رقوم پر بھی ہاتھ صاف کر گئے۔ناموس رسالت صلی الله علیہ وسلمکے ان پہرے داروں پرجبرواستبداداورلوٹ مار کا یہ واقعہ ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیااوراس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر لی، جس نے ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس واقعہ کو ”سانحہ ربوہ“ کا نام دیا گیا،اس غنڈہ گردی کے واقعے پر شدید رد عمل دیتے ہوئے مولانا تاج محمود نے فیصل آباد میں قادیانیوں کے خلاف ایک زبردست جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا، جس کے بعدپورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے،اکثر شہروں میں ہڑتال ہوگئی،پولیس کی طرف سے مظاہرین پرآنسو گیس پھینکی گئی ،سخت لاٹھی چارج کیا گیا اور سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔سانحہ ربوہ پر ایکشن لینے کے لیے اسمبلی میں تحریک التوا پیش کی گئی، جسے 4جون1974ء کومسترد کر دیا گیا،ایوان اقتدار کی طرف سے اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے پرمحدث العصر مولانا یوسف بنوری نے 9 جون کو بیس جماعتوں کے عمائدین کا اجلاس رکھا، جس میں مفتی محمود،نوابزادہ نصراللہ خان،آغا شورش کاشمیری ،غلام شیخ جیلانی اورمتعددزعمائے ملت نے شرکت کی،اس اجلاس میں بہرصورت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا عزم مصمم کیا گیا اورمجلس عمل کی طرف سے14جون کوملک گیر ہڑتال کا فیصلہ کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کی کارروائی
ان شوریدہ حالات اور تشویش ناک صورت حال نے ارباب اقتدار کے لیے بہت بڑی مشکل کھڑی کر دی اورانہیں اس کے مضبوط،موٴثر اوردیرپاحل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے پر مجبور کردیا۔چناں چہ اس وقت کے منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے اپنی ذاتی دل چسپی کی بنا پراس مسئلے کوقومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پرپیش کرنے کا فارمولہ پیش کیا، تاکہ اراکین اسمبلی آزادانہ اور جمہوری طریقے سے اسے حل کرسکیں اور جو بھی فیصلہ ہو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔اس اعلان سے قادیانی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی،کیوں کہ اپنے کفریہ عقائد اورحالیہ واقعے میں جارحانہ پالیسی اپنانے اورملک میں پیداشدہ نئی صورت حال کے تناظر میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ فیصلہ بہرصورت ہمارے خلاف آئے گا،اس لیے انہوں نے وزیراعظم بھٹو اورقومی اسمبلی کے جنرل سیکٹری کو درخواست بھجوائی کہ پارلیمنٹ میں ہمارے عقائد پر بات ہونی ہے تو ہمیں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے منصب پرمفکراسلام حضرت مولانا مفتی محمودفائز تھے، جن سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم نے مرزائیوں کے دونوں گروپوں کے سربراہان کوقومی اسمبلی کے فلور پر اپنے عقائد پر بحث کرنے کی اجازت دے دی اوراس کے ساتھ ساتھ اس اہم ایشو پراس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحب زادہ فاروق علی خان کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی، جس کی زیر صدارت پورا مہینہ وقفے وقفے سے اجلاس ہوتے رہے۔
5اگست 1974ء بروز پیرصبح دس بجے پاکستان اسٹیٹ بینک اسلام آباد میں واقع قومی اسمبلی کے ہال میں ا س سلسلے کا پہلا اجلاس منعقد ہوا،جس میں قادیانی گروپ کے تیسرے سربراہ مرزاناصر احمد پرجرح ہوئی، تمام منبران اسمبلی کویہ مکمل اختیار دیا گیاکہ وہ اس مسئلہ سے متعلق جو سوال کرنا چاہیں وہ اس وقت پاکستان کے اٹارنی جنرل جناب یحیی بختیار کے ذریعے سے کر سکتے ہیں۔مفکراسلام مولانا مفتی محمود اورمجاہدملت مولاناغلام غوث ہزاروی مرزاناصرکی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل کا جواب دیتے۔یہ جرح 24 اگست کو مکمل ہوئی،5 اگست سے 24 اگست تک کل20 دن بنتے ہیں، جن میں 11 اگست سے 19 اگست تک یعنی نودن اسمبلی کی کاروائی معطل رہی،یوں یہ جرح گیارہ دن بنتی ہے۔اس کے تین دن بعد27اور28 اگست کولاہوری گروپ پرجرح ہوئی، جس میں اس گروپ کے تین بڑے گروصدرالدین لاہوری،مسعود بیگ لاہوری اورعبدالمنان لاہوری پیش ہوئے۔یہ جرح دودن جاری رہی،اس طرح کل تیرہ دن میں یہ جرح اپنے اختتام کو پہنچی۔قادیانیوں پرجرح کا عمل مکمل ہونے کے بعداب مسلمانوں کی باری تھی ،چناں چہ اگلے دوروزیعنی29 اور30اگست کو مفتی محمود نے قادیانیوں کے خلاف امت مسلمہ کا موقف جس کی سیاسی کارروائی شہیدناموس رسالت مولانا سمیع الحق اورمذہبی ابحاث شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے شیخ بنوریکے ایماء پر قلم بندفرمائی تھی،قومی اسمبلی میں پیش فرمایا۔31 اگست کورکن اسمبلی مولانا عبدالحکیم نے مسئلہ ختم نبوت پرمولانا غلام غوث ہزاروی کا تیارکردہ محضرنامہ پڑھا۔2 اور3ستمبرکودیگرمختلف ارکان اسمبلی کے بیانات ہوئے۔4ستمبرکو سری لنکا کے وزیر اعظم کی آمد پر ان کے اعزاز میں اجلاس ہوا، اس لیے اس دن یہ مسئلہ زیربحث نہ لایا گیا۔ 5ستمبرکومزید کچھ ارکان اسمبلی نے اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایااور اٹارنی جنرل نے مکمل جرح کا خلاصہ پیش کیا،جو6ستمبر کویراپنے اختتام کو پہنچا۔
سات ستمبرکا تاریخی دن
بالآخر7ستمبر کا دن آن پہنچا،21دن کی بحث وتمحیص کے بعدآج اس قضیے کا فیصلہ سنایا جانا تھا،قوم کی نگاہیں آج کے خصوصی اجلاس کی طرف لگی ہوئی تھیں،مساجد ،مدارس اورخانقاہوں میں اورادووظائف اور دعاوٴں کا سلسلہ جاری تھا،نظام زندگی اور کاروباری سرگرمیاں تقریبا معطل ہو چکی تھیں،کچھ ٹی وی کی سکرین پر نظریں جمائے تو کچھ ریڈیو کی آواز پر کان لگائے بیٹھے اس تاریخی فیصلے کے شدت سے منتظرتھے۔دل دہل رہے تھے، عجیب سا سماں تھا، اڑھائی بجے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغازہوا، وزیربرائے قانون وپارلیمانی امورجناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے مختصر ابتدائی کلمات کے بعداپنے سمیت مولانا مفتی محمود،مولانا شاہ احمدنورانی ، پروفیسرغفوراحمد،جناب غلام فاروق ،چوہدری ظہورالہی اورسردارمولابخش سومرو (سات افراد)کی طرف سے قادیانیوں کو کافر قراردینے کی قرارداد پیش کرتے ہوئے تین بج کر چالیس منٹ پرختم نبوت کے آئین کوتحفظ دینے والے اورغیرت مند مسلم قوم کی اُمنگوں کی ترجمانی کرنے والے یہ الفاظ ادا کیے”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہواور محمدصلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی معنی، مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعوی کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہووہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں“۔یہ قرارداداسپیکر کی جانب سے منظور کرلی گئی ۔
اس تاریخی اور ایمان افروز لمحے میں فرط جذبات میں آنکھوں سے آنسو رواں تھے ،”الحمد للہ“”مبارک مبارک“”اللہ اکبر“ اور تہنیتی الفاظ سے مبارک بادی کا سلسلہ جاری تھا،اظہارمسرت کے لیے مٹھائیاں اورشیرینیاں بانٹی جا رہی تھیں اور تمام عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں ایک جشن کا سماں تھا۔
فللہ الحمد وبنعمتہ تتم الصالحات