زندگی کی قدر و قیمت اور وقت کی تنظیم

idara letterhead universal2c

زندگی کی قدر و قیمت اور وقت کی تنظیم
اہمیت،ضرورت اور طریقہ کار

مولانا عبد المتین

زندگی کا مقصد

الله رب العزت نے ہمیں جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زندگی ایک مقصد حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ زندگی کو الله رب العزت نے بہت ہی مختصر رکھا ہے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ مختصر سی زندگی تم اپنی جنت اور آخرت بنانے میں گزارو۔

اس مقصد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس مختصر زندگی میں جتنا زیادہ وقت کی قدر کی جائے گی اتنا ہی زیادہ زندگی کا مقصد حاصل کرنا آسان ہوگا اور جتنا وقت کی نا قدری کی جائے گی ، مثلا فضول اور بے مقصد کاموں میں وقت لگایا جائے گا تو ہم زندگی کے مقصد سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔ لغویات، لایعنی اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں گے تو اس مقصد سے ہم دور ہوتے جائیں گے۔ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی چیز اگر اپنے مقصد سے ہٹ کر استعمال کی جاتی ہے اس میں خرابیاں بڑھتی جاتی ہیں، مثلا جوتوں کا مقصد ان کو پہننا ہے، تاکہ پیر محفوظ رہیں، اب اگر کوئی جوتوں کو جیب میں رکھے یا شاپر میں ڈال کر پیادہ گھومے پھرے تو اس کے پیر زخمی ہوجائیں اور کچھ وقت کے بعد وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوجائے گا، کیوں کہ اس نے جوتوں کے استعمال کو نہیں سمجھا، ٹھیک اسی طرح زندگی کا واحد مقصد اللہ کی مرضی اور جنت کا حصول ہے، اس مقصد سے زندگی گزاری جائے گی تو زندگی آسان ہوگی، پھر ایسے شخص کے لیے عبادت کرنا، نیکی کرنا، صبر کرنا، لوگوں کی خدمت کرنا، حلال کا اہتمام کرنا وغیرہ سب آسان ہوجائے گا اور اگر کوئی زندگی کے مقصد کو بھول کر اللے تللے کرنے میں لگ جائے، پیسہ بنانا، کمانا، اڑانا، گھومنا پھرنا، عالی شان گھر، منصب، شہرت، دولت وغیرہ کو ہی اپنا مقصد بنالے تو وہ جلد پریشان ہوجائے گا، جوانی میں مزے کرے گا، شادی کے بعد گھریلو مسائل کا سامنا نہیں کرسکے گا، کچھ وقت کے بعد دولت کی کمی سے گلے شکوے کرے گا اور کچھ وقت کے بعد بیماریوں میں گزار کر اس کا کھیل ختم ہوجائے گا ۔

اگر یہ دنیا انہی کاموں کے لیے ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس دنیا کو اس قدر مسائل کے ساتھ نہ بناتے اور اتنی ہی اچھی ہوتی تو زندگی اتنی مختصر نہ بناتے ۔ دنیا اور انسان دونوں کی زندگی ختم ہونے والی ہے، تبھی اللہ پاک نے آخرت کا نظام پیدا کیا، تاکہ تم یہاں اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر تھوڑی سی اچھی زندگی گزارو اور بعد میں جنت جاکر ہمیشہ کے لیے مزے کرو۔

زندگی کیا ہے ؟

زندگی کسے کہتے ہیں؟ یہ جو ہماری زندگی کے مختلف دور ہیں، مثلا بچپن،لڑکپن،جوانی،ادھیڑ عمر،ضعیفی اور بڑھاپا وغیرہ یہ سب زندگی کہلاتے ہیں اور یہ مختلف دور وقت کی ہی پیداوار ہیں اور وقت جسے ہم گھڑی اورکیلنڈر وغیرہ میں دیکھتے ہیں جس میں سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ،دن، رات، ہفتہ، مہینہ، سال ہمیں نظر آتے ہیں، یہ وقت ہی کی پیداوار ہے اور یہی وقت ہی زندگی ہے۔ زندگی کا ایک سیکنڈ بھی زندگی ہی کہلاتا ہے، کیوں کہ یہی سیکنڈ آگے جاکر منٹ گھنٹے کا سفر طے کرکے، کچھ سالوں بعد ہمارا لڑکپن ختم کرتا ہے اور کچھ زیادہ وقت کے بعد بڑھاپا اور پھر موت تک بھی یہی سیکنڈ لے جاتا ہے اور زندگی کا عارضی چراغ بجھ جاتا ہے۔
          ہورہی ہے عمر مثل برف کم
          چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم

زندگی اور وقت

عربی مقولہ ہے کہ الوقت ھو الحیاة وقت ہی زندگی ہے، زندگی وقت سے ہے اور وقت زندگی سے ہے۔ لہٰذا جو اچھی اور بامقصد زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ زندگی کی قدر کرے اور زندگی کی قدر کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وقت کی قدر کی جائے اور وقت کی قدر کرنے مطلب اپنے ایک ایک سیکنڈ کی قدر کی جائے، جو سیکنڈ کی قدر کرے گا وہ منٹ اور گھنٹوں کی قدر کرے گا اور پھر اسی طرح دن رات، ہفتہ، مہینہ، سال بھر کی قدر کرنا آسان ہوجائے گا۔ معلوم ہوا کہ جو اپنا سیکنڈ ضائع کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنی زندگی ضائع کررہے ہوتے ہیں۔

حکماء فرماتے ہیں کہ گھڑی کا سیکنڈ کانٹا ٹک ٹک کرکے ہمیں خبردار کررہا ہوتا ہے کہ میں بظاہر آگے جارہا ہوں، لیکن تمہاری زندگی کم کرتا جارہا ہوں، وقت آگے جاکر ہمیں موت کی طرف دھکیلتا جارہا ہے، عربی محاورہ ہے کہ ”الوقت کالسیف، فان لم تقطعہ لقطعک“وقت تلوار کی طرح ہے اگر تم نے اسے اچھا استعمال کرکے نہیں کاٹا تو یہ تمہیں کاٹ لے گا اور وقت کی کاٹ ایسی ہے جس سے کوئی نہیں بچ سکتا ،بچہ جوان، بوڑھا، بادشاہ امیر، غریب، سب اس کی زد میں آجاتے ہیں اور یہ بڑی بے رحمی سے اپنا کام تمام کرلیتا ہے۔

سیٹ ہونے کا انتظارایک فضول خواہش

          سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
          گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
شاعر کا مقصد یہ ہے کہ وقت ایک مرتبہ ہاتھ سے نکل جائے تو دوبارہ ہاتھ نہیں آتا ، آج کا وقت نکل گیا تو دوبارہ موت تک نہیں آئے گا، اس لیے وقت کی قدر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے وقت کی قدر آج اور ابھی سے کی جائے، کل پرسوں یا کسی معاملے کے سیٹ ہونے کا انتظار نہ کیا جائے، زندگی میں سیٹ ہونا ممکن نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سیٹ ہونے کے لیے جنت بنائی ہے دنیا نہیں، یہ تو آزمائش کا گھڑ ہے یہاں سیٹ ہونے کا انتظار کرنا فضول ہے، سمجھ دار انسان اپنے وقت کو سیٹ کرکے اچھی طرح گزارتے ہیں اور مسائل کے ساتھ جینا سیکھتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب شیطانی بہانے ہیں کہ پڑھائی سیٹ ہوجائے، نوکری سیٹ ہوجائے ، گھربار سیٹ ہوجائے، کاروبار سیٹ ہوجائے، صحت سیٹ ہوجائے اور پھر آخر میں یوں ہوتا ہے کہ مردے کو قبلہ رخ رکھ کر آواز لگائی جاتی ہے کہ ”اب سیٹ ہے“۔

ماضی، حال اور استقبال

جو اپنے آج کی فکر کرے گا اور اپنے عمل کو سدھارے گا اس کا حال خود بخود درست ہوجائے گا اور جس کا حال درست ڈگر پر ہے تو کچھ وقت کے بعد یہی حال ماضی بن چکا ہوگا اور اس طرح ماضی بھی ٹھیک ہوجائے گا اور اسی طرح استقامت کے ساتھ چلتا رہے تو یہی حال مستقبل میں بدل جائے گا اور اس طرح ”اب“، ”آج“ اور”حال“کی فکر کرنے والے شخص کا ماضی، حال اور مستقبل تینوں سنور جائیں گے اور اسے ماضی کا غم، پچھتاوا، مستقبل کا خوف اور اندیشہ نہیں رہے گا اور ان سب کا دارومدار آج اور ابھی کے عمل پر ہے ۔

موبائل اور فضولیات

موجودہ دور میں ہمارے وقت کو ضائع کرنے والی سب سے بڑی چیز کوئی دور موجود شے نہیں، بلکہ ہم سب کی جیبوں میں موجود ”موبائل“ کی صورت میں چھوٹا سا آلہ ہے، جو ہمیں وقت بے وقت اپنے ساتھ مصروف کرلیتا ہے اور ہم لاشعوری طور پر اس موبائل کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ موبائل کے بغیر ہمیں زندگی ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ موبائل کے فوائد اپنی جگہ، لیکن ان دو چار فوائد کے چکر میں ہمارے عقائد و نظریات، عبادات وریاضت، اخلاق و اقدار،معاشرتی تعلقات اور سب سے بڑی چیز ہماری زندگی اور ہمارا وقت اس بلا جیسی ایجاد نے تہس نہس کردیا ہے اور پوری انسانیت کو سوشل میڈیائی مصنوعی انسان میں بدل دیا ہے، جو کہ ریلز اور ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے اپنے ناقابل واپسی وقت کو بدترین درجے میں ضائع کرتا جارہا ہے۔

قرآن کریم میں وقت کی قدر و قیمت اور ایمان والوں کی خوبیاں

الله رب العزت نے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر لایعنی،لغویات اور وقت ضائع کرنے کی بہت ہی شدت کے ساتھ مذمت بیان فرمائی ہے۔ سورہ مومنون میں الله رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ۔

﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾․

وہ ایمان والے کامیاب ہوچکے جو اپنی نماز میں خشوع کا اہتمام کرتے ہیں اور بے مقصد فضول کاموں کو نظر انداز کرنے والے ہوتے ہیں۔

الله رب العزت نے ایمان والوں کی ایک اہم خوبی یہ بتلائی کہ وہ ایسے کاموں سے خود کو بچاتے ہیں جن میں نہ دین کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دنیا کا، ایسے کام جن میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور زندگی بھی ضائع ہوتی ہے۔

سورہ فرقان میں الله رب العزت نے ”عبادالرحمن“کے عنوان سے اپنے خاص بندوں کی کچھ خوبیاں بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک خوبی یہ بیان فرمائی کہ:﴿وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا﴾․ (الفرقان)

اور جب کسی فضول معاملے کے پاس سے گذرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گذر جاتے ہیں۔

الله رب العزت ایمان والوں کی یہ خوبی بیان فرما رہے ہیں کہ جب ایمان والوں کا گذر کسی ایسی جگہ سے ہوتا ہے جہاں فضول کام ہورہے ہوں اور وقت ضائع کیا جارہا ہو تو ایسی جگہ سے جب”عبادالرحمن“ گذرتے ہیں تو وقار کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں،وہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے۔

الله رب العزت سورہ قصص میں فرماتے ہیں کہ:

﴿وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ﴾․(سورة القصص)

اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے ٹال دیتے ہیں۔

ان کے کانوں میں جیسے ہی کوئی فضول بات پڑتی ہے، جیسے غیبت،حسد،گالیاں،بے حیائی کا تذکرہ،گانے بجانے،میوزک وغیرہ تو وہ ایمان والے وہاں توجہ نہیں لگاتے اور ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ:

﴿وَ قَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ﴾․(سورة القصص)

اور کہتے ہیں کہ:”ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال“۔

حساب دینے کی فکر انہیں مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو غلط جگہ استعمال ہونے سے بچائیں اور پھر کہتے ہیں کہ:

﴿سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ﴾․(سورة القصص)

”تم پر سلام ہے، ہم نادان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے“۔

یہ کہتے ہوئے سلامتی کی راہ لے لیتے ہیں کہ ہم جاہلوں سے نہیں اُلجھتے، کیوں کہ جاہل سے سرکھپانا دیوار پر سر مارنے جیسا ہے، جس سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔

وقت کی قدر کا آخری احساس

سورہ حم سجدہ میں الله رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ:

﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُء ُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴾․(حم السجدة)

اور کاش تم وہ منظر دیکھو جب یہ مجرم لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے (کھڑے )ہوں گے ، (کہہ رہے ہوں گے کہ) ہمارے پروردگار!ہماری آنکھیں اور کان کھل گئے ، اس لیے ہمیں (دنیا میں)دوبارہ بھیج دیجیے ، تاکہ ہم نیک عمل کریں ۔ ہمیں اب اچھی طرح یقین آچکا ہے۔

جب انسان اپنی موت دیکھتا ہے تو پھر اس کی زبان پر بڑے ہی عجیب کلمات جاری ہوتے ہیں، کہتا ہے کہ اے رب العالمین!اب تو حقیقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی اور کانوں سے سن لی، لہٰذا آپ ہمیں ایک موقع دے کر دوبارہ دنیا میں بھیج دیں ہم اس دفعہ بھر پور عمل کریں گے۔

فضولیات سے پاک جگہ ”جنت“

الله رب العزت جنت کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

﴿لَّا تَسْمَعُ فِیْہَا لَاغِیَةً ﴾․(سورة الغاشیہ)

”جنتی جنت میں کوئی فضول بات نہیں سنے گا۔“

﴿لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّ لَا کِذّٰبًا﴾․(سورة النبا)

”جنتی جنت میں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے نہ ہی کوئی جھوٹ“۔

وقت کی قدر و قیمت حدیثِ نبوی کی روشنی میں

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیثِ مبارکہ میں اسلام کی خوبی یوں بیان فرماتے ہیں کہ:”مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء ِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ“․(جامع ترمذی)

”کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے“۔

مسلمان جب اسلام کا نام لیوا ہے تو اس کے مسلمان ہونے کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی بدولت فضولیات سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

دو بڑی نعمتیں اور انسانی نفسیات

”نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ“․ (صحیح بخاری)

دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان نعمتوں کے حوالے سے دھوکے کا شکار ہیں:صحت اور فرصت۔

صحت اور فرصت دو عظیم نعمتیں ہیں ان کی عظمت وہ لوگ اچھی جانتے ہیں جو برسوں سے بیماری میں مبتلا ہیں اور وہ جو بے جا مصروفیت کی وجہ سے اپنیخاندان تک کو وقت نہیں دے پاتے۔

نبی علیہ السلام کا یہ عظیم فرمان ہے کہ یہ دو نعمتیں ہیں تو بہت بڑی، لیکن ان سے متعلق دھوکہ بھی ایسا لگتا ہے کہ انسان بس یہ سمجھنے میں اپنے روز و شب گزارتا ہے کہ یہ نعمتیں ہمیشہ میرا ساتھ دیں گی اور میں صدا یوں ہی صحت مند رہوں گا، حالاں کہ انسان کی صحت دن بہ دن ڈھلتی جاتی ہے، ایک اٹھارہ سالہ لڑکے کے بدن میں جو چستی ہوتی ہے وہ چالیس سالہ مرد میں نہیں رہتی۔

اسی طرح فرصت کے جو لمحات آج میسر ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ہماری مصروفیت بڑھتی جاتی ہے اور زندگی کے ان لمحات کو یاد کرکے خود کو کوستے ہیں کہ کاش! میں فرصت کے لمحات کی کچھ قدر کرتا اور اپنے وقت کو کسی بہتر مشغلے میں لگاتا، کیوں کہ آج جب کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں اور کربھی سکتا ہوں، لیکن زندگی کے جھمیلے مجھے کچھ اور کرنے ہی نہیں دیتے۔

آپ علیہ السلام کا اشارہ اس جانب ہے کہ اپنی صحت کی قدر کرو اور اپنے بدن کی قوت کو آج ہی سے دین دنیا آخرت کی بھلائی کے کاموں میں لگادو، نہ جانے کل پرسوں تمہاری صحت کیسی رہے اور اس مغالطے سے نکلو کہ تمارے اندر جو قوت طاقت آج موجود ہے وہ ہمیشہ رہے گی، عنقریب تمہاری نظر کمزور،دماغ شل،یاد داشت غائب،نقل و حرکت محدود،چلنے پھرنے سے معذوری ہوجائے گی اور تمہیں بلڈ پریشر،شوگر،دل،جگر اور معدہ وغیرہ امراض کی فہرست ہے جو تمہیں گھیر لے گی اور تم اپنے علاج معالجے میں اس قدر مصروف ہوجاؤگے کہ تمہیں کسی اور کام کے کرنے کا خیال بھی مشکل سے آئے گا ۔

اسی طرح فرصت کے جو لمحات تمہیں میسر ہیں ان کی قدر کرو اور فرصت کو زیادہ کمانے،زیادہ عیش و آرام کے چکر میں گنواؤ مت، بلکہ ان لمحات کو زیادہ سے زیادہ اپنی آخرت بنانے میں لگادو، ورنہ ایک وقت آئے گا کہ تمہارے پاس اسباب کی بھرمار ہوگی، لیکن ان سے لطف اندوز ہونے کا وقت نہیں ہوگا۔

نام نہاد ترقی یافتہ لوگ

موجودہ دور میں جن لوگوں کو زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے ان کے گھریلو حالات معلوم کرکے انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ کسی نے سالوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا، کوئی اپنی ازدواجی زندگی سے محروم ہوچکا اور کوئی اپنے والدین کی خدمت کے لیے وقت نکالتے نکالتے ان کے جنازے تک نہیں پہنچ سکا۔ وہ مصروفیت کس کام کی جو ہمیں کسی کی خوشی میں شریک نہ کرسکے، وہ عیش و آرام کس کام کا جس کے حاصل کرتے کرتے انسان اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ آرام دہ کمرہ کس کام کا جو ہمیں سکون کی نیند نہ دلاسکے۔

لہٰذا صحت اور فرصت کے لمحات کی بھرپور قدر کی جائے اور ان تمام کاموں کو آج ہی سے کیا جائے جن کے نہ کرنے پر کل پرسوں ہم حیران پریشان اور پچھتاوے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی کا بہترین نقشہ کھینچتے ہوئے ہدایات جاری فرماتے ہیں کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:

جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ صحت کو بیماری سے پہلے۔ مال داری کو تنگ دستی سے پہلے۔ فرصت کو مصروفیت سے پہلے۔ زندگی کو موت سے پہلے

الله رب العزت نے تمہیں جوانی کی نعمت سے نوازا ہے تو اس جوانی کی توانائی کو ضائع کرنے کی بجائے اسے اللہ کی رضا میں لگادو، اس سے پہلے کہ وقت کی تیزی تمہاری جوانی کو کھا جائے۔ الله نے تمہیں صحت دی ہے، اس صحت کی نعمت کو اللہ کی عبادت اور الله کے بندوں کی خدمت میں لگادو، گناہوں کے دلدل میں گرکر اپنی صحت کو کوڑی مت بناؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ صحت کے لمحات بیماری میں بدل جائیں اور تم بستر سے لگ جاؤ۔الله رب العزت نے تمہیں مال دیا ہے، اس مال کو زکوة، صدقات، خیرات، صلہ رحمی اور یتیم، مسکین، محتاج، مصیبت زدہ اور مستحق لوگوں پر لگاؤ، اس مال کو اپنی عیاشی یا غرور پر مت اڑاؤ ،کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کا قانون حرکت میں آجائے اور تم راتوں رات غربت کا شکار ہوجاؤ۔

رب تعالیٰ نے تمہیں فرصت کے لمحات دیے ہیں ان کی قدر کرو، اس سے پہلے کہ مصروفیت بہت بڑھ جائے اور بہت تیزی کے ساتھ تم ایسے مصروف ہوجاؤ کہ کچھ کرنا چاہو بھی تو نہ کرسکو اور پھر سب سے بڑی بات اللہ نے تمہیں زندگی دی ہے اس زندگی کو موت کے جھٹکے سے پہلے پہلے تول تول کر خرچ کرو۔

نیکی کا خیال آنا اور اسے ٹالنا

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے عمل کو آج اور ابھی سے بدلنے کی جستجو کی جائے، اسے کل پرسوں پر ٹالا نہ جائے۔ اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ ہمارے دل میں جب کسی نیک کام کے کرنے کا خیال آتا ہے تو یہ خیال درحقیقت اللہ کی طرف سے مہمان ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مہمان جب میزبان کے پاس جاتا ہے اور وہ میزبان اچھے سے مہمان نوازی کرتا ہے تو مہمان کا دل کرتا ہے کہ میں دوبارہ جاؤں اور اگر میزبان اپنے مہمان کو نظر انداز کرے تو مہمان بدظن ہوکر دوبارہ اس میزبان کے پاس جانا پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح جب دل میں نیکی کا خیال آتا ہے تو یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک مہمان ہوتا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو یہ خیال بار بار آتا ہے اور اگر اس خیال کو جھٹک دیا جائے اور یہ کہہ کر ٹال دیا جائے کہ کل یا پرسوں کروں گا، ذرا میرا فلاں کام ہو جائے، ذرا یہ مصروفیت نمٹ جائے لہذا جب اتنے بہانے کیے جاتے ہیں تو وہ خیال مایوس ہو کر چلا جاتا ہے اور پھر اتنے اچھے خیالات بار بار نہیں آتے۔

ناکام ارادے

ایک مختصر سا قصہ کہیں پڑھنے کو ملا کہ ایک شخص نے سونے سے پہلے ارادہ کیا کہ کل صبح اٹھ کر توبہ کروں گا اور اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کروں گا ،یہ ارادہ کر کے وہ سو جاتا ہے، لیکن زندگی وفا نہیں کرتی اور وہ صبح اٹھ نہیں پاتا، اس کا کل کا ارادہ ایک ناکام ارادے میں بدل جاتا ہے ۔ لہذا عمل کی اصل قوت یہی ہے کہ جب اس کا ارادہ کیا جائے تو اسی وقت اس کو کیا جائے۔

شیطان کا طریقہ واردات

شیطان جب کسی مسلمان کو وسوسہ دیتا ہے تو اسے کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ تم نماز نہ پڑھو، بلکہ وہ یوں کہتا ہے کہ نماز پڑھنا بہت اچھی بات ہے، ضرور پڑھنی چاہیے، لیکن تم کل سے پڑھ لینا،جمعے کے مبارک دن سے نہا دھوکرشروع کر دینا یا رمضان المبارک کے مہینے میں شروع کر دینا اور وہ”کل“موت تک دوبارہ نہیں آتا۔

معمولات کو منظم کرنا

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے اوقات کو تقسیم کریں کہ ہم نے آج کے دن چوبیس گھنٹوں کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔

چوبیس گھنٹے کوئی کم وقت نہیں ہے، وقت میں بے برکتی کی سب سے بڑی وجہ وقت کو منظم نہ کرنا ہے، کس وقت کیا کرنا ہے یہ طے ہونا بہت ضروری ہے، اگر ہم اپنے موڈ کے مطابق کاموں کو کرتے رہیں گے تو وہ کام کبھی ٹھیک سے نہیں ہوسکے گا اور پھر اس ایک کام کی وجہ سے دوسرے بہت سے کام متاثر ہوجائیں گے۔

کام یاب زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے کہ اپنے وقت کو اس انداز سے تقسیم کیا جائے کہ اس میں کوئی بھی ضروری مصروفیت رہ نہ جائے، بلکہ سب معاملات کو ضرورت کے مطابق وقت دیا جاسکے، کسی ایک کام کو زیادہ وقت دینا اور دوسرے کام کو معمولات سے خارج کرنا، ناکام طرز زندگی کی علامت ہے۔

سب سے پہلے وقت کی قدر کا احساس اپنے اندر بیدار کیا جائے۔اپنی زندگی کا مقصد سمجھا جائے۔ مجھ میں کس کام کے کرنی کی صلاحیت زیادہ ہے اسی کو اپنا نصب العین بنایا جائے۔ دن بھر میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالا جائے، چاہے وہ کورس،مطالعہ،صحبت کی صورت میں ہو یا کسی اور مناسب شکل میں۔

وقت کی تنظیم کا آسان طریقہ کار

اپنے دن بھر کے اوقات کو چار کاموں میں تقسیم کیا جائے:
1.. عبادت۔ 2.. معاش ۔ 3.. آرام۔ 4.. خدمت

عبادت میں نماز روزہ، ذکر مناجات کا اہتمام ہو۔

معاش میں ہر وہ حلال مصروفیت جائز ہے جس سے ہمارا گذر بسر ہوجائے، لیکن اس کے لیے آٹھ گھنٹوں سے زیادہ کا وقت نہ لگے تو بہت بہتر ہے مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔

آرام میں روزانہ سات گھنٹے کی نیند رات کو سویرے سوکر پوری کی جائے اور ایک گھنٹہ قیلولہ کی سنت کی شکل میں ضرور آرام کیا جائے۔ آرام عشاء کے فوری بعد ہو تو نیند جلدی پوری ہوتی ہے اور رات کے آخری پہر اٹھ کر عبادت کا موقع بھی مل جاتا ہے اور بعض اوقات بہت سے ضروری کام بھی فجر سے پہلے بآسانی ہوجاتے ہیں، جیسے تلاوت،مطالعہ وغیرہ۔

خدمت میں لوگوں کی عیادت،تعزیت،والدین کی زیارت، علاج معالجہ، اہل خانہ کو وقت دینا، ان کے ضروری کاموں میں ہاتھ بٹانا،بچوں کی تربیت،رشتہ دار، پڑوسی دوست، احباب، متعلقین کے کام آنا، ان کے غم وخوشی میں شریک ہونا، بیوہ، مسکین ،یتیم، محتاج اور ضرورت مندوں کی مشکلات حل کرنا یا کم از کم ان سے تسلی کے دو کلمات کہنا۔
اس کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ، تعلیم و تربیت،تصنیف و تالیف، تحقیق و تدریس، سیاست و جہاد، رفاہی اور فلاح و بہبود کے مختلف سلسلے، جن سے مخلوق خدا اور ملت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔

ہر شخص ان میں سے کسی ایک سلسلے سے اچھی طرح جڑ جائے تو خدمت کا ایک وسیع کام سرانجام دے سکتا ہے۔

خواتین کے لیے خدمت کے ان تمام امور سے ہٹ کر ایک بہت بڑا باب یہ ہے کہ وہ اپنے گھر،شوہر اور بچوں کی خدمت میں خود کو لگائیں، جو کہ حدیث مبارکہ کے مطابق ان کے لیے بہت بڑی بشارت کا ذریعہ ہے اور ساتھ ساتھ مرد حضرات اپنے گھریلو امور سے بے فکر ہوکر مخلوق اور امت کی جو جو خدمت کرتے ہیں اس کا اجر خواتین کو برابر ملتا رہتا ہے، کیوں کہ خواتین کی گھریلو خدمات کی وجہ ہی سے وہ اتنے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لائق بنتے ہیں۔

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ جو اپنے وقت کی قدر کرے گا وہ اپنی زندگی کی قدر کرے گا اور جو اپنی زندگی کی قدر کرے گا وہ اس زندگی کو منظم طریقے سے گزار سکے گا اور جو منظم طریقے سے زندگی گزارے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کام یاب رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ 

تعمیر حیات سے متعلق