حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینِ﴾․ (سورة التوبہ، آیت:119)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
․
میرے محترم دوستو، بزرگو او ربھائیو!
جو آیت میں نے آپ حضرات کے سامنے پڑھی ہے، اس میں الله تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں:” اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور سچائی اختیار کرنے والوں کے ساتھ رہو، ان کی معیت اختیار کرو“۔
آج دین کی باتیں او رخاص طور الله کی الوہیت ، الله تعالیٰ کی وحدانیت ،الله تعالیٰ کی ربوبیت، جتنی بھی الله تعالیٰ کی صفات ہیں، ان کے تذکرے، ان کی حقیقت ،وہ بہت کم زور سے کم زور تر ہوتی جارہی ہے۔
آپ کو یہ تو کہا جائے گا کہ آپ فلاں بادشاہ کے مصاحب بن جائیں، آپ فلاں وزیر کے مصاحب بن جائیں، آپ فلاں دنیاوی اعتبار سے بڑے آدمی کے ساتھ ہو جائیں تو آپ بھی بڑے ہو جائیں گے۔
لیکن الله تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ الله سے ڈرو اور جو سچائی اختیار کرنے والے ہیں ان کے ساتھ ہو جاؤ اور آپ جانتے ہیں کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ اچھائی اختیار کرنے والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں اور ان کے مقابلے میں جو لوگ تھے نمرود بھی تھا، فرعون بھی تھا، ہامان بھی تھا ،شداد بھی تھا اور اس امت کے اندر ابوجہل بھی تھا، ابولہب بھی تھا، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ نبی ہیں، بلکہ سیدالانبیاء ہیں، تمام نبیوں کے سردار ہیں، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ رسول ہیں، بلکہ سید المرسلین ہیں، تمام رسولوں کے سردار ہیں، چناں چہ جو سمجھ داری کا تقاضا ہے وہ یہ کہ انسان الله سے ڈرے، الله کا خوف، الله کی خشیت آدمی کے اندرہو اورالله کتنے بڑے ہیں؟ اتنے بڑے ہیں کہ سار ی بڑائیاں اورعظمتیں ختم ہوجائیں گی ،لیکن الله کی بڑائی اور عظمت ختم نہیں ہوگی۔
میرے دوستو! الله تعالیٰ کی عظمت اوربڑائی ہمارے اندر آجائے اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش کرنی پڑتی ہے۔ جب کسی چیز کو انسان دیکھتا ہے تواس کا یقین ہو جاتا ہے، کسی چیز کے بارے میں سنتا ہے تواس کا یقین پیدا ہو جاتا ہے، کسی چیز کو بولتا ہے تو اس کا یقین پیدا ہو جاتا ہے، انسان کسی چیز کو سوچنا ہے تو اس کا یقین پیدا ہو جاتا ہے، یہ جو بہت بڑی تعداد میں آپ حضرات بیٹھے ہیں، انمیں شاید غالب اکثریت نے امریکا نہیں دیکھا ہوگا، اگر میں کہوں کہ امریکا نہیں ہے تو آپ سب کیا کہیں گے کہ مولانا صاحب کا دماغ چل گیا ہے، حالاں کہ دیکھا نہیں ہے، لیکن امریکا کا یقین ہے، امریکا کی قوت کا یقین ہے، امریکا کی طاقت کا یقین، امریکا کی ٹیکنالوجی کا یقین، کیوں ؟ اس لیے کہ جب سے ہوش سنبھالا امریکا امریکا سن رہے ہیں، زبان سے امریکا امریکا بول رہے ہیں، یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے، کتنی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو ہم نے دیکھا نہیں، لیکن چوں کہ ہم اس کو بولتے بہت ہیں، اس کو ہم سنتے بہت ہیں، چوں کہ اس سے متعلق ہم سوچتے بہت ہیں تو اس کا یقین ہمارے دلوں میں آجاتا ہے۔
میرے دوستو! الله تعالیٰ کوبھی بولنا پڑے گا، الله تعالیٰ کو بھی سننا پڑے گا، الله تعالیٰ کو بھی سوچنا پڑے گا اور کثرت کے ساتھ ، تو الله کا یقین بھی ہمارے دلوں میں پیدا ہو جائے گا کہ سب کچھ کرنے والے الله ہیں، تمام نفع اور نقصان کے مالک الله ہیں، عزت اور ذلت کے مالک الله ہیں، اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ الله کر رہے ہیں اور الله ہی سب کچھ کرنے پر قادر ہیں، یہ جب ہم زیادہ سے زیادہ بولیں گے اور الله الله کریں گے۔ تو الله تعالیٰ ہمارے دل میں آجائیں گے۔
الله تعالیٰ کی عظمت ہمارے دل میں آئے گی، الله تعالیٰ کی قوت ہمارے د ل میں آئے گی اور یہ یاد رکھیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام اپنے زمانے کے لوگوں کو اسی کی دعوت دیتے تھے ایھا الناس قولوا: لا الہ الا الله ،اے لوگو! الله کی وحدانیت کا اقرار کر لو، الله تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کر لو، الله تعالیٰ تمہارے اندر آجائیں گے او رجب الله تعالیٰ تمہارے اندر آجائیں گے تو ساری کائنات ہیچ ہو جائے گی اور یہ ساری چیزیں چھوٹی ہو جائیں گی۔
انبیائے کرام علیہم السلام کی اگر آپ سیرت کا مطالعہ کریں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، حضرت موسی علیہ السلام ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، انبیائے کرام کی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے تذکرے قرآن مجیدمیں موجود ہیں، ان کے سامنے جوقوتیں تھیں ان کے سامنے جو حکومتیں تھیں، ان کے سامنے جو دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے اسباب تھے، ان کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، الله کی عظمت، الله کی بڑائی تھی، الله کی قدرت تھی، آپ سب جانتے ہیں کہ نمرود اپنی بہت بڑی بادشاہت کے باوجود ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ناکام ہو گیا، فرعون اپنی بہت بڑی بادشاہت کے باوجود، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے ناکام ہوگیا، ابوجہل اپنے بہت بڑے کبر اور غرور کے باوجود ناکام ہو گیا اور یہی قیامت تک کے لیے دستور اور طریقہ ہے، لیکن بات وہی اند رکی ہے، اصل مسئلہ اندر کا ہے، یہ آدمی ایک نہیں ہے، بلکہ دو ہیں، ایک وہ آدمی ہے، جسے آپ دیکھ رہے ہیں اورایک وہ آدمی ہے جسے آپ نہیں دیکھ رہے، لیکن وہ ہے، ایسا ہے یا نہیں؟
ہمارے اندر بہت خوف ناک قسم کے امراض، بہت خوف ناک قسم کی بیماریاں ہیں، خوف ناک قسم کے مسائل ہمارے اندر ہی اندر چل رہے ہوتے ہیں، لیکن اسے ہم تو جانتے ہیں، لیکن ہمارے ارد گرد لوگ اسے نہیں جانتے۔
چناں چہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آدمی اپنے اندر کی جو گندگیاں ہیں، اپنے اندر کی جو خرابیاں ہیں ان کی اصلاح کرے۔
جیسے جسم کے امراض ہوتے ہیں، ایسے ہی روح کے امراض ہوتے ہیں، ہم جسم کے امراض سے تو واقف ہیں، لیکن روح کے امراض سے واقف نہیں۔
”ریا“ ہے کہ آدمی کوئی بھی نیک کام کرتا ہے تو شیطان فوراً وسوسہ ڈالتا ہے کہ اتنا بڑا کام کر رہے ہو، لوگ تمہیں سخی کہیں، لوگ تمہیں شجاع کہیں، یہ ریا ہے، آدمی نماز پڑھ رہا ہے، لیکن ریا کے جذبے سے پڑھ رہا ہے، تو وہ نماز الله کے ہاں قبول نہیں، ایک آدمی روزہ رکھ رہا ہے، زکوٰة دے رہا ہے، حج کر رہا ہے، اگر خدانخواستہ ریا کے جذبے سے کر رہا ہے تو وہ الله کے ہاں قبول نہیں، ریا ایک خوف ناک اندرونی بیمار ی ہے، چناں چہ اندرونی گند اور بیماری کو دور کرنے کی اگر فکر نہیں ہوگی، ہم یوں ہی زندگی گزار رہے ہیں، ریا کی بیماری پَل رہی ہے، بڑی ہو رہی ہے، چناں چہ اس کے مظاہر آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ ریا میں کتنا آگے بڑھ گئے ہیں۔
ابھی قربانی آرہی ہے لوگ بیل لارہے ہیں پچاس لاکھ کا، تصویریں بنائی جارہی ہیں، ان کو شائع کیا جارہا ہے، لوگوں کو دکھایا جارہا ہے،قربانی تو الله کے لیے ہے، اگر قربانی دکھاوے کے لیے ہے تو وہ الله کے ہاں قبول نہیں، پیسہ بھی گیا اور مقصد بھی حاصل نہیں ہوا۔
اسی طریقے سے حج ہے، حج الله کے لیے کرنا ہے، لیکن جو آدمی خدانخواستہ ریا میں مبتلا ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے حج پہ جانے سے پہلے ہی حاجی صاحب کہیں۔
اسی طرح کی اور بے شمار مثالیں ہو سکتی ہیں کہ آدمی ریا کے اندر مبتلا ہے، ایسے ہی” سُمعہ“ ہے کہ آدمی یہ چاہتا ہے کہ میں لوگوں سے اپنی خوبیاں سنوں، آدمی خیر کا کام کرتا ہے، لیکن اس میں یہ جذبہ ہوتا ہے کہ لوگ کہیں کہ آپ نے تو بہت اچھا بیان کیا، آپ نے تو بہت اچھی تلاوت کی، آپ نے تو بہت اچھی دعوت کی، یہ اندر سے جذبہ ہوتا ہے کہ لوگ آکر یہ کہیں، یہ اندر کی گندگی ہے، اسی طریقے سے کبر ہے، غرور، ظاہر ہے آدمی ایک ناپاک قطرے سے پیدا ہوا ہے، اس کے جسم میں بھی گند ہے، خون کی شکل میں، اگر نماز کے دوران آپ کے جسم سے تھوڑا سا خون نکل کربہہ جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی! وضو ٹوٹ گیا، نماز فاسد ہو گئی۔
پاخانہ ہے ، پیشاب ہے، یہ حقیقت ہے ، لیکن انسان کبر، غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے، خوف ناک بیمار ی ہے، الله تعالیٰ کو اس سے شدید ترین نفرت ہے، یہ ہم سے دور ہو جائے، حسد ہے، خوف ناک بیماری ہے کہ آپ نے کسی کو اچھے حال میں دیکھا، تو آگ لگنا شروع ہو گئی، آپ بھڑکنا شروع ہو گئے، کسی نے اچھا مکان بنا لیا، آپ اندر ہی اندر جل رہے ہیں، کڑھ رہے ہیں، کسی کو اچھی سواری مل گئی تو آپ اندر سے کڑھ رہے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے؟ کہ وہ گھر تو الله تعالیٰ نے اسے دیا ہے ،وہ سواری تو الله تعالیٰ نے اسے دی، وہ نعمتیں تو الله تعالیٰ نے اسے دی ہیں ، اس کا مطلب یہ کہ آپ جو کہ ایک ناپاک قطرے سے پیدا ہوئے ہیں، الله تعالیٰ کے اس فیصلے پر راضی نہیں ہیں، حالاں کہ وہ آپ کا بھائی ہے، آپ کا پڑوسی ہے، مسلمان ہے۔ ہونا کیا چاہیے تھا کہ آپ خوش ہوں کہ الحمدلله الله تعالیٰ نے میرے بھائی کو یہ نعمتیں عطا کی ہیں، الله تعالیٰ نے میرے بھائی پر یہ کرم فرمایا، تو الله تعالیٰ خوش ہو کر، آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں عطا فرمائیں گے اور آپ حسد کر رہے ہیں، اندر ہی اندر جل رہے ہیں، کڑھ رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ جو نعمتیں آپ کے پاس ہیں ان کو سلب فرما دیتے ہیں، اسی طرح حقد ہے، کینہ کہ آپ بظاہر تو کسی سے مسکرا کر مل رہے ہیں، لیکن اندر ہی اندر عداوت ہے، دشمنی ہے، اندر سے دل سے آپ راضی نہیں، ظاہر میں مسکرا بھی رہے ہیں ،اس کے ساتھ چل بھی رہے ہیں،۔ لیکن اندر ہی اندر آگ لگی ہوئی ہے، جل رہے ہیں، یہ حقد ہے، اسی طریقے سے بد نظری ہے، خوف ناک بیمار ی ہے اور اس بد نظری کے نتیجے میں خوف ناک قسم کی کیفیات، خوف ناک قسم کے جذبات او رخوف ناک قسم کے شہوات اور وہ کیسے پیدا ہوئے؟ نظر سے۔ تو یہ سب اندرونی بیماریاں ہیں اور آپ یاد رکھیں کہ یہ جو اندرونی بیماریاں ہیں ان سے روح مسلسل کم زور ہو رہی ہوتی ہے۔
آپ اپنے آپ کو خود دیکھیں، چیک کریں کہ میرا نماز پڑھنے کو دل کر رہا ہے یانہیں کر رہا؟ مسجد آنے کو جی چاہتاہے نہیں چاہتا؟ مسجد میں کچھ وقت گزارنے کو جی چاہتا ہے نہیں چاہتا ؟اور اسی طرح قرآن کریم کی تلاوت کو جی چاہتا ہے نہیں چاہتا؟ دعا مانگنے کو جی چاہتا ہے نہیں چاہتا؟ خیر کے کام کرنے کا جی چاہتا ہے نہیں چاہتا؟
فوراً جواب آئے گا، اگر اذان سن کر فوراً نماز کے لیے مسجد آنے کو دل کرے تو آپ سمجھ لیں کہ آپ کی اندر کی کیفیت بہترہے، اندر روح صحت مند ہے او راگر خدانخواستہ جواب نفی میں آئے، جی نہیں چاہتا، تو سمجھ لیں کہ روح کم زو رہے، آپ دیکھیں کتنی بڑی خلقت ہے مسلمانوں کی، اردگرد رہتی ہے، زمانہ گزر جاتا ہے، مسجد میں داخل ہی نہیں ہوتے، نماز پڑھی ہی نہیں اور انہیں کوئی احساس ہی نہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ باوجودیکہ وہ کلمہ گو ہیں، باوجود اس کے کہ وہ مسلمان ہیں، لیکن وہ مسجد نہیں آتے ، نماز نہیں پڑھتے، قرآن کی تلاوت نہیں کرتے، یہ یاد رکھیں کہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اس گناہ کے نتیجے میں ایک سیاہ رنگ کا نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے، پھر جب دوسرا گناہ کرتا ہے دوسرا لگ جاتا ہے، جب تیسرا گناہ کرتا ہے تو تیسرا نقطہ لگ جاتا ہے، چوتھا کرتا ہے چوتھا لگ جاتا ہے، اب آپ سوچیں کہ اگر ایک دن میں آپ نے سو گناہ کیے، اس لیے کہ گناہ تو زبان کے بھی ہوتے ہیں، گناہ تو کان کا بھی ہے، گناہ تو آنکھ کا بھی ہے، گناہ تو ہاتھوں کا بھی ہے، گناہ تو پیروں کا بھی ہے۔
اگر صبح سے شام تک آدمی گناہ شمار کرے تو کتنے سیاہ نقطے دل پر لگے؟ ایک دن میں کتنے لگے؟ ایک ہفتے میں کتنے لگے؟ ایک مہینے میں کتنے لگے؟ اس نے توبہ بھی نہیں کی، تو یہ نقطے اتنے لگ گئے کہ دل سیاہ ہو گیا اور یہ مضمون حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
چناں چہ جب اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے، کالا ہو جاتا ہے، تو اس میں سے ایمان کی جو حس ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
آپ نے بہت دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ بہت سی مساجد میں دکانیں ہوتی ہیں، ان د کانوں میں جو دوکان دار ہیں، وہ مسلمان ہیں، ظہر کی بھی اذان ہو رہی ہے، عصر کی بھی اذان ہو رہی ہے، مغرب کی بھی اذان ہو رہی ہے، عشاء کی بھی اذان ہو رہی ہے، لوگ اس کے سامنے سے گزر کر مسجد کی طرف جارہے ہیں، لوگ اس کے سامنے سے مسجد سے نکل کر باہر آرہے ہیں، لیکن اسے نماز کی توفیق نہیں۔
پرانی بات ہے، ہم لوگ حج پر گئے، کراچی کے چند ساتھی تھے۔اس زمانے میں مسجد الحرام کی یہ نئی توسیعات نہیں ہوئی تھیں، پرانا مکہ تھا ،پرانی مسجد الحرام تھی، اس کا ایک باب تھا، باب العمرة، کئی باب ہیں مسجد الحرام کے، باب عبدالعزیز ہے، باب الفتح ہے، باب الاجیاد ہے، ایسے ہی ایک باب کا نام باب العمرة ہے۔
تو باب العمرة کے بالکل سامنے قریب ہماری رہائش گاہ تھی، اس میں ہم اوپر تھے، چھوٹی عمارت تھی او رپاکستان کے ایک صاحب تھے ،وہ نیچے رہتے تھے، ہم نیچے سے گزر کر اوپر جاتے تھے اور اوپر سے نیچے آتے تھے، کسی وقت ہماری ان سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی، ہم نے سوچا کہ صبح کے ناشتے میں، دوپہر کے کھانے میں، رات کے کھانے میں ان کو بھی بلا لیں، چناں چہ کبھی دوپہر میں بلا لیا، کبھی رات میں بلا لیا، کبھی ناشتے میں بلا لیا تو اس میں تعارف ہو گیا۔
پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں سیالکوٹ کا رہنے والا ہے اور بارہ سال سے مکہ مکرمہ میں رہ رہا ہے اور یہ جو باب العمرہ ہے اس سے تھوڑا آگے جاکے باب عبدالعزیز ہے او رباب عبدالعزیز کے سامنے ایک ہسپتال تھا ،اس زمانے میں جو مستشفی جیاد کہلاتا تھا، تو یہ صاحب مستشفی جیاد میں ایکسرے کا جو شعبہ ہے اس میں میں ملازم تھے ، ٹیکنیشین تھے، ہم نے کہا کہ آپ تو بڑے خوش قسمت ہیں، بارہ سال سے آپ یہاں ہیں، باب العمرہ پہ رہائش ہے، باب عبدالعزیز کے سامنے ہسپتال ہے اور صبح شام آپ مسجدالحرام کی دیوار کے سائے میں جاتے ہیں، آتے ہیں، ہم نے ان کی اس خوش قسمتی کا ذکر کیا، تو آپ حیران ہوں گے، آج بھی میں سوچتا ہوں تو لرز جاتا ہوں، اس نے کہا کہ مجھے بارہ سال ہوگئے، لیکن میں نے تو خانہ کعبہ دیکھا ہی نہیں ،مسجد کے اندر گیا ہی نہیں، لوگ تو دنیا جہاں سے چلے آرہے ہیں اور کیسے کیسے جتن کرکے، کیسی کیسی قربانیاں د ے کر وہاں پہنچتے ہیں بیت الله شریف کی زیارت کرتے ہیں او رایک آدمی بارہ برس سے وہیں رہ رہا ہے، بیت الله کو اس نے نہیں دیکھا۔
ہم ایک دفعہ جماعت میں گئے ، لمبا قصہ ہے، مختصر بتاتا ہوں کہ مکہ مکرمہ کے چند ساتھی جو امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بچپن میں گئے تھے، کیوں گئے تھے، کیسے گئے تھے؟ وہ ایک لمبی داستان ہے۔
وہاں ان پر کسی نے دینی محنت کی، دعوت وتبلیغ کی محنت کی اور ان کو تیار کرکے پاکستان بھیج دیا، میں اس زمانے میں رائیونڈ میں تھا، بیرون کے کمرے میں ہماری تشکیل تھی، دوپہر کے وقت چار افراد اند رداخل ہوئے، بڑے بڑے بال، رنگ برنگی شرٹیں پہنی ہوئی، جینز کی پتلونیں پہنی ہوئی، کمر کے اوپر سامان لدا ہوا او راند رداخل ہوئے۔
ہمارا کام ہی ان کا استقبال کرنا تھا، ان کا استقبال کیا، بٹھایا، پانی پلایا، کھجوریں کھلائیں ،خیر خیریت پوچھی، تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ ہم مکہ کے ہیں اور امریکا کی فلاں ریاست میں ہم پر یہ محنت ہوئی اور ہمیں تیار کرکے یہاں بھیجا، تو انہوں نے ہم سے کہا کہ کسی طرح ممکن ہو تو جلد سے جلد ہمیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلائیں اور ہمارا جو اپنا لباس ہے اس کا انتظام فرما دیں۔
چناں چہ ہم ان کو رائیونڈ منڈی لے گئے، وہاں ہم نے تلاش کرنا شروع کیا کہ کوئی ایسا درزی مل جائے جس نے عرب لباس سینے کا کام کیا ہو، چناں چہ ایسا درزی مل گیا اس نے ناپ وغیرہ لیا او راگلے دن کپڑے سل گئے، پہن لیے اور وضع قطع ان کی مناسب ہو گئی، ان میں سے ایک ساتھی کی تشکیل میرے ساتھ سرگودھا ہو گئی، اس کا نام تھا احمد حسین۔ جماعت میں آپ جانتے ہیں کہ آپس میں تعارف ہوتا ہے، حال احوال پوچھا جاتا ہے وہ بچپن سے چوں کہ امریکا گیا تھا او رایک خاص مقصد سے اس کو بھیجا گیا تھا تو اس کو امریکی ریاستوں میں جتنے لہجے ہوتے ہیں انگریزی زبان کے وہ سب آتے تھے، عربی سے زیادہ انگریزی زبردست بولتے تھے، نوجوان تھے، ہو سکتا ہے اس وقت اس کی عمر بیس اکیس سال ہو تو سرگودھا کے مقامی ساتھیوں نے یہ کوشش کی کہ وہاں ائیر فورس کا ہیڈکوارٹر ہے، ائیر فورس میں جو آفیسرمیس ہوتا ہے وہاں پر افسران کے سامنے اس کا انگریزی بیان رکھا، چنا چہ اس میں کام یابی ہوئی، اس نے بیان کیا، خود بھی رویا اور سب کورلایا، اس میں اس نے کہا کہ میں مکہ میں پیدا ہوا او رمسجد الحرام سے میرا گھر بمشکل ایک کلو میٹر یا ڈیڑھ کلومیٹر ہے، میری عمر اس وقت بیس اکیس برس ہے، مجھے امریکاپڑھنے کے لیے بھیجا گیا، میں ہر سال چھٹیوں میں مکہ آتا تھا، لیکن میں نے ابھی تک خانہ کعبہ نہیں دیکھا۔
تو بھائی بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم اپنی روح کو گندگیوں سے پاک کریں ،ورنہ گناہوں کی کثرت سے آدمی بے حس ہو جاتا ہے اور پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ جیسے جانور کھاتے ہیں، پیتے ہیں سوتے ہیں،جاگتے ہیں، اپنی ضرورت کا رزق اور خوراک کھاتے ہیں، تلاش کرتے ہیں ،ہگتے ہیں، موتتے ہیں، تو اگر ایک آدمی بغیر ایمان کے زندگی گزار رہا ہے تو اس میں او رجانو رمیں کیا فرق ہے؟!
انسان تو اشرف المخلوقات ہے، انسان کو تو الله نے بہت عظمتوں سے نوازا ہے اور وہ عظمتیں اس کو اسی وقت حاصل ہوں گی جب اس کے اندر کی دنیا درست ہو گی۔
ہماری یہ مجلس اسی لیے ہے کہ ہم اس کی فکر کریں کہ ہم اپنے اندر تواضع پیدا کریں، ہم اپنے اندر خیر کے جذبات پیدا کریں، ہم اپنے اندر اخوت ومحبت پیدا کریں، ہم الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں، ہم جب الله تعالیٰ کا ذکر کریں گے تو ایمان ترقی کرے گا او رپھر سارا غیر الله، چاہے کیسا ہی ہو اس کا تأثر ختم ہو جائے گا، پھر الله کا تأثر قائم ہو گا، یہ ساری کائنات یہ جو کچھ بنا ہوا ہے، یہ سارا کا سارا لفظ الله پر باقی ہے، جب اس دنیا میں کوئی ایک بھی الله، الله کہنے والا نہیں رہے گا، تو یہ ساتوں آسمان سورج، تارے ختم، یہ دنیا ختم۔
آپ سوچیے کہ الله کا لفظ کتنا طاقت ور ہے۔ ایک دفعہ کندیاں شریف حضرت خواجہ خان محمد صاحب رحمہ الله کی خدمت میں جانے کا الله نے موقع عنایت فرمایا،ان کے بڑے صاحب زادے ،وہ اسی ہمارے جامعہ فاروقیہ میں سبق میں شریک رہے، ہم سبق تھے۔
جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت خواجہ خان محمد صاحب بہت بیمار تھے او ران کی ران میں ایک پھوڑا نکلا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا ممکن نہیں تھا او رکسی کو ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی، میں نے ان کے بڑے صاحب زادے سے درخواست کی، انہوں نے ملاقات کی ترتیب بنالی، حضرت آرام فرما تھے اور شدید علیل اوربیمار تھے، ان کے بڑے صاحب زادے نے ہمارا تعارف کرایا کہ فلاں ہیں،جامعہ فاروقیہ سے آئے ہیں، حضرت خوش ہوئے۔ چوں کہ بات چیت کا موقع نہیں تھا، میں نے حضرت سے درخواست کی کہ حضرت کوئی نصیحت فرما دیں تو حضرت نے ایک نصیحت فرمائی ایک جملے میں۔ جس کا اثر آج بھی باقی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ پورے دن میں ایک مرتبہ لذت کے ساتھ الله کہہ لیا کرو۔
آپ سوچیں کہ اگر ہم ایک تسبیح الله ، الله کی کریں اور لذت کے ساتھ کریں، لا إلہ إلا الله کی کریں، درود شریف کی کریں، تیسرے کلمے کی کریں۔
قرآن کریم کی تلاوت کریں، لذت کے ساتھ کریں، شوق کے ساتھ کریں، دل لگا کر کریں، تو آپ کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے، آپ کا علم منور ہو جائے گا، آپ اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہو جائیں گے اور خلق خدا کے لیے بھی مفید ہو جائیں گے۔
الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔