حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عادت شریفہ روزے بہت رکھنے کی تھی، کبھی کبھی آپ مسلسل کئی کئی دن روزے رکھتے تھے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم کا معمول( روزے کے معاملہ میں) بھی عجیب نرالا تھا کہ مصالح وقتیہ کے تحت خاص خاص ایام کے روزے رکھتے اور بسا اوقات افطار فرماتے۔ (شرح شمائل ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی متواتر روزے رکھتے تھے اور ہمارا خیال ہوتا تھا کہ اس ماہ میں افطار ہی نہیں فرمائیں گے اور کبھی ایسا مسلسل افطار فرماتے تھے کہ ہمارا خیال ہو تا کہ اس ماہ میں روزہ ہی نہ رکھیں گے، لیکن مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد سے رمضان المبارک کے علاوہ کسی ماہ تمام ماہ کے روزے نہیں رکھے۔ ایسے ہی کسی ماہ کو کامل افطار میں گزار دیا ہو یہ بھی نہیں کیا۔ (ابوداؤد، شمائل ترمذی)
ہر ماہ تین روزے
حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے، انہوں نے فرمایا ، رکھتے تھے۔ میں نے مکر رپوچھا کہ مہینہ کے کن ایام میں رکھتے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کا اہتمام نہ تھا جن ایام میں موقع ہوتا رکھ لیتے ۔ (شمائل ترمذی )
دوشنبہ پنجشنبہ کے روزے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو شنبہ اور پنجشنبہ کے دن حق تعالیٰ شانہ کی عالی بارگاہ میں اعمال پیش ہوتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے اعمال روزہ کی حالت میں پیش ہوں ۔(شمائل ترندی)
مسلسل روزے رکھنے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے کثرت عبادات ، نماز روزہ کے متعلق علم ہونے پر )مجھ سے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کر، بلکہ کبھی روزہ رکھا کرو اور کبھی افطار – اسی طرح رات کو نماز بھی پڑھا کرو اور سویا بھی کرو۔ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پرحق ہے( کہ رات بھر جاگنے سے ضعیف ہو جاتی ہیں) تمہاری بیوی کا بھی حق ہے ۔ اولاد کا بھی حق ہے ۔ ملنے والوں کا بھی حق ہے ۔ (شمائل ترمذی )
شوال کے چھ روزے
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہوسلم نے فرمایا کہ جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہوگا ۔( صحیح مسلم، معارف الحدیث)
خاص روزے
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے :
1.. عاشورہ کا روزہ
2. عشرة ذی الحجہ، یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم عرفہ نویں ذی الحجہ تک کے روزے۔
3.. ہر مہینہ کے تین روزے اور
4.. قبل فجر کی دو رکعتیں ۔(سنن نسائی، معارف الحدیث)
ایام بیض کے روزے
حضرت قتادہ بن ملحان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض، یعنی مہینہ کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں کو روزے رکھا کریں اور فرماتے تھے کہ مہینہ کے ان تین دنوں کے روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ (سنن ابی داؤد و نسائی، معارف الحدیث)
عشرہ ذی الحجہ کے روزے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالے کو اتنا محبوب نہیں جتنا کہ عشرہ ذی الحجہ میں محبوب ہے (یعنی ان دنوں کی عبادت اللہ تعالیٰ کو دوسرے تمام دنوں سے زیادہ محبوب ہے )۔اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہیں اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں۔(جامع ترمذی ،معارف الحدیث )
پندرہویں شعبان کا روزہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلمنے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو اس رات میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں نوافل پڑھو اور اس دن کو روزہ رکھو، کیوں کہ اس رات میں آفتاب غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی خاص تجلی اور رحمت پہلے آسمان پر اتر آتی ہے اور وہ ارشا فرماتا ہے ، کوئی بندہ ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش طلب کرے اور میں اس کی مغفرت کا فیصلہ کروں؟ کوئی بندہ ہے جو روزی مانگے اور میں اس کو روزی دینے کا فیصلہ کروں؟ کوئی مبتلائے مصیبت بندہ ہے جو مجھ سے صحت وعافیت کا سوال کرے اور میں اس کو عافیت عطا کروں ؟ اسی طرح مختلف قسم کے حاجت مندوں کو اللہ تعالی پکارتے ہیں کہ وہ اس وقت مجھ سے اپنی حاجتیں مانگیں اور میں عطا کروں ۔ غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک اللہ تعالیٰ کی رحمت اسی طرح اپنے بندوں کو اس رات میں پکارتی رہتی ہے ۔(سنن ابن ماجہ، معارف الحدیث)
پیر و جمعرات کا روزہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے روزے رکھا کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی ،نسائی ۔ معارف الحدیث)
یوم عاشورہ کا روزہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے یوم عاشورہ میں روزے رکھنا اپنا معمول بنا لیا اورمسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ، تو بعض اصحاب نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (اور خاص اس دن ہمارے رزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک و تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے۔ عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہو گئی ۔ (صحیح مسلم – معارف الحدیث)
صوم وصال پر آپ کا عمل، لیکن صحابہ کوممانعت
آپ رمضان شریف میں کثرت سے کئی اقسام کی عبادتیں کرتے، چناں چہ رمضان مبارک حضرت جبرئیل علیہ السلام سے آپ قرآن مجید کی منزلوں کا تکرار کرتے ،جب حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سخاوت کرتے ۔ آپ تمام لوگوں سے بہت زیادہ سخی تھے، لیکن رمضان میں تو صد قات اوراحسان ، تلاوت قرآن مجید، نماز ،ذکر اور اعتکاف میں از حد اضافہ ہو جاتا اور دوسرے مہینوں کی نسبت رمضان المبارک کے مہینہ کو عبادت کے لیے مخصوص فرما لیتے، یہاں تک کہ بعض اوقات آپ صوم وصال (مسلسل روزہ) رکھتے۔ تا کہ آپ ہر وقت اپنے پروردگار کی عبادت میں مصروف رہ سکیں، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صوم وصال سے منع فرماتے تھے ۔ (زاد المعاد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی بعض راتوں میں پے در پے روز رکھتے، بغیر اس کے کہ کھائیں یا پئیں اور افطار کریں۔ اور صحابہ کرام کو رحمت و شفقت اور دور اندیشی کے لحاظ سے اس امر سے منع فرماتے اور نا پسند کرتے، جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔
لا تُوَاصِلُواء․
صوم وصال نہ رکھو۔ ( مدارج النبوة ) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب آپ صوم وصال رکھتے ہیں؟ تو ہمیں کیوں منع فرماتے ہیں، با وجو دیکہ ہم حضور کی متابعت کی تمنا رکھتے ہیں توفرمایا لَسْتُ کَاحَدِکُم
میں تم میں سے کسی کے مانند نہیں۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ أیکم مثلی؟ تم میں سے کون میری مثل ہے؟ انی ابیتُ عِنْدَ رَبِّی
میں اپنے رب کے حضور شب باشی کرتا ہوں ۔ کیوں کہ وہ میرا پالنے والا اور تربیت فرمانے والا ہے یُطْعِمُنِی ویسقینی
وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور ایک روایت میں ہے وہ کھلانے والا اور پلانے والا ہے، جو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے(اور محققین کے نزدیک اس سے مراد مختار یہ ہے کہ غذائے روحانی مراد ہے )۔
واللہ اعلم بحقیقة الحال -
امام اعظم رحمة اللہ علیہ بھی صوم وصال کو نا جائز قرار دیتے ہیں ۔(مدارج النبوة)