رمضان المبارک کا مہینہ عبادات اور نیکیوں کا مہینہ تھا اور پھر اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ تھی کہ روزے دار صبح سے شام تک اپنے آپ کو نفس کے جائز تقاضوں سے روکتا ہے۔روزہ نفس کے تزکیہ اور تربیت کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں روزے کی فرضیت اور حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾
تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔“ رمضان کا مہینہ ریاضت نفس کا مہینہ تھا، تاکہ نفس کے اندر یہ صلاحیت واستعداد پیدا ہو کہ آئندہ گیارہ ماہ الله تعالیٰ کے احکام کو بجالائے او راس کی تابع داری میں مستعد رہے۔ روزے کے اندر پورا دن اپنے آپ کو کھانے پینے وغیرہ سے روکنے کی صورت میں اپنے آپ کو جائز خواہشات اور اُمور سے روکنے سے انسان کے اندر اپنے آپ کو منہیات سے روکنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، تاکہ انسان دنیا کے اس سفر کو اس طرح گزارے کہ اس کا دامن الله تعالیٰ کی نافرمانی سے آلودہ نہ ہو اور پاک وصاف ہو۔ پھر تقویٰ کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہے، انسان تجارت کررہا ہو، ملازمت کر رہاہو، زراعت کر رہا ہو یا رشتہ داروں وغیرہ سے تعلقات نباہ رہا ہو ہر امر کے ساتھ تقویٰ کا تعلق ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے تقویٰ کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ نے ایک مثال کے ذریعہ ان کو تقویٰ کا مفہوم سمجھایا اور فرمایا کہ کیا آپ کبھی کسی خار دار راستہ سے گزرے ہیں؟ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ہاں، گزرا ہوں۔ حضرت ابی بن کعب نے دریافت کیا کہ اس موقعہ پر آپ نے کیاکیا؟ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا میں نے پائنچے اٹھا لیے او راحتیاط سے کام کیا ”تشمرت وحذرت“ حضرت ابی بن کعب نے فرمایا اسی کا نام تقوی ٰہے۔ تقوی کا تعلق قول وفعل دونوں سے ہے، اسی طرح عقیدہ وعمل دونوں کے ساتھ ہے۔ شیخ ابو یزید بسطامی رحمة الله علیہ متقی کے متعلق فرماتے ہیں:”من إذا قال قال لله ومن إذا عمل عمللله“
متقی وہ ہے جو کچھ کہے، الله تعالیٰ کے لیے کہے او رجو کچھ کرے الله تعالیٰ کے لیے کرے۔
سورہٴ بقرہ کے شروع میں اہل تقویٰ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :”متقی وہ لوگ ہیں جو غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ،جو کچھ ہم نے عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئیں اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“
بہرحال تقویٰ کا تعلق اقوال وافعال سے بھی ہے ، عقیدہٴ وعمل سے بھی ہے اور تصحیح نیت سے بھی ۔ چناں چہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”التقوی ھھنا وأشار إلی الصدر“
یعنی دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کا مقصد نفس کی تربیت اور تزکیہ تھاکہ آئندہ انسان کے لیے مامورات پر عمل کرنا اور منہیات سے اجتناب کرنا آسان ہوجائے اور وہ زندگی کے بقیہ ایام بھی الله تعالیٰ کی مرضیات کے مطابق گزارسکے۔ الله تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!