ذکر الله

idara letterhead universal2c

ذکر الله

حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی

سارے جہاں ایک طرف ، عرش وکرسی ، لوح و قلم ایک طرف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک ایک طرف ،جو عظمت اس قلب مبارک کی ہوگی۔ وہ عرش و کرسی ، لوح و قلم اور تمام جہانوں کی نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ کا قلب مبارک الله کے ذکر کا خزانہ ہے اور ولذکر الله اکبر، الله کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ جب یہ آتا ہے تو ساری چیزیں ہلکی پڑ جاتی ہیں۔ کسی میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔

بعد از خطبہ مسنونہ

اما بعد، فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم:﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللَّہِ أَکْبَرُ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ﴾․(سورہٴ عنکبوت،آیت:45) صدق اللہ العلی العظیم

بزرگان محترم!

یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے ۔ جو اس وقت آپ حضرات کے سامنے میں نے تلاوت کی۔ اس وقت پوری آیت کے بارے میں کچھ زیادہ عرض کرنا نہیں ہے۔ بلکہ آیت کے صرف ایک جز کے بارے میں کچھ کہنا ہے اور وہ در حقیقت ساری شریعت کی روح ہے اور وہ جز﴿ و لذکر اللہ اکبر﴾ ہے۔

ترجمہ: آیت کا یہ ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں۔” نماز آدمی کو بے حیائی کی باتوں سے بچاتی ہے۔ برائیوں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر تو بہت ہی بڑی چیز ہے…۔“

تو نماز فحش اور منکرات سے کس طرح بچاتی ہے ؟ اس وقت اس کے بارے میں کلام نہیں کرنا۔ بلکہ ﴿ولذکراللہ اکبر﴾ کے بارے میں چند باتیں گزارش کرنی ہیں۔

اعمال شرعیہ کی روح

اس کی وجہ یہ ہے کہ ذکر اللہ ہی سب سے زیادہ اعمال میں افضل ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ بلکہ ہر عمل مقبول ہوتا ہے تو ذکر اللہ ہی کی وجہ سے مقبول ہوتا ہے۔ اگر نمازمیں ذکر اللہ اور یاد خدا نہ ہو۔ نماز بے روح رہ جائے گی۔ روزے میں ذکر اللہ نہ ہو روزہ بے روح رہ جائے گا۔ زکوة میں ذکر اللہ نہ ہو زکوة بے روح ہو جاتی ہے۔ سارے اعمال شرعیہ کی روح فی الحقیقت ذکر اللہ اور یاد خداد ند ی ہے۔ اس لیے اس پر کلام کرنا گویا ساری شریعت پر اور ساری شریعت کے سارے احکام پر کلام کرنا ہے ۔ اس وجہ سے میں نے اس آیت کا انتخاب کیا ہے۔

یہ آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر چیز کی زندگی روح سے ہے، محض بدن سے کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ جب تک کہ بدن کے اندر روح نہ ہو۔ روح نکل جاتی ہے تو پھر آدمی کو مردہ کہتے ہیں۔ پھر وہ اس قابل بھی نہیں رہتا کہ اسے باقی بھی رکھا جائے۔ بدن لے جا کر دفن کر دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں یا پانی میں بہا دیتے ہیں ۔ غرض وہی انسان جس سے محبت کا تعلق ہوتا ہے۔ جس کی طرف کشش ہوتی ہے۔ ایک منٹ اس سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ جہاں روح نکلی ہر شخص کو وحشت ہوتی ہے اور کہتا ہے اسے جلد سے جلد اپنے سے دور کر دیا جائے۔ تو معلوم ہوا تعلق اور محبت در حقیقت بدن سے نہیں ،بلکہ بدن کے اندر جو روح سمائی ہوتی ہے۔ اس سے تو تعلق ہوتا ہے ۔ وہ نکل گئی، تعلق ختم ہوجاتا ہے تو اصل بنیادی چیز اس دنیا میں روح ہے۔ بغیر روح کے نہ زندگی ہے ، نہ کسی شئے کے لیے بقا ہے جس طرح سے ان مادی چیزوں میں روح سے ہی بقا ہے۔ اسی طرح سے اعمال شریعت بھی ڈھانچے ہیں۔ جب تک ان میں ذکر اللہ کی روح نہ ہو وہ لاشے کی مانندہیں۔ ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اگر نماز میں یادِ خداوندی کی بجائے غفلت آجائے، نماز ختم ہوگئی۔ اس لیے کہ فرمایا گیا:﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی ﴾․(سورہٴ طہ:14) ترجمہ:”نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے۔“

جب ذکر نہ رہا، روح نماز ختم ہو گئی ۔ اب محض ایک اٹھک بیٹھک یا ایک بدنی ورزش ہے۔ جس کی کوئی قدر و قیمت عند اللہ نہیں ہو گی ۔ اس طرح سے اگر روزے کے اندرذکر و تلاوت اور تراویح نہ ہو تو روزہ بھی ایک فاقہ ہے۔ جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔نیت کے سچے اور اس میں یا د خداوندی ہونے سے روزہ زندہ ہو جاتا ہے۔ اس کو عبادت کہتے ہیں۔ یہ روح نکل جائے عبادت کے بجائے عادت ہو جاتی ہے۔ تو عبادت اور عادت میں فرق یہی ہے کہ عادت محض ایک ڈھانچہ ہوتا ہے، جس میں یاد نہیں ہوتی، اگر یاد بھی ہوتی ہے تو اپنے نفس کی ہوتی ہے اور عبادت ایسا ڈھانچہ ہے جس میں اللہ کی یاد ہوتی ہے ،نفس کی یاد نہیں ہوتی ہے۔ عادت اور عبادت میں یہی فرق ہے ۔ اگر بلانیت کے سارا دن کھانا نہ کھائیں ، پانی نہ پئیں ، بیوی کی طرف رُخ کر کے بھی نہ دیکھیں۔ اسے فاقہ کہیں گے اور اگر نیت کے ساتھ اور یادِ خدا وندی کے ساتھ کریں تو اسی کو روزہ کہیں گے۔ اگر حج میں ذکر اللہ نہ ہو اور نیت صحیح نہ ہو تو حج نہیں ۔ بلکہ سیر و سیاحت ہے۔ اگر اسی میں سچی نیت آجائے ، وہ حج بن جاتا ہے۔ تو عادت اور عبادت میں یہی فرق ہے کہ عادت میں نفس کا جذبہ کام کرتا ہے ۔ اور عبادت میں جذبہ یاد حق ہے ۔ جس سے وہ عبادت بن جاتی ہے حاصل یہ نکلا جب اس کائنات کی روح اللہ کی یا د ہے۔ اس طرح سے پوری شریعت کی روح بھی اللہ کی یاد ہے۔ اگر دنیا میں سے روح نکل جائے ، دنیا ڈھانچہ بن جائے گی۔ شریعت میں سے کوئی اس روح کو نکال دے تو شریعت عادت بن جائے گی، عبادت نہیں رہے گی۔

حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

”لا تقوم الساعة حتی یقال فی الارض: اللہ اللہ‘․‘

قیامت اس وقتتک قائم نہ ہوگی ۔ جب تک اس د نیا میں ایک آدمی بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہےجب ایک بھی باقی نہیں رہے گا۔ قیامت قائم کردی جائے گی۔

قیامت کے معنی در حقیقت عالم کی موت کے ہیں۔ جیسے کہ مرنے کے بعد بدن پھول پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اسی طرح سے قیامت کے دن، صور پھونکنے کے بعد، آسمانوں کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ جائیں گے، زمینیں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی، پہاڑ گالوں کی طرح سے اُڑے پھریں گے۔ پانی مٹی میں اور مٹی پانی میں، سارا کارخانہ گڑ بڑاور درہم برہم ہو جائے گا۔ یہ قیامت ہے تو حدیث میں یہ کہا گیاہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے۔ جب ایک بھی نہیں رہے گا جبھی عالم کو موت آجائے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی ردح ذکر اللہ ہے تو پوری دنیا کی زندگی اور روح وہ در حقیقت یاد خداوندی ہے۔

دنیا کے ایک ایک جز میں ذکر اللہ سے زندگی ہے

یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کے ایک ایک جز میں زندگی کے آثار ذکر اللہ سے ہیں۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ چلتا ہوا پانی اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ جب تسبیح بند ہو جاتی ہے۔ تو وہی وقت اس کی موت کا ہوتا ہے کہ وہ ٹھہر جاتا ہے۔ جہاں پانیٹھہرا تو چند دن کے بعد خراب ہو جاتا ہے ، سڑ جاتا ہے ، میل کچیل بڑھ جاتا ہے۔ بہتے ہوئے پانی میں میل کچیل قائم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہتا ہوا پانی تھوڑا ہویا زیادہ، اس سے وضو جائز ہے۔ اگر اس میں کوئی گندگی بھی گر جائے ، اس کی پاکی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس میں تسبیح اور ذکر اللہ جاری ہے۔ وہ اسے ناپاک نہیں ہونے دیتا اور ٹھہرا ہوا پانی اگر مقدار میں کم ہے اور اس میں کوئی گندگی گرِجائے، وہ پورا پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اس سے وضو وغیرہ نہیں کر سکتے۔ گندگی کیوں پھیلی ؟ اس لیے کہ اس کے اندر وہ روح ختم ہوگئی۔ تو چلتا ہوا پانی اللہ کی تسبیح کرتا ہے اور ٹھہرا ہوا پانی تسبیح سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہی اس کی موت کا وقت ہوتا ہے۔

حدیث میں ہے کہ درخت کی ٹہنیاں جب تک سرسبز ہیں ، وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، تسبیح بند ہوئی ، جبھی اس پر زردی آتی ہے۔ خشک ہو جاتی ہیں، وہی جلانے کے قابل بن جاتی ہیں۔ گویا جہاں ان میں سے ذکر کی روح نکلی ۔ تو پھر اسے جلا دیا جاتا ہے۔

اسی طرح سے حدیث میں فرمایا گیا کہنیا کپڑا اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ جہاں اس کی تسبیح بند ہوئی، جبھی اس پر میل کچیل آنا شروع ہو جاتا ہے، اور تسبیح ختم ہوتے ہی جہاں وہ میلا بنا ، پھر کہنے کے قابل نہیں رہا۔ آپ اسے اتار کر دھوبی کے ہاں بھیج دیتے ہیں، جب تک دُھل کر نہ آئے آپ اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ اسے بدن کے قریب بھی کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے کی صفائی اور ستھرائی ذکر اللہ سے قائم ہے۔ ذکر کے بند ہوتے ہی اس میں میل کچیل آنا شروع ہو جاتا ہے۔ انسان کی صفائی بھی فی الحقیقت یا د خدا وندی سے ہے۔ جب اس میں ذکر اور یا دحق باقی نہیں رہی۔ جبھی انسان کے قلب میں میل کچیل ، گندگی اورنجاست آنی شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں یاد الٰہی ختم ہوئی۔ انسان میلا ہو جاتا ہے اور میلا انسان میلے کپڑے کی طرح ہے۔ وہ دھکے دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسے کوئی اہل اللہ میں سے پسند نہیں کرتا۔ اپنی روح کے اندر جتنا ذکر زیادہ رہے گا، اتنی صفائی زیادہ رہے گی ۔ جتنا ذکر کم ہو جائے گا۔ اتنی ہی کدورت پیدا ہوگی۔ جتنی کدورت اور ظلمت پیدا ہوگی۔ گناہ ، معصیت اور نافرمانی کرنے کے جذبات پیدا ہوں گے۔ شرک و بدعت کے جذبات اُبھریں گے، جب تک ذکر قائم ہے اور روح کے اندر تازگی ہے ، بدن تا زہ ہے۔ نفس کے اندر صفائی ہے تو نورانیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس سے نیکی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

حاصل یہ نکلا کہ انسان ہو یا دنیا کا کوئی بھی جز ہو۔ وہ جبھی تک زندہ ہے ، جب تک اس میں یا د خداوندی ہے۔ ذکر نہ ہو تو عالم کے لیے فنا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دنیا کو اللہ اللہ کرنے والوں نے سنبھال رکھا ہے۔

زراعت تجارت سے نہیں، دنیا دیانت سے قائم ہے

دُنیا کے بہت سے طبقات کو یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ مثلاً ایک کاشت کار کو دعویٰ ہے کہ میں نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ اس واسطے کہ دنیا کھانے پینے سے قائم ہے ،میں غلہ اُگاتا ہوں، گیہوں ، چاول اور چنا سب میری بدولت اگتا ہے۔میں اگراُگانا چھوڑ دوں کھانے کو کچھ نہ ملے۔ ساری دنیا فنا ہو جائے گی۔ تو دنیا کی زندگی میرے دم سے ہے۔ اگر کاشت کار اور زمین دار دنیا میں نہ ہوں تو دنیا فنا ہو جائے گی ۔

تاجر نے آکر کہا کہ دنیا کومیں نے سنبھال رکھا ہے۔ اس لیے کہ تو تو کچی جنس اُگاتا ہے۔ ان جنسوں کو اگر میں بنا سنوار کر دکانوں پر نہ سجاؤں، کپڑا، غلہ اور پھل پھول سپلائی نہ کروں ۔ دنیا بھوکی مر جائے گی۔ تو میری بدولت دنیا قائم ہے، نہ کہ تیری بدولت تو نے غلے کا انبار لگا دیا ، مگر ڈھیر سے کیا ہوتا ہے بکے گا تو میری دکان پر آکر ۔ تو نے روئی اُگا دی، لیکن روئیکے گالے اگر پڑے رہیں تو کیا ہوتا ہے ؟ کپڑا بنا کر میں نے اپنی دکان پر رکھا تو دنیا کو میں نے سنبھال رکھا ہے۔ تیراد عویٰ غلط ہے ان دونوں کے بالمقابل ایک سیاسی اور حکومت کا آدمی ان دونوں کو کہتا ہے کہ تم دونوں غلط کہتے ہو، دنیا کو تو میں نے سنبھال رکھا ہے۔ اس لیے کہ میں نے دنیا کا نظام قائم کر کے اس میں امن قائم کر رکھا ہے۔ اگر میں امن قائم نہ کروں، وہ آپا دھاپی پڑے کہ کاشت کار تاجر کو ختم کردے اور تاجر کاشت کار کو، سرمایہ دارمزدور کوما رڈالے اورمز دور سرمایہ دار کو۔تاجر کاشت کار کے اور کاشت کارتاجر کی دکان پر ڈا کے مارے گا۔ دنیا ساری گڑ بڑ ہو جائے گی۔ میں نے اپنے عدل وانصاف سے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔میں کرسی، سیاست پر بیٹھ کر دنیا کو تھام رہا ہوں۔ تو نہ کاشت کار ،تاجر اور زمین دار سنبھال رہا ہے۔ میں سنبھال رہا ہوں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم سارے غلط کہتے ہو، دنیا کو سنبھالنے والا تو ہمارا نام لینے والا ہے۔ جو ہماری یاد میں مصروف ہے۔ اس نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے ۔ نہ کہ تاجر، کاشت کار، زمین دار اور سیاسی آدمی نے، ہم نے اور ہمارے نام لینے والوں نے سنبھال رکھا ہے۔

غور کریں گے تو اللہ ہی کا دعوی سچا ہے ، باقی سب کے دعویٰ غلط ہیں۔ اگر ایک زمین دار کہتا ہے کہ میں نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ تو اس نے کب تک سنبھال رکھا ہے ؟ اگر کاشت کار دیانت داری سے کام کرتا ہے، نہ وہ دوسرے کی زمین پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔ایک انچ زمین دوسرے کی نہیں لینا چاہتا۔ جتنا غلہ اس کے ہاں اُگتا ہے۔ اسی کو وہ بازار میں لے جا کر بیچتا ہے۔ دوسروں کے غلے چرا کر اپنے میں ملا کہ نہیں لے جاتا۔ تو جب تک وہ دین و دیانت سے کام کر رہا ہے۔ اس وقت تک اس کی زمین داری چل رہی ہے اور گر بد دیانتی اور ظلم و ستم پر آجائے۔ لوگوں کی زمینوں پر چھاپے مارے۔لوگوں کے غلوں میں اپنا غلہ ڈال کر ان کے غلے کھینچ لائے۔ اگلے دن اس پر مقدمہ قائم ہوجائے گا۔ تونہ اس کی کاشت کاری باقی رہے گی ، نہ یہ زمین داری ، نہ یہ دنیا کو سنبھال سکے گا۔ تو معلوم ہوا کہ زمین دار نے اگر سنبھال رکھا ہے تو دیانت کی وجہ سے، دیانت داری ہی اللہ کا ذکر ہے۔ تو بات یہ نکل آئی کہ ذکر اللہ کرنے والے نے دنیا کو سنبھالا، دیانت دار نے سنبھالا۔ بددیانت نے نہیں سنبھالا۔

ایک تاجر اگر کہتا ہے کہ میں نے دنیا کو سنبھالا، وہ اس وقت صحیح ہے کہ وہ عدل وانصاف کے ساتھ تجارت کرتا ہے۔ اصول تجارت کا پابند ہے۔ اس کا جذبہ یہ ہے کہ نہ میرے گاہک کو نقصان پہنچے نہ مجھے۔ وہ ایک منٹ کے لیے یہ نہیں چاہتا کہ یہ گاہک آرہا ہے تو لاؤ ،اس کی کھال بھی اتار لوں اور اس کو بالکل گھول کر کھا جاؤں۔ یہ اس کا جذبہ نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے ہاں سے یہ مال لے جائے تو میری بھی اس کے دل میں یاد رہے۔ میں اس کو اچھی چیز دوں ۔ اتنی قیمت میں دوں جتنی مناسب ہے۔ نہ غبنِ فاحش کروں، نہ بلیک مارکیٹنگ کروں ۔ بلکہ دیانت داری سے، اصولی طور پر، واجبی قیمت وصول کروں ،جس کے اندر کوئی دغاوغیرہ نہ ہو حدیث میں فرمایاگیا ہے۔

”غفر اللہ لرجل کان سہلا، اذا اشتری سہلا، و اذا باع سہلا “․

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیانت دار تاجر کو دعا دی ہے اور فرمایا۔ اللہ اس شخص کی مغفرت و بخشش کرے جو سہولت کے ساتھ بیچتا اور خریدتا ہے۔ انصاف کے ساتھ قیمت لگاتا ہے ۔ گاہکوں کے ساتھ سہولت کا برتاؤ کرتا ہے، تنگی اور سختی نہیں کرتا، یہ نہیں ہے کہ جب مال خریدے تو قیمت کم سے کم لگائے کہ میں اسے لوٹ لوں۔اور جب بیچنے پہ آئے تو ساٹھ گنی لگائے کہ مجھے زیادہ ملے۔ ہر صورت میں اپنا نفع چاہتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بیچتے وقت اچھا مال دیتا ہے اور قیمت کفایت سے لیتا ہے اور خریدتے وقت کوئی کمی نہیں کرتا۔ تاکہ بائع کو نقصان نہ پہنچے۔ اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی ہے۔ یہ تاجر کون ہے؟ یہ وہی ہے جو دین کو پیش نظر رکھ کر تجارت کر رہا ہے تو تجارت نے دنیا کو نہیں سنبھالا۔ در حقیقت تاجر کی دیانت داری نے سنبھالا، اگر بد دیانتی اور بے اصولی سے تجارت کرے، ممکن ہے ابتدا میں کچھ بازار چل جائے اور کچھ فروغ ہو جائے۔ لیکن پھر جو خسارہ پڑے گا تو راس المال کی بھی مصیبت آجائے گی کہ وہ بھی باقی رہتا ہے کہ نہیں۔ تو اگر بد دیانتی شامل حال ہے تو وہ دکان بھی نہیں سنبھلے گی ، دنیا تو کیا سنبھلے گی؟اس سے واضح ہو گیا کہ تاجر نے دنیا کو نہیں سنبھالا، اس کی دیانت داری نے سنبھالا ہے، دیانت داری میں پھر ذکر اللہ آجاتا ہے تو اللہ کا نام لینے والے دنیا کو سنبھال رہے ہیں ،نہ کہ کوئی اور۔
نظام حکومت سیاست سے نہیں ،دیانت سے چلتا ہے

کرسی عدالت پر بیٹھنے والا حج یا کرسی پر بیٹھنے والاحاکم ، بے شک اس نے امن کا نظام قائم کر رکھا ہے، مگر کب ؟ جب کہ عدل و انصاف قائم کرے اور اگر وہ ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ پوری پبلک کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اپنے اور پرائے کا فرق کرتا ہے، وہ حکومت کو بھی تباہ کرے گا، خود بھی تباہ ہو گا۔ لیکن اگر عدل سے کام لے رہا ہے جس کو قرآن کریم میں فرمایا گیا۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء َ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِین﴾․ (سورة النساء، آیت:135)

اسے ایمان والو!قوام بالقسط بنو، یعنی عدل و انصاف سے فیصلے کرو۔ دیانت داری سے فیصلے کرو۔اگر چہ دیانت داری سے تمہارے نفس کے خلاف فیصلہ ہو۔ تو اپنے اوپر بر داشت کرو۔مگر فیصلہ حق کا کرو۔ اگر چہ تمہاری اولاد پر بن جائے، مت پروا کرو۔ عدل سے کام لو۔

امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک دعویٰ کیا ۔ اور قاضی شریح چیف جسٹس یعنی قاضی القضاة ہیں کہ میری ایک زرہ جو میں جنگ کے موقع پر استعمال کرتا ہوں۔ وہ فلاں یہودی کے ہاں ہے۔ اس نے زبر دستی قبضہ کر رکھا ہے اور وہ دینا نہیں چاہتا ۔ دعویٰ بالکل سچا تھا۔

قاضی شریح نے امیر المومنین کو عدالت میں طلب کیا۔ حالاں کہ حضرت علی خلیفة المسلمین ہیں۔ قاضی شریح ان کے ماتحت ہیں ۔ لیکن عدل اور عدالت کا مقام اتنا بڑا ہے کہ امیر ہو یا خلیفہ، اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ ایک عام مدعی اور مدعا علیہ کی طرح سے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ وہاں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ یہ امیر المومنین ہیں۔ ان کے لیے تو کرسی بچھائی جائے اور غریب آدمی دعویٰ کر کے آئے ، تو وہ کٹہرے میں کھڑا ہو۔ جب امیر المومنین مدعی بن کے آئے گا تو اسے وہیں کھڑا ہونا پڑے گا، جہاں عام مدعی اور مدعاعلیہ کھڑے ہوں گے۔

تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس سمن پہنچا کہ آپ عدالت میں حاضر ہوں ۔ آپ مدعی ہیں اور یہودی سے کہا کہ تو مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہو۔ دونوں کو حاضر ہونا پڑا اور دونوں کو ایک درجے میں کھڑا کیا۔ یہودی بھی کھڑا اور امیر المومنین بھی کھڑے ہیں۔ امیر المومنین کے مقابلے میں یہودی کی کیا حیثیت تھی؟! مگر قاضی اور عادل حاکم کی نگاہ میں دونوں ایک درجے کے تھے۔ اس لیے دونوں برابر کھڑے کیے گئے۔

قاضی شریح نے فرمایا : کیا دعویٰ ہے ؟

امیر المومنین نے فرمایا: دعویٰ یہ ہے کہ اس نے میری زرہ پر زبردستی قبضہ جما رکا ہے۔ دیتا نہیں۔ حالاں کہ زرہ میری ہے۔

یہودی نے کہا کہ ان کی زرہ نہیں ہے یہ تو میری ہے۔ حالاں کہ حضرت علی سچے تھے۔ یہودی کی واقعی زرہ نہیں تھی مگر قاضی شریح نے کہا کہ ” کوئی گواہ ہے؟“

فرمایا: جی ہاں! تو ایک غلام کو پیش کیا اور ایک اپنے بیٹے حضرت حسن کو پیش کیا۔

فرمایا :
بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں معتبر نہیں ہے اور دو گواہ کے بغیر دعویٰ ثابت نہیں ہو سکتا۔ کوئی اور گواہ لاؤ۔

انہوں نے کہا، اور تو میرے پاس کوئی گواہ نہیں، یہی دو گواہ تھے، یا میرا بیٹا، یا یہ میرا ملازم فرمایا: اگر گواہ ایک ہو تو آپ کے حق میں ڈگری نہیں دی جا سکتی۔ یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا کہ زرہ اسی کی ہے ۔ حضرت علی کو نہیں مل سکتی ۔ حالاں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ سچا تھا۔ مگر ضابطہ کا ثبوت مہیا نہیں ہوا۔ اس واسطے فیصلہ ان کے خلاف ہوا۔ اس عدل کا اثر کیا ہوا ؟ یہودی نے اس وقت وہیں کھڑے ہو کر کہا کہ
”اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ․“

سچے دل سے دائرہ اسلام میں داخل ہوا اور کہا جس دین کے اندر اتنا عدل و انصاف ہے کہ ایک امیر المؤمنین اور ایک غریب سے غریب غیر مسلم ایک نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں۔ وہ دین سچا ہے اورمیں اس دین کی حقانیت کا قائل ہوتا ہوں اور علی الاعلان کہا کہ میرا دعویٰ غلط تھا ،سچے حضرت علی ہیں اور زرہ ان کو دے دی۔

حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا۔ اب مجھے زرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ زرہ کا تو ہی مالک ہے زرہ بھی تو رکھ۔ تیرادین جب یہ دین بن گیا۔ تو میرے لیے سب کچھ ہو گیا۔ تو ایک سچائی نے کتنوں کو فائدہ پہنچایا؟! امیرالمومنین  کی حقانیت کھلی ۔ یہودی کو دین نصیب ہو گیا ۔ اس کو مل گئی۔ اسلام کی عظمت واضح ہو گئی ۔ ایک سچائی سے کتنی برکات اور فائدہ ظاہر ہوئے ،افراد کے حق میں الگ ، دین کے حق میں الگ ، اسلام کی عدالت کے حق میں الگ ۔
تو اسلام یہ چاہتا ہے کہ کر سی عدالت پر بیٹھ کر دیانت داری سے فیصلہ کرو، چاہے تمہارے خلاف فیصلہ ہو، چاہے تمہاری اولاد کے خلاف ہو، چاہے تمہارے رشتہ داروں کے خلاف ہو۔ مگر عدل وانصاف ہونا چاہیے۔ اگر ایک حاکم اس عدل سے فیصلے کرتا ہے۔ تو در حقیقت اس نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ مگر حاکم نے نہیں۔ اس کی دیانت داری اور عدل نے سنبھال رکھا ہے۔ تو وہی بات آگئی کہ ذکر اللہ کرنے والے نے دنیا کو سنبھال رکھا ہے۔ عالَم کو تھامنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے۔ اگر تاجر اور کاشت کار دیانت چھوڑ دے ،اگر حاکمِ عدالت دیانت چھوڑ دے، اگر بادشاہِ وقت دیانت چھوڑ دے ، یہ سب دنیا کی تباہی کا ذریعہ بنیں گے اور اگر دین ودیانت سے کام لیں گے تو دنیا کو سنبھالنے والے بنیں گے۔ تو دنیا کو دیانت، ذکر اللہ اور یادِ خداوندی سنبھالتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہے۔ خلافت کا دور ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رعب اوردبدبہ وہ ہے کہ ان کا نام سن کے دنیا کے بادشاہوں کیپِتّے پانی ہوتے تھے۔ ان کے زمانے میں جبلہ ابن یہم، جو روم کا بادشاہ یا گورنر تھا۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا۔ اسلام قبول کر کے مدینہ طیبہ حاضر ہوا اورحج کے لیے مکہ معظمہ گیا۔ توطواف کر رہا تھا کہ قبیلہ فزارہ کا ایک بدوی دیہاتی ، وہ بھی طواف میں مشغول تھا۔ جو لوگ حج کرنے گئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مطاف کے اندر ہجوم ہوتا تھا۔ لاکھوں آدمی ایک وقت کے اندر طواف کرتے ہیں ۔ تو دکھے مکے بھی لگتے ہیں، ٹکراؤ بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آتا۔ سب جانتے ہیں کہ سب اللہ کی یاد میں مشغول ہیں۔ تو کوئی کسی سے ٹکرا جائے یا گر جائے ۔ تو نہ برا مانتے ہیں ،نہ مقابلہ کرتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ وہ فزاری طواف کر رہا تھا۔ اس وقت جبلہ بن ایہم بھی طواف میں مشغول تھا۔ تو جبلہ بن ایہم کی لنگی پر دیہاتی کا پیر پڑ گیا ااور لنگی کھلی۔ وہ اپنے ہاں کا بادشاہ تھا۔ یہاں وہ مسلمان ہو کر غریب الوطن تھا۔ جذبات اس کے وہی شاہانہ تھے۔ اس نے دیکھا کہ میری لنگی پر ایک دیہاتی کا پیرپڑ گیا، وہ کھل گئی۔ تو اس نے زور سے ایک طمانچہ مارا، وہ دیہاتی بے چارہ چوٹ کھا کے گرا۔ اس کے بعد اس نے لنگی درست کی، دیہاتی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں جاکر دعویٰ کیا کہ اس نے ناحق میرے طمانچہ مارا ہے، اس کی لنگی پر میں نے جان بوجھ کر پیر نہیں ڈالا تھا اور کوئی وجہ بھی نہیں ہو سکتی کہ لنگی پر آدمی جان بوجھ کر پیر ڈالے۔ مجمع کے اندر کوئی کسی کی لنگی کھول کر تھوڑا ہی لے جاتا ہے تو اس نے کہا کہ عقل کے خلاف ہیکہ میں اس کے اوپر پیر ڈالتا۔ بدنیتی سے بھی نہیں ڈال سکتا تھا۔ ہزاروں آدمی وہاں موجود تھے۔ دھکے مکے میں میرا پیر لگ گیا۔ تو میرے سے یہ غلطی ہوئی ،مگر ارادی غلطی نہیں ہوئی ۔یہ مجھے تنبیہ کر دیتا ۔ دھول مارنے کا کون سا موقع تھا؟ اس کا حق کیا تھا ؟یہ دعوے دائر کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت سے جبلہ بن ایہم کے نام سمن جاری ہو، وہ حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا۔ تو نے کیوں چپت مارا ؟ اس نے کہا اس نے میری لنگی پر پیر ڈالا فرمایا۔ لنگی پر پیر ضرور پڑا۔ لیکن وہ موقع ایسا ہے کہ وہاں ارادے سے پاؤں کوئی نہیں ڈال سکتا۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ اس واسطے تمہارے سے قصاص لیا جائے گا۔ یا تو یہ دیہاتی تمہارے بھی اتنی زور سے دَھول مارے گا۔یا پھر تم مالی طور پر فدیہ ادا کردو۔ اس نے جو چوٹ کھائی ہے۔ اس کے بدلے میں کچھ مال دے دو۔

جبلہ نے کہا کہ ایک بادشاہ اور دیہاتی برابر ہوگیا؟

حضرت عمر نے فرمایا ، اسلام میں برابر ہیں۔ یہاں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے اور خدا کے گھر میں ایک دیہاتی اور ایک امیر برا بر ہیں۔ ایک صف میں بادشاہ اور اس کے برابر۔ میں غلام بھی کھڑا ہو گا۔ وہاں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاسکتا ہے #
          ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
          نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز

یہاں سب بندے ہیں۔ بندہ نواز کوئی نہیں ۔ بندہ نواز تو اللہ ہیں، جو اپنے بندوں کو نوازتے ہیں۔ اس عدالت میں آکر بھی امیر المؤمنین اور دیہاتی سب برابر ہیں۔ بادشاہ اور فقیر ایک جیسے ہیں۔ اسے سخت ناگوار گزرا کہ اس دین کے اندر ایک لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ وہ راتوں رات بھاگ گیا اور اسلام چھوڑ کر مرتد ہو گیا اور بدستور پھر عیسائی بن گیا، عیسائیوں میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ جو اس کی سلطنت چھن گئی تھی وہ جاکے پھر تخت سلطنت پر بیٹھ گیا۔ رعایا میں بھی خوشیاں ہوئیں کہ بادشاہ بھی ہمارا آگیا اور اس کا قدیم دین بھی واپس آگیا بہر حال اسلام نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔

موٴرخین لکھتے ہیں کہ ایک صحابی قسطنطنیہ بلا ارادہٴ ہجرت تجارت کے سلسلے میں تشریف لے گئے تھے۔تو جبلہ بن ایہم کو خبر ہوئی کہ ایک صحابی آتے ہیں ۔ آخر مسلمان تو ہوا تھا۔ کچھ نہ کچھ ا سلام کا دھیان اس کو تھا ہی۔ ان صحابی کو اس نے دعوت دی اور بلا یا اور یہ بھی پہنچے۔ اس نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے میں اسلام لے آیا تھا۔ لیکن وہ فزاری کے ساتھ میرا مقدمہ ہوا تو میں یہ کہہ کر چلا آیا کہ ایک بادشاہ اور دیہاتی برابرنہیں ہو سکتا۔ لیکن آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ آج تک نہ میرے دل کو سکھ ملا ، نہچین ۔ سچی بات وہی تھی جو حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمائی تھی۔ دین حق بھی وہی اور سچا ہے اور میں اس پر نادم ہوں کہ میں مرتد ہوا۔ گو مجھے ظاہری بادشاہت پھر مل گئی ۔ لیکن میرے دل میں سکھ اور چین نہیں ہے۔ میرا اب جی چاہتا ہے کہ میں پھر اسلام میں داخل ہو جاؤں۔ مگر چوں کہ بادشاہ ہوں۔ اس واسطے اپنے وقار کو بھی برقرار رکھنا چاہتا ہوں ،کوئی ایسا حیلہ ہو جائے ، جو میں کہہ سکوں ۔ کہ بھئی! اگر میں نے اسلام قبول کیا تو کوئی بُری بات نہیں، فلاں نعمت بھی مجھے ملی اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر المومنین حضرت عمر اپنی بیٹی سے میری شادی کر دیں اور اس کا وعدہ دے دیں، تو میں اس کو حیلہ بنا کر اسلام میں داخل ہو جاؤں۔ بعد میں چاہے وہ شادی کریں یا نہ کریں۔ یا میں ہی انکار کر دوں۔ مگر میرے لیے ایک حیلہ اور عذر بن جائے گا میں اپنی قوم سے کہوں گا کہ امیر المومنین حضرت عمر  جیسا بادشاہ ، جس سے دنیا کے بادشاہ ڈرتے ہیں۔ جب وہ اپنی بیٹی دے رہا ہے تو میری اس سلطنت سے ان کی بیٹی زیادہ عزت والی ہے۔ میں پھر اسلام قبول کیے لیتا ہوں۔

ان صحابی نے کہا۔ میں امیر المومنین کے پاس جا کے ذکر کر دوں گا اور اس کے بعدمیں پھر آپ کے پاس آؤں گا۔
چناں چہ یہ واپس ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ سارا واقعہ ذکر کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا۔

” تم نے کیوں نہ وہیں وعدہ دے دیا ؟عمرکی بیٹی اسلام کے مقابلے میں کیا چیز ہے ؟ اگر ایک شخص اسلام میں آئے اور عمر کی بیٹی اس کے نکاح میں چلی جائے ۔ میری بیٹی کی اسلام کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ تمہیں وعدہ کر لینا چاہیے تھا کہ ٹھیک ہے، میرا د عدہ ہے “۔

انہوں نے کہا۔ امیر المومنین!میں تو ڈر رہا تھا کہ میں کیسے وعدہ کروں ؟

فرمایا: نہیں ،فورا جاؤ ، قسطنطنیہ کا سفر کرو اور کہو کہ:

”عمر کی بیٹی حاضر ہے تو اسلام قبول کر۔“

چناں چہ وہ واپس ہوئے۔ جب قسطنطنیہ میں داخل ہوئے تو جبلہ بن ایہم کاجنازہ نکل رہاتھا ۔ اس کی قسمت میں اسلام نہیں تھا۔ خاتمہ ایمان پر نہیں ہونا تھا۔ صحابی بے چارے واپس چلے آئےتو میں نے اس پر یہ عرض کیا کہ حاکم ِعدالت جب بادشاہ اور غلام کو، فقیر اورحقیر کو، خادم اور اس کے آقا کو، کرسی عدالت پر بیٹھ کر ایک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ اصول اپنائے ہوئے ہے۔ تو یہی اصل دین و دیانت ہے تو ایک حاکم عدالت یا امیر کرسی عدالت پر بیٹھ کر دنیا کو سنبھال رہا ہے اور امن قائم کر رہا ہے۔ وہ امن جبھی تک قائم ہے۔ جب تک دین و دیانت کے اصول کو برتے اور دین ودیانت کو برتنافی الحقیقت یہی ذکر اللہ ہے۔ تو معلوم ہوا دنیا ذکر اللہ سے قائم ہے ، سیاست سے قائم نہیں۔ ذکر اللہ سے قائم ہے ، تجارت سے قائم نہیں ہے۔ ذکر الله سے قائم ہے۔ زراعت سے قائم نہیں تو دعویٰ اللہ ہی کا سچا رہا کہ دنیا کو تھامنے والے وہ ہیں۔ جو اللہ اللہ کرتے ہیں اور کوئی تھامنے والے نہیں ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا۔ خواہ وہ تاجر، کاشت کار، حکام یا سیاسی لوگ ہوں۔ ان کا دعویٰ غلط ہے۔ دنیا کو تھامنے والے اللہ اللہ کرنے والے ہیں۔

سلاطین دنیا بدنوں پر او راہل الله قلوب پر حکومت کرتے ہیں

ظاہر میں بے چارے اللہ اللہ کرنے والے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ کوئی لاؤلشکر اور فوج ان کے ساتھ نہیں، مگر ان کا سب سے بڑا لشکر اللہ کے ہاں مقبولیت ہے۔ قبولیت عند اللہ ، یہ ان کی سب سے بڑ ی طاقت ہے۔ جس کو مولانا جامی نے ایک موقع پر کہا ہے کہ #
          مبیں حقیر گدایان عشق راکیں قوم
          شہانِ بے کمر و خسروان بے کلاہ اند

یہ جو اللہ اللہ کرنے والے ہیں، یہ اللہ کے عشاق ہیں۔ یہ عاشقان ِ خدا وندی ہیں۔ انہیں حقارت سے مت دیکھو۔ اگر چہ ان کے کپڑے معمولی اور پھٹے پرانے ہوں ۔ اُن کے پاس کوئی کو ٹھی بنگلہ نہیں ہے۔ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں، انہیں حقیر مت سمجھو۔ یہ بادشاہ ہیں ، اگرچہ سر پر تاج نہیں ہے اور لاکھوں روپے کا پٹکا ان کی کمر پر بندھا ہوا نہیں ہے۔ یہ بے تاج بادشاہ ہیں فرق اتنا ہے کہ تاج والا بادشاہ بدنوں پر حکومت کرتا ہے۔ اور یہ دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ بسا اوقات ایک آدمی بادشاہ کی حکومت کے نیچے جبری طور پر ہوتا ہے۔ دل میں عظمت نہیں ہوتی ۔ دل میں لعنت بھیجتا ہے ویسے مجبور ہے۔ لیکن اللہ والوں کی حکومت دل پر ہوا کرتی ہے۔ تنہائی میں بھی ہو گا۔ تو بے ادبی سے ان کا نام نہیں لے سکتا۔ توحقیقی عظمت وہ ہے کہ خلوت میں جائے جب بھی دل میں بھری ہوئی ہو اور مجمع میں آئے جب بھی۔ بادشاہان دنیاکی ظلمت بھرے مجمعوں میں تو ہوتی ہے۔ کیوں کہ ہر ایک کو خطرہ ہے کہ اگر میں نے کوئی گستاخی کی ، تو پولیس آکے گردن ناپ لے گی، جیل جانا پڑے گا۔ اس ڈر کے مارے آدمی بادشاہ کی عزت کرتا ہے۔ تنہائی میں آکر اس پر لعنت کرتا ہےلیکن اللہ والوں کے سامنے بھی اور تنہا بیٹھ کے بھی گستاخی نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ میری آخرت بگڑ جائے گی۔

اہل الله کی بادشاہت دُنیا میں ان کی عدم موجودگی میں بھی قائم ہوتی ہے

پھر یہ کہ ان کی عظمت کے لیے ان کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ وہ نگاہوں کے سامنے چھوڑ ، دنیا میں بھی نہ ہوں پھر بھی عظمت کی جاتی ہے ۔ آج حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے ، قلب جھک جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں۔ رضی اللہ عنہ، اللہ ان سے راضی ہو ۔ آج امام ابی حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل ،امام بخاری کا نام آتا ہے۔ تو آپ عقیدت سے گردن جھکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ رحمة اللہ علیہم اجمعین۔ اللہ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ اتنی گرویدگی ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا نا م لے کرکوئی گستاخی کرے، تو آپ جان دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور اس کو برداشت نہیں کریں گے، حالاں کہ آج دنیا میں دونوں موجود نہیں ہیں۔

مگر عقیدت مندوں کا یہ حال ہے کہ ان کی بادشاہت و عظمت تسلیم کیے ہوئے ہیں۔ یہ عظمت کا ہے کیہے ؟ ان میں سے کسی کے پاس دولت ، تاج اور قبائے شاہی نہیں تھی۔ مقبولیت عند اللہ تھی کہ خدا کے مقبول بندے تھے۔ اس کی برکات ان کے قلوب کے اندر موجو د تھیں۔ اس عظمت کی وجہ سے آج تک آپ کی گردن جھکی ہوئی ہے۔ تو ان کی حکومت دلوں پر ہے اور ایسی کہ وہ دنیا میں بھی نہیں،جب بھی حکومت قائم ہے۔

مسٹر آر نلڈ، یہ سرسید کے زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پر و فیسر تھا۔ اس نے ایک کتاب پریچنگ آف اسلام ( PREACHING OF ISLAM) لکھی ہے ۔ اسلامی تہذیب کے متعلق اس نے دور دکھلائے ہیں کہ اسلام دنیا میں کس کس طرح سے پھیلا ۔عرب ، ہندوستان اور چین میں کیسے پھیلا ۔ اسلامی طور و طریقے اور آداب، مبلغین اسلام کی محنتیں اور جاں فشانیاں اور ان کی جد و جہد ، ان سب پر اس نے روشنی ڈالی ہے۔ اس میں اس نے ایک لطیفہ لکھا وہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں میں نے ایک عجیب چیز دیکھی، جو دنیا میں اور جگہ دکھلائی نہیں دی۔ وہ اسے نہیں دکھلائی دی ہوگی۔ لیکن اور جگہ بھی ہے۔ مگر اسے کم ازکم ہندوستان ہی میں نظر آئیوہ یہ ہے کہ جب میں اجمیر گیا۔ تومیں نے دیکھا کہ ایک شخص قبر میں لیٹا ہوا ہے۔ پورے ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے اور اس کا نام سلطان الہند ہے یعنی حضرت خواجہ اجمیری قدس الله سرہ ان کو گویا ہم امیر الہند، امام الہند، سلطان الہند کہتے ہیں۔ اس لیے کہ خواجہ اجمیری نے ہندوستان میں آکر اسلام کو پھیلایا۔ اجمیر شریف میں چھتر کی ایک کٹی ڈال کر بیٹھ گئے۔ ہندو ،مسلم اور غیرمسلم ان کے دربارمیں حاضر ہوتے، عقیدت سے بیٹھتے ، ان کی زبان فیض ترجمان سے کلمات حقہ سنتے۔ ان کی دیانت ، ان کے معاملات کی صفائی اور خدا پرستی دیکھ دیکھ کر قلوب پر اثر ہوتا۔ ہزاروں آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ۔ خود اسی آرنلڈ نے لکھا ہے حضرت خواجہ صاحب کے ہاتھ پر بلا واسطہ ننانوے لاکھ آدمی مسلمان ہوئے ہیں ۔ اُن کے خلفاء کے ہاتھ پہ جو لوگ مسلمان ہوئے اُن کی تعداد بلا واسطہ جن کو خواجہ صاحب نے مسلمان کیا ، ان کی تعداد ننانوے لاکھ ہے، الگ ہے۔یعنی ایک کروڑ کے قریب افراد ا سلام میں داخل ہوئے۔ انہوں نے پھر آگے جتنوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ ان کی تعداد الگ ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اجمیر میں یہ انوکھا واقعہ دیکھا ہے کہ ایک شخص قبر میں لیٹا ہوا پورے ہندوستان کا سلطان بنا ہوا ہے اور سب کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے ۔ لوگ قبر پہ آتے ہیں تو ان کی حکومت قائم ہے اور بعض تو جاہل شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں،عظمت سہی ان کے دلوں میں ۔مگر جب خلاف شرع عظمت ہوگی، اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ بعض سجدے اور طواف کرتے ہیں۔ مقصد عظمت تھا۔ مگر انہوں نے اس کو غلط طریق پر جاری کیا اور ایک وہ ہیں کہ فاتحہ پڑھتے ہیں۔ استفاضہ کرتے ہیں اور پابند شرع بھی رہتے ہیں۔ اصولِ شریعت کے متبع بھی رہتے ہیں۔ تو اتباع شریعت اور عدم اتباع شریعت تو الگ رہا، مگر عظمت لے کے سب جاتے ہیں۔ حالاں کہ خواجہ صاحب دنیا میں نہیں ہیں ۔ مگر اس کے باوجود ان کی عظمت ایسی قائم ہے کہ اگر خواجہ صاحب دنیا میں تشریف رکھتے اور ہم جا کے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ تو اتنی ہی عظمت وہاں بھی کرتے، جتنی اب قبر پر جا کر کرتے ہیں ۔ تو اس کی حقیقت کیا چیز ہے ؟ یہی کہ ان کی حکومت دلوں کے اوپر قائم ہے تو اللہ والے دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے بادشاہ بدنوں ، پہاڑوں ، پتھروں اور زمین کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ دلوں پر ان کی عظمت و حکومت قائم نہیں ہوتی۔ دل سے لوگ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے ان کا اقتدار ختم ہو جائے اور ہم آزاد ہو جائیں اور اللہ والوں کی نسبت دل سے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اور زیادہ مضبوط ہو جائے۔ ان کی محبت میں اگر ہم فنا ہو جائیں، تو ہم کام یاب ہو گئے، ہماری دنیا بھی بن گئی، آخرت بھی بن گئی۔ تو جامی نے یہ کہا ہے کہ #
          مبین حقیر گدایان عشق را کیں قوم
          شاہان بے کمر و خسروان بے کلاہ اند

اللہ والوں کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو۔ یہ بے تاج بادشاہ ہیں، موجود ہوں تب بھی اور موجود نہ ہوں تب بھی، ساری دنیا ان کی رعیت میں داخل ہے۔ انبیا علیہم السلام کا نام آتا ہے تو عقیدت سے کہتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ، ان پر درود سلام پڑھتے ہیں۔ ان کے صحابہ کا نام آجائے تو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں۔ ان کے خلفاء کا نام آ جائے ، رحمة اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں۔ کسی ولی مومن کا نام آجائے مرحوم و مغفور کہتے ہیں۔ غرض دعاؤں سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی محبت میں فنا ہوتے ہیں تو بات یہ نکلی کہ ان لوگوں کی عظمت ہمارے دلوں پر قائم کیوں ہے ؟ ان کے دلوں میں ذکر اللہ اور یاد خدا وندی ہے۔ یا د حق نے ان کو اللہ سے ملاکر ایسا کر دیا۔ جیسے حدیث میں فرمایا گیا۔ اللہ والوں کی یہ شان ہے کہ اذا رء وا ذکر اللہ جب اللہ کا ذکرآتا ہے تو ان لوگوں کا بھی ساتھ میں ذکر آتا ہے اور جب ان لوگوں کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی اللہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ گویا #
          خاصان خدا خدا نہ باشند
          لیکن از خدا جدا نہ باشند

خاصانِ خدا خدا نہیں ہوتے ۔ لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔ جب اللہ کا ذکر آئے گا تو اہل اللہ کا بھی ذکر ساتھ آئے گا۔ اور جب اہل اللہ کا ذکر آئے گا تو خدا و رسول کا بھی ذکر آئے گا۔ ان کی عظمت در اصل ذکر اللہ سے ہے۔ اسی ذکر سے آدم کی عظمت بھی قائم ہے۔

تو اصل یہ ہے کہ ذکر اللہ ہی در حقیقت سب سے بڑی سلطنت ہے۔ جب یہ سلطنت آجاتی ہے تو ان کی حکومت قلوب پر قائم ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام یا اولیاء اللہ کی نسبت ذکر اللہ کی وجہ سے ہے۔

اہل اللہ دنیا کو کیوں لات مار دیتے ہیں ؟

آخر کوئی دولت تو ہوتی ہے کہ وہ ساری دنیا کی دولت کو لات مار دیتے ہیں ۔ نہ ان کے سامنے دنیا کی وقعت ، نہ اس کی شرکت کی وقعت، نہ تاج و تخت اور محلات کی وقعت، کسی چیز کی بھی وقعت نہیں ۔ یہ جو ساری دنیا کو ٹھکرا دیتے ہیں، کوئی بڑی چیزان کے پاس ہوتی ہے۔ جبھی تو ٹھکراتے ہیں۔ معاذ اللہ کوئی مجنون تھوڑا ، ہی ہیں کہ ساری دنیا کو لات مار دی، بلکہ دنیا سے بڑھ کر سلطنت دی جاتی ہے۔ جب وہ آجاتی ہے تو پوری کی پوری دنیا ان کی نگاہ میں حقیر بن جاتی ہے۔ دنیا کو ضرورت سمجھ کر استعمال کر لیتے ہیں ۔ مگر اس کی عظمت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بڑی چیز ان کے قلب میں موجود ہے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرہ، ان کی خانقاہ میں ہزاروں آدمیوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ذکر اللہ کرنے والے دس دس ہزار مہمان ایک ہی وقت میں خانقاہ میں ہوتے تھے اور لنگر کا کھاناتقسیمہوتا تھا۔ تو حضرت شیخ  سے بادشاہ سنجر بھی بیعت تھا سنجرخراسان کے اندر ایک بہت بڑا ملک تھا۔ اس ملک کا ایک صوبہ تھا۔ جس کو نیمروز کہتے تھے بادشاہ سنجر کی حکومت نیمروز میں بھی تھی۔ چوں کہ حضرت شیخ  کے ہاں مہمان داری ہزاروں کی تھی تو بادشاہ نے کہا کہ شیخ کے گھرمیں نہ جائداد دولت ،کس طرح مہمانوں کی مدارات کرتے ہوں گے؟اس نینیمروز کا پوراصوبہ حضرت شیخ کے نام ہبہ کیا اور لکھ کر بھیجا کہ یہ پورا صوبہ میں آپ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اس کی آمدنی لاکھوں روپے سال کی ہےمہمان داری میں سہولت ہوگی ۔ آپ کے ہاں دشواری ہوتی ہوگی، اس واسطے یہ پورا صوبہ اور جائیداد قبول فرما لیجیے۔

سبحان اللہ! حضرت شیخ نے جواب لکھا، تو وہ جو اس نے پر چہ لکھ کر بھیجا تھا اسی کاغذ پر حضرت نے بادشاہ سنجر کے نام جواب لکھ کر بھیجا اور دو شعر کا قطعہ لکھ دیا
فرمایا:
          چوں چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد
          در دل بود اگر ہوس ملکِ سنجرم

حاصل اس کا یہ تھا کہ بادشاہ سنجر کا جوچتر ہےایک تو بادشاہ کے سر پر تاج ہوتا تھا اور اس کے پیچھے ایک سیاہ قسم کا چتر لگاتے تھے۔ تاکہ اس کا سیاہی میں بادشاہ کا سفید و سرخ چہرہ نظر آئے۔ وہ گو یا عظمت کا نشان سمجھا جاتا تھا کہ سر پر تاج ہو، اس کے پیچھے ایک چتر ہو۔ اس میں سونے کا کام ہو۔ بادشاہ بیٹھا ہوا ہے۔ وہ چتر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا تو حضرت شیخ  نے لکھا کہ بادشاہ سنجر کا جو سیاہ چتر ہے، میرے نصیب پر بھی اسی طرح سیاہی آجائے۔ جیسے بادشاہ سنجر کے چتر کی سیا ہی ہے، کب؟ اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ذرا بھی ہوس پیدا ہو۔ میں بد نصیب اور سیاہ بخت بن جاؤں۔ تو میرے دل میں کوئی ہوس نہیں

ہوس کیوں نہ آئے ؟ اگلے شعر میں اس کا جواب دیا اور وجہ بیان کی ہے۔
فرمایا:
          زا نگہ کہ یافتم خبر از ملک نیم شب
          من ملک نیم روز را بیک جو نمی خرم

جس دن سے مجھے نیم شب کا ملک ہاتھ لگا ہے۔ اس دن سے نیمروز کے صوبے کی میرے دل میں کوئی وقعت باقی نہیں ہے۔ نیم شب کا ملک کیا ہے ؟ یعنی وہ جو آدھی رات میں اٹھ کر دو چھوٹی چھوٹی رکعتیں پڑھتا ہوں ۔ وہ سلطنت جو مجھے ملی ہے۔ اس کے مقابلے میں نیمروز کا ملک میرے نزدیک، جو کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ تو مجھے نیم شب کا ملک حاصل ہے۔ نیمروز کے ملک کی کیا ضرورت ہے ؟ آدھی رات کی سلطنت مجھے حاصل ہے تو آدھے دن کی سلطنت مجھے درکار نہیں ہے #
          خلیل آسا در ملک یقین زن
          نوائے لا احب الاٰفلین زن

حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے چاند اور سورج کو دیکھ کر فرمایا تھا۔ جب غروب ہو گئے ، لا احب الافلین، یہ بھی طلوع ہو کر غروب ہونے والے ہیں، اُبھر کر گرنے والے ہیں، مجھے ان سے کوئی محبت نہیں، مجھے اس ذات سے محبت ہے جو ہر وقت عروج، رفعت اور بلندی کے اوپر ہے ۔ گم ہونے والی چیزوں سے مجھے محبت نہیں ہے۔ اس لیے اہل اللہ کے ہاں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔

تو میں اس پر عرض کر رہا تھا کہ یہ جو ساری دنیا پر لات مار دیتے ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرہ نے پورے صوبے پر لات مار دی اور ٹھکرا دیا۔ فرمایا اگر میں دل میں ذرا بھی ہوس لاؤں تو بد نصیب بن جاؤں، مجھے تیرے ملک سنجر کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دو سرا ملک ان کے ہاتھ میں ہے، جو اس سے بڑا ہے۔ تو جب وہ ہاتھ آجائے تو چھوٹے ملک کی کیا ضرورت رہی؟

اہل اللہ کی سلطنت کی وسعت

حضرت بایزید بسطامی قدس اللہ سرہ اکابر اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ ایک دن ان کی زبان سے ایک بڑا بھاری کلمہ نکلا۔ جب وجد طاری ہوا اور معرفت الٰہی کا ایک نشہ ان پر طاری ہوا اور سکر میں گئے تو زبان سے نکلا۔ ملکی اعظم من ملک اللہ میری سلطنت اللہ کی سلطنت سے بڑی ہے مریدین بے چارے پریشان اور دم بخود جب شیخ کو ہوش آیا اور افاقہ ہوا۔ انہوں نے عرض کیا۔ حضرت !آج آپ کی زبان سے کفر کا کلمہ نکل گیا۔ فرمایا کفر کا کلمہ؟

عرض کیا ۔ جی ہاں ۔

فرمایا: تم نے پھر سزا کیوں نہیں دی ؟تم نے کفر کا کلمہ کیسے برداشت کیا؟ اسی وقت سزا دینی چاہیے تھی ،پھر کبھی کفر کا کلمہ نکلے، فوراً سزا دو۔ ایسا آدمی اس قابل نہیں ہے کہ اسے چھوڑا جائے۔ فوراً اسے تنبیہ کی جائے اور اس کی خبر لی جائے۔ مریدین بے چارے چپ ہو گئے۔ شیخ پر دو چار دن بعد پھر وجد طاری ہوا۔ پھر وہی کلمہ نکلا کہ ملکی اعظم من ملک الله مریدین تیار کھڑے ہی تھے ،شیخ کا حکم تھا۔ کوڑے لے کر شیخ کے اوپر برسانے شروع کر دیے۔ مگر شیخ جس مقام پر تھے۔ وہ کوڑا ان پر تو نہ لگا۔جتنا مارا ، وہ وہ ان کی کمروں پر لگنا شروع ہوئے۔ اب مارنے پر تویوں مجبور کہ شیخ کا حکم ہے اور جتنا مار رہے ہیں خود پٹ رہے ہیں۔ سارے مریدین لہو لہان ہو گئے اور شیخ کاکچھ نہ بگڑا۔ مارتے مارتے جب خود بھی تھک گئے اور ساروں کی کمروں سے خون جاری ہو گیا۔ اتنے میں شیخ کو ہوش آیا تو دیکھا کہ سب ادھ مرے پڑے ہوئے ہیں۔ تو پوچھا بھئی! تم پر یہ مصیبت کیوں آئی ؟ حضور!آپ کا حکم تھا کہ (ایساکلمہ نکلنے پر مجھے مارنا) ہم مارنے کھڑے ہوئے تو پٹے تو ہم۔ حضور پر تو کچھ بھی اثر نہ ہوا۔

فرمایا: آخروہ کیا کلمہ ہے۔ جس کو تم کفر کا کلمہ کہتے ہو ؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت!آپ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ: ملکی اعظم من ملک اللہ․

فرمایا: نا معقولو! یہ کفر کا کلمہ کب ہے؟ یہ تو عین ایمان کا کلمہ ہے۔ اب تم نہ سمجھو تو میرے پاس اس کا کیا علاج ہے ؟ تم نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ لفظوں کو دیکھ لیا۔ یہ تو عین کمال اور عین توحید کاکلمہ ہے حضرت! آخر یہ کیسے ایمان کاکلمہ ہے کہ میرا ملک اللہ کے ملک سے بڑا ہے: ”ولذکر اللہ اکبر ورضوان من اللہ اکبر“ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔

فرمایا! اس کا مطلب سمجھ لو۔ یہ بتلاؤ کہ اللہ کا ملک کیا ہے اور وہ کہاں ہے ؟ اللہ کا ملک زمین ، آسمان ، پہاڑ، ستارے ہیں ۔ میں ہوں تم ہو ، یہ سب اللہ کا ملک ہیں اور میرا ملک کیا ہے ؟ اللہ کی ذات و صفات ، اسی میں میں سیر کرتا ہوں ، اسی میں عروج کرتا ہوں ، رات دن اللہ کی ذات و صفات میں گھرا ہوا ہوں۔ تو میرا ملک تو اللہ کی ذات ہے اور اللہ کاملک میری ذات ہے۔ بتلاؤ پھر میرا ملک بڑا ہے یا اللہ کا ملک ؟

واقعی یہ بزرگ تو ایسے ہیں کہ ماریں اور مار کے رونے بھی نہ دیں، یعنی خود ہر کلمہ کہ دیں وہ تو عین حق ہو جائے اور ہم حق بھی کہیں تو وہ بھی کفر بن جاتا ہے۔ اب اس کا علاج کیا ہے ؟ تو بظاہر یہ کلمہ کفر تھا مگر شیخ نے بتایا کہ یہ عین ایمان کا کلمہ ہے کہ ہمارا ملک اللہ کی ذات وصفات ہے۔ تو ہمارے ملک کے مقابلے میں سارے عالموں کی کیاحقیقت ہے ؟ تو ملک میرا بڑا رہا۔

میرے عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جن کو یہ ملک ہاتھ آجائے۔ وہ اُس ملک کا لالچ کیوں کریں گے ؟جنہیں یہ دولت و سلطنت ہاتھ آجائے کہ اللہ کی ذات و صفات میں سیر کریں اور رات دن عروج کریں۔ ذات وصفات کے عجائبات ان پر کُھلیں۔علوم و کمالات اور معارف نئے سے نئے کھلیں۔ وہ تو اس پُورے جہاں کی طرف رُخ نہیں کریں گے۔ یہ دنیا تو دنیا ہے۔ وہ چاند اور سورج کو بھی ماننے والے نہیں ہیں۔ اُن کی بھی کوئی عظمت نہیں ہے۔(جاری)