ذکر الله

idara letterhead universal2c

ذکر الله

حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی

سارے جہاں ایک طرف ، عرش وکرسی ، لوح و قلم ایک طرف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک ایک طرف ،جو عظمت اس قلب مبارک کی ہوگی۔ وہ عرش و کرسی ، لوح و قلم اور تمام جہانوں کی نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ کا قلب مبارک الله کے ذکر کا خزانہ ہے اور ولذکر الله اکبر، الله کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ جب یہ آتا ہے تو ساری چیزیں ہلکی پڑ جاتی ہیں۔ کسی میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔

الله کے نام کے بغیر بڑی سے بڑی مخلوق کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور یہ کوئی شاعری نہیں ۔ بلکہ ایک حقیقت ہے۔ حدیث میں واقعہ فرمایا گیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی دعوت دینی شروع کی۔ پورے عرب کے اندر آپ کی دشمنی پھیل گئی۔ خود آپ کے عزیز واقر باء دشمن بن کے کھڑے ہو گئے اور کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں آپ صلی الله علیہ وسلم تو الله کا دین پھیلانے والے تھے۔ کسی کی دوستی دشمنی کی آپ صلی الله علیہ وسلم کو کیا پروا تھی ۔ آپ دین پھیلاتے رہے۔ اور ابو طالب، تھے تو اپنے آبائی دین پر ۔ مگر حمایت ومدد حضورصلی الله علیہ وسلم کی کرتے تھے تو قوم کے جتنے بڑے بڑے سردار تھے، وہ جمع ہو کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا اے ابو طالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے ناک میں دم کر دیا ہے۔ وہ ہمارے بتوں کو برا کہتے ہیں۔ ہماری آبائی دین کو یہ ترک کرانا چاہتے ہیں اور نیا دین پیش کر رہے ہیں۔ ہم سے یہ برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ہم اس سے مجبور ہیں کہ تم ان کے حمایتی ہو اور تم ہمارے بڑے اور سردار ہو۔ اس لیے ہم تمہیں واسطہ بناتے ہیں۔ کہ تم اپنے بھتیجے سے ایک دفعہ ہماری طرف سے کھل کر بات کر لو کہ وہ چاہتے کیا ہیں ؟ جو وہ چاہیں ہم دینے کے لییتیار ہیں، مگر خدا کے لییاس کلمہ سے باز آجائیں آپ ایک دفعہ ان پر حجت تمام کردیں، تا کہ ہم لوگ بھی آزاد ہو جائیں۔ پھر جو ہمارا جی چاہے گا ہم کریں گے۔ جوان کا جی چاہے گا وہ کریں گے۔ اب تو تم آڑے آجاتے ہو۔تمہاری وجہ سے ہم مجبور ہیں۔

ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا یا اور کہا کہ:
میرے بھتیجے! تیری قوم کے سردار سب کے سب جمع ہو کر میرے پاس آئے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ آخر تمہارا مقصد کیا ہے ؟ تمہاری قوم یہ کہتی ہے کہ اگر تمہارا مقصد دولت ہے، تو ہم پورے حجاز کی دولت سمیٹ کر، ان کے قدموں میں لا کے ڈالے دیتے ہیں۔ آج سے وہ اس دولت کے مالک اور ہم ان کے تابع اور اگر ان کا مقصد حسن و جمال ہے تو حجاز کی جتنی بیٹیاں ہیں ، تو وہ سامنے کیے دیتے ہیں۔ جتنیچاہیں وہ پسند کر لیں۔ ہم ان کی خدمت میں پیش کر دیں گے اور اگر وہ اقتدار و حکومت چاہتے ہیں تو ہم سارے مل کے آج سے انہیں اپنا بادشاہ تسلیم کیے لیتے ہیں۔ جو وہ چاہیں اس کے لیے ہم تیار ہیں۔ دولت، اقتدار اور بیٹیاں حاضر ہیں ۔ یہ لے لیں، مگر خدا کے لیے یہ کلمہ بلندنہکریں، ہمارے بتوں کی توہین نہ کریں۔ اس سے باز آجا ئیں اور ہم سب چیزیں دینے کوتیار ہیں۔

ابو طالب نے کہا کہ میرے بھتیجے! تیری قوم یہ کہہ رہی ہے اور مجھے قاصدبنا کے بھیجا ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے چچا آپ نے جو کہنا تھا، کہہ چکے ؟ کہا کہ ہاں کہہ چکا۔

فرمایا: اب میری سن لیجیے ۔ فرمایا:
”خدا کی قسم! اگر میری قوم میرے دائیں ہاتھ پر سورج لاکے رکھ دے اور بائیں ہاتھ پر چاندلا کے رکھ دے تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑوں گا یا عالم میں اس کلمہ کو پھیلا کر رہوں گا یا اپنی جان ختم کر دوں گا۔“

اس سے اندازہ ہوا کہ دنیا تو دنیا ہے، چاند ، سورج اور آسمان کی چمک دمک کو آپ نے ٹھکرا دیا۔ یہ کلمہ جب تک میرے پاس ہے ، نہ مجھے چاند عزیز ہے نہ سورج ۔معلوم ہوا یہ کلمہ چاند، سورج سے بھی زیادہ اونچی چیز ہے یہ اللہ کا نام ہے، اللہ کے نام سے ہی تو عالم زندہ ہے، چاند، سورج بے چارے کی حقیقت کیا ہے؟

حدیث میں آپ نے دعا مانگی ہے۔ جس کے لفظ اس قسم کے ہیں کہ میں اس نام سے التجاکررہا ہوں، جو تو نے قرن شمس پر لکھا ہوا ہے۔ آفتاب کے اوپر جو آپ نے نام لکھا ہے اس کی وجہ سے آفتاب کو زندگی ملی ہے ۔میں اس نام سے تیرے سے دعا کرتا ہوں ۔تو چاند اورسورج کی زندگی اللہ کے نام سے ہے۔ عرش عظیم اگر ز ندہ ہے تو اس کے پایوں پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ اسی نام سے وہ قائم ہے تو ذکراللہ اور نام خداوندی سب سے اُونچی چیز ہے۔ اس کے مقابلے میں سورج ، چاند، حتیٰ کہ عرش و کرسی کی بھی کوئی حقیقت نہیں ،عرش و کرسی کی عظمت بھی تو اللہ ہی کے نام سے ہے۔ اگر اللہ میاں عرش وکرسی سے اپنے نام کو جدا کردیں تو ہزار عرش و کرسی ہوں، کوئی وقعت نہیں، لیکن چوں کہ اللہ کے نام لگ گئے ہیں۔ اس واسطے وہ با عظمت بن گئے۔

قلب محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) ذکر اللہ کا خزانہ ہے

اس سے اندازہ کیجیے کہ سارے جہاں ایک طرف ، عرش و کرسی اور لوح و قلم ایک طرف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک ایک طرف، جو عظمت اس قلب کی ہوگی،وہ عرش و کرسی، لوح و قلم اور تمام جہانوں کی نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ کا قلب مبارک اللہ کے ذکر کا خزانہ ہے اور ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾ اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ،جب یہ آتا ہے تو ساری چیزیں ہلکی پڑ جاتی ہیں۔ کسی چیزمیں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔

اللہ کے اسم مبارک کا وزن

حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ میدان محشر میں ایک شخص حاضر ہو گا اور گنا ہوں کے ننانوے دفتر اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اتنے گناہ کیے ہوں گے۔ کہ ننانوے دفتر گنا ہوں سے بھرے ہوئے ہوں گے اور ایک ہی دفتر اتنا بڑا ہوگا کہ اسے پھیلایا جائے تو ز مین آسمان اس میں چھپ جائیں تو بقایا اٹھانوے دفتر کتنے بڑے ہوں گے ؟ مطلب یہ ہے کہ اس کے گناہ اتنے زیادہ ہوں گے کہ جہانوں میں اس کی سمائی نہیں ہوگی۔

وہ میدان محشر میں حاضر ہو گا۔ حق تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی ۔ وہ دفتر سامنے رکھے جائیں گے اور وہ دل میں یقین کییہوئے کہ میری نجات کی کوئی صورت نہیں ۔ننانوے دفترہیں۔

تو یہ تیار ہے کہ حق تعالیٰ ابھی حکم دیں گے کہ اسے جہنم میں پہنچاؤ۔ یہ اسی قابل ہے۔

حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے بندے !یہ گناہ تو نے کیے ؟ عرض کرے گا۔ یا اللہ !میں نے کیے۔ فرمائیں گے تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟ کہے گا کہ اے اللہ!کوئی عذر نہیں محض اپنی سیاہ بختی، شقارت اور بد نصیبی سے میں نے یہ برے اعمال کیے کوئی حجت میرے پاس نہیں ۔ میں نے اپنے نفس کی خواہشات پوری کی ہیں۔ لذاتِ نفس میں گرفتار تھا۔ کسی حجت اور دلیل سے میں نے یہ گناہ نہیں کیے اب اسے یقین ہے کہ ابھی حکم ہوگا کہ اچھا پھرجا جہنم میں تیرا ٹھکانا ہمارے پاس نہیں۔

حق تعالیٰ فرمائیں گے۔ تیرے ان ننانوے دفتروں میں تیری ایک نیکی بھی ہمارے ہاں ہے۔ تو ایک چھوٹی سی پرچی نکلے گی کہ ساری عمر میں اس نے نیکی کیا کی؟ بس لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

یہ کلمہ پڑھا ،گو یا بس مسلمان تھا۔ ایک دفعہ کلمہ پڑھا، یہی ایک نیکی۔ باقی کوئی اور نیکی اس کے پاس نہیں تو ننا نوے دفتروں میں نیکی کی ایک چھوٹی سی پرچی پڑی ہوئی ہوگی حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ تیری ایک نیکی یہی ہے اور جا کے میزان عمل میں اپنا نامہٴ اعمال تلوا اور اپنی نگرانی میں تلوا۔ وہ بندہ عرض کرے گا کہ اے اللہ!آپ مجھے کیوں رُسوا کرتے ہیں؟

رب ما ہٰذہ البطاقة؟اے اللہ!ان ننانوے دفتروں کے مقابلے میں یہ ذرا سی پر چی کیا حقیقت رکھتی ہے؟ میں تو جہنم کے قابل ہوں، مجھے جہنم میں بھیج دیجیے۔ میرے پاس کوئی عذر نہیں ۔ حق تعالیٰ فرمائیں گے نہیں، لا ظلم الیوم ․ ہمارے ہاں ظلم نہیں ہے۔ رتی رتی کا حساب ہو گا۔ ان اعمال کو جا کے تلوا۔ کبھی تجھے یہ خطرہ پیداہو کہ میرے ملائکہ نے تیرے اوپر کوئی ظلم کر دیاناپ تول میں کوئی کمی کر دی۔

یہ پھر عرض کرے گا۔ یا اللہ!آپ مجھے کیوں رسوا کرتے ہیں؟ فرمائیں گے: نہیں، تلوا۔جا کے یہ تلوا ئے گا۔ تو ایک پلڑے میں ننانوے دفتر رکھے جائیں گے۔ ایک پلڑے میں یہ پرچی رکھی جائے گی۔ جب تولیں گے تو ننانوے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے۔ اور وہ پرچی کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور تول میں غالب آجائے گا۔ فرمائیں گے تیرے لیے جنت اور نجات ہے اور وجہ بیان فرمائیں گے۔ ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾ اللہ کا ذکر سب سے وزنی چیز ہے۔ تو لاکھوں برس گناہ کرتار ہے، لیکن ایک دفعہ سچی توبہ کرلے ۔ اس توبہ کاوہ وزن ہے کہ ان لاکھوں برس کے گناہوں میں وہ وزن نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اللہ کے نام میں جو عظمت و وزن ہے۔ وہ عالم کی کسی چیز کے اندر نہیں ہے اس کو نجات دے دی جائے گی۔ تو یہ ہے ﴿ولذ کر اللہ اکبر﴾کہ ایک ذراسی پر چی ننانوے دفتروں پر غالب آگئی ۔ خدا جانے اس نے کس اخلاص سے یہ اللہ کا نام لیا ہو گا کہ اس اخلاص کے وزن نے ہر چیز کو ہلکا کر دیا۔

حضورِ قلب سے ذکر میں وزن پیدا ہوتا ہے

اصل میں وزن جو ہے وہ اخلاص کا ہوتا ہے۔ ہم رات دن اللہ اللہ کہتے جائیں، لیکن غفلت کے ساتھ کریں۔ روح کے اندر بے داری اور دل میں خلوص نہ ہو۔ دنیا کے دکھلاوے کے لیے ہو، تو اللہ اللہ تو کیا۔ مگر یہ اللہ اللہ ڈھانچہ ہے۔ اس میں روح نہیں ہے ، جس سے قدر و قیمت بڑھتی ہے اور وزن قائم ہوتا ہے۔ یہ وزن در حقیقت وہ یاد ہے، تو صرف اللہ کہہ دینا کافی نہیں ہے، جب تک کہ لفظ اللہ کے ساتھ دل کی یاد بھی شامل نہ ہوں۔ زبان سے اللہ اللہ ہو اور دل میں غفلت بھری ہوئی ہو۔ جس کو مولانا رومی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ #
            بر زبان تسبیح، در دل گاؤخر
            ایں چُنیں تسبیح کے دارد اثر

زبان پر تو تسبیح جاری ہے ۔ مگر دل میں گھر بار کے خیال بھرے ہوئے ہیں۔ بات دکان کی سوچ رہا ہے اور زبان پر الله اللہ جاری ہے۔ یہ ذکر تو ہے، مگر قلبی ذکر نہیں، زبانی ذکر ہے۔ تو جو زبان سے اللہ اللہ کہا جائے، دل ساتھ نہ ہو، وہ کافی نہیں ہے۔ وہ بلا روح ڈھانچہ ہے۔ وہ ڈھانچہ کتنا ہی بڑا ہو، اس کی کوئی وقعت نہیں۔ کسی پہلوان کا لاشہ پڑا ہوا ہو اور بڑا ڈیل ڈول کا ہو۔ مگر انتقال ہو چکا ہو۔ اس کی کیا قدر وقیمت ہے؟

اور ایک دق زدہ مریض ہے۔ اٹھنے کے قابل نہیں۔ مگر زندہ ہے، اس کی وقعت ہے۔ اگر اسے کوئی قتل کر دے گا تو پھانسی چڑھے گا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ صاحب!یہ تو ایک منٹ میں خود ہی مرنے والا تھا۔ آپ مجھے کیوں پھانسی دیتے ہیں؟ یہ مرتا ہی ، میں نے لاٹھی مار دی، مر گیا …کہا جائے گا کہ جان دار کو مارا ہے۔ جان پر حملہ کیا۔ اس لیے تجھ سے قصاص لیا جائے گا اور پہلوان کی لاش پر پچاس لاٹھی مار دے، کوئی قصاص نہیں۔ اس لیے کہ اس میں جان ہی نہیں تھی۔ اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں، پتھر کی زیادہ قیمت ہے۔ لاش کی کوئی قیمت نہیں۔ ایک پتھر آپ کا چندروپے میں بک جائے گا اور لاش دس پیسے میں بھی نہیں بکے ۔ اس واسطے کہ پتھر کو ستون بنا کے کھڑا کر کے عمارت تو بنائیں گے اور لاش کو آپ کہاں کا ستون بنا دیں گے ؟ وہ کسی کام کی نہیں۔ وہ یا تو دفنائی جائے یا جلائی جائے یا بہائی جائے۔ اس کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں ۔ تو اصل میں قدر و قیمت جان سے ہوئی ہے۔ الله الله کرنا، نماز پڑھنا، زکوٰة دینا یا حج کرنا ایک ڈھانچہ ہے ۔ اس کی روح ذکر اللہ یعنی یادِ حق ہے۔ دل میں بے داری، تنبہ اور اللہ سے لگاؤ یہ روح ہے۔ جب یاد نہیں تو زبان سے کتنے ہی لفظ ادا کرلیں ان کی کوئی قیمت نہیں۔ جب تک لفظ کے اندر معنی نہ ہوں۔ معنی کی اصل میں قدر وقیمت ہے تو قیامت کے دن ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾کا ظہور ہوگا کہ ایک اتنی پر چی ننانوے دفتروں پر غالب آئے گی۔ اس لیے کہ اس نے صرف لفظ اللہ نہیں کہا تھا، بلکہ اللہ کہنے میں اس کا اخلاص اور قلب کا لگاؤ شامل تھا تو ذکر کے معنی اللہ اللہ کہنے کے نہیں ۔ ذکر کے معنی دل کے بیدار ہونے کے ہیں کہ یاد رکھی ہوئی ہو۔ اس یاد سے کلمات نکل رہے ہوں۔ وہ کلمات یا د خداوندی کے اندر ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ذکر اللہ کہلاتا ہے۔ وہ جب دل میں ہو گا تو چھوٹے سے چھوٹا جملہ بھی کہے گا۔ اس کی بھی قدر و قیمت ہو گی۔

الفاظ میں جذبات قلب سے تاثیر پیدا ہوتی ہے

اللہ والوں کے چھوٹے جملوں میں بھی تاثیر ہوتی ہے۔ وہ لفظوں سے نہیں ہوتی۔ وہ لفظوں کے اندر معنی اور دل کی یاد بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی تاثیر ہوتی ہے۔ جو دلوں پر پڑتی ہے۔ ورنہ محض شاعری کی کیا تاثیر ہے۔ کوئی بڑی اچھی فصیح و بلیغ کلام بول دے، شاعروں سے بڑھ کر فصیح و بلیغ کون ہو گا، لیکن شاعر پچاس غزلیں پڑھ لے۔ اثر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لوگ واہ واہ تو کر دیں گے، لیکن آگے اس کا کوئی اثر نہیں۔ لوگ دل میں کچھ نہیں لے کے جاتے، اس لیے کہ اس کے اندر معنی نہیں ہیں، محض لفاظی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کوئی شاعر کسی امیر کے ہاں گئے تھے۔ تو انہوں نے جا کے وہاں قصیدہ پڑھا اور شعر ہے ہی وہ جس میں جھوٹ زیادہ ہو اور سچ کم ہو۔ اگر شعر کے اندر ساری سچی کچی باتیں ہوں ، وہ شعر ہی کیا ہوا ؟ تو جب تک اس میں مبالغے اور بہت سی باتیں جھوٹ نہ ہوں،شعر بنتا نہیں ۔ کسی نے کہا ہے کہ شعر کی تعریف کیا ہے کہ احسنہ اکذبہ ۔جو سب سے زیادہ جھوٹا شعر ہو گا ، وہ سب سے زیادہ عمدہ شعر ہو گا۔ اس لیے کہ اس میں مبالغہ زیادہ ہو گا ۔ تو لفظ ہی لفظ ہوتے ہیں ،معنی اس کے اندر نہیں ہوتے۔ خیروہ شاعر صاحب ایک لمبا چوڑا قیصدہ نواب کی شان میں لکھ کے لے گئے اور اس میں خوب ایران توران کی ہانکی کہ آپ کا جو تخت سلطنت ہے۔ اس کا پایہ آسمان کے اوپر رکھا ہوا ہے اور آپ کی یہ کلاہ تاج ہے اس کا کنگر ساتویں آسمان تک پہنچا ہوا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے ثریا بھی ماند ہے اور چاند کی کوئی روشنی نہیں جو آپ کی آنکھوں میں چمک ہے اور آپ کے ہا تھ میں جو قوت ہے ۔ تو بجلی بھی وہ کام نہیں کر سکتی، جو آپ کا ہاتھ کرے گاغرض ایران توران کی ہانکی

امیر صاحب بہت خوش ہوئے کہ اس نے بڑی تعریف کی۔ تو قصیدہ سنتے ہی کہا کہ پر سوں کو آنا ،تمہیں ہم دو ہزار روپیہ انعام کا دیں گے۔ یہ بہت خوش ہو گئے اور جاتے ہی پانچ سو رو پے قرض بھی لے لیے اور گھرمیں مرغا بھی پک رہا ہے اور لباس وغیرہ بھی خوب بنائے کہ پر سوں کو تو دو ہزار روپے مل ہی جائیں گے ۔ پانچ سو قرضے کے ادا کر دیں گے۔تو ان میں سے پھر بھی باقی بچ جائیں گے۔ مجھ سے زیادہ اب امیر کون ہو گا…

چناں چہ وہ حسب وعدہ بڑی عمدہ شیروانی پہن کے وہاں پہنچ گئے۔ اب وہ امیر صاحب بیٹے ہیں، نگاہ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتے۔ انہوں نے سلام کہا۔ انہوں نے گردن بھی نہیں اٹھائی، تھوڑی دیر تو یہ بیٹھے، اس کے بعد کھنکار نا شروع کیا۔ مگروہ امیر صاحب نے جب بھی کچھ نہیں سمجھا۔ آخر کو یہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ حضور میں حاضر ہوں۔ آپ کون ہیں ؟ وہی جو پرسوں شاعر آیا۔ قصیدہ کہا تھا۔ تو حضور نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دو ہزار دیں گے، میں اس وعدے کے مطابق حاضر ہوا ہوں ۔ فرمایا: تم بڑے بے وقوف آدمی ہو۔ ارے بھائی! تم نے ہمیں لفظوں سے خوش کیا تھا۔ ہم نے بھی لفظوں سے خوش کر دیا تھا۔ نہ ان لفظوں کے کوئی معنی تھے ،نہ ان لفظوں کے کوئی معنی، جو قصیدہ کہا تھا۔ ان لفظوں کے بھی کوئی معنی نہیں تھے، ہم نے دو ہزار کے لفظ کہے تھے۔ تو ان لفظوں کے بھی کوئی معنی نہیں۔ بڑے بے وقوف آدمی ہو، تمہیں صلہ مل چکا۔ اس نے کہا۔ حضور !میں تو پانچ سوروپے قرض بھی لے چکا ہوں …اگر تم نے لیے تو جھک مارا۔ کس نے تم سے کہا تھا؟ معلوم ہوا تم بے وقوف بھی ہو۔ شاعر نہ ہوتے، عقل مند توہوتے ، عقل کی کچھ تو قیمت ہوتی۔

تو حقیقت یہی ہے کہ لفظوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ جب تک لفظوں کے اندر معنی نہ ہوں اور معنی کے اندر دلی جذبات نہ ہوں ۔ اس وقت تک لفظوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ہم جیسا کوئی الله اللہ کرے گا تو وہ محض زبان سے ہو گا، دل کی بیداری شامل نہیں ہوگی اور اللہ والے جو اللہ اللہ کرتے ہیں تو دل کا ذکر محبت و معرفت ، لگاؤ،نسبت اور تعلق اس میں شامل ہوتا ہے ۔ اس لیے جو لفظ نکلتے ہیں، وہ قلوب کے اوپر تاثیر کرتے ہیں۔

حضرت قطبِ عالم شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ ،جو سلسلہ چشتیہ کے اکابر میں سے ہیں۔ ان کے صاحب زادے مولانا رکن الدین پڑھنے کے لیے دہلی گئے اور آٹھدس برس کے بعد بڑے اچھے عالم بن کے آئے ۔ مریدین نے عرض کیا حضرت ، صاحب زادے عالم بن کے آئے ہیں۔ اگر وعظ کر دیا جائے … فرمایا: ہاں بھئی!ضرور کہلاؤ ۔ جب علم پڑھا ہے تو علم کا اثر ظاہر ہو، دوسروں کو مسائل معلوم ہوں۔ صاحب زادہ کھڑے ہوئے اور بڑا عمدہ وعظ کہا۔ تمام لوگ خوش ہوئے۔ بہت سے مسائل بیان کیے ، لوگوں نے مسائل سیکھے، تعریف کی، لیکن کوئی خاص اثر پیدا نہ ہوا کہ لوگ رونے لگے ہوں یا آپے سے باہر ہوئے ہوں۔ یہ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ ہوا کہ بہت اچھے صحیح مسئلے بیان کیے۔دل میں قدر وقیمت تھی۔

جب مولانا رکن الدین وعظ کر چکے۔ تو حضرت قطب عالم منبر کے قریب کھڑے ہوئے۔ ایک جملہ کہا۔ فرمایا:
بھائی!رات عجیب بات پیش آئی۔ رکن الدین کی ماں نے فقیر کے لیے کھیر پکائی تھی۔ وہ کھیر پکا کے کھونٹے پر رکھ دی، بلی جو آئی ،وہ کھا کے چلی گئی ۔ فقیرمحروم رہ گیا۔“

بس یہ کہنا تھا کہ ایک دم جو لوگوں پر گر یہ طاری ہوا اور کپڑوں کو پھاڑ ڈالا اور مسجد میں ایک طوفان بپا ہوگیا۔ اب اس میں آخر کیا چیز تھی ؟ کھیر پکی رکھی تھی ، بلی آئی ،وہ کھا گئی۔ تو یہ کون سے حقائق و معارف تھے؟ مگر حقیقت میں وہ جو قلب کی تاثیرات تھیں ان تاثیرات نے ان الفاظ کو آلہ بنایا اور الفاظ نے کانوں کو کھٹکھٹایا اور دل کی تاثیر الفاظ کے راستے سے دل پر پڑی اور دلوں میں محبت الٰہی بھری اور انہوں نے چیخنا اور چلانا شروع کر دیا۔ تو یہ لفظوں کا اثر نہیں تھا۔ شیخ کے قلب کا اثر تھا۔ اصل میں اہل اللہ دل میں اثر ڈالتے ہیں۔ الفاظ محض ان کا آلہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ کسی اللہ والے کے پاس سے آپ قلب میں کوئی اثر لے کے جائیں۔ کوئی آخرت کا ، دین کی عظمت و محبت کا۔ وہ الفاظ کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ قلب کی تاثیر ہوتی ہے۔ اگر اس کے قلب میں کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ بہتر سے بہتر لفظ کہتا۔ آپ اس سے کوئی بھی اثر نہ لیتے۔ لفظ تو اثر نہیں کرتے، وہ معانی کرتے ہیں۔ تو معانی لفظوں کے اندر وہی ذکر اللہ اور یاد خدا وندی ہے ۔ وہی تاثیر و تصرف ہے، جس سے قلوب جگمگا اُٹھتے ہیں۔ قلوب کے اندر حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو قرآن کریم نے فرمایا:﴿ولذکر اللہ اکبر﴾سب سے زیادہ وزنی چیز، سب سے زیادہ پر عظمت چیز، وہ اللہ کی یاد ہے کہ دنیا و مافیہا اللہ کی یاد کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

یاد حق دل میں آجائے تو بندہ عرشی ہو جاتا ہے

جب بندے کے دل میں یہ یاد آجاتی ہے تو لاکھوں سلطنتیں ایک طرف اور یہ چیز ایک طرف، اس کے ہوتے ہوئے کسی چیز کی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

شاہ غلام علی صاحب رحمہ اللہ، جو حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ کے خلفا میں سے ہیں اور سلسلہ نقشبندیہ کے بڑے اکابر میں سے ہیں۔ ان کے ہاں بھی مہمان داری بہت تھی اور مریدین کا ہجوم رہتا تھا۔ دو اڑھائی سوتک آدمی ، ان کے مریدین میں سے نواب میر خاں، جو ہندوستان میں ریاست ٹونک ہے، اس کے والی تھے۔ وہ حضرت شاہ غلام علی صاحب سے بیعت تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ شاہ صاحب کے ہاں مہمان داری بہت ہے او رکوئی دولت، جاگیر، جائیداد ہے نہیں۔ تو انہوں نے ریاست ٹونک کا ایک ضلع ان کے پاس لکھ کر بھیج دیا کہ یہ میں آپ کو دیتا ہوں ۔ اس کی ہزاروں روپے ماہانہ آمدنی ہے۔ مہمانوں کا خرچ چلے گا اور وہ پیتل کے تپرے پہ لکھ کے بھیجا کہ یہ میں بنام حضرت شاہ غلام علی  عطیہدیتا ہوں ، یہ شاہ غلام علی کے پاس پہنچا اور حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ آپ کے مرید نواب میر علی خاں ہیں ۔ انہوں نے یہ پورا ضلع ہدیہ پیش کیا ہے۔

اس کی پشت پر شاہ غلام علی صاحب نے جواب میں ایک شعر لکھ کے بھیج دیا جیسے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے ایک قطعہ لکھ کر بھیجا تھا۔ انہوں نے بھی ایک شعر لکھ کر بھیج دیا اور وہ شعر یہ تھا کہ #
            ما آبروئے فقر وقناعت نمی بریم
            بامیر خان بگوئے کہ روزی مقدر است

ہم اپنے فقر و فاقہ کی آبر وکھونا نہیں چاہتے۔ میرخاں سے کہہ دو کہ روزی مقدر ہےاور وہ آسمان سے آرہی ہے۔ تمہارے ضلع کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ یہ اتنی استغنا اور اتنی بیداری اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک دل کے اندر کوئی خاص دولت جمع نہ ہو، وہ دولت یہی ذکر اللہ کی تھی۔ ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾ اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ تو ضلع ، صوبہ پوری دنیا تو کیا چیز ہے۔ ذکر اللہ کے سامنے چاند اور سورج کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔ جب وہ قلب میں آجاتا ہے تو بندہ پھر عرشی بن جاتا ہے، عرش کے اوپر کی باتیں کرتا ہے ۔ نیچے کی نہیں کرتا۔ تو یہ ہے وہ ذکر اللہ جو ساری شریعت اور کائنات کی روح ہے۔ اگر اس دنیا میں سے ذکر خداوندی نکل جائے ، اسی دن قیامت آجائے گی اور خیمہ ختم کر دیا جائے گا اور اگر کسی کے قلب میں سے نکل جائے ۔ اسی دن ایمان و اسلام ختم ہے۔ کسی قوم میں سے نکل جائے، وہ قوم بھی بے عزت، اس کی آبرو اور عزت بھی ختم تو ہر چیز میں دولت، عزت، حکومت کچھ بھی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک دین و دیانت، یاد الٰہی اور یاد خداوندی شامل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک عالم میں کوئی چیز زندہ نہیں ہوتی۔ کیوں کہ سب چیزوں کی روح یہ ہے۔

ذکر اللہ کا مظہر اتم

اس کا سب سے بڑا مظہر اتم ،جس سے ذکر الٰہی ظاہر ہوتا ہے چوں کہ نماز تھی۔ اس لیے قرآن کریم نے اس سے پہلے فرمایا:﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنکَر﴾ نمازفحش سے، بے حیائی کی باتوں اور منکرات سے بچاتی ہے، جو شریعت میں گناہ ہیں ۔ ان سب چیزوں سے نماز بچاتی ہے اور آگے بطور دلیل کے فرمایا: ﴿وَلَذِکْرُ اللَّہِ أَکْبَرُ﴾نماز کی روح ذکر ہے اور ذکر سب چیزوں سے بڑا ہے۔ ذکر کی روشنی جب آئے گی تو کوئی ظلمت اور تاریکی اس کے آگے ٹھہر نہیں سکتی۔ گناہ ہو ، کچھ ہو ، سب ختم ہو جائے گا۔

اس سے ایک شبہ کا جواب نکل آتا ہے۔ وہ یہ کہ آپ کو شاید یہ سوال پیدا ہو کہ ہم تو خوب پابندی سے نماز پڑھتے ہیں مسجدیں بھی بنواتے ہیں ۔ لاکھوں روپے بھی اس میں لگواتے ہیں اور بچے بچے کو لاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود منکرات میں مبتلا ہیں، بعض بے غیرتی اور بے حیائی کی باتیں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔ نماز ی بھی ہیں ۔ مگر یہ حرکتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ تو اللہ کا وعدہ ہے کہ نماز فحش اور منکرات سے بچا دیتی ہے۔ حالاں کہ ہم نمازی بھی ہیں پھر بھی منکرات میں مبتلا ہیں۔

اس شبہ کا سرسری جواب تو یہ ہے کہ آپ اس سے مقابلہ کیجیے جو بالکل نماز نہیں پڑھتا۔ اس میں کتنے منکرات ہیں اور نمازی میں کتنے ہیں۔ زمین وآسمان کا فرق دکھائی دے گا۔ نماز پڑھنے والا اگر مبتلا بھی ہو گا۔ تو اتنی برائی نہیں ہوگی۔ جتنی بے نمازی کے اندر ہوتی ہے۔ نمازی کے دل میں پھر بھی خوف خدا تھوڑا بہت موجود ہو گا ۔ تو ایک جواب تو یہ ہے، جو سرسری ہے۔ کہ اللہ کا ذکر اور نماز بلاشبہ منکرات سے بچاتی ہے اور آپ نہیں بچ رہے ہیں۔ تو یہ اصل میں زیادہ میں مبتلا نہیں ،کم میں مبتلا ہیں۔ جو بالکل نماز نہیں پڑھتے۔ وہ اس سے زیادہ میں مبتلا ہیں۔ تو کسی نہ کسی حد تک تو آپ کو نماز نے بچا دیا۔

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ ، ہمارے مرشد بھی ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم وہی ہیں۔ مُلّا محمودسب سے پہلے استاد اور مولانا محمود سب سے پہلے شاگرد ہیں۔ یہ دارالعلوم کا ابتدائیہ ہے کہ دو محمودوں سے ابتدا ہوئی #
            الہی عاقبت محمود گرداں

جب ابتدا محمود ہے تو ان شاء اللہ عاقبت بھی محمود ہے حضرت شیخ الہند کے خدام میں حضرت مولانا عزیر گل صاحب مدظلہ ہیں۔ یہ سادات میں سے تھے۔ مگر ہیں سرمدی، تو وہاں کے سادات کو بھی خان ہی کہتے ہیں۔ سب پٹھان کے لقب سے معروف ہیں، پٹھان اور خان گویا ان کے ہاں ایک عظمت کا لفظ ہوتا ہے۔

میرا جب افغانستان جانا ہوا تو وہاں کے اخبارات نے شائع کیا کہ ”مولانا محمد طیب خان “۔ حالاں کہ میں پٹھان نہیں مگروہ خان عزت وعظمت کا لفظ ہے۔ تو مولانا عزیر گل صاحب ،گویا انہیں معرفت کے لحاظ سے سرحدی پٹھان کہنا چاہیے۔ یوں تو سادات میں سے ہیں۔

وہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے مزاج میں بڑے دخیل اور بعض دفعہ اتنے جوش سے بات چیت کرتے تھے۔

جیسے کوئی اپنے سے چھوٹے سے کر رہا ہے، یعنی اتنے دخیل تھے کہ بعض دفعہ بے ادبی کی بات ہو جاتی تھی۔ مگر حضرت کچھ خیال نہیں کرتے تھے۔

ایک دفعہ صحیح بخاری کے درس میں انہوں نے سوال کیا اور کہا حضرت! یہ مسئلہ کیسے ہے؟ حضرت نے سرسری جواب دے دیا، بس کہنے لگے کہ خود کو نہیں آتا ۔ اور سر سری جواب دے کے آگے چل دیے ۔ پڑھانے کے لیے بیٹھ گئے اور جواب دینا آتا نہیں تو اس طرح سے بہت زیادہ بے تکلف تھے۔ یہ ان کی عام بات تھی کہ جب ہم لوگوں سے گفت گو شروع کرتے تو وہ آپ سے شروع کرتے ۔ آپ نے یہ کہا، آپ نے یہ کہا۔ اس کے بعد جب جوش آتا تو ” تم “کہتے ،تم نے یہ کہا ، تم نے یہ کہا۔ اس کے بعد ”تو نے یوں کہا‘تو نے یوں کہا،“اور اس کے بعد یہ کہ ارے خبیث !تو نے یہ کیوں کہا؟ تو آپ سے شروع ہو کے” خبیث “ پہ انتہا ہوتی تھی۔ یہ ان کا ایک عام طرز تھا تو بے تکلف بہت اور حضرت کی شان میں بعض جگہ بے ادبی کے کلمات کہہ دیتے تھے۔ ایک شخص نے حضرت شیخ الہند سے یہ عرض کیا کہ حضرت! اتنے دنوں وہ آپ کی صحبت میں رہے اور انہیں تہذیب نہ آئی۔ اتنے بے ہودہ اور بھدے کلمات کہہ دیتے ہیں۔ بیس پچیس برس آپ کی صحبت اٹھائی اور پھر بھی آدمی نہ بنے۔

حضرت نے فرمایا۔ یوں خیال کرو، اگر یہ بیس پچیس برس صحبت میں نہ رہتے تو کیا ہوتے ؟ جب رہ کر اتنے ہوئے ، اگر بالکل نہ رہتے تو کیا ہوتے ؟

تو وہی میں کہہ رہا ہوں کہ نماز پڑھ کر اتنی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ بالکل نہ پڑہتے تو کیا ہوتے؟ اور کتنی برائیاں کرتے ؟ تو سیدھا جواب تو یہ ہے کہ نمازی اگر مبتلا بھی ہو گا تو کم مبتلا ہوگا۔ بے نمازی کا زیادہ مبتلا ہو گا۔

لیکن اصل جواب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے باوجود اگر آدمی فحش سے نہیں بچتا، بیحیائی اور برائی سے نہیں بچتا۔ اس نے نماز ی ڈھانچہ قائم کیا۔ وہ جو ذکر اللہ کی روح ہے،وہ قلب کے اندر نہیں ہے۔ روح ہوتی ، یقینا بچ جاتا۔ تو نماز بے حیائی سے بچاتی ہے،جب کہ نماز جان دار ہو۔ اور اگر بے جان پڑھے جس کے اندر روح ہی نہ ہو۔ تو لاشہ اور ڈھانچہ کوئی چیز نہیں۔ وہ تو کام نہیں کر سکتا۔ تو نماز بھی کام نہیں آسکے گی۔ نماز اٹھک بیٹھک کا نام نہیں ہے۔ نماز عظمت خداوندی اور یاد حق کا نام ہے کہ دل الله کی یاد میں غرق ہے۔ دوسری چیزیں دل سے فنائے محض ہو جائیں، تو جتنی یا دِ زیادہ ہوگی، اتنا ہی بے حیائی سے بچے گا۔ جتنی کم ہوگی ، اتنا ہی کم بچے گا، بالکل نہیں ہوگی، تو چاہے پانچوں وقت نماز پڑھے ، جب بھی نہیں بچے گا۔ اس لیے کہ جان تو ہے ہی نہیں، تو اصل جواب یہ ہے کہ نماز بلا شبہ فحش سے بچاتی ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اس کا کلام حق ہے۔ ﴿﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنکَر﴾ ، یقینانماز بے حیائی اور منکرات سے بچاتی ہے۔ بچاتی کیوں ہے ؟﴿وَلَذِکْرُ اللَّہِ أَکْبَرُ﴾ اس لیے کہ اللہ کا ذکر بہت بڑی چیزہے۔ ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی﴾ نماز ذکر اللہ ہی کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ ذکر روح ہے۔ اگر روح نہیں ہوگی تو نہیں بچائے گی۔

روح نہ ہونے کے شبہ سے محض صورتِ عمل کو ترک نہ کیا جائے

لیکن میں اتنی بات عرض کیے دوں کہ کبھی یہ سمجھیے کہ پورا ذکر تو ہے نہیں، ہماری نماز تو صورت ہی صورت ہے۔ یہ برائی سے بچاتی نہیں۔ تو آج سے اسے بھی چھوڑ دو۔ اس کے پڑھنے کا فائدہ کیا ہوا؟ نہیں ۔ اس صورت کو قائم رکھو۔ اس لیے کہ جو صورت بنا رہا ہے ، تو وقت آئے گا کہ اس صورت میں روح آ جائے گی۔ اگر صورت ہی نہیں بنے گی تو پھر روح کس میں آکر پڑے گی۔ اس واسطے اس صورت کوبھی قائم رکھو۔ اگر روح نہ ہو۔ شکل اس کی بنائے رکھو۔ اچھی شکل میں اچھی حقیقت آجاتی ہے۔ آج نہیں آئے گی، کل آئے گی۔ پڑھتے پڑھتے پڑھتے کسی دن تو خیال ہوگا کہ بھئی! یہ جو محض رسمی اور تصویر کی نماز پڑھ رہا ہوں ، یہ بے کار نہ جائے۔ اس میں جان پیدا کرو، تو پڑھتے پڑھتیچند دن کے بعد دھیان آسکتا ہے اور وہ روح بن جائے گی، اس واسطے چھوڑنا اسے بھی نہیں چاہیے۔ جیسے مولا نارومی رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے کہ #
            بہر دین وببر دنیا وبہر نام
            اللہ اللہ کر دہ باید والسلام

تم اللہ اللہ کرو، دنیا کے لیے کرو دکھلا وے کے لیے کرو، نام ونمود کے لیے کرو، کرتے رہو۔ اس لیے کہ کرتے رہو گے تو اسی میں اخلاص بھی آجائے گا اور بالکل ہی گھر نہ بناؤ تو مسافر آ کے ٹھہرے گا کہاں ؟ تو گھر بنالے، ممکن ہے ذکر اللہ کا مسافر آجائے اور آکر اس کے اندرمقیمہو جائے ۔ تو چاہے ۔ ریا کاری کی نماز ہو، چاہے بے دھیانی کی ہو، قلب میں کچھ نہ ہو۔ مگر فرض ادا کرتے رہو، صورت ہی ان شاء اللہ چند دن کے بعد اپنی طرف کھینچ لے گی۔ تو یہ وسوسہ نہیں آنا چاہیے کہ جب اس میں روح نہیں تو پڑھنے سے فائدہ کیا؟ فائدہ ہے۔ کم سے کم مفتی فتویٰ دے رہا کہ نماز ہو گئی۔ اسے دل کی خبر نہیں۔ اور جب اللہ کی ہزار وں مخلوق نمازی کہے گی تو عنداللہ بھی نمازی ہی ہو۔ اس لیے کہ یہ لوگ سرکاری گواہ ہیں، جیسی گواہی دے دیں گے، عنداللہ بھی معتبر ہوگی۔ تو جب سرکاری گواہوں نے گواہی دے دی کہ فلاں آدمی نمازی ہے ، تو عند اللہ بھی نمازی ہے۔ تو کیا خبر ہے کہ یہ نمازی کی صورت ہی آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے ۔ اس لیے چھوڑنانہیں چاہیے۔

بہر حال مجھے اس ساری آیت سے کلام کرنا نہیں تھا کہ میں نماز کی حقیقت بیان کروں اور پھر یہ بیان کروں کہ نماز کس طرح منکرات اور بے حیائی سے بچاتی ہے ،بلکہ صرف ذکر اللہ کے بارے میں چند باتیں کہنی تھیں ۔ جو آیت کا دوسرا جز ہے۔ ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾ وہ بھی اس لیے کہ رہی سارے عالم اور ساری شریعت کی روح ہے۔ شریعت سے ذکر اللہ نکل جائے تو شریعت کے اعمال ڈھانچہ بن جائیں گے۔ دنیا کے اندر ذکر اللہ نہ رہے، تو یہ دنیا بے جان لاشہ بن جائے گی اور ختم ہو جائے گی۔ اس واسطے ذکر اللہ کی رعایت کرنی چاہیے۔

ذکر کثیر کے حصول کی سہل صورت

اور اس کے لیے سیدھی صورت یہ ہے کہ شریعت نے جو اعمال بتلائے ہیں۔ اگر بچپن سے ہی بچے کو وہ یاد کرا دیے جائیں۔ موقع بموقع کی دعائیں ہیں۔ ان کو ذکر کثیر کہا گیا ہے۔ تو جب وہ دعائیں پڑھائیں گے تو قرآن حکیم میں جو حکم ہے کہ :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْرًا کَثِیرًا﴾ اے ایمان والو!اللہ کا ذکر کثیر کرو۔ تو کثرتِ ذکر کیا ہے ؟

بعض علماء نے لکھا ہے کہ کثرت ذکر یہ ہے کہ مختلف اوقات میں جو اذکار اور دعائیں آتی ہیں وہ ان اوقات میں پڑھی جاتی رہیں تو وہ ذکر کثیر ہوگیا۔ مثلاً جب چار پائی پر سونے کے لیے لیٹیں، تو اس کی دعا الگ ہے کہ :”باسمک اللہم اموت واحییٰ“ یا سو کے اٹھیں اس کی د عاالگ ہے کہ:” الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور“ یا کھانا کھانے کے بعد کی دعا ہے کہ: الحمد للہ الذی اطعمنا وسقانا وکفانا وأدانا وجعلنا من المسلمین “یا استنجا کے لیے جائے پاخانے میں بایاں قدم رکھے اور کہے کہ :”اللہم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث“ اور جب واپس آئے تو دایاں پاؤں پہلے رکھے اور کہے:” غفرانک، الحمد للہ الذی اذہب عنی الاذی و عافانی“ یا جب لباس پہنے تو پڑھے:”الحمد للہ الذی کسانی ہذا و رزقنیہ من غیر حول منی ولاقوة، اللہم انی اسئلک من خیرہا وخیر ما صنع لہ. و را عوذ بک من شرہا وشر ما صنع لہ“ یا مثلاً بیوی کے پاس جائے تو یہ دعا پڑ پڑھے۔ کہ:” اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقتنا“ تو اولاد مقدر ہوگی تو صالح اولاد پیدا ہوگی یا مثلاً با زار جائے تو بازار میں جانے کی دعا یہ ہے:”اللہم انی اسألک صفقة رابحة واعوذ بک من صفقة خاسرة“اے اللہ!میں نفع کا سودا چاہتا ہوں۔ گھاٹے کے سودے سے پناہ مانگتا ہوں ۔ یا سورج نکلے تو دعا بتلائی گئی ہے:” الحمد للہ الذی جللنا الیوم عافیة وجاء بالشمس مطلعہا“ تو ہر موقع کا ایک ایک ذکر ہے۔ یہ اذکار علماء نے چھاپ بھی دیے ہیں۔ اگر بچے کو ابتدا سے یہ یاد کرا دیے جائیں، تو یہ موتی ان کے قلوب میں بھر جائیں گے اور زندگی اسلامی بن جائے گی۔ جب عادت پڑ جائے گی کہ پاخانے جاتے ہوئے یہ ، کھانے کے وقت یہ، لباس پہننے کے وقت یہ ، دوستوں سے مصافحہ کرو تو یہ، کسی سے ملے تو یہ، عادت پڑ جائے گی۔ تو اسی سے اسلامی زندگی بنتی ہے ،یہ ذکر کثیر مفت میں ہاتھ آجاتا ہے۔ تو بڑی آسان بات یہ ہے کہ بچوں کو یاد کرادی جائیں ۔ اور بڑے بھی اگر یاد کریں تو مہینے ڈیڑھ مہینے میں ساری یاد ہو سکتی ہیں ۔ پچاس ساٹھ سے زیادہ یہ دعائیں نہیں ہوں گی، زیادہ ہوا تو سو ہو جائیں گی ۔ تو ایک دن میں اگر ایک دعا یاد کر لے اور تین چار مہینے لگ جائیں تو تین چار مہینے میں پورا دین حاصل ہو جائے یہ بڑا نفع کا سودا ہے، کوئی گھاٹے کی بات نہیں۔ تین مہینے نہیں، چار مہینے سہی۔ اور بچے تو بہت جلدی یاد کرتے ہیں۔ چند دن میں یاد ہو جائیں گی۔ اس طرح ذکر کثیر کی دولت حاصل و جائے گی۔

یا پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کر لیا جائے کہ صبح کی نماز کے بعد روزانہ ایک آدھ گھنٹہ آدمی اللہ میاں کے لیے دے دے۔ چوبیس گھنٹے دنیا کی ضروریات کے واسطے۔اگر اس میں کچھ وقت اللہ کے نام پر نکال دے تو کون سی بڑی بات ہے؟! چاہیے تو یہ تھا کہ ساری زندگی اللہ کے لیے ہوتی ، چھوٹا موٹا وقت دنیا کے کاموں کے لیے ہوتا، لیکن ہم کہتے ہیں چلو، تم سارا ہی وقت دنیا کے کاموں میں لگا دو، تھوڑا سا وقت اللہ کے لیے دو۔ تو روزانہ صبح کے وقت بیٹھ کر ایک سومرتبہ کلمہ تمجید :”سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ الا اللہ واللہ اکبر“ سو مرتبہ استغفار:”استغفر اللہ الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم واتوب الیہ“ اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ لیا جائے اور وہ مختصر یہ ہے: اللہم صل علی سیدنا محمد وعلی ال سیدنا محمد وبارک وسلم “یہ کون سی بڑی بات ہے ؟ ایک بیس منٹ کی بات ہے۔ لیکن ذکر کثیر کی دولت مفت میں حاصل ہو جاتی ہے۔ تو سوتے وقت بھی پڑھ لے اور صبح کو بھی پڑھ لے۔ دونوں وقت نہ سہی۔ چلو صبح کی نماز کے بعد پڑھ لو۔ صبح کو نہیں تو سوتے وقت آدھ گھنٹہ دے دو۔ تو آدمی ذکر اللہ کرنے والوں میں شامل ہو جائے گا اور﴿ ولذکر اللہ اکبر﴾ کی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ آدمی اگر دین دار بننا چاہے تو دین بڑا آسان ہے۔ دنیا کمانی بڑی مشکل ہے ۔ دنیا اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک آپ چوبیس گھنٹے دماغ دکان میں نہ لگائے رکھیں، ذکر اللہ اور دین آسکتا ہے اگر بیس منٹ بھی دے دیں۔ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، تو دنیا کمانامشکل اور دین کمانا آسان ہے۔ لوگوں نے آسان کو چھوڑ دیا اور مشکل کو اختیار کر لیا۔ تو﴿ ولذکر اللہ اکبر﴾ کی فضیلت یوں بھی حاصل ہو جائے گی کہ مختلف اوقات کی دعائیں یاد کی جائیں اور یوں بھی حاصل ہو جائے گی کہ صبح شام یہ تین تسبیح پڑھ لیں اور نماز کی پابندی کی۔ تو ان شاء اللہ بہت سی برکات اسی سے پیدا ہو جائیں گی۔

اس واسطے میں نے اس آیت کے سلسلہ میں یہ چند باتیں گزارش کیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ذکر اللہ کرنے اور یاد خدا وندی میں لگنے کی توفیق عطا فرمائے اور حق تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے اور اپنے دین کی ہمیں محبت عطا فرمائے۔ اپنی اور اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے قلوب میں ڈال دے۔ اس محبت سے عظمت پیدا فرمادے اور عظمت سے متابعت اور اطاعت و اتباع کی دولت نصیب فرما دے۔آمین

اللہم ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمة انک انت الوہاب․اللہم ربنا تقبل منا انک انت السمیم العلیم ․وارنا منا سکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم․وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ اجمعین․برحمتک یا ارحم الراحمین.