معاہدے پر پابند رہنے کا حکم

idara letterhead universal2c

معاہدے پر پابند رہنے کا حکم

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

سورت المائدہ

مائدہ عربی زبان میں اس دستر خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چُنا گیا ہو۔ اس سورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کا تذکرہ ہے۔ جس میں آپ علیہ السلام کے حواریوں نے اطمینان قلب کے طور گزارش کی تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کھانے سے چُنا دسترخوان نازل فرمادیں۔ اس معجزے کی مناسبت سے اس سورت کا نام المائدة ہے۔

اس سورت کا کچھ حصہ مکہ مکرمہ میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوا ہے۔ چوں کہ اہل علم کی اصطلاح میں ہجرت کے بعد نازل ہونے والی آیات مدنی کہلاتی ہیں۔ اس لیے اس کا کچھ حصہ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے کے باوجود یہ سورت مکمل مدنی کہلاتی ہے۔

سورتِ نساء کی طرح یہ سورت بھی زندگی کے مختلف معاملات پر فقہی راہ نمائی کرتی ہے۔ مثلا اہل کتاب سے نکاح، وصیت، ذبیحہ، شکار، حالت احرام میں ممنوعہ امور پر دم، وضو، غسل، تیمم، قمار، جوا، ارتداد، شراب، چوری، ڈکیتی کی سزا، قسم اور اس کا کفارہ، جانوروں میں حلال وحرام کی تمیز، خود ساختہ حلال وحرام کے معیار پر تنبیہ اور تردید جیسے اصولی مباحث کا احاطہ کرتی ہے، یہ سورت امت کی اجتماعی راہ نمائی کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

علاوہ ازیں عبرت ونصیحت کے لیے تین اہم واقعات بھی اس میں مذکور ہیں۔بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ناخوش گوار رویہ ہابیل وقابیل کا واقعہ دستر خوان کا آسمان سے اترنا۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَةُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْْکُمْ غَیْْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہِ وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْہَدْیَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلا آمِّیْنَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّہِمْ وَرِضْوَاناً وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾․(سورة المائدة، آیت:1 تا2)

ترجمہ:”اے ایمان والو! پورا کرو عہدوں کو۔ حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی، سوائے ان کے جو تم کو آگے سنائے جاویں گے، مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں، اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے۔ اے ایمان والو! حلال نہ سمجھو اللہ کی نشانیوں کو اور نہ ادب والے مہینہ کو اور نہ اس جانور کو جو نیاز کعبہ کی ہو اور نہ جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر لے جاویں کعبہ کو اور نہ آنے والوں کو حرمت والے گھر کی طرف ،جو ڈھونڈتے ہیں فضل اپنے رب کا اور اس کی خوشی اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرلو اور باعث نہ ہو تم کو اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے، بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

معاہدے پر پابند رہنے کا حکم

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ﴾اس سورت کی ابتدا ہی عہد کی پاس داری کے حکم سے ہورہی ہے۔ عہد کی پاس داری انسان کی اجتماعی زندگی میں اطمینان اور سکون کا باعث ہوتی ہے، جس معاشرے میں یہ صفت مفقود ہوجائے وہ بے حیثیت ہوجاتاہے۔ وہاں جان ومال اورعزت بے قدر ہوجاتی ہے۔ اس لیے عہد کی پاس داری کو انسانی صفات کا سب سے عمدہ جوہر کہا گیا ہے۔ یہ جو ہر انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے اعلی درجے کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تذکرے میں اس صفت کو نمایاں کر کے بیان فرمایا:﴿إنہ کان صادق الوعد﴾(کہ وہ وعدے کے سچے تھے)۔(مریم:54)

ایفائے عقد کسے کہتے ہیں؟

”إیفاء“کسی چیز کو عمدہ طریقے سے مکمل کرنے کو کہتے ہیں۔ امام راغب الاصفہانی کہتے ہیں۔

”الوفاء اخو الصدق والعدل، والغَدْر أخو الکذب والجور، وذلک أن الوفاء صدق باللسان والفعل معا، والغدر کذب بہما، وفیہ مع الکذب نقض العہد“․(مفردات الفاظ القرآن: مادہ: وف ی) وعدے کو پورا کرنا سچائی اور عدل کی صفت ہے، وعدہ خلافی اور دھوکہ دینا جھوٹ اور ظلم کی صفت ہے۔

مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وفا عہد انسانیت کے مخصوص فرائض میں بہت بڑا فرض ہے، اس لیے جو شخص وفا سے خالی ہے، وہ درحقیقت شرف انسانیت سے محروم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان میں سے شمار کیا ہے اور لوگوں کی عملی زندگی کے لیے اس کو ”قَوّام“سربراہٹھہرایا ہے، کیوں کہ انسان ایسی ہستی کا نام ہے جس کے لیے باہمی تعاون لازم اور ضروری ہے۔

اور باہمی تعاون وعدے کی رعایت اور ایفائے عہد کے بغیر ناممکن ہے اور اگر ان کو درمیان سے نکال دیا جائے تو تعاون کے بجائے دلوں میں نفرت اور وحشت جا گزیں ہوجائے اور زندگی ہر قسم کی تباہ کاریوں سے دوچار ہونے لگے“۔ (اخلاق اور فلسفہ اخلاق،ص:519)

”عقد“معاملہ کو کہتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی بھی شرعی یا دنیاوی معاملہ ہو اور کسی بھی شکل میں ہو۔ معاہدے کی شکل میں، وعدے کی شکل میں، مصالحت کی شکل میں، لین دین کی شکل میں، عقود کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو ان تمام عقود ومعاملات کو عمدہ طریقے سے پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔

1.. ایک عقد وہ ہوتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ مثلاً توحید کا عقیدہ رکھنا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا۔

2.. عقد دو بندوں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ مثلاً عقد نکاح، عقد بیع وشرا۔

3.. عقد ایک فرد اور گروہ کے درمیان بھی ہوتا ہے، جیسے عقد خلافت، عقد امارت۔

4.. عقد دو گروہوں اور دو ملکوں کے درمیان بھی ہوتا ہے، جیسے عقد صلح، عقد امن وغیرہ ۔

آیت کریمہ میں بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان طے پاجانے والے تمام عہد وپیمان اور بندوں کے بندوں کے درمیان طے پاجانے والے تمام عقود، جو شریعت مطہرہ کے دائرہ جواز میں آتے ہوں ان سب کی تکمیل کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تکمیل کا حکم مختلف مقامات پر دیا ہے۔

1.. ﴿وَأَوْفُوا بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْئُولاً﴾․ (اسراء:34) (اور پورا کرو عہد کو، بے شک عہد کی پوچھ ہوگی)۔

2.. ﴿وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا﴾․(البقرہ:177) (اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب عہد کریں)۔

3.. ﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذَرِ﴾․(الدھر:7)(اور پورا کرتے ہیں منّت کو)۔

سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم ایفائے عقد کی پاس داری کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا ایمانَ لِمن لا أمانةَ لہ، ولا دینَ لمن لَّا عھدَ لہ“․ (الترغیب والترھیب:4/77 ، مسند احمد، رقم الحدیث:12567) جس میں امانت نہ ہو اس کا ایمان نہیں ہے، جس میں عہد کی پاس داری نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں۔

جانوروں کے حلال وحرام کا معیار

آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے:﴿أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا یُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ﴾، تمہارے لیے جانور حلال کردیے گئے، سوائے ان جانوروں کے جن کی حرمت کا حکم وحی کے ذریعے پڑھ کر سنایاگیا ہے۔ وحی قرآن وسنت دونوں کے مشمولات کا نام ہے۔ قرآن کریم کو وحی جلی اور احادیث مبارکہ کو وحی خفی کہا جاتا ہے۔ جانوروں کی حلت وحرمت کا حکم تَعَبُّدی ہے۔ جہاں عقل کی بناوٹی علّتوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، اس سلسلے میں قرآن کریم نے ایک ضابطہ مقرر فرمایا کہ ”طیّبات“ حلال ہیں اور”خَبَائِث“ حرام ہیں۔ سورہ اعراف میں ہے:﴿یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ﴾․(الاعراف:157) لیکن انسانی ذوق ومزاج میں اختلاف کی وجہ سے طیبات اور خبائث کی تعیین میں اختلاف ہونا امر واقعی تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں مزید اس کی وضاحت فرما دی ہے، جو درج ذیل ہے:

حلال وحرام قرآن کریم کی روشنی میں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَکَّیْْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ﴾․اسآیت کریمہ میں درج ذیل جانوروں کو حرام قرار دیا گیا ہے:

1.. الَمیْتَةَ:مردار، یعنی طبعی موت مرنے والا جانور۔

2.. الدَّم:جانور کا بہتا ہوا خون، ”بہتا ہوا” کی قید سورہ انعام کی آیت نمبر 145 میں موجود ہے۔

3.. لَحْم الخِنْزیر:خنزیر۔

4.. ﴿ وَمَا أُھِلَّ بہ لغیر اللہ﴾جس جانور کو غیر اللہ کے نام نذر کردیا گیا ہو۔

5.. المُنْخَنِقة:جس جانور کو گلا گھونٹ کے مارا گیا ہو۔

6.. المَوْقُوذہ:جوجانور لاٹھی، پتھر وغیرہ کی ضرب اور چوٹ سے مر جائے۔

7.. المُتَردِّیة:بلندی سے گر کر مارا جانے والا جانور، جیسے:کوئی جانور پہاڑ سے گر کر مرے یا کنویں میں گر کر مرے۔

8.. النَّطِیحْةَ:وہ جانور جسے دوسرا جانور ،سینگ مار مار کر مار دے اور ذبح کا موقع ملنے سے قبل وہ مرجائے۔

9.. وَمَا أَکَل السبع إلا ماذَکَّیْتُمْ:جس جانور کو کوئی دوسرا درندہ چیر پھاڑ کر ماردے وہ بھی حرام ہے۔ ہاں! مرنے سے قبل اسے ذبح کرنے کا موقع مل گیا تو حلال ٹھہرے گا۔

10.. وَمَا ذُبح علی النُّصب:جن جانوروں کو آستانوں پر غیر اللہ کے نام پر یا غیر اللہ کی تعظیم کے لیے ذبح کیا گیا وہ جانور بھی حرام ہیں۔

11.. ﴿ وأن تَسْتَقْسِموا بالأَزلام﴾:بعض اوقات حلال جانور کے گوشت کو حصہ داروں میں ایسے طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے جو جوے کی شکل پر منتج ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے گوشت کو بھی حرام قرار دیا گیاکہ جس جانور میں سب برابر کے حصے دار ہوں،مگر گوشت اٹکل کے تیروں کی بنیاد پر تقسیم ہو، کسی کو آدھا جانور، کسی کو صرف ایک پا یہ، کسی کو بالکلیہ محروم کردیا جائے۔

حلال وحرام احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت ابو ثعلبہ رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دانتوں سے چیر پھاڑ کر کھانے والے ہر درندے کو کھانے سے منع فرمایا۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:5210)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان فرماتے ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے تمام کچلیوں والے درندوں اور ناخنوں والے پرندوں کو کھانے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث:1934)

لہٰذا چیرپھاڑ کر کھانے والے تمام درندے شیر، چیتا، بھیڑیا وغیرہ بالاتفاق حرام ہیں۔ اور پنجوں سے شکار کر کے کھانے والے پرندے باز، چیل، شکرہ، گدھ وغیرہ بھی بالاتفاق حرام ہیں۔

اسی طرح جو جانور اور پرندے نجس کھاتے ہیں وہ بھی خبائث میں ہونے کی وجہ سے حرام ہیں، جیسے نجس خور کوّا ۔

بحری جانور اور حشرات الأرض

سمندر کے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”ہو الطھور ماء ہ، والحل میتتہ“․(سنن أبی داؤد، رقم الحدیث:83) اس کا پانی پاک اور مردار حلال ہے۔

ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:”أُحلت لکم میتتان ودمان، فأمّا المیتتان فالحوت والجراد، وأما الدمان فالکبِدُ والطِّحالُ․“(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۳۳۱۴)

تمہارے لیے دو مردار اور دوخون حلال کردیے گئے، دو مردار مچھلی اورٹڈی دَل ہیں۔ اور دو خون کلیجی اورتلی ہیں۔

حلال جانوروں کی مختلف صورتیں بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:﴿إِلّا مَا ذَکَّیْتُمْ ﴾حلال جانور تمہارے لیے حلال تب ہوں گے جب تم ان کو ذبح کرلو۔ ذبح ان جانوروں کو کیا جاتا ہے جن میں بہتا ہوا خون پایا جاتا ہو۔ لہٰذا جن حیوانات میں خون نہ ہو یا خون ہو ،مگر بہتا نہ ہو، وہ حلال نہیں، وہ حرام ٹھہر گے۔ جیسے حشرات الارض مکھی، مچھر، چیونٹی، ان میں خون نہیں پایا جاتا، سانپ، چھپکلی، وغیرہ ان میں بہنے والا خون نہیں پایا جاتا، یہ بھی حرام ٹھہریں گے۔

یاد رہے حلت وحرمت کی دو قسمیں ہیں:

1.. حلت وحرمت قطعی:

جن جانوروں کی حلت وحرمت قرآن کریم اور احادیث متواترہ مشہورہ سے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة ہے۔ ان کی حلت وحرمت قطعی کہلاتی ہے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بحث اسی قسم سے متعلق ہے۔

2.. حلت وحرمت ظنی:

جن جانوروں کی حلت وحرمت قطعی الثبوت یا قطعی الدلالة نہ ہو یا نصوص متعارضہ کی بنا پر اس کی ترجیح وتعیین میں اختلاف پیدا ہوجائے۔ ایسے تمام جانوروں کی حلت وحرمت ظنی ہے اور مجتہد فیہ ہے۔ ان مسائل میں حلال وحرام کے فتوی کی وجہ سے نہ ہی علمائے کرام شارع کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اور نہ ہی باہمی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے پر فسق کا حکم عائد کرتے ہیں، چناں چہ معروف تابعی حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں:

”أھل العلم أھل توسعة، وما برح المُفتون یختلفون فیحلل ہذا ویحرم ہذا، فلا یعیب ہذا علی ھذا“․ (کشف الخفاء: 1/57)

”اہل علم (ظنی اور مجتہد فیہ مسائل میں) کشادہ دل اور وسیع ظرف رکھتے ہیں۔ یہاں تک ارباب افتاء ایک دوسرے سے مسلسل اختلاف کرتے رہتے ہیں۔ ایک مفتی ایک چیز کو حلال کہتا ہے ، دوسرا اس کو حرام کہتا ہے ،مگر نہ یہ اس کی عیب جوئی کرتا ہے اور نہ وہ اس کی عیب جوئی کرتا ہے“۔

شعائر دین اور ان کا احترام

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہِ﴾ شعائر شعیرة کی جمع ہے، اس کا معنی ہے علامت۔ شعائر اللہ کا مطلب اللہ تعالی کے دین کی علامت۔ (مفردات القرآن الراغب الأصفہانی۔ ش ع ر) آیت کریمہ میں ایمان والوں کو کہا گیا ہے کہ اللہ کے دین کی علامتوں کی بے ادبی اور توہین مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی علامتیں کون سی ہیں ؟ دین اسلام سے منسوب وہ تمام احکام واعمال جو دین حق کی امتیازی خصوصیت اور اس کے تعارف کا ذریعہ بن چکے ہیں وہ شعائر اللہ کہلاتے ہیں، جیسے مساجد، اذان، نماز، قرآن ، جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں چند مثالیں ان شعائر کی دی ہیں جن کو معاشرے میں شعائر کی حیثیت نہیں دی جاتی، ان کی مثالیں دے کر ان کو احترام وعزت دینے کا حکم اور بے ادبی کرنے سے روکا کیا گیا ہے۔مثلاً:
﴿وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ﴾” محترم مہینے“ یہ اللہ تعالی نے فرمایا:محترم مہینوں کی بے حرمتی مت کرو،مہینے بارہ ہیں، ان میں سے چار مہینے محترم اور معزز ہیں۔

صحیح بخاری میں ہے:
حضرت ابو بکررضی الله عنہ بیان کرتے ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ گھوم کر اسی ہیئت پر آچکا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا تھا، ان میں چار مہینے حرمت والے مہینے ہیں، تین متواتر ہیں۔ ذوالقعدہ ،ذوالحجہ، اور مُحَرم، رجب مضر کا مہینہ جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث:3197) بارہ مہینوں میں سے ان چار کو حرمت والا بنانے میں حکمت یہ ہے کہ پہلے تین مہینوں میں عرب قبائل دور دراز سے سفر کر کے مناسک حج ادا کرنے کے لیے آتے تھے۔ رجب سال کا درمیان ہے، جس میں عمرے کا سفر بہ کثرت ہوتا تھا، اس لیے ان مہینوں کو حرمت والا بنا کر ان کے سفر کو محفوظ بنا دیا گیا۔ یہ حرمت دو طریقے سے تھی، ان مہینوں میں خصوصی طور پر :

قتل وغارت گری ممنوع ہوگئی، باہمی جنگ وجدل میں رہنے والے قبائل ان مہینوں میں اپنی تلواریں نیام میں کر لیتے تھے اور ان مہینوں کا احترام نہ کرنے والا شخص انتہائی برا اور بڑا مجرم سمجھا جاتا تھا، اس سے معاشرتی بائیکاٹ کرے الگ تھلگ کر دیا جاتا تھا۔

ان مہینوں میں نیکی کا اجر عام مہینوں سے بڑھا ہوا تھا۔

لیکن اس کے پہلے حکم میں اختلاف ہے آیا قتل وقتال علی الاطلاق ممنوع ہے یا مبنی برحق جنگ وجدل اور قتال فی سبیل اس سے مستثنیٰ ہے؟ جمہور علمائے کرام کے نزدیک پہلا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ اب ان محترم مہینوں میں قتال فی سبیل اللہ جائز ہے۔ بلکہ یہ عمل طاعت ہے اور طاعت ہونے کی وجہ سے اس کا اجر اور بڑھ جائے گا۔

علامہ طبری رحمة الله علیہ نے اس پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔

چناں چہ وہ فرماتے ہیں:
”صحیح قول یہی ہے کہ اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے ،کیوں کہ تمام اہل ایمان اس پر اتفاق ہے کہ مشرکین کے خلاف سال کے تمام مہینوں میں قتال کرنا جائز ہے۔

خواہ وہ حرمت والے مہینے ہوں یا نہ ہوں، اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر مشرک اپنے گلے میں حرم شریف کے تمام درختوں کی چھال بھی ڈال لے تب بھی اس کا یہ فعل اس کو قتل سے نہیں بچا سکتا، جب تک اس سے پہلے وہ مسلمانوں سے پناہ حاصل نہ کرچکا ہو یا کوئی معاہدہ نہ کرچکا ہو“۔

﴿وَلاَ الْہَدْیَ ﴾الھدی:ہدیہ کی جمع ہے، لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو گفٹ اور ہدیہ کے طور پر کسی کو دی جائے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ ﴿بھدیتکم تفرحون﴾(النمل:36)(تم اپنے ہی تحفہ سے خوش رہو) اور فقہا کی اصطلاح میں ”ہدی“ وہ جانور ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کی نیت سے حرم مکی کی طرف بھیجا جائے۔(در مختار:2/176) ان کی بے ادبی اور بے حرمتی مت کرو۔

﴿ وَلاَ الْقَلآئِد﴾ القلائد قلادہ کی جمع ہے۔ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گلے میں پہنی جاتی ہے، جیسے:ہار،پٹہ۔ اس سے بھی وہ جانور مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی نیت سے حرم مکی میں بھیجے جاتے ہیں، تاکہ وہاں ذبح کیے جاسکیں، مگر ان پر ہار ڈال کر ان کو نمایاں کردیا جاتا ہے، تاکہ کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچائے۔ ان جانوروں کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہوگئی ہے، اب وہ قابل احترام ہیں، ان کی بے حرمتی سے بچو۔

﴿وَلا آمِّیْنَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ﴾، حرم بیت اللہ کی زیارت کا قصد کرنے والے معتمرین اور حجاج کو اذیت وتکلیف دینے سے، بے حرمتی اور بے ادبی کرنے اجتناب کرو، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر کوئی کافر بیت اللہ کا قصد کرلے تو وہ قابل احترام نہیں ہوگا، کیوں کہ آگے اللہ تعالیٰ نے: ﴿یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا﴾ فرمایا۔ اللہ کے گھروں کا قصد کرنے والے اللہ کے فضل اور رضا کے طلب گار ہوتے ہیں، یہ شان مومن کی ہے۔ کافر کفر کے ہوتے ہوئے رضائے الہٰی کا پروانہ حاصل نہیں کرسکتا۔ ادب واحترام کا یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جو اللہ کی یاد کا ذریعہ بنتی ہو، وہ محض اس نسبت سے قابل احترام بن جاتی ہے۔ (جاری)

کتاب ہدایت سے متعلق