دینی مدارس کے علماء وطلباء کے لیے لمحہ فکریہ

idara letterhead universal2c

دینی مدارس کے علماء وطلباء کے لیے لمحہ فکریہ

محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری

بلا شبہ دینی مدارس کا وجود سرا پا خیر و برکت اور ان کا منصب تعلیم وتعلم نہایت ہی اونچااور لائق فخر ہے ۔ یہ دینی مدارس انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی دراثت کے امین ، شریعت الٰہی کے محافظ اور امت محمدیہ کے معلم ہیں، قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں دین کی تعلیم و تعلم کے جو فضائل آئے ہیں ان سے کسی کو انکار کی مجال نہیں،لیکن یہ منصب جتنا عالی ہے اس کی قیمت بھی اتنی ہی اونچی ہے اور وہ صرف رضائے الٰہی اور نعیم جنت ہی ہو سکتی ہے۔ اگر اس گو ہر بے بہا کی قیمت متاعِ دنیا کوٹھہرالیا جائے تو اس سے بڑھ کر کوتاہ نظری اور کیا ہو سکتی ہے ؟ حدیث میں صاف و صریح وعید وارد ہے کہ:” من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہُ اللہِ لا یَتَعَلَّمَہُ إِلا لِیُصِیبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرَفَ الْجَنَّةِ “ (مسند احمد، ابوداؤد ابن ماجہ عن ابی ہریرہ) یعنی :”جس نے وہ علم حاصل کیا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے، مگر وہ اس کو صرف متاع دنیا کے لیے حاصل کرتا ہے تو اس کو جنت کی خوش بو بھی نصیب نہ ہو گی ۔ سنا ہے کہ حضرت، فقیہ عصر،محدث وقت، عارف باللہ مولانا خلیل احمد رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے خواب بیان کیا کہ درس گاہ کی تپائیوں کے سامنے طلبہ کے بجائے بیل بیٹھے ہیں ،فرمایا:”انا للہ! اب لوگ علم دین کو پیٹ کے لیے پڑھنے لگے“ ۔
ہمارے اکابر کے لیے تعلیم و تدریس، تصنیف وتالیف دعوت وارشاد اور امامت و خطابت کے مشاغل کبھی شکم پر دری اور جاہ طلبی کا ذریعہ نہیں رہے، بلکہ یہ خالص دینی مناصب تھے اور بزرگوں کے اخلاص و تقویٰ، خلوص و للہیت، ذکر دشغل اور اتباع سنت نے ان مناصب کے وقار کو اور بھی چار چاند لگا رکھے تھے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے دینی مدارس کی روح دن بدن مضمحل ہوتی جا رہی ہے، اساتذہ و طلبہ میں شب خیزی ،ذکرو تلاوت زہد د قناعت ، اخلاص و للہیت اور محنت د جاں فشانی کی فضا ختم ہو رہی ہے، نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن کریم کی جگہ عام طور پر اخبار بینی لے رہی ہے۔ ریڈیو اور ٹی دی جیسی منحوس چیزیں جدید تمدن نے گھر گھر پہنچادی ہیں اور ہمارے دینی قلعے ، دینی مدارس بھی ان وباؤں سے متاثر ہورہے ہیں، یہ وہ دردناک صورت حال ہے جس نے ارباب بصیرت، اہل دل کو بے چین کر رکھا ہے ، ہمارے مخدوم گرامی منزلت، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی متع اللہ الأمة بحیاتہم الطیبة المبارکة نے اسی تاثر کی وجہ سے راقم الحروف کے نام ایک مفصل والانامہ تحریر فرمایا ہے ۔ اربابِ مدارس کی توجہ اور اصلاح کے لیے اسے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو ارباب مدارس کے لیے وسیلہ عبرت و نصیحت اور توجہ بنائے۔ آمین۔

مکتوب مبارک

” مدارس کے روز افزوں فتن، طلبہ کی دین سے بے رغبتی وبے توجہی اور لغویات میں اشتغال کے متعلق کئی سال سے میرے ذہن میں یہ ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی بہت کمی ہوتی جارہی ہے ،بلکہ قریبا یہ سلسلہ معدوم ہی ہو چکا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض میں تو اس لائن سے تنفر کی صورت دیکھتا ہوں، جو میرے نزدیک بہت خطرناک ہے، ہندوستان کے مشہور مدارس دارالعلوم ، مظاہر العلوم، شاہی مسجد مراد آباد وغیرہ کی ابتدا جن اکابر نے کی تھی وہ سلوک کے بھی امام الائمہ تھے، انہی کی برکات سے یہ مدارس ساری مخالف ہواؤں کے باوجود اب تک چل رہے ہیں۔

اس مضمون کو کئی سال سے اہل مدارس، منتظمین اور اکابرین کی خدمت میں تقریراً و تحریراً کہتا اور لکھتا رہا ہوں، میرا خیال یہ ہے کہ آپ جیسے حضرات اس کی طرف توجہ فرما ویں تو زیادہ موثر اور مفید ہو گا۔ مظاہر العلوم میں تو میں کسی درجہ میں اپنے ارادہ میں کام یاب ہوں اور دارالعلوم کے متعلق جناب الحاج مولانا قاری محمد طیب صاحب سے عرض کر چکا ہوں اور بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہل مدارس سے عرض کرتا رہتا ہوں۔ روزافزوں فتنوں سے مدارس کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی فضا قائم کی جائے ،شرورو فتن اور تباہی و بربادی سے حفاظت کی تدبیر ذِکر اللہ کی کثرت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا تو دنیا ختم ہو جائے گی، جب اللہ تعالیٰ کے پاک نام میں اتنی قوت ہے کہ ساری دنیا کا وجود اس سے قائم ہے تو مدارس کا وجود تو ساری دنیا کے مقابلہ میں دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ کے پاک نام کو ان کی بقا و تحفظ میں جتنا دخل ہو گا ظاہر ہے ۔

اکابر کے زمانہ میں ہمارے ان جملہ مدارس میں اصحاب نسبت اور ذاکرین کی جتنی کثرت رہی ہے وہ آپ سے بھی مخفی نہیں اور اب اس میں جتنی کمی ہو گئی ہے وہ بھی ظاہر ہے، بلکہ اگر یوں کہوں کہ اس پاک نام کے مخالف حیلوں اور بہانوں سے مدارس میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو میرے تجربہ میں تو غلط نہیں، اس لیے میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں کچھ ذاکرین کی تعداد ضرور ہوا کرے ۔

طلبہ کے ذکر کرنے کے تو ہمارے اکابر بھی خلاف رہے ہیں اورمیں بھی موافق نہیں ،لیکن منتہی طلبہ یا فارغ التحصیل یا اپنے سے یا اپنے اکابرین سے تعلق رکھنے والے ذاکرین کی کچھ مقدار مدارس میں رہا کرے اورمدرسہ ان کے قیام کا کوئی انتظام کر دیا کرے۔ مدرسہ پر طعام کا بار ڈالنا تو مجھے بھی گوارانہیں،طعام کا انتظام تو مدرسہ کے اکابر میں سے کوئی شخص ایک یا دو اپنے ذمہ لے لے یا باہر سے مخلص دوستوں میں سے کسی کو متوجہ کر کے ایک ایک ذکر کرنے والے کا کھانا کسی کے حوالہ کر دیا جائے، جیسا کہ ابتدا میں مدارس کے طلبہ کا انتظام اسی طرح ہوتا تھا، البتہ اہل مدارس ان کے قیام کی کوئی صورت اپنے ذمہ لے لیں، جو مدرسہ ہی میں ہواور ذکر کے لیے کوئی ایسی مناسب جگہ تشکیل کریں کہ دوسرے طلبہ کا کوئی حرج نہ ہو، نہ سونے والوں کا ، نہ مطالعہ کرنے والوں کا ۔

جب تک اس ناکارہ کا قیام سہارن پور میں رہا تو ایسے لوگ بکثرت رہتے تھے، جو میرے مہمان ہوتے، ان کے کھانے پینے کا انتظام تو میرے ذمہ تھا، لیکن قیام اہل مدرسہ کی جانب سے مدرسہ کے مہمان خانہ میں ہوتا تھا اور وہ بدلتے سدلتے رہتے تھے، صبح کی نماز کے بعد میرے مکان پر ان کے ذکر کا سلسلہ ایک گھنٹہ تک ضرور رہتا تھا اور میری غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں کہ عزیز طلحہ کی کوشش سے ذاکرین کی وہ مقدار اگرچہ نہ ہو مگر 25-20کی مقدار روزانہ ہو جاتی ہے، میرے زمانہ میں تو سو ، سوا سو تک پہنچ جاتی تھی اور جمعہ کے دن عصر کے بعد مدرسہ کی مسجد میں تو دو سو سے زیادہ کی مقدار ہو جاتی تھی اور غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں 50-40 کی تعداد عصر کے بعد ہو جاتی ہے، ان میں باہر کے مہمان جو ہوتے ہیں وہ دس بارہ تک تو اکثر ہو ہی جاتے ہیں، عزیز مولوی نصیر الدین سلمہ، اللہ تعالیٰ اس کو بہت جزائے خیر دے ، ان لوگوں کے کھانے کا انتظام میرے کتب خانہ سے کرتے رہتے ہیں، اسی طرح میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں دو چار ذاکرین ضرور مسلسل رہیں کہ داخلی اور خارجی فتنوں سے بہت امن کی امید ہے، ورنہ مدارس میں جو داخلی اور خارجی فتنے بڑھتے جارہے ہیں، اکابر کے زمانہ سے جتنا بُعد ہوتا جائے گا ،اس میں اضافہ ہی ہوگا ۔

اس ناکارہ کو نہ تحریر کی عادت، نہ تقریر کی ، آپ جیسا یا مفتی محمد شفیع صاحب جیسا کوئی شخص میرے اس مافی الضمیر کو زیادہ وضاحت سے لکھتا تو شاید اہل مدارس پر اس مضمون کی اہمیت زیادہ واضح ہو جاتی، اس ناکارہ کے رسالہ” فضائل ذکر“میں حافظ ابن قیم کی کتاب ”الوابل الصیب“ سے ذکر کے سو کے قریب فوائد نقل کیے ہیں ،جن میں شیطان سے حفاظت کی بہت سی وجوہ ذکر کی گئی ہیں،شیاطینی اثر ہی سارے فتنوں اور فساد کی جڑ ہیں ”فضائل ذکر“ سے یہ مضمون اگر جناب سن لیں تو میرے مضمون بالا کی تقویت ہو گی، اس کے بعد میرا مضمون تو اس قابل نہیں جو اہل مدارس پر کچھ اثر انداز ہو سکے، آپ میری درخواست کو زور دار الفاظ میں نقل کراکر اپنی یا میری طرف سے بھیج دیں تو شاید کسی پر اثر ہو جائے ۔

دارالعلوم ، مظاہر علوم اور شاہی مسجد کے ابتدائی حالات آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہیں کہ کن صاحب ِنسبت اصحابِ ذکر کے ہاتھوں ہوئی ہے انہی کی برکات سے یہ مدارس اب تک چل رہے ہیں۔ یہ ناکارہ دعاؤں کا بہت محتاج ہے، بالخصوص حسن ِخاتمہ کا کہ گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے ۔“ والسلام ( حضرت شیخ الحدیث مدظلہ۔ بقلم حبیب اللہ 30 نومبر75ء، مکہ المکرمہ)

تعمیر حیات سے متعلق