دینی رہ نمائی میں عقل اور وحی کا کردار

idara letterhead universal2c

دینی رہ نمائی میں عقل اور وحی کا کردار

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہِ﴾․ (سورةآل عمران، آیة:31)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ، فطوبی للغرباء“․ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أن الإسلام بدأ غریبا وسیعود غریبا، رقم:372)

صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ نے ہم پر جو احسانات فرمائے ہیں وہ ان گنت اور بے شمار ہیں۔ اگر ہم ان احسانات اور ان نعمتوں کو گننا اور شمار کرنا شروع کریں تو ہم نہیں کرسکتے۔( قرآن کریم کی آیت ہے:﴿ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا﴾․ترجمہ:” اگر تم الله کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار بھی نہیں کرسکتے“۔ (سورہ ابراہیم، آیت:34)

چناں یہ سورج ، چاند، ستارے ،یہ ہوا، یہ پانی اور اس آسمان وزمین کے درمیان موجود ہر چیز، ہم نیکبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اگر خدانخواستہ یہ سورج نہ ہو تو ہمارا غلہ اور اجناس تیار نہیں ہو سکتیں، اگر یہ چاند او راس کی روشنی نہ ہو تو ہمارے پھلوں میں مٹھاس آہی نہیں سکتی۔

اور اگر یہ ستاروں کی روشنی نہ ہو تو ہمارے پھلوں اورپھولوں کے اندر خوش بو آہی نہیں سکتی، یورپ آج کے دور میں دنیوی اعتبار سے بہت ترقی یافتہ کہلاتا ہے، وہاں کے اکثر ممالک میں سورج نہیں ہے، سورج نہیں ہے سے مراد یہ ہے کہ ہر وقت بادل ہیں اور سورج کی روشنی نہیں ہے، چناں چہ وہاں جو غلہ یا اناج یا سبزیاں یا پھل یا پھول ہوتے ہیں ، وہ سورج والے ممالک کے مقابلہ میں نہ کے برابر ہیں۔

مثلاً پورے یورپ میں آپ چکر لگائیں ،آپ کو کوئی جگہ ایسی نہیں ملے گی جو سر سبز وشاداب نہ ہو، پھول نہ ہو ، ہزاروں قسم کے پھول، لیکن کوئی ایک پھول بھی آپ نہیں دکھاسکتے جو خوش بو والا ہو، میں عرض کر رہا تھا کہ نعمتوں کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق ظاہر سے ہے، الله تعالیٰ نے بے حد وبے حساب نعمتیں عطا فرمائی ہیں او رایک قسم وہ ہے جس کا تعلق باطن سے ہے، اور وہ بہت زیادہ اہم ہے، چناں چہ ایمان کا معاملہ بھی انسان کے باطن سے ہے اور وہ جو ایمان ہے جس پر اسلام کی ساری عمارت کھڑی ہوتی ہے وہ ایمان نظر نہیں آتا، ہم سب یہاں الحمدلله اہل ایمان بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن ہم ایک دوسرے کا ایمان دیکھ نہیں سکتے، حدیث میں ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” الإیمان یزید وینقص“ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔

الله تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کی جو بعثت فرمائی ہے وہ اس اندرونی نعمتوں کے حوالے سے بہت بڑا انعام ہے، اس لیے کہ اگر خدا نخواستہ انبیائے کرام علیہم السلام نہ آتے تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ الله ہیں اور الله ایک ہیں ،وہ وحدہ لاشریک ہیں ،الله ہی نافع ہیں، الله ہی ضار ہیں، الله ہی مالک ہیں یہ کیسے معلوم ہوتا؟ تو الله تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہمیں شریعت کا علم حا صل ہوا۔
چناں چہ انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس جو علم ہوتا ہے وہ وحی کا علم ہوتا ہے، ویسے تو الله تعالیٰ نے انسان کو عقل سے بھی نوازا ہے، وہ اچھی بری چیزوں میں تمیز کرتا ہے ، اندھیرے اور روشنی میں تمیز کرتا ہے اور بہت ساری چیزوں میں عقل سے کام لیتا ہے۔

لیکن یہ عقل ناقص ہے، عقل کامل نہیں ہے، کامل وحی ہے ، جب تک وحی کا علم آپ کی رہبری اور رہ نمائی نہیں کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ بھٹک جائیں گے، آپ تباہی اور گم راہی کے گڑھے میں گر جائیں گے۔

آپ سوچیں ،غور کریں کہ آج بھی اور آج سے پہلے جب سے یہ دنیا بنی ہے بڑے بڑے عقل والے آئے، فرعون تھا ،بہت بڑا بادشاہ تھا، نمرود تھا، بہت بڑابادشاہ تھا، اب ظاہر ہے کہ عقل تھی، اس عقل سے فرعون نے اتنی بڑی بادشاہت بنائی، عقل تھی، اس سے نمرود نے اتنی بڑی بادشاہت بنائی، شداد تھا، بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں، لیکن وہ عقل انہیں کام یاب نہ کرسکی، اس لیے کہ وحی کی جو تعلیمات تھیں، وحی کی جو روشنی تھی، اس سے انہوں نے استفادہ نہیں کیا، بہت مثالیں ہیں، لیکن آج کے دور کی میں ایک مثال دیتا ہوں، ایک فرقہ ہے پرنس کریم آغاز خان ان کا بڑاہے، اس کو اپنا رب مانتے ہیں اور اس سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ برسوں بچیوں کی شادیاں نہیں کرتے، جب تک وہ پرنس کریم آغاخان نہ آئے او رپھر عقل دیکھیے کہ وہ جو بچیاں ہیں، ان بچیوں کو زمین پر لٹایا جاتا ہے اور ایسے لٹایا جاتا ہے کہ ایک صف پوری کی پوری لیٹی ہوئی ہے اور اس کے پاؤں ایک طرف ہیں او رپھر اسی سے متصل عکس میں اسی طرح بچیوں کی صف ہے او ران دونوں صفوں کے بچیوں کے سر ایک دوسرے سے قریب ہیں او ران دونوں صفوں میں لیٹی بچیوں کے سر کے بالوں سے راستہ بنایا جاتا ہے، یہ جو بچیوں کے سروں کے بالوں سے راہ داری بنائی گئی ہے اس پر سے وہ گزرتا ہے اور ساری دنیا کو معلوم ہے، کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ وہ آدمی شرابی ہے، زانی ہے، وہ ریس کورس کھیلتا ہے، دنیا کی ساری برائیاں ہیں اس میں، لیکن عقل ، کہاں ہے عقل؟! اگر عقل رہ نمائی کرتی تو کیا وہ ایسے شخص کو رہبر او رہ نما مانتے ؟ ہم ایک دفعہ برما گئے اور دوستوں کے ساتھ بازار چلے گئے، بازار میں ایک جگہ تھی، پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ یہاں لوگ خدا خریدتے ہیں، کوئی دس روپے کا خریدتا ہے، کوئی بیس روپے کا، کوئی پچاس روپے کا، خدا کو خریدتے ہیں، دکان کے اندر چھوٹے بڑے بت رکھے ہوئے ہیں، جن کو وہ لوگ خدا مانتے ہیں اور وہ دکان دار خدا بیچ رہا ہے او ر خریدار کیا کر رہے ہیں؟ خدا خرید رہے ہیں، کیا خداخریدنے بیچنے کی چیز ہوتی ہے اور یہ خریدنے والے سائنس دان بھی ہیں، ڈاکٹر بھی ہیں، یہ جاہل لوگ نہیں ہیں، سب پڑھے لکھے لوگ ہیں۔

ہندؤوں کو آپ دیکھ لیں، ان کے مندر ہوتے ہیں، ان کے اندربت ہوتے ہیں، ان کو پوجتے ہیں، حالاں کہ دنیوی اعتبار سے وہ جاہل نہیں، پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ تو یہ جو عقل ہے اس کی روشنی ہدایت کے لیے کافی نہیں، ہدایت کے لیے وحی کی روشنی ضروری ہے، جب تک وحی کی روشنی نہیں ہوگی ہدایت نہیں ہوگی۔

انبیائے کرام علیہم السلام وحی کے ساتھ آئے ہیں اور الله تعالیٰ جو پیغام دیتے ہیں جو وحی بھیجتے ہیں وہ امت تک پہنچاتے ہیں، چناں چہ جو آیت میں نے تلاوت کی اس میں الله تعالیٰ اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم سے فرمار ہے ہیں کہ آپ اپنی امت سے کہہ دیجیے اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ الله کی محبت حاصل کرو تو تم محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم، یعنی میری اتباع کرو، الله کی محبت حاصل کرنے کے لیے، الله کا پسندیدہ بننے کے لیے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے، پھر کیا ہو گا، جب اتباع کروگے؟﴿یحببکم الله﴾ الله تمہیں پسند کریں گے۔

چناں چہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیا تھا او رانہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کی او رکامل اتباع کا مطلب کیا ہے؟ اعلان بغاوت، ہم کچھ نہیں مانیں گے ،صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی بات مانیں گے، چاہے اس میں ہماری جان جاتی ہے، چلی جائے، چاہے اس میں ہمارا مال جاتا ہے، چلا جائے۔ چاہے اس میں ہمارا گھرجاتا ہے، چلا جائے، چاہے اس میں ہمارے بیوی بچے جاتے ہیں، چلے جائیں، لیکن ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کو ترک نہیں کریں گے۔

اور صحابہ کرام رضی الله عنہم اس میں اتنے سخت تھے کہ وہ اس میں کوئی مصالحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، چناں چہ جب شروع اسلام میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے تو ہر طرف شور مچ گیا کہ یہ کیا ہے ؟ ” بدأ الإسلام غریبا“ جب اسلام آیاتو اجنبی تھا، مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا:﴿ ماوجدنا علیہ آباء نا﴾ ہم نے تو اپنے آباء واجداد کو اس طریقے پر نہیں دیکھا۔ چناں چہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو چمٹا لیا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کرنا ہے، اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی، الله تعالیٰ نے ان کی اس اتباع کو ایسا قبول فرمایا کہ قیامت تک ان کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا، چنا ں چہ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الله تعالیٰ کے ہاں تو ان کا مقام بلند ہوا ہی، رضی الله عنہم ، الله تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور ورضواعنہ اور وہ الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے اور ظاہری، دنیوی اعتبار سے ان کے پاس کچھ نہیں، نہ ان کے پاس ڈھنگ کی خوراک ہے، نہ ان کے پاس ڈھنگ کی پوشاک ہے، نہ ان کے پاس دنیوی اسباب ہیں اور جو ہیں ان کے ساتھ ان کا دل لگا ہوا نہیں، فتوحات ہوئیں، بڑے بڑے حکم راں او رحکومتیں ان کے پیروں کے نیچے آئے اور غنیمتیں آنا شروع ہوئیں اور مسجد نبوی کے صحن میں ہیرے جواہرات کے اتنے اونچے اونچے ڈھیر لگ گئے کہ اگر کوئی شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر اس ڈھیر کے ایک طرف سے گزرتا تو دوسری طرف والوں کو نظر نہ آتا۔

لیکن اس ہیرے اور جوہرات سے دل نہیں لگا، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا زمانہ ہے،مسجد نبوی کے صحن میں ہیرے جواہرات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور حضرت عمر رضی الله عنہ مسجد کے گوشے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آنسوؤں سے سسک سسک کر رو رہے ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله تشریف لے گئے او رجاکر عرض کیا کہ امیرالمومنین! یہ تو خوشی کا موقع ہے، الله نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا، فتح نصیب ہوئی ہے اور یہ جو زر وجواہر ہیں، یہ کوئی آپ کی ملکیت تھوڑا ہیں ،یہ تو بیت المال کے ہیں، مسلمانوں کے کام آئیں گے، اسلام کے غلبے کے لیے استعمال ہوں گے۔

حضرت فاروق اعظم رضی ا لله عنہ نے فرمایا: اے عبدالرحمن! اگر تم عشرہ مبشرہ میں سے نہ ہوتے تو میں تمہاری ان باتوں پر سخت تنبیہ کرتا، تم کیا سبق سکھارہے ہو؟ اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو مجھ سے کہیں بہتر حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ تھے، ان کے زمانے میں یہ چیزیں کیوں نہیں آئیں؟ اور اگر یہ کوئی اچھی چیز ہوتی تو ہم دونوں سے اور سارے عالم سے اچھے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کیوں نہیں آئیں؟

تو مال پڑا ہوا ہے، لیکن خوف ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جنت کی نعمتیں اس دنیا میں مل گئیں، ہمیں تو آخرت میں لینی ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”بدأ الإسلام غریبا وسیعود کما بدأ“ او رپھر ایک زمانہ آئے گا کہ یہ اسلام اسی طرح اجنبی ہو جائے گا، جیسے اپنے ابتدائی زمانے میں تھا، چنا ں چہ اب وہ زمانہ آگیا، آج اگر کوئی نوجوان سر پر عمامہ باندھ لے اور داڑھی مسنون انداز میں رکھ لے اور شلوار ٹخنوں سے اونچی کر لے توسب کہتے ہیں کہ اسے کیا ہو گیا؟ کہنے والے نصرانی نہیں ہیں، ہندو نہیں ہیں، کہنے والے مسلمان ہیں، مسلمان ماں باپ ہیں، آج اسلام کی تعلیمات پر عمل کرناچاہیے، خانگی زندگی ہو، چاہے اجتماعی زندگی ہو، چاہے غمی کا موقع ہو، چاہے خوشی کا موقع ہو، چاہے اور کوئی موقع ہو، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں ہے، اگر کوئی کرنا چاہیے تو وہ بے چارہ اجنبی ہے۔

ہاں ہندؤوں کے طریقے پر عمل کریں گے ، شادی کی تقریبات میں آپ جائیں، اس میں طرح طرح کی رسومات ہو رہی ہیں، جو ساری ہندوانہ رسومات ہیں او راگر اس بیچ میں کوئی کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ یہ جائز نہیں ہے، یہ ناجائز ہے۔ یہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ہے تو اس بے چارے کا تمسخر اڑایا جاتا ہے، یہ کیا بات ہے؟
”وسیعود کما بدأ “او راگلی بات بڑی اہم ہے ،جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی اور وہ ”فطوبی للغرباء“․ وہ لوگ جو اس زمانے میں اس اجنبیت کو اختیار کرنے والے ہوں گے، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کو خوش خبری سنارہے ہیں کہ خوش خبری ہے ان کے لیے، جو اس دور میں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر جمے رہے اور وہ تھوڑے ہوتے ہیں، ایک اصول یاد رکھیں کہ پوری تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیں ،انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اہل حق ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں، وہ ایک طائفہ او رجماعت ہمیشہ رہے گی جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرے گی۔

چناں چہ ہمیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر فخر ہونا چاہیے، کتنی عجیب بات ہے کہ اہل باطل کو اپنے آپ پر فخر ہے، آج الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا تمسخر اڑایا جارہا ہے، آج الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو ہیچ سمجھارہا ہے، لیکنمسلمان جو کلمہ گو ہیں، وہ الله تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرتے ہیں، وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو اپنا نبی مانتے ہیں، وہ ان کی تعلیمات کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔

میرے دوستو! یہ بہت بڑا گناہ ہے ،الله تعالیٰ کو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے او ریہ بات سمجھ لیجیے کہ اگر ہم الله اور اس کے رسول کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے، ہم آسمان زمین ایک کر لیں ہم کام یاب نہیں ہو سکتے، نہ دینی اعتبار سے ،نہ دنیوی اعتبار سے۔

کام یابی کی کلید اور کام یابی کی چابی صحابہ کرام رضی الله عنہم اپنے عمل سے بتا گئے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرو، محمد رسول الله کی اتباع کرو گے تو الله تعالیٰ خوش ہو جائیں گے اور جب الله تعالیٰ خوش ہو جائیں گے تو ساری مشکلات دور ہوجائیں گی، پھر ہم ناکام نہیں ہوں گے، یہ وحی بتارہی ہے، چناں چہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ میں کام یاب ہوں، کون چاہتا ہے کہ میں ناکام ہوں، کام یابی کا حقیقی اور درست راستہ، اس لیے کہ یہ راستہ ہمیں عقل نے نہیں بتایا یہ راستہ ہمیں وحی نے بتایا ہے، یہ راستہ ہمیں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بتایا ہے اور اس کے صحیح ہونے میں ذرہ برابر کوئی شک اور شبہ نہیں، اس لیے خود بھی الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں، اپنے گھروں میں بھی ماحول بنائیں اور وہ تمام ایسی چیزیں جو ہمیں تباہ وبرباد کر رہی ہیں، ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہیں، اس سے اجتناب کریں۔

آج ہمارے معاشرے کے اندرلوگ گھنٹوں گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں، گھنٹوں گھنٹوں موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں، اس نے ہمیں تباہ کر دیا ،میں نے کئی دفعہ عرض کیا کہ ٹینکوں اور میزائلوں نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہمیں اس موبائل فون نے نقصان پہنچایا ہے۔

چناں چہ ہم احتیاط کریں، تلاوت میں وقت لگائیں، ذکرمیں، الله تعالیٰ سے مناجات میں وقت لگائیں، اپنے کاموں کو کرتے ہوئے بھی الله تعالیٰ کی طرف رجوع او رانابت اختیار کریں۔

الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․

خطبات جمعہ سے متعلق