دل کی سختی اسباب ، نتائج اور علاج

idara letterhead universal2c

دل کی سختی اسباب ، نتائج اور علاج

مولانا عبیدالرحمان

تمہید واہمیت

اس وقت دینی واسلامی لحاظ سے اسلامی معاشرہ بہت ہی انحطاط اور زوال پذیر ہے، معاشرے کی اکثریت دین وشریعت کے اکثر حصہ پر عمل کرنے کی دولت وسعادت سے محروم اور تہی دامن ہے،اجتماعی زندگی سے تو دین کب کا رخصت ہوچکا ہے،موجودہ بے دینی کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب مسلمانوں کے دلوں کاسخت ہونا بھی ہے جس کو قرآن وحدیث میں ”قساوت قلب“سے تعبیر کیاجاتاہے، اگر اس مرض کا علاج کیاجائے تو انفرادی سطح پر کافی بیداری پیدا کی جاسکتی ہے، گو پوری بیداری کے لیے اجتماعی سطح پر دینی تعلیمات کو نافذ کرناہی ضروری ہے۔ یہاں اسی دلی قساوت سے متعلق چند اہم معروضات پیش کی جاتی ہیں، تاکہ عملی طور پر اس کا اہتمام کیاجائے۔

دل کے نرم/سخت ہونے کی دینی حیثیت

قرآن کریم میں ایک سے زیادہ جگہ پر نیک لوگوں کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے تذکرہ کے وقت وہ روتے ہیں، ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے ہیں، بعض نصوص میں تو پوری تاکیدکے ساتھ یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے، چناں چہ سورة انفال میں ہے:

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ﴾ (الأنفال:2)

ترجمہ:ایمان والے وہی ہیں جب اللہ کا نام آئے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ا س کی آیتیں ان پر پڑھی جائیں توان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی معنی میں مسلمان صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے یاد کے وقت ان کے دل ڈرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر ان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوجاتاہے اوراس کی وجہ سے اللہ تعالیٰکے ساتھ ان کے تعلق میں استحکام اور مضبوطی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ دل کی نرمی ہی ہے جو ایسے موقع پر آنسو بہانے کی شکل میں سامنے آتی ہے۔

دلی نرمی اور سختی کے اثرات

ہر چیز کی نرمی اورسختی اپنے حساب سے ہوتی ہے، دل کی نرمی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بات توجہکے ساتھ سن لے، سنتے وقت دل خوف زدہ ہو،اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہو،اس کے ساتھ اپنی کوتاہی وکم زوری پر آنسو بہے تو زہے نصیب۔ یہی دل کی نرمی ہی ہے جب دل سے رخصت ہوجاتی ہے تو سختی اس کی جگہ گھیر لیتی ہے۔سخت دل بے دینی کی ایسی آماج گاہ ہوتی ہے جہاں ہر سو بے دینی ہی کی ریاست قائم ہوتی ہے، اس کے حدود سے بے دینی کے جراثیم نکالنے کا کوئی یقینی راستہ موجود نہیں ہوتا، آنکھ اور کان وغیرہ کے راستے بے شک پوری طرح مسدود نہیں ہوتے، لیکن ان کی حیثیت اس بے اختیار، لیکن نیک نیت سپاہی سے زیادہ نہیں ہوتی جو کسی بااختیار ظالم کے ماتحت ہو ،جس طرح ایسے سپاہی کی نیک نیتی کا کوئی اثر معاشرے پر نہیں پڑتا، یوں ہی دل تک پہنچنے والے یہ حواس کے راستے بھی متعلقہ شخص کے کردار پر کوئی فیصلہ کن اثر ڈالنے کے قابل نہیں ہوتے۔

نرمی وسختی کے علامات

دل کی نرمی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ:
خدا تعالیٰ کا ذکر ہو تو نرم دل متاثر ہوجاتاہے، نعمتوں کا تذکرہ ہو تو خوشی ومحبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، عذاب وغیرہ کا تذکرہ ہو تو ایسا دل خوف زدہ ہوجاتاہے، آنکھیں رونا شروع کرتی ہیں، دل لرزجاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل سخت دل ہے کہ وہ ان چیزوں سے یا بالکل کوئی اثر نہیں لیتا، بلکہ سننا تک گوارا نہیں کرتا، بلکہ ایک گونہ بوجھ وتکلف کے ساتھ ہی کان لگاتاہے، اس کی دل تک چوں کہ یہ بات موثر انداز میں پہنچ نہیں پاتی، اس لیے نہ اس کے شوق ورغبت میں اضافہ ہوتاہے اور نہ ہی خوف ووحشت کے جذبات امڈتے ہیں۔

حضرات انبیائے کرام، نیک لوگ اور جنت وغیرہ کے تذکروں کے وقت نرم دل میں پیار ومحبت اور نیک اعمال کے ساتھ شوق ورغبت کے جذبات ونفسیات پیدا ہوتے ہیں ، کفار اور اعداء ِ حق کے واقعات وکردار دیکھ سن کرغصہ ونفرت یا افسوس کی نفسیات جنم لیتی ہیں۔ اس کے بالمقابل اگر کوئی شخص دلی نرمی کی دولت سے معمور نہ ہو تو یہ جذبات بیدار نہیں ہوتے ، شوق ورغبت کے جذبات کا ان باتوں کے ساتھ کچھ زیادہ ربط وتعلق نہیں ہوتا۔

نرم دل شخص کے لیے وعظ ونصیحت کی باتیں مؤثر ثابت ہوجاتی ہیں، جب کہ سخت دل آدمی کے دل پر ان باتوں کا خاطرخواہ اثر نہیں ہوتا۔

دل نرم ہو تو گناہوں کے صادر ہونے پر دلی شرمندگی اور پشیمانی ہوجاتی ہے، جو توبہ کی اصل واساس ہے،نیکیوں کے صادر ہونے پر دلی خوشی اور فرحت کا سماں پیدا ہوجاتا ہے، جو ایمان کے کامل ہونے کی علامت اور اس کا اثر ہے۔ جب کہ سخت دل شخص کو نہ گناہوں پر دلی ندامت ہوتی ہے اور نہ ہی نیکی انجام دینے پر شادمانی کی نوبت آتی ہے۔ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَلَوْلَا إِذْ جَاء َہُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَکِنْ قَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ﴾․ (الأنعام:43)

ترجمہ: پھر کیوں نہ ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو عاجزی کرتے؟ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے انہیں وہ کام آراستہ کر دکھائے جو وہ کرتے تھے۔

اس سے واضح ہوا کہ پہلی اُمتوں میں سے جن افراد کو عذاب دے کر ہلاک کیاگیا،ان کی بڑی غلطی یہ تھی کہ اپنے گناہوں اور جرائم سے توبہ نہیں کیا، توبہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کے دل سخت ہوگئے تھے۔

اخروی نتائج واثرات

سورة انفال کی جوآیت پہلے درج ہوئی،اس میں اہل ایمان کی کچھ صفات ذکر کی گئی ہیں ،اس کے بعد ان صفات کے حامل افراد کو سچے مؤمن قرار دیاگیا،ان کے لیے مغفرت اور بہتر رزق ملنے کی بشارت سنائی گئی۔اس اعلان وخوش خبری کا تعلق صرف دلی نرمی کے ساتھ اگر چہ نہیں جوڑا گیا بلکہ دیگر چارصفات کا بھی اضافہ فرمایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سن کر ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے،وہ اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہیں، نمازیں قائم کرتے ہیں اور صدقات دینے کااہتمام کرتے ہیں ، لیکن ایک تو دل کی نرمی کو اس سیاق میں ذکر کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس انعام کے حاصل ہونے میں اس صفت کا بھی خاصا کردار ہے، ساتھ غور کیاجائے تو یہ دیگر چار صفات دل کی نرمی کے ساتھ خود بخود حاصل ہوتے ہیں، نرم دل شخص ہدایت کا اثر قبول کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس طرح کے نیک اعمال کی پابندی واہتمام خود بخود شروع ہوجاتاہے۔

خیر، یہ تو دل کی نرمی کا نتیجہ اور اس کا انعام ہے، جہاں تک دل کی سختی اور قساوت کا انجام ہے تو وہ بہت برا اور نہایت خطرناک ہے، اس سختی کی وجہ سے انسان نظریاتی یا کم ازکم عملی گم راہی کا شکار ہوجاتاہے ،جس کے نتیجہ میں اخروی خسارے کا مستحق بن جاتاہے، قرآن کریم میں ہے:

﴿فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ﴾․ (الزمر:22)

ترجمہ:سو جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے متأثر نہیں ہوتے، ان کے لیے بڑی خرابی ہے ۔یہ لوگ کھلی گم راہی میں ہے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت دل گم راہی میں مبتلا ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ دنیا میں گم راہی آخرت کے نقصان وخسارے کا موجب ہے۔

”مسند بزار“میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا أذنب المؤمن کانت نکتة سوداء فی قلبہ، فإن تاب ونزع واستغفر صقلت، وَإن عاد زادت حتی یسود القلب، فذلک الران الذی قال اللہ تبارک وتعالی:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾․ (مسند البزار:15/358)

ترجمہ: جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ لگ جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور گناہ کو ترک کرتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو صاف ہوجاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو وہ داغ زیادہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے ،یہی وہ ”ران“ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے :﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے (برے )کاموں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے) میں کیا ہے۔

اس روایت اور روایت کے آخر میں جس آیت کی طرف اشارہ فرمایاگیاہے اس آیت سے واضح ہوجاتاہے کہ دل پرزنگ پڑنے کے نتیجے میں جب دل سخت وسیاہ ہوجاتاہے تو اس میں حق قبول کرنے کی صلاحیت نہایت کم زور یا ختم ہوجاتی ہے، اس کے بعد حق قبول کرنے کے بجائے اس میں طرح طرح کے شبہات واعتراضات نکالے جاتے ہیں، آخرت میں اس کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتاہے کہ وہاں کی کام یابیوں سے محرومی گلے کا طوق بن جاتی ہے اور خسارہ ونقصان زیبِ تن ہوجاتا ہے۔

دل کے سختی کے اسباب وعلاج

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایاہے کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا:

”إِنَّ ہَذِہِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ، کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیدُ إِذَا أَصَابَہُ الْمَاء ُ“ قِیلَ: یَا رَسُولَ اللہِ، وَمَا جِلَاؤُہَا؟ قَالَ:”کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ “(شعب الإیمان:3/392)ترجمہ: یہ دل ایسے ہی زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے، کسی نے پوچھا :ان کی صفائی کا طریقہ کیا ہے ؟ فرمایا :موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت۔

اس روایت مبارکہ سے واضح ہوا کہ دل کے زنگ اور اس کی سختی کو دو امورسے دور کیاجاسکتا ہے:ایک کام موت کا زیادہ تذکرہ کرنا ہے اور دوسرا کام قرآن کریم کی تلاوت کرناہے۔

قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی کتاب ہے، جس کا اس قسم کی بیماریوں کے لیے مؤثر ہونا محتاجِ بیان نہیں ہے۔موت کے زیادہ یادکرنے کی وجہ سے دلی سختی دور ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ عام طور پر دل میں سختی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی لمبی لمبی امیدیں لگائے بیٹھتاہے، لمبی امیدوں کی وجہ سے موت اور آخرت کی یاد کم زور پڑجاتی ہے اور گناہوں پر ایک گونہ جرأت پیدا ہوتی ہے، پھر جیساکہ درج بالا روایت میں ذکر کیاگیاہے کہ گناہوں پر اصرار کرنے کی وجہ سے دل سخت ہوجاتے ہیں اور ان پر ایک مہر لگائی جاتی ہے، جس کے بعد حق قبول کرنے کی صلاحیت ہی بے کار ہوجاتی ہے، لہٰذا اس کا اصل علاج یہی ہے کہ بار بارموت کا تذکرہ کیا جائے، اس کا مراقبہ کیاجائے، اس سے لمبی امیدوں کا بندھن ٹوٹ جائے گا، جو دلوں کی سختی کی اصل واساس ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَکَثِیرٌ مِنْہُمْ فَاسِقُونَ﴾․(الحدید:16)

ترجمہ:اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت سے نا فرمان ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ :
دل کے سخت ہونے کی بڑی وجہ لمبی امیدیں رکھنا ہے،اس کی وجہ سے گناہوں کے مضر ہونے کا احساس ختم ہوجاتاہے، گناہوں پر اصرار کرنے کی وجہ سے دل سیاہ پڑجاتاہے، توبہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
” مومن کا دل شیشے کی طرح سفید ،صاف اور روشن ہوتا ہے، شیطان اس کو گناہ کے کسی بھی راستے سے نہیں آسکتا،مگر اس کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح وہ اپنے چہرے کو شیشے میں دیکھتاہے ،پھر جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ داغ لگایا جاتاہے،اگر وہ اپنے گناہ سے توبہ کرے تو اس کے دل سے داغ کو مٹایا جاتاہے اور وہ صاف ہو جاتا ہے اور اگر توبہ نہیں کیااور دوبارہ ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتا رہا تو اس کے دل پر ایک ایک داغ لگایا جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قول ﴿کلا بل را ن علی قلوبہم ما کانو ا یکسبون﴾ہے۔ فرمایا:گناہ پے گناہ کرنا یہاں تک کہ دل سیاہ پڑ جائے،اس دل میں نصیحت داخل نہیں ہوتی ،پھر اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور وہ داغ اس کے دل سے شیشے کی طرح صاف ہوجاتا ہے “۔(شعب الإیمان:9/375)
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ذو النون مصری رحمہ اللہ نے فرمایا:

سقم الجسد فی الأوجاع، وسقم القلوب فی الذنوب، فکما لا یجد الجسد لذة الطعام عند سقمہ، کذلک لا یجد القلب حلاوة العبادة مع الذنوب. وسمعتہ یقول: من لم یعرف قدر النعم سلبہا من حیث لا یعلم․(صفة الصفوة:2/445)

ترجمہ:جسم کی بیماری دردوں کی شکل میں ہوتی ہے اور دلوں کی بیماری گناہوں میں ہے ، جس طرح جسم بیماری کے وقت کھانے کا ذائقہ محسوس نہیں کرتا اسی طرح دل بھی گناہوں کے ساتھ عبادت کی مٹھاس محسوس نہیں کرتا۔اور میں نے اس کو فرماتے ہوئے سنا :کہ جو نعمتوں کی قدر کو نہیں پہچانے تو اللہ تعالیٰ اس سے وہ نعمتیں ایسے طریقے سے چھین لیں گے کہ اس کو علم بھی نہیں ہوگا۔

موت اور اس کے بعد کے حالات کے بار بار یاد کرتے رہنے اور قرآن کریم کی تلاوت کی پابندی کرنے سے امیدوں کا بندھن ٹوٹ جاتاہے، اس سے(جلد یا بدیر) دل کی سیاہی دور ہوجاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی سختی اور زنگ کو دور فرمائیں اور امت مرحومہ پر اپنا خصوصی فضل وانعام فرمائیں۔
واللہ اعلم بالصواب․

تعمیر حیات سے متعلق