انسانی وجود،قدرت کا شاہ کار
اللہ تعالی کی ذات خالق ِ حقیقی ہے اور اس کی صفت ِ خالقیت کا مظہر ِ اتم حضرت ِ انسان ہے ،جس کا وجود ہر زاویے،ہر پہلو اور ہر جہت سے کمال ِ خلقت کی تصویر دکھائی دیتا ہے، چھوٹے سے انسانی وجود میں خالقِ احسن ِ تقویم نے متنوع حقیقتوں کا ادراک کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھی ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف اعضاء کی پیوند کاری فرمائی ہے،ہر عضو ِ انسانی کے پس ِ پردہ ایک ایساحیرت انگیز نظام مستقل طور پر چل رہا ہے اور ایسا مکمل پینل کام کر رہا ہے جس کی بدولت وہ اعضاء الگ الگ نوعیت کے فوائد و نتائج مرتب کرتے ہیں ،مثلاََانسان آنکھ سے دیکھتا ،کان سے سنتا،ناک سے سونگتا،زبان سے چکھتا اور ہاتھ سے پکڑتا ہے،بنی آدم کے نحیف جسم کا حصہ بننے والے حواس ِ ظاہرہ خمسہ میں یہ پانچ منفرد قوتیں:قوت ِ باصرہ ،قوت ِ سامعہ،قوت ِشامعہ ،قوت ِ ذائقہ اور قوت ِ لامسہ پیدا فرما کر باری تعالی نے انسان کو اپنے وجود سے کامل نفع اٹھانے کو موقع فراہم کیا ہے اور ان پانچ مختلف طریقوں سے اس کے لیے علم کے حصول کی راہ ہم وار کی ہے،یہی وہ علمی شان ہے جس کے سبب انسان کو مخلوقات کی سرداری کا اعزاز بخشا گیا اور اسے اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔
اعضاء ِ انسانی کا شکر
خلاق ِ عالم نے اپنی لاریب کتاب میں انسانی تخلیق کو اپنی قدرت کا شاہ کار قرار دیا اور اس نعمت کا اظہار فرما کر انسان کو اپنے ذکر اور شکر کی طرف متوجہ کیا ،چناں چہ ارشاد ِ باری تعالی ہے:کیا ہم نے اس (انسان ) کو دو آنکھیں اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟(سورة البلد)دوسری جگہ ارشاد ہے:اور ہم نے ان کو کان اور آنکھیں اور دل عطا کیے۔(سورة الاحقاف) قرآنی اسلوب سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان عظیم نعمتوں کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ انسان ان اعضاء کا درست استعمال کر کے، اللہ تعالیٰ کا شکر عملاََ بجا لائے اور زبان سے حق تعالی کی تسبیح و تحمید اور تقدیس و ثنا کے کلمات ادا کر کے قولاً بھی اس منعم ِ حقیقی کا شکر ادا کرے،ورنہ یہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے اور یہ ایسی گواہی ہو گی جس کو انسان جھٹلا بھی نہیں سکے گا،ارشاد ِ باری تعالی ہے:یہاں تک کہ جب وہ اس (آگ) کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان،ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں،وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟وہ کہیں گے کہ ہمیں اسی ذات نے بولنے کی طاقت دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی عطاء فرمائی ہے۔(سورة حم السجدہ)
”دل“ جسم کا بادشاہ
تمام تر اعضاء ِ انسانی میں جس عضو کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور جس کا انسانی مصروفیات میں مرکزی کردار ہے وہ دل ہے،اس لیے کہ انسان جو بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے،اس سے پہلے اس کا تصور اور خیال آتا ہے اور خیال کی جگہ دل ہے،پھر دوسرے درجے میں دماغ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تدبیر کرتا ہے اور اس کا آخری درجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعضاء و جوارح سے عمل کرتا ہے،ہمارے عرف میں اس کویوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ”دل جسم کا بادشاہ ہے“۔ وجود ِ بنی آدم میں قلب ِ انسانی کی اسی مرکزیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:سنو!بلا شبہ جسم میں ایک حصہ ایسا ہے کہ اگر وہ درست ہے توسارا جسم درست ہے اور اگر وہ خراب ہے تو سارا جسم خراب ہے،سنو! وہ دل ہے۔ (متفق علیہ ،بروایت حضرت نعمان بن بشیر)
”دل“ خانہ خدا
انسان کے سینے میں موجود دل کتنا اہم عضو ہے؟اس کا اندازہ بات سے کیا جا سکتا ہے کہ دل خانہ خدا یعنی خدا تعالی کا گھر ہے ،اس میں قادر ِ مطلق ذات بستی ہے ، حدیث ِ قدسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کا ارشاد نقل کرتے ہیں:میں آسمان اور زمین میں نہیں سما سکتا ،البتہ موٴمن کے دل میں سما جاتا ہوں۔(سنن ِ دارمی)اب اگر کوئی شخص دل کو شیطانی وساوس اورغلط خیالات سے آلودہ کرے گا تو تو اندازہ کیجیے کہ وہ کتنی بڑی جسارت کر رہا ہے،ہم اپنے گھر کو کتنا صاف ستھرا رکھتے اور آلودگی سے بچاتے ہیں، لیکن خدا کے گھر کو کس دیدہ دلیری سے ناپاک کر دیتے ہیں،یہ ہمارے لیے مقام ِ عبرت ہے۔
دل کی ناپاکی کے اسباب
قلب کی ناپاکی کے بہت سے اسباب ہیں،غیر محرم عورتوں کا خیال لانا،اپنے زعم میں خود کو بڑا تصور کرنا ،خود پسندی میں مبتلا ہونا،کسی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچنا اور عبادت میں ریا کو دخل دینا وغیرہ سب امور ایسے ہیں جن سے دل پر گناہ کا زنگ لگ جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ معرفت ِ الہی کے عکس کو صحیح معنوں میں جذب نہیں کر پاتا،اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ دل میں سختی پیدا ہو جاتی ہے،مادیت کا غلبہ ہو جاتا ہے اور عبادت میں جی نہیں لگتا ہے۔
برے خیالات کا علاج
جب دل کی ایسی حالت ہو جائے تواس وقت فوراََ اس کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور اس معاملے میں بالکل غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے ،اس سلسلہ میں دو کام کرنے چاہییں،ایک یہ کہ ”لاحول ولا قوة الا باللہ“ کا کثرت سے ورد کرے، کیوں کہ یہ ایسے زبردست اور موٴثر کلمات ہیں جن کو سنتے ہی شیطان بھاگ جاتا ہے،یہ ضروری نہیں کہ صرف برا خیال آنے پر یہ کلمات پڑھے، بلکہ معمول کی زندگی میں بھی انہیں پڑھتا رہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی:اے ابوہریرہ!”لاحول ولاقوة الا باللہ“ کو زیادہ پڑھا کرو ،کیوں کہ یہ کلمات جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔ (متفق علیہ)
دوسرا یہ کہ استغفار کا اہتمام کرے کیوں کہ دل کی صفائی میں استغفار بہت زیادہ معاون ثابت ہوتا ہے ، ایک مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے ،اسی طرح دل کو بھی زنگ لگ جاتا ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا: استغفار۔ (معارف الحدیث)اگر انسان مسلسل گناہوں میں مشغول رہے اور توبہ کا اہتمام نہ کرے تواس سے دل مردہ ہو جاتا ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب موٴمن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر وہ توبہ کرے،باز آجائے اوراستغفار کرے تواس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے ،اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو وہ دھبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔(سنن ِ ترمذی)ایک روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ پھر اس دل میں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔جب انسان معاصی کی زندگی اور حرام شہوات ِ نفسانیہ ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے راستے پر چلنے لگے گا تواس کے دل کی دنیا آباد ہو جائے گی،دل پر ہر وقت سکینہ کے نزول کی وجہ سے باغ باغ رہے گا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: سنو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔(سورة الرعد)ایسے ہی مبارک دل کو قرآن ِ کریم میں ”قلب ِ سلیم“ یعنی سلامتی والا دل اور ” قلب ِ منیب“ یعنی رجوع الی اللہ کرنے والا دل کہا گیا ہے۔
غیر اختیاری خیالات کا حکم
قلبی خیالات کے حوالہ سے یہ بات قابل ِ لحاظ ہے کہ بعض لوگ اس وجہ سے پریشان رہتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت برے خیالات ستاتے ہیں اس لیے ہمارا دل کبھی پاک ہو ہی نہیں سکتا اور ہر وقت برے وساوس کی وجہ سے ہمارے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جا رہا ہے،اس سلسلہ میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ دو باتیں الگ الگ ہیں،ایک ہے برے خیال کا آنا اور ایک ہے برا خیال لانا،پہلی چیز انسان کے اختیا ر میں نہیں ،اس لیے اس پر کوئی گرفت نہیں،سورة بقرہ کی آخری آیات کا شان ِ نزول بھی اسی امر سے متعلق ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غیر اختیاری خیالات کے بارے میں جہنم کی سزا سے متعلق پریشانی کا اظہار کیا تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرماکر ،یہ تسلی فرمادی کہ خودبخود دل میں پیدا ہونے والے وساوس پر کوئی موٴاخذہ اور محاسبہ نہیں ہو گا،چناں چہ ارشاد فرمایا:اللہ نے کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بنایا۔(سورة البقرہ)جب کہ اس کے برعکس اگر بری چیز کو خود سوچا یابرا خیال آنے پر مسنون کلمات کے ذریعہ شیطان کو دفع نہ کیا اور اس خیال میں مگن ہو گیاتو اللہ تعالی کے ہاں اس کا موٴاخذہ ہو گا۔