دلوں پر گناہوں کے مہلک اثرات … نصیحت اور عبرت سے محرومی

idara letterhead universal2c

دلوں پر گناہوں کے مہلک اثرات … نصیحت اور عبرت سے محرومی

مفتی تنظیم عالم قاسمی

زمانہٴ جاہلیت کے تاریک دور میں جب قرآن روشن دلائل لے کر نازل ہوا تو بہت سے خوش نصیب لوگ پہلے ہی مرحلے میں اسلام کے در پر جھک گئے، قرآن نے ان کے دلوں میں ہلچل پیدا کر دی، خدا کے وجود، اس کی لامتناہی قدرت وعظمت کے وہ قائل ہوئے او رانہیں اعتراف کرنا پڑا کہ ایک خدا کے علاوہ ،جن بتوں کے سامنے ہم سجدہ کرتے تھے، وہ باطل اور جھوٹے ہیں، اسلام کی سچائی پاکر وہ اپنی قسمت پر ناز کرتے اور گم راہی میں گذری ہوئی زندگی پر انہیں کبھی کبھی بڑا افسوس ہوا کرتا تھا، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے وجود، وحدانیت، حشر و نشر، قیامت، جنت و جہنم اور آخرت کے مناظر کو اس طرح صاف اور روشن دلائل سے بیان کیا ہے کہ ان میں ادنی غور و فکر سے ہدایت نصیب ہو سکتی ہے، لیکن اس کے باوجود کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد کفر و شرک پر قائم رہی، اسلام ان کے قلب و جگر کو مسخر نہ کر سکا اور نہ ہی اس کے دلائل ان کی زندگی کو صحیح رخ دے سکے، قرآن نے اس کی وجہ بیان کی ہے:﴿إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاء ٌ عَلَیْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُونَ، خَتَمَ اللَّہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ﴾․

ترجمہ:”جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبر دار کر دیا نہ کرو، بہر حال وہ ماننے والے نہیں ہیں ، اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے، وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ “

یعنی ان باتوں میں تاثیر بجاطور پر پائی جاتی ہے، مگر کسی مؤثر کلام سے فائدہ اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب کہ سننے والوں کا ارادہ نیک ہو، وہ اسے قبول کرنے اور ماننے کا قصد کریں، ورنہ کسی موقف پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے والوں کے لیے ہزار دلائل بھی بے سود ہیں۔

کفار مکہ کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا کہ وہ حق بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اگر سمجھتے بھی تو اسے عناداً قبول نہیں کرتے، سچی بات کو متوجہ ہو کر نہیں سنتے، راہ حق کو نہیں دیکھتے تھے، ان لوگوں نے نفرت و عناد کے سبب کچھ ایسا حال بنا لیا تھا کہ مذہب اسلام کی صداقت، ایک خدا کے وجود اور حشر و نشر کے روشن اور واضح سے واضح دلائل کو دیکھنے اور سننے کے لیے وہ تیار ہی نہیں ہوتے تھے، ان کی اصلاح اور ایمان کے متعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جو کوشش کرتے وہ رائیگاں ہو جاتی اور ذرہ برابر بھی ان کے دل و دماغ پر اس کا اثر مرتب نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر آپ (صلی الله علیہ وسلم) کی پیش کردہ باتوں کو رد کر دیا ہے اور سچے راستے کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے، اس لیے اللہ نے ان کی حالت پر نظر رکھتے ہوئے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ، ان کے نتائج انتہائی برے اور خوفناک ثابت ہوں گے ،کسی چیز پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے، تاکہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو، کفار مکہ نے سوچنے، سمجھنے اور قبول حق کے تمام راستے اپنے اوپر بند کر لیے تھے، اس لیے ان کی اصلاح کی توقع فضول تھی، قرآن نے ان کے دلوں پر مہر بندی کی اطلاع کے ساتھ عذاب عظیم سے باخبر کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق بات کا دلوں پر اثر انداز نہ ہونا، اس لیے ہوتا ہے کہ گناہوں کی کثرت اور بے توجہی کے سبب قدرتاً دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے، جو ایک انسان کے لیے بڑی محرومی اور بد بختی کی بات ہے اور یہ دنیا و آخرت کا بڑا خسارہ ہے۔ آج ہم اپنے دلوں کا جائزہ لیں، سماج اور معاشرے پر نظر ڈالیں کہ اسلامی احکام کی اتباع کے لیے ہم کتنا دوڑ رہے ہیں، دینی اجلاس واجتماع کی کثرت ہے ، درس قرآن اور درس حدیث کی کمی نہیں، دینی تحریکات اور اصلاحی کوششوں کی بھی کمی نہیں، ہر جمعے نماز سے قبل مختلف عنوانات پر اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری ہے، ہر طرف قرآن اور حدیث کی ہی باتیں آپ کو ملیں گی، مدارس و مکاتب اور خانقاہوں کا وجود نہ صرف باقی، بلکہ ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، پھر اس کے باوجود روحانی اعتبار سے ملت بیمار کیوں ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خود مسلمانوں کے گھروں اور سماج میں ایسی بے حیائیاں جنم لے رہی ہیں، جن سے انسانیت کو بھی شرم آتی ہے ، سود، رشوت، شراب نوشی، زناکاری، ظلم و زیادتی، قتل وغارت گری، گالی گلوچ، بداخلاقی و بد کرداری ، ناجائز عقد و معاملات اور دیگر برائیاں اس طرح مسلم معاشرے میں جڑ پکڑ گئی ہیں کہ ان کے ازالے کے لیے بڑے سے بڑے مصلح، داعی، مفکر ومدبر کی کوششیں بے کار ثابت ہو رہی ہیں، قرآن و حدیث پر مشتمل ان تقاریر و بیانات کا کوئی اثر ہے اور نہ اصلاحی ودینی مضامین و مقالات اور کتابوں کا، پہلے کے مقابلے میں اب دینی رسائل و جرائد کی بھی بہتات ہے اور کتابوں کی طباعت ہر سال بڑھتی جارہی ہے، لیکن برائیوں اور بے حیائیوں کا سیلاب ہے، جس پر بند لگانے کی ہر کوشش ناکام ہے۔

قرآن پڑھنے کی ایک مثال لیجیے، صحابہ کرام جب قرآن پڑھتے یا سنتے تو ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، جہنم کے مناظر اور اس کے خوف ناک عذاب کے بیان سے جسم کانپ اٹھتا، جنت کی لازوال نعمتوں کا اشتیاق پیدا ہوتا، وہ بچوں کی طرح روتے، بلکتے اور تڑپتے تھے، بلکہ ابو جہل، ابولہب، اخنس بن شریق جیسے سخت دل کفار مکہ بھی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان اقدس سے تہجد کی نماز میں قرآن سنتے تو زار و قطار روتے اور ان کے کلیجے پھٹ پڑتے تھے، مگر آج ہم بھی قرآن پڑھتے اور سنتے ہیں، غور کیجیے کہ کیا اس عظیم الشان کتاب کی آیات سننے سے دلوں میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے، روح میں وجد آتا ہے ، زندگی میں انقلابی اثرات رونما ہوتے ہیں، شب و روز قرآن پڑھنے کے باوجود بھی کبھی نہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ، نہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں، نہ ہمارے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا ہے اور نہ ہی قلب و جگر کی تسخیر پائی جاتی ہے۔

اسی طرح عمل کی باری آئی تو صحابہ کرام اس میں بھی کھرے اترے، جیسے ابتدائے اسلام میں شراب کی حرمت نازل ہوئی تھی، عرب کے دستور کے مطابق بعض مسلمانوں میں بھی اس کی لت پڑی ہوئی تھی، لیکن مدنی زندگی میں سورہ مائدہ آیت:91-90 میں جب اس کو واضح طور پر حرام قرار دے دیا گیا تو وہی مسلمان جو اس کے دلدادہ تھے، اس کی حرمت سننے کے بعد فوری طور پر رک گئے، شراب کے برتنوں اور مٹکوں تک انہوں نے توڑ ڈالے اور گلیوں میں شراب بہادی، روایت میں ہے کہ جس وقت شراب کی حرمت نازل ہوئی، شراب کا جام بعض لوگوں کے ہاتھ میں تھا، کچھ پی چکے تھے، کچھ جام میں بچ رہا تھا، انہیں حرمت کا علم ہوا تو شراب کے باقی حصوں کو برتن میں انڈیل دیا اور اسے ضائع کر دیا، پھر اس کی طرف توجہ ہی نہیں کی ، عام طور پر انسان جب کسی چیز کا عادی ہوتا ہے اور اس کی لت پڑ جاتی ہے، اس کا چھوڑنا انتہائی دشوار اور وقت طلب ہوتا ہے، لیکن اطاعت وفرماں برداری اور خوف خدا کی یہ حیرت انگیز مثال دیکھیے کہ شراب جس کو وہ چائے کی طرح پینے کے عادی تھے، حکم خداوندی آتے ہی کسی پس و پیش کے بغیر اس کو ترک کر دیا، بلکہ شراب کا جو جام وہ ہونٹ سے لگا چکے تھے، جیسے ہی قرآن کی آیت سنائی گئی، اس لمحے میں اپنے جام کو ہونٹ سے علیحدہ کر لیے اور پھر شراب کا ایک قطرہ بھی حلق میں نہیں گیا، ایسی اطاعت دل پر کتنی گراں گزرتی ہو گی اور کس صبر سے انہوں نے کام لیا، کیا خوف خدا کی یہ مثال کہیں اور مل سکتی ہے ؟

آج سودی کاروبار کرنے والے مسلمان سود کی حرمت کے خلاف تقریریں سنتے ہیں، سود پر اللہ کا جو غضب نازل ہوتا ہے اور آخرت میں اس کے جو خوف ناک نتائج ہوں گے ، ان پر بھی ان کی اچھی نظر ہے، سودی لین دین کی لعنت والی قرآنی آیات واحادیث کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، لیکن کیا ان بیانات سے، قرآن و حدیث کی دھمکیوں سے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیدا ہوئی؟ کتنے ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے خوف خدا کے سبب قرآنی احکام سنتیہی ایسے کاروبار کو ترک کر دیا ہو اور گزرے ہوئے معاملات پر آنکھوں سے آنسو بہے ہوں؟ زندگی گناہوں اور برائیوں سے لت پت ہے اور ان جرائم کے خلاف شب و روز قرآن و حدیث کی باتیں کانوں سے ٹکراتی ہیں، عذاب قبر اور جہنم کے مناظر کا بیان بھی سامنے ہوتا ہے، لیکن جسم میں کوئی حس نہیں ہے ، دل و دماغ میں کوئی انقلاب نہیں، شب و روز کی عملی رفتار میں کوئی تغیر نہیں، بلکہ نیکیوں کے بجائے برائیوں کی طرف، رحمت خداوندی کے بجائے اس کے غضب کی طرف ہم لپک رہے ہیں، بلاشبہ قرآن کی اپنی تاثیر باقی ہے، شریعت کی پابندیاں اپنی جگہ قائم ہیں، جنت و جہنم کی ساری باتیں پہلے کی طرح اب بھی تازہ ہیں، لیکن دلوں کی کیفیت بدل گئی، ایمانی حرارت میں فرق آگیا ، عند اللہ جواب دہی کا احساس مٹ گیا، جس دل میں سختی پیدا ہو جاتی ہے، قبولیت کے تمام دروازے اس کے لیے بند ہو جاتے ہیں اور ایسے قلوب کے لیے قرآن نے بہت سخت وعید بیان کی ہے :﴿فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکْرِ اللَّہِ أُولَٰئِکَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ﴾․(الزمر:22)

ترجمہ:”تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے، وہ کھلی گم راہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ “

کہیں ایسا تو نہیں کہ بد اعمالیوں کے سبب ہمارے دلوں پر مہر لگادی گئی ہو، جس کی وجہ سے اصلاح کی تمام کوششیں ضائع ہو رہی ہیں اور دل و دماغ پر قرآن وحدیث کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو یہ بڑی بد بختی اور محرومی کی بات ہو گی، اس لیے اپنے قلوب کی تہوں میں جھانک کر دیکھیے، تنہائی میں غور کیجیے، دل کو ٹٹو لیے اور توبہ کیجیے، اپنے گناہوں اور بداعمالیوں سے، آج اس کا موقع ہے، آنکھیں موند لینے کے بعد حسرت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

دلوں پر اچھی بات اثر انداز نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے قرآن نے کہا: ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾․ (المطففین:14)

ترجمہ:”ہر گز نہیں، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔“

گناہوں کی کثرت ومزاولت سے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے، پھر جوں جوں گناہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تاریکی میں شدت پیدا ہوتی رہتی ہے اور حالت اس قدر پختہ ہو جاتی ہے کہ روشن دلائل اور قرآن و حدیث کی باتوں اور نیک خیالات کا اس پر گذر نہیں ہوتا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد:
” ان المؤمن اذا اذنب کانت نکتہ سوداء فی قلبہ، فان تاب و نزع و استغفر صقل قلبہ، وان زاد زادت حتی یعلو قلبہ ذاک الرأن الذی ذکر اللہ عز و جل فی القرآن:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ ما کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾․ (مسند احمد، حدیث نمبر :7939)

ترجمہ:انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، اگر اس نے توبہ واستغفار کر لیا تو سیاہی مٹ جاتی ہے اور دل صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس نے اس گناہ سے توبہ نہ کی اور دوسرا گناہ کر لیا تو ایک دوسر انقطہ سیاہ لگا دیا جاتا ہے اور اسی طرح ہر گناہ پر سیاہ نقطے لگتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ یہ سیاہی سارے قلب پر محیط ہوتی ہے، اس ظلمت و سیاہی کا نام قرآن کریم میں ”ران“آیا ہے:﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾․

اس مضمون پر مشتمل متعدد احادیث ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی سرکشی اور بد اعمالیوں سے دل کی نورانیت ختم ہو جاتی ہے، پھر نصیحتوں اور نیک باتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، دل کی سیاہی ایک پر ایک گناہ سے بڑھتی ہی جاتی ہے، جب تک تو بہ واستغفار کر کے اسے پاک صاف نہ کر لیا جائے ، ہر کلام اس کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوتا ہے، اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل کو گناہوں سے آلودہ نہ ہونے دے، اگر بشری تقاضے کی بنیاد پر کبھی گناہ سر زد بھی ہو جائے تو اللہ کی طرف رجوع ہو، آنکھوں سے آنسو بہا کر خدا کے حضور صدق دل سے تو بہ کرے، دل کی سیاہی ساری محرومی کی جڑ ہے ، دل روشن اور پاکیزہ رہے توتمام اعضا سے نیک اور خدا کی مرضی کے مطابق امور انجام پاتے ہیں اور دل میں ہی کجی رہی توکوئی عضو نیک کام کے لیے تیار نہیں ہوتا، رسول اللہانے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:”الا، وان فی الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب“․(صحیح بخاری)

ترجمہ:خبردار !بلاشبہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ ٹکڑا صالح رہتا ہے تو تمام بدن میں صالحیت رہتی ہے اور جب اس میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے، خبردار!اور وہ ٹکڑادل ہے۔“

جسم کا نظام بگڑنے سے مراد اس سے صحیح افعال کا صادر نہ ہونا ہے، یعنی جب دل میں کجی اور فساد آتا ہے تو اعضا سے بھی برے افعال صادر ہوتے ہیں اور دل صحیح رہتا ہے تو وہ اعضا کو صحیح اور نیک کام کی ترغیب دیتا ہے اور انسان سے اچھے کام کا صدور ہوتا ہے اور اس پر دین کی با تیں اثر انداز ہوتی ہیں، ورنہ دل سیاہ رہتے ہوئے قیمتی سے قیمتی باتیں بے سود ثابت ہوتی ہیں، آپ اگر اپنی کام یابی چاہتے ہیں تو دل کو سیاہ ہونے سے بچائیے، گناہوں سے توبہ واستغفار کی عادت ڈالیے، تو بہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، اس سے بڑا سے بڑا گناہ بھی ختم ہو جاتا ہے، اگر آپ نے گناہوں سے توبہ نہیں کی تو دل کی سیاہی بڑھتی جائے گی اور پھر اچھے اچھے دینی مضامین ، اچھی کتا بیں اور مؤثر خطاب بھی آپ کو صحیح رخ نہیں دے سکتا، ضلالت و گم راہی آپ کا مقدر بن جائے گی، جو ایک انسان کے لیے ایسی ہلاکت ہے جس سے بڑی کوئی ہلاکت نہیں۔