دعوت یا عداوت

idara letterhead universal2c

دعوت یا عداوت

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

کچھ عرصہ قبل اپنے ایک عزیز کے یہاں شادی کی ایک تقریب میں مدعو تھا، چوں کہ آج کل شادی کی تقریبات متعدد وجوہ سے ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہیں، اس لیے میں بہت کم تقریبات میں شرکت کرتا ہوں اور رشتہ داری یا دوستی کا حق کسی او رمناسب وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اتفاق سے اس روز اسی وقت میں پہلے بہار کالونی میں ایک جگہ تقریر کا وعدہ کرچکا تھا، جب کہ شادی کی یہ تقریب نیشنل اسٹیڈیم کے متصل ایک لان میں منعقد ہو رہی تھی، یعنی دونوں جگہوں کے درمیان میلوں کا فاصلہ تھا، اس لیے میرے پاس ایک معقول عذر تھا، جو میں نے تقریب کے منتظمین سے عرض کر دیا اور پروگرام یہ بنایا کہ میں بہار کالونی جاتے ہوئے اہل خانہ کو تقریب میں چھوڑتا جاؤ ں گا او رجب بہار کالونی کے پروگرام سے واپس ہوں گا تو اس وقت تک تقریب ختم ہوچکی ہوگی، میں منتظمین کو مختصر مبارک باد دے کر گھر والوں کو ساتھ لے جاؤں گا۔ چناں چہ اسی نظم کے مطابق میں نے عشاء کی نماز بہار کالونی میں پڑھی ، نماز کے کافی دیر بعد وہاں پروگرام شروع ہوا، مجھ سے پہلے ایک اور صاحب نے خطاب کیا، پھر میرا خطاب بھی تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہا۔ اس کے بعد عشائیہ کا انتظام تھا، میں نے اس میں بھی شرکت کی، پھر وہاں سے روانہ ہوا اورجب اسٹیڈیم پہنچا تو رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے، خیال یہ تھا کہ اگرچہ دعوت نامے پر نکاح کا وقت آٹھ بجے او رکھانے کا وقت غالباً ساڑھے آٹھ بجے درج تھا، لیکن اگر کچھ دیر ہوئی ہوگی، تب بھی ساڑھے گیارہ بجے تک ضرور تقریب ختم ہوگئی ہوگی۔ لیکن جب تقریب والے لان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ابھی تک بارات ہی نہیں آئی، لوگ بے چارگی کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے، بعض لوگوں کے کندھوں پر سے بچے لگے ہوئے تھے، جو بھوک یا نیند کے غلبے کی وجہ سے روتے روتے سونے لگے تھے، کچھ لوگ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ کر، نکاح میں شرکت کے بغیر واپسی کی سوچ رہے تھے۔ اور بہت سے افراد منتشر ٹولیوں کی شکل میں وقت گزاری کے لیے بات چیت میں مشغول تھے اوربہت سے ساکت وصامت بیٹھے، آنے والے حالات کا انتظار کر رہے تھے، منتظمین نے لوگوں کے پوچھنے پر، انہیں اطمینان دلایا کہ ابھی فون سے پتہ چلا ہے کہ بارات روانہ ہو رہی ہے اوران شاء الله آدھے گھنٹے تک یہاں پہنچ جائے گی!!

میں تو خیر پہلے ہی معذرت کرچکا تھا، اس لیے چند منٹ بعد منتظمین سے اجازت لے کر چلا آیا، لیکن آدھے گھنٹے بعد بارات کے آنے کا مطلب یہ تھا کہ سوا بارہ بجے رات کو بارات پہنچی ہوگی، ساڑھے بارہ بجے کے وقت نکاح ہوا ہو گا او رکھانے سے فارغ ہوتے ہوتے یقینا لوگوں کو ڈیڑھ بج گیا ہو گا۔

یہ تو ایک تقریب کا واقعہ تھا ، شہر کی بیشتر شادی کی تقریبات کا یہی حال ہے کہ دعوت نامے پر لکھے ہوئے اوقات قطعی طور پر بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں، خود لکھنے والوں کا ارادہ بھی یہی ہوتا ہے کہ ہم ان اوقات کی پابندی نہیں کریں گے لہٰذا جن حضرات کو دعوت نامہ پہنچتا ہے ، وہ بھی اتنی بات تو یقین سے جانتے ہیں کہ دعوت نامے میں لکھے ہوئے اوقات پر عمل نہیں ہوگا، لیکن تقریب کے واقعی اوقات کیا ہوں گے؟ چوں کہ اس کے بارے میں یقینی بات کوئی نہیں بتا سکتا، اس لیے ہر شخص اپنا الگ انذارہ لگاتا ہے، شروع شروع میں لوگوں نے یہ اندازہ لگانا شروع کیا کہ مقررہ وقت سے آدھے پون گھنٹے کی تاخیر ہوجائے گی، لیکن جب اس حساب سے دعوت میں پہنچ کر گھنٹوں خوار ہونا پڑا تو انہوں نے تاخیر کا اندازہ اور بڑھا لیا، اس طرح ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ نہ اب تاخیر کی کوئی حد مقرر ہے ، نہ اندازوں کا کوئی حساب، ایسے اوقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ رات کو ایک بجے بعد نکاح ہوا اور لوگ دو بجے کے بعد اپنے گھروں کا رخ کرسکے، ہر شخص کے پاس اپنی سواری بھی نہیں ہوتی او ررات گئے سواری کا انتظام جوئے شیر لانا تو ہے ہی، شہر کے موجودہ حالات کے پیش نظر جان کا جوا کھیلنے کے مترادف بھی ہے۔

اس صورت حال کے نتیجے میں کسی ایک تقریب میں شرکت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کم ازکم چار پانچ گھنٹے خرچ کرے، بے مقصد انتظام کی کوفت برداشت کرے، رات گئے ٹیکسیوں کا کئی گنا کرایہ ادا کرے اورپھر بھی سارے راستے ممکنہ خطرات سے سہمارہے، رات کو بے وقت سونے کے نتیجے میں صبح کو دیر سے بیدار ہو کر فجر کی نماز غائب کرے اور یا تواگلے روز آدھے دن کی چھٹی کرے یا نیم غنودگی کی حالت میں الٹا سیدھا کام کرے، سوال یہ ہے کہ …
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

دنیا کا کوئی نظام فکر ایسا نہیں ہے جس میں وقت کو انسان کی سب سے بڑی دولت قرار دے کر، اس کی اہمیت پر زور نہ دیا گیا ہو، انسان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور جو قومیں وقت کی قدر پہچان کر اسے ٹھیک ٹھیک استعمال کرتی ہیں، وہی دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں۔

مجھے جاپان جانے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن میرے ایک دوست نے ( جو خاصے ثقہ ہیں) ایک صاحب کا یہ قصہ سنایا کہ وہ اپنے تجارتی مقصد سے جاپان گئے تھے، وہاں ان کے ایک ہم پیشہ تاجر یا صنعت کار نے انہیں رات کے کھانے پر اپنے یہاں دعوت دی ،جب یہ صاحب کھانے کے مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچے تو میزبان کھانے کی میز پر بیٹھ چکے تھے اور کھانا لگایا جاچکا تھا، ان صاحب کو کسی قسم کے تمہیدی تکلفات کے بغیر، سیدھے کھانے کی میز پر لے جا کربٹھا دیا گیا اور کھانا فوراً شروع ہو گیا ، کھانے کے دوران باتیں ہوتی رہیں، لیکن ان صاحب نے ایک عجیب سی بات یہ نوٹ کی کہ میزبانوں کے پاؤں کھانے کے دوران ایک خاص انداز سے حرکت کر رہے تھے، شروع میں انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید یہ اس انداز کی حرکت ہے جیسے بعض لوگ بے مقصد پاؤں ہلانے کے عادی ہو جاتے ہیں، لیکن تھوڑی دیر انہوں نے محسوس کیا کہ پاؤں کی حرکت میں کچھ ایسی باقاعدگی ہے جو بے مقصد حرکت میں عموماً نہیں ہوا کرتی، بالآخر انہوں نے میزبانوں سے پوچھ ہی لیا۔ او ران صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ دراصل میز کے نیچے کوئی مشین رکھی ہوئی ہے اور وہ کھانے کے دوران بھی اپنا پاؤں استعمال کرکے کوئی ہلکاپھلکا” پیداواری کام“ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

الله ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ قصہ سچا ہے یا کسی ” جہاں دیدہ“ نے زیب داستان کے لیے گھڑا ہے، لیکن اس قسم کے قصے بھی اسی قوم کے بارے میں گھڑ ے جاسکتے ہیں جس نے اپنے عمل سے وقت کی قدر وقیمت پہچاننے او رمحنت کرنے کی مثالیں قائم کی ہوں، ہمارے ملک کے بارے میں اس قسم کا کوئی قصہ جھوٹ موٹ بھی نہیں گھڑا نہیں جاسکتا، اس لیے کہ ہمارا مجموعی طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ وقت ہمارے نزدیک سب سے زیادہ بے وقعت چیز ہے او راگر شادی کی کسی ایک رسمی تقریب میں شرکت کے لیے ہمارا پورا دن برباد ہو جائے تو بھی ہمیں کوئی پروا ۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ہم وقت کی یہ ناقدری اس دین اسلام کے نام لیوا ہونے کے باوجود کرتے ہیں جس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہر شخص کو اپنیزندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب آخرت میں دینا ہو گا، جس نے پانچ وقت کی باجماعت نماز مقرر کرکے اس کے ہر دن کو خود بخود پانچ حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے ذریعے شب وروز کا بہترین نظام الاوقات طے کرنا آسان بنا دیا ہے۔

یوں تو وقت ضائع کرنے کے مظاہرے ہم زندگی کے ہر شعبے میں کرتے ہیں ،لیکن اس وقت موضوع گفت گو تقریبات اور دعوتیں تھیں، جن میں وقت کی پابندی نہ کرکے ہم اپنا بھی اور سینکڑوں مدعووین کا بھی وقت برباد کرتے ہیں، لوگوں کو دعوت میں بلا کر انہیں غیر محدود مدت تک انتظار کی قید میں رکھنا، ان سب کے ساتھ ایسی زیادتی ہے جس کے خلاف ایسی خوشی کے مواقع پر کوئی احتجاج کرنا بھی آسان نہیں ہوتا،کیوں کہ لوگ مروت میں اس زیادتی پر زبان بھی نہیں کھولتے ، لیکن جو شخص بھی انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے کا سبب بنے، کیا وہ گنہگار نہیں ہوگا؟ مدعو حضرات میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کا وقت بچتا تو ملک وملت کے کسی مفید کام میں خرچ ہوتا، ایسے لوگوں کا وقت ضائع کرکے انہیں گھنٹوں بے مقصد بٹھائے رکھنا صرف ان پر نہیں، بلکہ ملک وملت پر بھی ظلم ہے، یہ حقیقت میں دعوت نہیں، عداوت ہے۔

کہاں جاتا ہے کہ چوں کہ ایک غلط رِیت معاشرے میں چل پڑی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص اسے غلط سمجھ کر اس کی اصلاح کرنا بھی چاہے تواب اصلاح اس کے بس میں نہیں رہی، لیکن مجھے اس نقطہ نظر سے کبھی اتفاق نہیں ہوا، سوال یہ ہے کہ آپ اس قسم کی غلط بلکہ مہلک رِیت کا کب تک ساتھ دیں گے؟ کب تک رواج عام کو غلطیوں کا بہانہ بنایا جاتا رہے گا؟ ہر غلط ریت کے آگے ہتھیار ڈال کر اس کے بہاؤ پر بہنے کا سلسلہ آخر کہاں جاکر رکے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ اصل ضرورت صرف ایک پختہ اور ناقابل شکست ارادے کی ہے، اسی ماحول میں جہاں مقررہ وقت پر کسی دعوت میں پہنچنے والا بے وقوف سمجھا جاتا ہے، خود میں نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے دعوت نامہ پر پابندی وقت کی خصوصی ہدایت لکھی اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا او رکھانے کا جو وقت دیا گیا تھا، اس پر کھانا واقعی شروع کر دیا اور اس بات کی پروا نہیں کہ حاضرین کم ہیں یا زیادہ؟ سوال یہ ہے کہ اگر کچھ لوگوں نے پابندیٴ وقت کے خصوصی التماس کے باوجود آنے میں دیر کی ہے تو اس کی سزا ان لوگوں کو کیوں دی جائے جو بے چارے وقت پر آگئے تھے؟ جب تک کچھ لوگوں باتوں کو سنجیدگی سے سوچ کر پابندیٴ وقت کا تہیہ نہیں کریں گے، اس وقت تک تقریبات کا یہ بے ڈھب سلسلہ کسی حد پر نہیں رکے گا، آج بھی جو تقریبات ہوٹلوں میں ہوتی ہیں او رجہاں گھنٹوں کے حساب سے بکنگ ہوتی ہے، وہاں سارے کام کس طرح وقت پر ہو جاتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ ضرورت صرف پختہ ارادے کی ہے، اگر چند افراد بھی یہ پختہ ارادہ کر لیں اور اس پر عمل کرکے دکھا دیں تو تبدیلی ہمیشہ افراد ہی سے آتی ہے او رپھر رفتہ رفتہ، وہ عمومی رواج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

عصر حاضر سے متعلق