عہد صحابہ رضی الله عنہم کے بعد بھی ایک عرصہ تک مسلمانوں کی تاریخ یہ رہی کہ جہاں وہ فاتحانہ داخل ہوتے وہاں صرف سیاسی غلبہ پر ہی نہیں اکتفا کرتے ، بلکہ اپنے اخلاق و انسانیت دوستی اور دیانت داری کے ذریعہ مقامی لوگوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کرتے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ نہ صرف سیاسی اعتبار سے، بلکہ دینی اور مذہبی لحاظ سے بھی اسلامی ملک بن جاتا ، ایران ، یمن ، مصر اور سندھ وغیرہ کے علاقہ میں یہی صورت پیش آئی ، عرب تاجروں ہی کے ذریعہ مالدیپ، ملیشیا اور انڈو نیشیا کے باشندوں نے اسلام قبول کیا، ہندوستان میں بھی محمد بن قاسم یہی کرنا چاہتے تھے، مگر بنو امیہ کی باہمی خصومت نے ان کو اس کا موقع نہ دیا اور ان کی سپہ سالا را نہ قابلیت واہلیت کا بدلہ ان کو دارورسن کی صورت میں ملا۔
اس کے بعد ہندوستان کی زمام اقتدار عربوں کے بجائے عجمی خاندانوں کے ہاتھ چلی گئی ، جن کو اپنی بادشاہی کے تحفظ کے سوا اسلام کی تبلیغ واشاعت یا اس کی اقامت و تنفیذ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، ان میں سے فیروز تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کو چھوڑ کر تمام بادشاہوں نے اپنی بہترین ذکاوت و صلاحیت اور غیر معمولی قابلیت و فراست کا استعمال محض اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے کیا اور اگر کچھ کام دعوت و تبلیغ کا ہوا بھی تو اس کا سہرا بڑی حد تک صوفیاء اور مشائخ کے سر ہے۔
لیکن دعوت دین سے غفلت اور اپنے ہی مفتوحہ ممالک میں عددی تناسب کے لحاظ سے کم ہونے کے باعث بالآخر سیاسی اعتبار سے بھی ان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا، اسپین میں عیسائیوں سے شکست کھانے کے بعد سوائے ان کی کچھ یادگار عمارتوں کے اور کوئی چیز باقی نہ رہی، ہندوستان میں انگریزوں کے غلبہ کے بعد ہزار جد و جہد کے باوجود مشرق و مغرب کی ایک چھوٹی سی ٹکڑی ہی ان کی قسمت میں آسکی اور ملک کے تین چوتھائی حصہ میں ان لوگوں کا غلبہ رہا جن کو در حقیقت قدرت نے ایک دستر خوان کی طرح مسلمانوں کے سامنے بچھا دیا تھا کہ وہ اپنی اخلاقی قوت کے ذریعہ ان کو اسلام کے وجود میں ہضم کر لیں ، مگر مسلمانوں نے اس ”معنوی نعمت“ کے ساتھ وہی سلوک کیا جو بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی” مادی نعمت“ کے ساتھ کیا تھا۔
لیکن انگریزوں کی تاریخ واضح طور پر اس سے مختلف ہے، سترہویں صدی میں جب ایک طویل عرصہ کے بعد مغرب نے انگڑائی لی اور پہلے علم و صنعت میں اور پھر اپنی غیر معمولی سائنسی صلاحیت کے جلو میں سیاسی اعتبار سے آگے بڑھنا شروع کیا تو اس کے با وجود کہ ماضی قریب میں یورپ میں مذہب اور سیاست کے درمیان طویل اور بھیا نک جنگ ہو چکی تھی اورکلیسا کو شکست دے کر مغربی اہل علم و نظر سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے ایک بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اور نا قابل تسخیر رکاوٹ کو مسخر کر لیا ہے ۔ انہوں نے اس بات کو ضروری جانا کہ مشرق میں جہاں بھی فوجی اور سیاسی اعتبار سے ان کے قدم مضبوط ہوں وہاں عیسائیت کے مبلغین اور داعیوں کی ایک فوج بھی پیچھے پیچھے ان کے ساتھ رہے اور وہ لوگوں کے دل اور دماغ فتح کرنے کے لیے سرگرم رہے، اس طرح نہ صرف یہ کہ عیسائیت کو وسعت حاصل ہو سکے گی، بلکہ ان کی حکومت اور سیاسی قوت کو بھی استحکام حاصل ہو سکے گا۔ ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوا سو سال کے بعد مغرب کا سیاسی اقتدار تو ختم ہو گیا ، مگر عیسائی مشنری نے ان ممالک میں جن لوگوں کو عیسائی بنایا تھا وہ مقامی لوگ باقی رہے اور مشنریاں بھی اپنے کام میں مصروف رہیں۔
عیسائیوں کے اس حملے کا زیادہ نشانہ تو بت پرست قو میں ہی بنیں، مگر” امت محمد یہ“بھی اس کی زد سے محفوظ نہ رہ سکی اور مسلمانوں کی استقامت و ثابت قدمی اور دین کے معاملہ میں جماؤ کے مقابلہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے عیسائی اداروں نے عالمی سطح پر اجلاس اور مذاکروں کے ذریعہ اپنا طریقہ کار طے کیا اور منصوبہ بند اور منظم طور پر پورے عالم اسلام میں اپنی جدو جہد شروع کر دی ، ان کے تحریصی اور ترغیبی حربہ سے ہندوستان سے مولوی صفدر علی ، مولوی عماد الدین، مولوی برکت اللہ ، تبریز سے مرزا ابراہیم اور بیروت سے کامل جیسے لوگ ان کے دام میں گرفتار ہونے سے نہ بچ سکے۔
پاکستان جیسے مسلم ملک کے متعلق _ جو اسلام اور مذہب کے معاملہ میں نسبتاً زیادہ حساس اور بیدار سمجھا جاتا ہے اور جس کی تاسیس ہی اسلام کے نام پر ہوئی ہےبھی رومن کیتھولک چرچ نے اپنی رپورٹ 1957ء /1958ء میں لکھا ہے:
”مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سب سے زیادہ شاندار کام یابی پاکستان میں حاصل ہوئی ۔“
گو کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مسلم ممالک میں بھی عیسائیت کو تھوڑی بہت کام یابی حاصل ہو سکی ہے ، اس کا بڑا سبب مسلمانوں کی جہالت اور نا واقفیت ہے، چناں چہ Ale Chatelier کابیان ہے:
عیسائی بننے والے مسلمانوں میں اکثریت عام لوگوں اور جاہلوں کی ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہے کہ عیسائیت کے بنیادی عقائد عقل و دانش سے دور ہیں اور مذہبی خوش گمانی اور غلو آمیز عقیدت کے سوا کوئی چیز نہیں ہے جو اس کو قبول کر سکے، خدا کے بارے میں تین (خدا ، ابن خدا اور روح القدس ) میں ایک اور ایک میں تین کا تصویر کسی ”لال بجھکڑ“ سے کم نہیں ہے ، حضرت مسیح ایک طرف خدائی کے منصب عظیم پر فائز نظر آتے ہیں ، دوسری طرف اس قدر عاجز و درماندہ کہ صلیب پر نہایت ذلت کے ساتھ چڑھا دیے جاتے ہیں اور ایک بے کس و بے بس انسان کی طرح خدا کے حضور جاں بخشی کے لیے فریاد کناں ہوتے ہیں۔ کفارہ کا عقیدہ کہ حضرت مسیحعلیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی اور ان کی وساطت سے نسل آدم میں منتقل ہونے والی غلطیوں کا کفارہ ادا کر دیا ، ایک ایسی بات ہے جو صریح طور پر عقل کے خلاف ہے کہ غلطی ایک کرے اور سزا اور ایک پائے اور یہ کہ غلطی حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور گنہگار ان تمام انسانوں کو سمجھا جائے جو ان کی نسل سے پیدا ہوتے رہے، حالاں کہ ہر آدمی ارادہ اور عمل کے لحاظ سے اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں اسلام عقل و مصلحت کے عین مطابق ہے اور جوں جوں علم وفن کا ارتقا ہوتا جاتا ہے، اسلام کی عصریت اور عقل و حکمت سے مطابقت نمایاں ہوتی جاتی ہے، مستشرقین ہر چند کہ اسلام کے معاملہ میں بہت متعصب اور تنگ نظر واقع ہوئے ہیں اور قرینہ ہائے دور دراز سے کبھی کبھی ایسی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی فہم و دانش پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے، تاہم اب ان میں بھی موریس بوکائی جیسے لوگ پیدا ہور ہے ہیں، جو موجودہ سائنسی اکتشافات کے لحاظ سے قرآن مجید کی واقعیت اور بائبل پر اس کے تفوق و برتری کا ببانگ دہل اعلان کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ یہ بات اب قریب قریب پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ مذاہب عالم میں اسلام ہی واحد مذہب ہے، جو تفریق و امتیاز کی ساری دوریوں کو مٹا سکتا ہے اور پست طبقات کو دوسروں کا ہم قدم اور ہم دوش بنا سکتا ہے، ہندو سماج کا کہنا ہی کیا ہے، مغربی معاشرہ جو انسانی حقوق کے تحفظ کا سب سے بڑھ کر مدعی ہے، کالوں کو انسان کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ذرائع ابلاغ اور نظام مواصلات کو اس زمانے میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ، شہنشاہیت کے بجائے اس عہد میں جمہوریت اور سیکولرازم کا غلبہ ہے، جو ہر شہری کو مذہب اور اظہار رائے کی آزادی عطا کرتی ہے اور اپنے نقطہ نظر کی دعوت و تبلیغ کا حق دیتی ہے، ماضی میں شاہی حکومتوں اور مذہبی تعصبات کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
یہ سب کچھ گویا خالق کا ئنات کی طرف سے امت مسلمہ کے لیے ایک بیش قیمت انعام ہے، جن سے فائدہ اٹھا کر غیر مسلموں میں دعوت دین کا کام اس سے کہیں آسانی سے کیا جا سکتا ہے جن سے مسلمان عہد اول میں دو چار ہوئے ۔ اسلام کی صداقت و راستی اور ضرورت اس قدر واضح ہو چکی ہے کہ جو لوگ اسلام کے دشمن اور ناقد سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی اپنا لب ولہجہ نرم کرنے پر مجبور ہیں اور اسلام کی بہت سی خوبیوں کا کھلے عام اعتراف کرتے ہیں، مہاتما گاندھی جی جیسے ذہین ، سنجیدہ اور تسلیم شدہ مذہبی و سیاسی ہند و قائد کا اہل وطن کو اپنے طرز حکومت میں ابو بکر و عمر کے طریق کار کی تقلید کی ترغیب دینا ، دوسرے لفظوں میں اسلام کی عہد حاضر کے لیے موزونیت اور دوسرے مذاہب عالم کا زمانہ اقتدار گزر جانے کا اعتراف ہے۔
خدا کی طرف سے عطا کی ہوئی ان ساری سہولتوں کے باوجود مسلمان اگر ”دعوت ِ دین“ کا کام نہ کریں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ قدرت ان کے بجائے کسی اور قوم کو خدا کے دین کی سر بلندی اور اشاعت کے لیے اٹھائے گی ، اس لیے کہ یہ اب اس کے اہل باقی نہیں رہ گئے ۔ (محمد:38) افسوس کہ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہر جگہ مسلمان اپنے دشمنوں سے برسر پیکار ہیں ، یہ دشمن کہیں استعمار اور سرمایہ دار کی صورت میں ہیں، کہیں الحاد اور کمیونزم کے لباس میں، کہیں مذہبی تعصب اور تنگ نظری ہے، کہیں لسانی اور علاقائی مسائل ہیں، ہر جگہ احتجاج کے ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کیا جا رہا ہے، مگر کوئی نہیں جو اس بے آواز لاٹھی کا سہارا لے جو مقابلہ کا سب سے موثر ہتھیار ہے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلمنے اپنے دشمنوں کے مقابلہ جس ہتھیار سے مدد لی تھی ، جو دلوں کو فتح کرلے، جو لوہے کو موم کر دے اور جو جان لیوا ؤں کو جان نثار بنادے۔
بہت سے علاقوں میں آج جو لوگ جہاد کی بات کرتے ہیں ، وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تلوار اور قوت کا استعمال جہاد کا آخری مرحلہ ہے، جسے مجبوری کے درجہ میں گوارا کیا جاتا ہے، جہاد کا پہلا مرحلہ جو اصل مقصود ہے ۔ دعوت ہے، چناں چہ فقہا اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دعوت دینے کے بعد ہی غیر مسلموں سے جہاد کیا جا سکتا ہے :”یجب ان یبدو المسلمون بالدعوة قبل القتال“ یہاں تک کہ قاضی ابو الحسن ماوردی نے اسلام کے نظام مملکت پر اپنی فاضل و معروف تصنیف ”الاحکام السلطانیہ“ میں لکھا ہے کہ جن لوگوں تک دعوت نہ پہنچی ہو اور استدلالی اعتبار سے ان پر اسلام کی حقانیت واضح نہ کر دی گئی ہو، ان پر جہاد کا اقدام حرام ہے:”یحرم علینا الاقدام علی قتالہم“اور اگر اسلامی لشکر نے ان تک دین کی دعوت پہنچنے سے پہلے حملہ کردیا تو مقتولوں کا خون بہا اس کے ذمہ ہوگا ، ،ضمن دیات نفوسہم․
لیکن اس کے باوجود ملک کے طول و عرض میں مسلمانوں کی ہزاروں تنظیموں اور تحریکوں کے باوجود شاذ و نادر تنظیمیں ہیں جو اس مقصد کو سر انجام دینے کے لیے اٹھی ہوں اور ہم وطنوں میں آخرت کی بنیاد پر اسلام کی طرف دعوت دینے کا کام کر رہی ہوں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی غفلت کا یہ حال ہے کہ اب تک ہندوستان میں متعدد ایسی زبانیں ہیں جن میں تعارف اسلام کی کوئی مناسب کتاب اور قرآن مجید کا ترجمہ تک نہیں، متعدد ایسی زبانیں ہیں جن کو مسلمانوں کی قابلِ لحاظ تعداد بولتی ہے، مثلاً تلگو، تمل ، بنگلہ، اڑ یا وغیرہ ، مگر ان زبانوں میں اسلام سے متعلق جو لٹریچر ہے وہ کمیت اور کیفیت ہر دو لحاظ سے نہایت معمولی ہے، خود ہندی میں بھی ، جو ملک کی اول درجہ کی قومی زبان ہے۔ اسلام سے متعلق صحیح معلومات فراہم کرنے والی کتابیں انتہائی نا کافی ہیں اور ان مقامی زبانوں میں اسلامیات کا جو کچھ سرمایہ ہے دعوتی اسلوب اور نفسیات کے لحاظ سے وہ غیر مفید اور غیر موثر بھی ہے، ان زبانوں میں اگر ہم ارکانِ اسلام سے متعلق مسائل جمع کر دیں اور اس طرح کے کام کریں تو یہ مسلمانوں کے لیے تو مفید ہو گا، مگر غیر مسلموں کے لیے اس میں کشش کا کوئی سامان اور غور و تدبر کی کوئی چیز نہ ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مقامی زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ، احادیث نبوی کا عمدہ اور مؤثر انتخاب اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی سادہ انداز میں سیرت پیش کی جائے ، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلمکے اخلاقی پہلو کو زیادہ نمایاں کیا جائے ، اسلام کے عقائد اور اس کی معقولیت اور جدید اکتشافات کی روشنی میں اس کی صداقت اور واقعیت کو نمایاں کیا جائے ، اسلام کے معاشرتی اور معاشی اصول، ان کا توازن اور ان کی افادیت کو واضح کیا جائے ، دوسرے مذاہب اور جدید نظریہ ہائے حیات سے اسلام کا سنجیدہ تقابل کرایا جائے اور ایسی تحریروں میں معروضی اور مثبت اسلوب اختیار کیا جائے ، مناظرانہ، جارحانہ اور منفی طرز تعبیر سے بچا جائے۔
اسلام سے متعلق پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ طبقہ کی معلومات بھی کس قدر کم ہیں؟ اس وقت اس کا اندازہ ہوتا ہے جب اسلامی زندگی کا کوئی پہلو قومی صحافت میں زیر بحث آتا ہے اور غیر مسلم دانش ور اور چوٹی کے اہل قلم اس پر کچھ لکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ اس غلط بیانی کا پورا پورا قصور صرف انہیں کے فرد عمل میں ڈال دیتے ہیں، حالاں کہ در حقیقت اس غلطی میں بڑا حصہ خود ان کی غفلت کا ہے کہ انہوں نے اب تک ملکی اور قومی زبانوں میں اسلام سے متعلق معلومات کا ایسا ذخیرہ فراہم نہیں کیا جس سے استفادہ کر کے غیر مسلم اہل قلم اسلام کو صحیح طورپر سمجھ سکیں اور اس کی بے غبار ترجمانی کر سکیں۔
زبان سمجھنے اور سمجھانے کا محض ایک ذریعہ ہے، زبان کبھی مقصود نہیں ہوتی ، نہ زبان کا کوئی مذہب اور عقیدہ ہوتا ہے، اس لیے اسلام نے زبان کے معاملے میں فراخ دلی اور وسیع النظری سے کام لیا ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے حضرت زید بن ثابت صلی الله علیہ وسلم کو خاص طور پر عبرانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا اور انہوں نے صرف پندرہ دنوں میں عبرانی سیکھ لی، بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زید چھ زبانوں سے واقف تھے ، روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ نے فارسی زبان سیکھ لی تھی اور وہ اس سے آگاہ تھے۔
فارسی کوئی اسلامی زبان نہیں تھی، بلکہ مشرک ، بت پرست اور آتش پرست اقوام کی زبان تھی اور فارسی میں اب بھی کثرت سے ایسی تعبیرات و تشبیہات موجود ہیں جن کی جڑیں شرک سے ملتی ہیں، لیکن جب اسلام ایران میں داخل ہوا تو مسلمانوں نے اسلام کی دعوت و اشاعت کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی سیکھی اور اس میں اس درجہ مہارت حاصل کی تحریر کے اپنے مستقل اسلوب اور طرز نگارش کی بنیاد رکھی، فارسی ہی زبان میں ایسے ایسے نئے نئے محاورات ، ضرب المثل اور تشبیہیں وضع کیں جو اسلام کے مزاج و مذاق سے مطابقت رکھتی تھیں اور اس زبان میں اس قدر لکھا اور اسلام کے مختلف علوم و فنون پر کام کیا کہ رفتہ رفتہ فارسی ایک اسلامی زبان بن گئی اور اسلام فارسی زبان پر اس طرح چھا گیا کہ آج اسلام کو الگ کر کے فارسی ادب اور شاعری کا تصور بھی دشوار ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ہندوستان میں اب بھی دین داروں کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو عربی اور اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کو اچھوت اور بے برکت سمجھا ہوا ہے اور صرف اردو زبان میں تھوڑا سا کام کر کے قانع اور مطمئن ہے کہ اس نے اسلام کی دعوت کا حق ادا کر دیا ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام اس وقت کیا جانا چاہیے جب مسلمانوں کی اصلاح کا کام مکمل ہو جائے اور خود مسلمانوں کا معاشرہ ایک مکمل اسلامی معاشرہ بن جائے ، یہ دراصل شدید غلط فہمی اور اپنی ذمہ داری سے گریز ہے، اسلام نے ایسی کوئی ترتیب قائم نہیں کی ہے کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کی ذمہ داری اس وقت مسلمانوں پر عائد ہوگی جب خود ان کا پورا معاشرہ اسلامی ہو جائے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ساتھ یہ دونوں کام انجام دیے ہیں اور قرآن معاشرتی اور خانگی زندگی کے احکام کی تکمیل سے پہلے ہی غیر مسلموں کو اپنی دعوت کا اولین مخاطب بنا تا رہا ہے، عہد رسالت میں بیک وقت اسلام لانے والوں کی تربیت و تعلیم کے لیے بھی اہل علم صحابہ کو بھیجا جاتا تھا اور غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کے لیے بھی صحابہ و تابعین روانہ کیے جاتے تھے۔
مسلم معاشرہ کو اسلامی بنانے کے بعد غیر مسلموں کو دعوت دین کا مخاطب بنانے کا مطلب عملاً اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ پوری توانائی صرف مسلمانوں کی اصلاح پر صرف کر دی جائے اور اسی پر قناعت کرتے رہا جائے، اس لیے کہ مسلمانوں کو مکمل اسلام پر لانا کسی غیر مسلم کو مسلمان بنانے سے زیادہ دشوار ہے، کیوں کہ اسلام خدا کے وجود اور اس کی توحید کی کائناتی حقیقت کو تسلیم کر لینے کا نام ہے اور یہ اصحاب ضمیر کے لیے آسان ہے، جب کہ مسلمانوں کے اندر حقیقی اسلام پیدا کرنا اپنے نفس کی مکمل سپردگی سے عبارت ہے اور یہ آسان نہیں ہے۔
اس پر اس نقطہ نظر سے بھی غور کرنا چاہیے کہ جو لوگ مسلمان ہو چکے ہیں، شرعاً خود ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کو سمجھیں ، ان کے اندر دین کی طلب ہو اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ ہو اور اگر وہ سب جان بوجھ کر بھی اپنی کوتاہ عملی میں مبتلا ر ہیں تو عند اللہ خود ہی جواب دہ ہیں، اس کے برخلاف جن تک اسلام پہنچا ہی نہیں ، ان کے متعلق مسلمان ذمہ دار ہیں اور عند اللہ مسئول ہیں کہ انہوں نے خدا کا دین ان تک پہنچانے سے تغافل کیوں برتا ؟
افسوس کہ اتنی اہم ذمہ داری جس کے لیے امت محمد یہ بر پا کی گئی (آل عمران:110)جو خدا کی نصرت و مدد کا ہتھیار اور مسلمانوں کی کام یابی کا اثاثہ ہے، جو جہاد کا نقطہٴ آغاز ہے، جو انبیا کی بعثت کا مقصود ہے اور جس سے گریز انسانیت کے ساتھ سب سے بڑی نا انصافی اور حق تلفی اور خدا کے دین کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے، جو اسلام کے پیغام کو آفاقی اور اس کے نبی عربی صلی الله علیہ وسلمکی رحمت کو عام و تام کرتا ہے اور جو خود مسلمانوں کے لیے خدا کی طرف سے حفاظت و سلامتی کی کلید ہے، کی طرف سے ملت اسلامیہ ہند غافل ہے۔
پھر کیا کچھ دل ہیں جو اس فریضہ نبوت کی ادائیگی سے غفلت پر لرز اٹھیں اور کیا کچھ خریداران آخرت ہیں جو سیاسی شہرت سے دور، گوشہٴ گمنامی میں رہ کر اسلام کا شجرہ طوبیٰ لگانے پر آمادہ ہوں؟