دار العلوم دیوبند ، روشنی کی کرن … سپیدہ ٴ سحر

idara letterhead universal2c

دار العلوم دیوبند ، روشنی کی کرن … سپیدہ ٴ سحر

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے اس جماعت کو جس نے دار العلوم دیوبند قائم کیا ، یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس سنگین صورت حال کے ہوتے ہوئے انہوں نے دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، یہ پہلا مدرسہ ہے، دوسرا مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور ہے، بعد میں اور بہت سے مدرسے بنتے رہے اور خدمت انجام دیتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن و سنت کی حفاظت کا ایسا مضبوط اور مستحکم نظام قائم ہوگیا، مسلمانوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے علماء کے اس اقدام کو بھر پور لیا اور اپنی اولاد کو اس علم ِدین کے حصول کے لیے مختص کردیا، دولت کے پجاری اور دنیا کے خواہش مند اُدھر راغب تھے، یقیناان کی بہت بڑی تعداد تھی، لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والے ، اپنے ایمان کی حفاظت کے خواہش مند ، ان مدارس کی طرف آرہے تھے، اس کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے قرآن و سنت کی حفاظت فرمائی اور ایسی حفاظت فرمائی کہ آپ حیران ہوں گے۔

ابھی بیسویں صدی گزری ہے، اس صدی میں انہی علماء نے، جنہوں نے دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور قائم کیا تھا ، علوم قرآن و سنت کی ایسی خدمتیں کی ہیں کہ اس پوری صدی کے اندر دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں، حدیث ،تفسیر اور فقہ کے سلسلے میں جو ان کی خدمات ہیں ، ان کی مثال پورے عالم اسلام میں کہیں موجود نہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ پورا عالم اسلام اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہندوستان کو اس سلسلہ میں جو فوقیت اور فضیلت حاصل ہے، وہ بے مثال ہے۔ہمارے ان مدارس کا مقابلہ اگر عصری درس گاہوں سے کریں گے، تو ان مدارس کے کئی امتیازات آپ کے سامنے آئیں گے۔ان میں کام کرنے والے اساتذہ اور تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اخلاص اور ایثار کا ، اس گئے گزرے دور میں بھی، قابل فخر نمونہ ہوتے ہیں، آپ بازاروں اورعدالتوں میں جائیں ، تو چمک دمک ہے، آپ گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ کے دفتر میں چلے جائیں ، چمک دمک وہاں موجود ہے، لیکن اخلاص و ایثار نہیں ہے۔

اسکول میں پڑھنے والا نوسال کا بچہ ، کالج میں پڑھنے والا پندرہ بیس سال کا بچہ اور یونی ورسٹی میں پڑھنے والا بائیس سال کا بچہ، کسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھ لیا جائے کہ آپ نے یہ مضمون کیوں منتخب کیا ہے ؟ فوراً کہے گا اس میں پیسہ زیادہ ملتا ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے ایک بڑا عجیب جملہ ارشاد فرمایا کہ” یہ جو کالجز اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ، ان کو اس کے سوا اور کچھ مطلوب نہیں ہے کہ ایک مٹھی آٹا اور ایک پیالہ چاول مل جائے “ یعنی ایک مٹھی آٹے سے بھی پیٹ بھرا جاتا ہے اور ایک پیالہ چاول سے بھی پیٹ ہی بھرا جاتا ہے ، ان کی پہنچ ہی ایک مٹھی آٹے اور ایک پیالہ چاول سے وابستہ ہوتی ہے، ان کا اصل مسئلہ پیٹ کا مسئلہ ہے، آگے علم کی قدر اور علم کی عظمت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں، ان مدرسوں میں پڑھنے والا طالب علم اس کے سامنے نہ ایک مٹھی آٹا ہوتا ہے اور نہ ایک پیالہ چاول…!!