آج کا دور بین الاقوامیت، حقوق انسانی، امن وآشتی اور مساوات ورواداری کے جھوٹے پروپیگنڈے کا دور ہے، پوری دنیا میں امن و شانتی اور تحفظ حقوق کا واویلا مچا ہوا ہے اور بدامنی ودہشت گردی کے خاتمے کے لیے طرح طرح کے قوانین کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ دور جدید میں دو طاقتیں یعنی ”یہودیت اور عیسائیت“ اقوام عالم کو عام طور پر اور اہل اسلام کو خاص طور پر مغلوب اور زیر نگیں کرنے کے لیے، عصر حاضر کے تمام بین الاقوامی ذرائع ووسائل پر اپنا کنٹرول کر کے مسلمان اور اسلام کے خلاف ان کو استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ شرافت واخلاق، انسانیت نوازی، انسان پروری، حقوق آزادی، مساوات ورواداری اور مذہب وعقیدہ کے تمام قوانین وضوابط سے بے پروا ہو کر اہل اسلام کے خلاف کمر بستہ ہوگئی ہیں۔ تمام دل دوز وہیبت ناک طریقے کو بروئے کار لا کر اپنی فرعونیت کا علم بلند کرنے کے لیے انسانیت کو تہہ تیغ کر رہی ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ دین اسلام کے ماننے والوں کی صاف وشفاف شبیہ کو پراگندہ کرنے کے لیے تمام علم وخبر کے بین الاقوامی ذرائع، یعنی میڈیا، خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی چینلز ہوں یا کہ انٹرنیٹ، ان تمام ذرائع ابلاغ کو اسلام کے خلاف بڑی بے باکی سے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف افواہیں پھیلانا اور اس کے ماننے والوں کو فتنہ وفساد اور بدامنی کا خوگر اور دہشت گرد کہنا یہ مغرب کا شیوہ بن چکا ہے۔
عصر حاضر میں مغرب اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے تمام ممالک صرف ایک ہی راگ الاپتے ہیں اور مغرب کی گندی سر سے سر ملاتے ہیں کہ مسلمان کائنات انسانی کے لیے روز بروز ایک بہت بڑا خطرہ بنتا چلا جا رہا ہے۔صفحہ ہستی سے اس کو مٹانا اپنا نصب العین ہونا چاہیے۔ اسلام ایک شدت پسند مذہب وعقیدہ ہے۔
اس مذہب کے ماننے والے فرد وجماعت، ملک وقوم میں دہشت گردی وشدت پسندی کو پھیلاتے ہیں اور ان کی مقدس کتاب قرآن کریم میں غیر اقوام وملل کو قتل وغلام بنانے کی بھر پور تعلیمات موجود ہیں۔ اس کتاب کے اندر ظلم وتشدد بھڑکانے، جبر وقہر ڈھانے والے ضابطہ بھرے پڑے ہیں۔ نہ ہی اسلام کے اندر اخوت وبھائی چارگی، حقوق انسانی، آزادی فکر، مذہبی آزادی، حریت وآزادی مساوات، رواداری اور عدل انصاف کا کوئی تصور موجود ہے اور نہ ہی اسلام کے پاس جدید دنیا سے ہم آہنگ کوئی ضابطہ زندگی اور طرز معاشرت موجود ہے، بلکہ یہ ایک سخت گیر، شدت پسند اور دہشت گرد مذہب ہے۔
یورپ نے ایک ایسی اصطلاح کو اسلام کے خلاف اپنے گندے پیٹ سے جنم دیا ہے جس کا نام ”دہشت گردی“ ہے۔ اور یہ لفظ اردو زبان میں ”دہشت گردی“ ہندی زبان میں ”آتنک واد“ اور انگریزی میں ”Terrorism“ جو ”Terror“ سے بنا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ جب بھی لفظ یا اصطلاح کا تکرار مسلسل کانوں کی خوراک بن جائے تو وہ لفظ ذہن ودل میں ایک تصویر بنا لیتا ہے۔ یہی حال ہم لفظ دہشت گردی، شدت پسندی، انتہا پسندی، بنیاد پرستی، کٹر پنتھی کا دیکھ رہے ہیں کہ فرد وجماعت ہو، ملک و قوم کے بچے، جوان، بوڑھے ہوں، تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، ہر ایک کے دل ودماغ میں یہ تمام الفاظ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ ان الفاظ کی مغرب نے بین الاقوامی ذرائع ووسائل کے ذریعہ اتنی زیادہ ترویج واشاعت کی کہ پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کا آتش فشاں بن گئی ہے اور لوگ مغرب کے اس جھوٹ کو بھی سچ کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں اور اہل مغرب اسلام کی حق وصداقت پر اس طرح کی نقاب پوشی کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا اس کے بارے میں سوچنا باعث گناہ سمجھے۔ جب کہ نام نہاد امن وآشتی کے اس ڈھنڈورچی کا کردار اس باب میں انتہائی شرم ناک ہے۔
اس موقع پر امریکی تاریخ پر ایک سر سری اور طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے چلیں، جس سے ہمیں آج کی انسانیت اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے مسیحا کی تاریخ کو سمجھنے کا پورا اندازہ ہوجائے گا۔ انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاریخ کو ایسے دل دوز وہیبت ناک مناظر دیکھنے کو ملے جن کی تاریخ کو رقم کرنے میں امریکہ کا اہم کردار رہا ہے۔ 1916ء میں پہلی جنگِ عظیم میں کل 16/ سولہ ممالک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ صرف ترکی ایسا واحد ملک تھا جس نے اس خونی جنگ سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھا اور اس کی جنگ عظیم کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ یہ جنگ سر بیا کے ایک قوم پرست اور اسٹریا اور ہینگری کے ولی عہد فرانس فرڈی نینڈ کے قتل سے شروع ہوئی۔ 1916ء میں شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم نے 85 لاکھ28 ہزارآٹھ سو سے زیادہ انسانی جانوں کو لقمہ تر بنا لیا۔ 1918ء میں یہ جنگ اپنے اختتام پر پہنچی۔ 1939ء میں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم میں کل 27ممالک نے حصہ لیا اور یہ سب کے سب غیر مسلم تھے اور اسی دوران ہیروشیما کا انسانیت سوز سانحہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جس میں موجودہ دور کے حقوق انسانی اور امن وشانتی پھیلانے کے سب سے بڑے مسیحا امریکہ نے ایک ایٹم بم کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کو سوختہ کرڈالا اور اس ملک کی آب وہوا کو مسموم وپراگندہ بنا ڈالا، جہاں کی فضا پر اب بھی موت کا سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جہاں ماہرین سائنس جا کر اب بھی تجربہ کرتے ہیں کہ یہ شہر کب اپنی سابقہ حالت پر لوٹ سکے گا۔ بات اسی پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ تین دن کے وقفہ سے9/ اگست 1945ء کو ایک اور ایٹم بم جاپان کے شہر ناگاساکی پر گرادیا اور آن کی آن میں 28 ہزار سے زائد انسانوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا اور دوسری جنگ عظیم میں 49 لاکھ 40 ہزار انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ 1945ء میں ہی چین پر ڈھائی سو جنگی طیاروں کی مدد سے دو لاکھ پونڈ بارود برساکر موت کا رقص عام کیا۔ اسی طرح سے وقفہ وقفہ سے مختلف ممالک امریکی جارحیت ودرندگی کا نشانہ بنتے رہے۔ 1950ء میں امریکہ نے کوریا پر چڑھائی کردی، 1954ء میں کیوبا میں۔ 1964ء میں امریکہ وویتنام کی جنگ نے 45 ہزار سے زائد لوگوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس جنگ کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی، جو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا جرم کیا ہے۔ کس جرم کی پاداش میں انہیں موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ 1965ء میں پیرو اور 1974ء میں لاوس میں، 1975ئمیں ویتنام میں، 1987ء میں گرینیڈا، 1984ء میں لبنان میں، 1989ء میں پناما میں، 1991ء میں عراق میں ، 1998ء میں سوڈان میں اور 1999ء میں یوگوسلاویہ میں۔ ان تمام خونی جنگوں کے بعد سوچا جانے لگا کہ شاید اب امریکی انسانیت جاگ اٹھی ہو۔ اس کا نعرہ امن حقیقت میں تبدیل ہوجائے اور دنیا امن وشانتی کا گہوارہ بن جائے۔ امن وامان کا بول بالا ہوجائے۔ لیکن ضمیر فروش اور مردہ دل کے جسم میں انسانیت تھی ہی کہاں کہ جاگتی؟ کیوں کہ وہ تو خون چوسنے کا عادی ہوگیا تھا۔ بالآ خر پھر اس نے 17/ اکتوبر 2001ء میں افغانستان وعراق میں اپنی درندگی وسفاکیت اور حیوانیت وبہیمیت کا ایسا ننگا کھیل کھیلا کہ روئے زمین تھرا اٹھی، لیکن اس کا ضمیر نہیں جاگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد تم ہو، نہ کہ مسلمان، دہشت گردی تم پھیلاتے ہو، نہ کہ مسلمان، قتل وخون ریزی تمہارا پیشہ ہے، نہ کہ مسلمانوں کا، دنیا کے امن وامان میں بدامنی کی فضا تم بناتے ہو، بدامنی کا ماحول تم سازگار کرتے ہو، نہ کہ مسلمان، درندگی وسفاکیت اور بہیمیت وسبعیت کا مظاہرہ تم کرتے ہو، نہ کہ مسلمان، حقوق انسانی پر ڈاکہ تم ڈالتے ہو، نہ کہ مسلمان، عدل وانصاف کا گلہ تم گھونٹتے ہو، نہ کہ مسلمان، مذکورہ ممالک وریاستوں میں معصوموں کے قاتل تم ہو، نہ کہ مسلمان، پوری دنیا میں جابرانہ نظام کے قیام کی جدوجہد تم کر رہے ہو، نہ کہ مسلمان، تم ایک ایسے نظام کے قائل ہو جس میں کم زور وناتواں لوگوں کی حصہ داری نہ ہو، بلکہ طاقت وقوت کی حکمرانی ہو۔
ہم دنیاے انسانی کو اپنی زبان وبیان اور تحریر وقلم کے ذریعہ یہ بتا دیں کہ اسلام ایک سراپا امن وسلامتی کا دین ہے۔ بدامنی، فتنہ وفساد، خون ریزی وغارت گری اور دہشت گردی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان تو ایک امن پسند اور ہم درد وخیر خواہ قوم وملت کا نام ہے۔ دین اسلام کی درخشاں تعلیمات نے جس طرح ماضی میں فرد وجماعت، اقوام وملل اور ملک وقوم کی ترقی میں تعمیری و اصلاحی انقلاب برپا کیا تھا۔ آج کے بدلے ہوئے حالات میں بدامنی وتخریب کاری اور فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنے معاشرے میں بھی دین اسلام کی تعلیمات مفید اور معنی خیز ہوں گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تعمیر نو کے لیے سیکڑوں جماعتوں نے تجربات کی دنیا میں غوطہ لگایا ہے، لیکن نتیجہ آپ حضرات کے سامنے ہے اور یہ بات تو مسلم ہے کہ ماضی کی طرح حال میں بھی تعلیمات اسلام کو تجربات کو دنیا میں بروئے کار لا کر ہی امن وآشتی، حقوق انسانی، مساوات ورواداری اور عدل وانصاف کی پیاسی انسانیت کو سیرابی حاصل ہوسکتی ہے اور اس دور کے اہم چیلنج کے لیے نسخہ شفا قرار پا سکتا ہے۔ جس کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر خرمن انسانیت میں امن وامان، صلح وآشتی، عدل وانصاف اور مساوات ورواداری کی بہار آسکتی ہے، جب ہی پوری دنیا حقیقی امن وسلامتی اور سعادت وکامرانی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔