بیوی بچوں پر خرچ کی تاکید اور فضیلت

idara letterhead universal2c

بیوی بچوں پر خرچ کی تاکید اور فضیلت

مفتی محمد ارشاد قاسمی

آل اولاد پر خرچ صدقہ ہے
 
حضرت عمرو بن امیہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہوتا ہے۔ (مجمع الزوائد: 228)
 
ایک روایت میں ہے جو کچھ بھی تم ان کو دیتے ہو، صدقہ ہے۔
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے اول جو میزان میں رکھا جائے گا، وہ آدمی کا اپنے اہل وعیال پر خرچ ہے۔ (مجمع الزوائد:4/328، کشف الغمہ: 112)
 
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدمی اپنی بیوی کو جو پانی پلاتا ہے اس کا بھی ثواب ہے۔ (مجمع:4/328)
 
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنے اہل و عیال پر ثواب گمان کرتے ہوئے خرچ کرتا ہے تو اس کے لیے صدقہ کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ (سنن کبری: 11/467)
 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دینار جو تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ (سنن کبری:11)
 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے ان لوگوں پر خرچ کرو جو تمہارے اہل وعیال ہیں۔ (سنن کبری: 7/466، ابوداود: 236)
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم کو اللہ مال سے نوازے تو پہلے اپنے اوپر اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرو۔ (مسلم)
 
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جو تم اپنے اوپر خرچ کرو صدقہ ہے۔ جو اپنی اولاد کو کھلاؤ صدقہ ہے اور جو اپنی بیوی کو کھلاؤ صدقہ ہے، جو اپنے خادم کو کھلاؤ صدقہ ہے۔ (کشف الغمہ: 112)
 
حضرت معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا کہ ہماری عورتوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو وہی کھلا ؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہوں اور ان کو برا بھلا مت کہو اور نہ ان کو مارو۔ (ابو داود: 291، کشف الغمہ: 112)
 
فائدہ: ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے اور کھانے اور کپڑے اور دیگر اخراجات پر صرف کرتا ہے اگر اس نیت سے کرتا ہے کہ ان کی نگرانی خدا نے ہمارے ذمہ کی ہے اور ثواب کی نیت کرتا ہے، تو اس پر بھی ثواب ہو گا کہ یہ فی سبیل اللہ صدقہ خیرات میں داخل ہے۔ مگر اس کے لیے ایک شرط ہے کہ یہ خرچ اسراف اور بیجا اور گناہ کے ان امور پر نہ ہو، لہذا عریانیت کے کپڑے لا کر دے گا، ٹی وی، وی سی آر لا کر دے گا، کیمرہ لا کر دے گا تو ثواب کے بجائے الٹے گناہ پائے گا۔
 
پھر اس کا بھی خیال رہے کہ آل اولاد پر خرچ کے ساتھ حسب موقعہ ووسعت، خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہے، صرف گھر کے خرچ میں اکتفا نہ کرے۔ بعض لوگوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ اہل خانہ پر تو وسعت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ مگر صدقہ خیرات کا راہ خدا میں خرچ کا مزاج نہیں ہوتا۔ یہ دینی مزاج نہیں، یہ علامت اس بات کی ہے کہ وہ اللہ کا حکم سمجھ کر نہیں خرچ کر رہا ہے، بلکہ حظ نفس کے طور پر خرچ کر رہا ہے، تو اس میں اگر خلاف شرع نہ ہونے پر گناہ نہیں تو ثواب بھی نہیں ہوگا۔ چوں کہ ثواب کا تعلق حق شریعت کی ادائیگی کی نیت کے ساتھ ہے۔
 
بیوی بچوں کا خرچہ سب سے پہلے قیامت میں وزن کیا جائے گا
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے پہلے جو وزن کیا جائے گا وہ نفقہ ہوگا جو اس نے اہل وعیال پر کیا ہوگا۔ (حسن الامور: 563، طبرانی اوسط)
 
فائدہ: یعنی روزہ، نماز، دیگر صدقات و خیرات کی طرح اسے وزن کیا جائے گا اور جتنا زائد وزن ہو گا اس قدر ثواب ہوگا۔
 
لیکن خیال رہے کہ اس سے مراد وہ خرچہ ہے جو شریعت اور سنت کے مطابق ہو۔ ناجائز خرچہ مراد نہیں، مثلاً گناہ کے معاون اسباب میں دینا، مثلاً بے پردگی کے لباس میں دینا، عریاں لباس کے لیے رقم دینا یا ٹی وی وغیرہ پر خرچ کرنا، اس طرح غیر اسلامی طور طریقہ پر خرچ کرنا، اس کو تو گناہ میں تولا جائے گا۔
پس مراد اس سے وہ خرچہ ہے جو شرع کے موافق ہو۔
 
وسعت کے باوجود اولاد پر خرچ میں تنگی پر وعید
 
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں میں سب سے بدتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال پر تنگی سے خرچ کرے۔ (کنز العمال: 16/375، طبرانی)
 
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مجھ سے یعنی (میری سنت پر) نہیں جس کو اللہ پاک نے وسعت دی ہو پھر وہ اہل وعیال پر تنگی کرے۔ (کنز العمال: 16/372)
 
فائدہ: آل اولاد اور اہل خانہ کا ایک حق ہے، غربت میں غریب کی طرح اور خوشیوں میں خوش حال لوگوں کی طرح۔ اگر اللہ پاک نے وسعتِ مال دی ہے تو اس کا اولین مصرف اہل خانہ ہیں، ہاں! مگر اسراف کے ساتھ نہیں اور نہ ان امور میں جو نا جائز اور ممنوع ہوں۔ مثلا لہو ولعب، ٹی وی پر، خلاف شرع لباس پر کہ ان پر خرچ کرنا نا جائز ہے اور گناہ میں تعاون ہے۔ آل اولاد کو نیک وصالح بنانے کا حکم ہے، نہ کہ مال کی فراوانی پر فاسق وفاجر بنانے کی اجازت ہے۔ مال میں وسعت ہو تو ضروری اخراجات کے بعد راہ خدافی سبیل اللہ میں، مدارس، مساجد اور غرباء ومساکین پر خرچ کریں، تا کہ مرنے کے بعد اس کا صلہ پائیں۔
 
قریبی رشتہ دار غریب، نادار اور اپاہج ہوں تو ان کا نفقہ بھی ضروری ہے
 
حضرت مقدام بن معدیکرب نے کہا میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ، اپنے آباء کے ساتھ احسان کرو، پھر اس کے بعد جو قریبی رشتہ دار ہوں، پھر جو اس کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں۔ (بلوغ الامانی: 17/62، بیہقی، اعلاء السنن: 11/300)
 
حضرت بہز بن حکیم بن معاویہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کس پر بھلائی کروں؟ آپ نے فرمایا، اپنی ماں پر، میں نے پھر کہا اس کے بعد کس پر؟ آپ نے فرمایا ماں پر۔ پھرمیں نے کہا اللہ کے رسول پھر کس پر؟ آپ نے فرمایا، اپنی ماں پر۔ (3/ مرتبہ فرمایا) میں نے کہا پھر کس پر؟ آپ نے کہا باپ پر، پھر قریبی رشتہ دار پر، پھر قریبی رشتہ دار پر۔ (بلوغ الامانی: 17/62)
 
فائدہ: اس روایت میں اور دیگر روایات میں صدقہ خیرات کی ترتیب بیان کی گئی ہے کہ والدین کے بعد قریبی رشتہ دار پر صدقہ خیرات کرنے کا حکم ہے اور یہ کہ اس میں دوگنا ثواب ہے۔
 
اہل وعیال کی خبر گیری نہ کرنا بڑے گناہ کی بات ہے
 
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اپنے عیال کی خبر گیری نہ کرے۔ (ابو داود: 238، مسلم: 1/323، مشکوٰة: 290، مجمع الزوائد: 4/328)
 
فائدہ: بیوی بچوں کے کھانے، کپڑے، رہنے کا انتظام کرنا خدا کے فرائض میں سے ہے۔ اس میں کوتاہی جس سے ان کو تکلیف ہو، پریشانی ہو، ناجائز ہے۔ ان کے کھانے کپڑے میں کمی کرنا اور اس سے بے پروا رہنا بڑے گناہ کی بات ہے۔ عموماً تو لوگ اس مسئلہ میں کم ہی کوتاہی کرتے ہیں، چوں کہ اس کا تعلق انسانی فطرت اور محبت اور عقل سے بھی وابستہ ہے۔ البتہ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نماز اور جماعت کے تو پابند نظر آتے ہیں۔ مگر کسب اور محنت میں غافل اور بے پروا ہونے کی وجہ سے اہل وعیال کے کھانے کپڑے کے متعلق ضروری خبر گیری بھی نہیں کرتے ہیں۔ سو یہ دین کے ایک حق میں کوتاہی ہے اور بڑے گناہ کی بات ہے۔ عموماً وہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر باہر کھاپی لیتے ہیں اور بیوی بچے گھر میں فاقہ کش ہوتے ہیں۔
 
کچھ لوگوں کا مزاج ایسا ہوتا ہے کہ وہ کما کر باہر تو اپنا انتظام کھانے پینے کا بہتر طور پر کر لیتے ہیں۔ اور بیوی بچوں سے بے پروا رہتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ طبیعت انسانی اور عقل کے بھی خلاف ہے۔ بے عقل جانور بھی اپنے بچوں کی خبر گیری رکھتے ہیں۔ کیا انسان جانور سے بھی بدتر ہو گیا ہے؟! جہاں یہ عقل اور طبیعت انسانی کے خلاف ہے۔ وہاں یہ دین و شریعت کے بھی خلاف ہے۔ آج یہ اپنی اولاد اور ماتحتوں کی خبر گیری کریں گے۔ تو کل ضعف، پیری اور بڑھاپے میں ان کی اولاد بھی ان کی خبر گیری کرے گی۔ ورنہ تو آخر عمر میں حق تلفی کی سزا پائیں گے اور پریشان ہو کر بھیک وسوال پر مجبور ہوں گے۔
 
بیوی کی خبر گیری، کھانے کپڑے میں کوتاہی کرنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت منع فرماتے
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں میں وعظ فرمایا اور کہا، عورتوں کے مسئلہ میں اللہ سے ڈرو، یہ عورتیں تمہاری مددگار ہیں، تم نے اللہ کے حکم سے ان کو حاصل کیا ہے۔ ان کے ناموس کو تم نے اللہ کے کلمہ سے حلال کیا ہے۔ مناسب طور پر ان کا کھانا اور کپڑا تمہارے ذمہ ہے۔ (مسلم: 1/397، ابو داود: 263، ترمذی، مشکوٰة: 1/225)
 
فائدہ: نکاح کے بعد مرد پر بیوی کا کھانا کپڑا اور مکان فرض ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خود قرآن پاک میں ﴿لینفق ذوسعة من سعتہ﴾ اپنی وسعت کے موافق بیوی پر خرچ کرے۔
 
اس میں کوتاہی اور حق تلفی گناہ کبیرہ ہے۔ مرد کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق بیوی بچوں پر خرچ کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ مرد کے پاس گنجائش مالی نہیں ہے اور آمدنی کم ہے تو ایسی صورت میں بیوی بچوں پر ہی اولاً خرچ کرے، دیگر اقارب کو موقوف رکھے، وسعت کے بعد دیگر رشتہ داروں پر خرچ کرے۔ اگر بیوی بچوں کے ضروری اخراجات سے نہ بچے تو صدقہ و خیرات بھی موقوف رکھے کہ اولاً ان کا حق ہے۔
 
بیوی کے خرچہ میں شوہر کی مالی حیثیت کی رعایت ہوگی
 
حضرت معاویہ قشیری کی روایت میں ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ ہماری عورتوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ،جو تم کھاتے ہو ان کو کھلا ؤ اور جو تم پہنتے ہو ان کو پہناؤ اور نہ ان کو مارو اور نہ ان کو برا کہو۔ (ابوداود: 291، نسائی)
 
فائدہ: اس روایت سے معلوم ہوا کہ بیوی کے خرچے میں شوہر کی مالی حیثیت کی رعایت کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تم کھاؤ اور پہنو وہ ان کو کھلا ؤ اور پہناؤ۔ لہذا اگر عورت امیر گھرانہ سے آئی ہو اور شوہر غریب ہو تو شوہر کے اعتبار سے ملے گا۔
 
اعلاء السنن میں ”باب یعتبر حال الزوج فی النفقة“ قائم کر کے اسی کو راجح اور اصوب قرار دیا ہے۔ (11/289)
 
اگر شوہر واجبی اور لازمی گھریلو خرچ میں کوتاہی کرے
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا (میرے شوہر) ابوسفیان میں بخیل ہے۔ کیا میرے لیے کوئی گناہ ہے کہ میں اس کے مال سے (بلا اجازت ضرورت پر) کچھ لے لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں لے لو جو کافی ہو جائے اپنے لیے اور اپنے لڑکوں کے لیے جو مناسب طور پر ہو۔ (سنن کبریٰ: 7/466، مسند احمد مرتب: 17/59)
 
فائدہ: ملا علی قاری نے شرح مشکوٰة میں بیان کیا ہے کہ بقدر ضرورت نفقہ دینا واجب ہے۔ اور یہ کہ بیوی کا اور نابالغ چھوٹے بچوں کا خرچہ فرض ہے۔ اگر اس میں مرد کوتاہی کرے تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت جس سے صرف ضرورت پوری ہو مرد کے بغیر اجازت سے چھپا کر عورت لے سکتی ہے۔ (مرقات: 6/243، اعلاء السنن: 11/289)
 
ملا علی قاری نے بیان کیا کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شوہر کے مال سے عورت نابالغ کی ضرورت پوری کرے گی اور اس خرچ کا کوئی معیار اور مقدار متعین نہیں۔ بلکہ عرف اور ماحول میں جو خرچ کیا جاتا ہو خرچ کرے گی۔ (مرقات: 6/243)
 
لہذا اس سے معلوم ہوا کہ شہر اور دیہات کے خرچ میں فرق ہو گا اسی طرح خوش حال اور غریب گھرانے کا بھی فرق ملحوظ ہو گا۔
 
اعلاء السنن میں اس حدیث پاک کے تحت ہے کہ عورت جو شوہر کے مال سے بلا اجازت لے گی تو وہ زیادہ اسراف کے طور پر نہ لے گی۔ (11/290)
 
بیوی کو اپنا مال شوہر پر خرچ کرنا، کھلانا پلانا صدقہ ہے
 
حضرت زینب (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ذرا میرے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں کہ کیا مجھے شوہر اور ان کی اولاد پر (جو دوسری بیوی سے ہیں) خرچ کرنے کا کچھ ثواب ملے گا؟ اور میرے متعلق نہ بتانا۔ چناں چہ زینب کہتی ہیں کہ وہ گئے اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معلوم کیا کون ہے؟ تو بتا دیا گیا کہ زینب ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون زینب؟ کہا عبداللہ کی بیوی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک رشتہ داری کا، دوسرا صدقہ کا۔ (طحاوی: 1/308)
 
ایک روایت میں ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی کہ اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو۔ خواہ اپنے زیوروں سے ہی، کہ تمہاری اکثر تعداد جہنم میں جائے گی، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور پوچھا میرے شوہر غریب ہیں، میں انہیں صدقہ کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں !تم کو دو گنا ثواب ملے گا۔ (مجمع الزوائد: 3/122)
 
کم زور ضعیف غریب والدین کا نفقہ لڑکوں پر فرض ہے
 
عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آیا اور کہا میرے پاس مال ہے ہمارے والد ہمارے مال کے محتاج ہیں۔ (ضعیف غریب ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اور تمہارا مال تمہارے والد کے لیے ہے۔ تمہاری اولاد بہترین تمہاری کمائی ہے۔ اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔ (ابوداود: 498، ابن ماجہ: 166، مشکوٰة: 291، تلخیص: 2/9)
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کو ضرورت ہو تو ان کا مال تمہارا ہے۔ یعنی اولاد کا۔ (تلخیص: 2/9، اعلاء السنن: 301)
 
خیال رہے کہ مکارم اخلاق اور انسانی مروت کے اعتبار سے تو ہر اولاد کو اپنے والدین کا خیال رکھنا ان کی ضروریات کا لحاظ رکھنا لازم ہے، خواہ والدین محتاج ہوں یا نہ ہوں کہ اولاد پر والدین کی خدمت، رعایت، ان کو خوش رکھنا ان کا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
 
لیکن اگر والدین غریب ہوں، ضعیف کم زور ہوں، کسب معاش کے لائق نہ ہوں تو ایسی صورت میں والدین کا نفقہ بیوی بچوں کی طرح فرض ہو جاتا ہے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کو ضرورت ہو ان کا مال تمہارا ہے۔ یعنی اولاد کا۔ ویسے بھی اولاد کا شریعت کے علاوہ انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ جس نے ان کی پرورش کی، جس نے ان پر بچپن میں جان و مال خرچ کیا۔ آج ان کو ضرورت نہ ہو تب بھی وہ اس کا خیال کریں اور ان کی تمام ضرورتیں بحسن و خوبی پوری کریں۔ علامہ شامی نے بیان کیا کہ والدین اگر ضرورت مند ہوں تو اولاد پر ان کا نفقہ اور خرچہ واجب ہے۔ والدین یا ان میں سے کوئی بیمار ہو اور خدمت کے محتاج ہوں تو اولاد کے ذمہ خدمت لازم ہے اور اولاد کو خدمت کا موقعہ نہیں ہے تو پھر اگر مالی گنجائش ہے تو والدین کے لیے کسی خادم یا کسی کو اجرت دے کر خدمت کرانا لازم ہوگا۔ (شامی:616)
 
شوہر کے دیے ہوئے مال کو بلا اذن کے خرچ کرنا منع ہے
 
حضرت عمرو بن العاص کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کچھ تصرف کرے جب کہ اس نے مال حفاظت کے لیے رکھنے کے لیے دیا ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ اس کی عصمت کا مالک ہے۔ (عشرة النساء: 505، ابوداود، نسائی: 352)
 
فائدہ: شوہر اگر روپیہ وغیرہ بیوی کو رکھنے دے جس کا گھریلو خرچ سے کوئی تعلق نہ ہو تو اس مال کا بلا اجازت عورت کو کسی بھی مقام پر خرچ کرنا درست نہیں کہ یہ خیانت میں داخل ہے۔ حتی کہ وہ اپنی ذات میں بھی خرچ نہیں کر سکتی، تا وقتیکہ شوہر کو اس کی اطلاع نہ کر دے۔
 
خیال رہے کہ شوہر چوں کہ اس کی عفت و پاک دامنی کا مالک ہے، اس لیے اس عورت کا حق ہے کہ اپنے کام سے اسے خبر اور اطلاع کر دے۔ اس میں عورت کی امانت اور دیانت داری ہے۔
 
اولاً اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے
 
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک تم میں سے کسی کو مال سے نوازے تو اولاً اپنے اوپر، پھر اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔ (مسلم: 2/120، مشکوٰة: 290)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پہلے اپنے سے شروع کرو۔ (یعنی اپنے مال کو اپنی ضرورت پر خرچ کرو) پھر اس سے جو فاضل ہو اپنے اہل و عیال اور گھر والوں پر، پھر اس سے زائد ہو تو اپنے رشتہ داروں پر، پھر اس سے بھی زائد ہو جائے تو پھر اپنے سامنے، دائیں جانب، بائیں جانب (یعنی عام لوگوں کو اور پڑوسیوں کو دو)۔ (نسائی: 353، مسلم: 322)
 
فائد ہ: مال کے خرچ کرنے کی شرعی ترتیب یہ ہے کہ اس قدر کم مال ہے کہ اپنے اوپر اور اہل و عیال ہی پر خرچ کر سکتا ہے، اگر اعزہ و اقارب واحباب پر خرچ کرے گا تو اپنے اہل وعیال پر واجب خرچ میں کوتاہی ہی ہو جائے گی، تو پھر اپنے ہی اہل و عیال پر خرچ کرے۔ اور اگر مال اہل وعیال کے نفقہ واجبہ سے زائد ہے تو پھر اعزہ واحباب وعام مسلمین مساجد ومدارس پر بھی خرچ کرے۔
 
خیال رہے کہ بیشتر لوگ اہل و عیال کے فراوانی کے ساتھ خرچہ کرنے میں، بلکہ اسراف کی حد تک خرچ کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ ٹی وی پر اور عیش و تنعّم کے کھانوں پر، مکانوں کی خوش نمائی اور بلا ضرورت ڈیزائن فیشنی میز پر تو ہزاروں لاکھوں روپیہ صرف کر دیتے ہیں اور خدا کے راستہ مدارس، مساجد اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کہا جاتا ہے تو اس میں انکار اور بخل کرنے لگ جاتے ہیں، یہ بہت بری بات ہے۔ اور خدا کو ناراض کرنے والی بات ہے، پھر اس مال میں کثرت بھی نہیں رہتی اور ایسا مال زیادہ دن تک ٹھہرتا بھی نہیں ہے۔ قدرت ناراض ہو کر سزا دے دیتی ہے، اس دنیا میں بے شمار ایسے واقعات ہیں۔
 
اہل وعیال کو مقدم رکھنا اور خرچ کی ترتیب
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اول خرچ اپنے اوپر کرو۔ اس سے فاضل ہو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو۔ پھر اس سے فاضل ہو جائے تو اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرو۔ پھر رشتہ داروں سے فاضل ہو تو اس طرح (مسلمانوں پر) خرچ کرو۔ اپنے سامنے سے، پیچھے سے، بائیں سے، دائیں سے۔ (مسلم: 1/322)
 
فائدہ: اس حدیث پاک میں مصرف، خرچ کرنے کی ترتیب بیان کی گئی ہے۔ اولاً اپنی ذات پر اس قدر خرچ کرے کہ صحت باقی رہے، ضروریات پوری ہوں، دوا دارو جو ضروری ہوں اس پر لگائے۔ اس کے بعد اہل وعیال بیوی بچوں پر خرچ ہو۔ اس کے بعد رشتہ داروں پر، پھر عام مومنین پر، پھر اس بات کا خیال رکھے کہ اہل وعیال پر خرچ سے مراد ضروری اخراجات ہیں۔ عیش پرستی اور فراوانی کا خرچ مراد نہیں۔ اس صورت میں تو بہت کم دوسروں کا نمبر آئے گا۔ چوں کہ عیا شانہ زندگی کا خرچہ لامحدود ہے۔ اسی وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ بیشتر مال دار جو دین دار نہیں راہ خدا میں، اقرباء اعزہ پر، مسجد مدرسہ پر بہت کم یا نہیں خرچ کرتے ہیں۔ ہاں! نام و نمود کی جگہ خوب خرچ کرتے ہیں، شیطانی اور سیاسی امور میں لوگوں کے نزدیک و قار عزت کے لیے مال بہاتے ہیں اور راہ خدا میں خالصة لوجہ اللہ خرچ کرنے سے بھاگتے اور کلفت اور مال میں کمی محسوس کرنے لگ جاتے ہیں، یہ مال کے غیر مقبول اور باعث وبال ہونے کی پہچان ہے۔
 
بھائی بہن اگر محتاج ہوں، یتیم ہوں تو ان کا نفقہ بھائی پر ہے
 
طارق اعجازی کہتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں، دینے والا ہاتھ بلند (قابل فضیلت) ہے سب سے پہلے اپنے عیال پر خرچ کرو۔ اپنی ماں پر، باپ پر، اپنی بہن پر، اپنے بھائی پر، پھر ان پر جو قریب ہوں۔(نسائی: 351، ابن حبان، دار قطنی، نیل الأوطار: 6/267)
 
کلیب بن منفقہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور معلوم کیا کہ میں کن لوگوں پر بھلائی کروں؟ آپ نے فرمایا، اپنی ماں پر، باپ پر، بہن پر، بھائی پر اور اس خادم غلام پر جو تمہارے ساتھ رہتے ہوں۔ ان کا حق واجب ہے اور ان پر صلہ رحمی کے طور پر۔ (ابوداود، اعلاء السنن:11/300)
 
فائدہ: خیال رہے کہ بیشتر لوگ بھائی بہن پر، جب کہ محتاج ہوں، توجہ نہیں دیتے، خود عیش و تنعّم میں پڑے رہتے ہیں اور ان کے خونی رشتہ ایک ماں باپ کی اولاد بھائی بہن، غریب وتنگ دستی کی مصیبت میں کراہتے رہتے ہیں۔ یہ کیسی بے مروتی کی بات ہے۔ اللہ پاک ایسے عیش کو زیادہ دن باقی نہیں رکھتا۔ ہاں! اگر سستی اور کو تا ہی کی وجہ سے غربت ہو، کماتے اور محنت نہ کرتے ہوں، عادت ہی خراب ہو تو ایسے لوگ مجبور نہیں ہیں، ان کی دوسری بات ہے۔
 
بہر حال اگر بہن ہو تو چوں کہ عورت ہے، کما نہیں سکتی، اس کا نفقہ وسعت کے مطابق بھائی کے ذمہ ہے۔ ایسا بھائی اگر بیمار مجبور کمانے کے لائق نہیں ہو تو وسعت کے موافق اس کے ذمہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسا تعاون کرے کہ احتیاج کی شکل جاتی رہے اور وہ بر سر روزگار ہو جائے۔
 
گھر کے لیے ایک سال کا غلہ رکھنا سنت سے ثابت ہے
 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے کھجور کے باغات کو فروخت فرما کر اپنی بیویوں کا سال بھر کے نفقہ کا انتظام فرماتے تھے۔ (سنن کبری: 7/468)
 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی جائیداد سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک سو اسی وسق کھجور دے دیا کرتے تھے۔ اور 20/ وسق جو دیا کرتے تھے۔ (بخاری: 806)
 
فائدہ: گھریلو نظم اور سہولت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کا نفقہ ادا کر دیا کرتے تھے۔ ازواج مطہرات حسب خواہش خرچ کیا کرتی تھیں، زیادہ تر تو راہ خدا میں صدقات و خیرات کر دیا کرتی تھیں۔ اور پریشانی پر صبر کیا کرتی تھیں۔ اس لیے معلوم ہوا کہ سہولت اور فراغت کے لیے اپنے بیوی بچوں کا جو غلہ ہو وہ سال بھر کا خرید کر رکھ سکتا ہے۔ اور بہتر بھی یہی ہے، اس میں سہولت اور آسانی اور برکت ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غلہ کا ذخیرہ سال بھر کا رکھنا تو کل اور تقوی کے خلاف نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے زیادہ کون متوکل اور متقی ہو سکتا ہے؟ ہاں! مگر خیال رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لیے کل پر سوں کا بھی انتظام نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ جو آتا تھا خرچ فرما دیا کرتے تھے۔ کل کے لیے اکٹھا کر کے نہیں رکھتے تھے۔
 
اولاد کی کمائی میں والدین کا حصہ اور ان کا حق
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے۔ اور میں صاحب اولاد ہوں، میرے والد میرا مال چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے۔ (یعنی والد کے لیے بھی ہے)۔ یقیناً تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے۔ پس تم اپنے اولاد کی کمائی کھاؤ۔ (تلخیص الحبیر:2/9)
 
مستدرک حاکم کی روایت میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے، آدمی کی اولاد اس کے کسب سے ہے، پس اولاد کے مال کو کھاؤ۔ (تلخیص الحبیر:2/9، کنز العمال: 16/462)
 
حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے 3/ مرتبہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، دومرتبہ فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ تمہیں قریبی رشتہ داروں پر بھلائی کا حکم دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد جو قر یبی ہو۔ (حاکم، طبرانی، کنز العمال: 16/462)
 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ والدین اولاد کا مال مناسب طور پر لے سکتے ہیں۔ مگر اولا د کو (بالغ ہو جانے پر) یہ اختیار نہیں کہ ان کے مال کو بلا اجازت کے لے لیں۔ (کنز العمال: 16/476)
 
فائدہ: اولاد کا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بہتر سلوک کریں۔ ان کی تمام سہولتوں کا راحتوں کا خیال رکھیں، بیماری پر خرچ کریں، جان و مال دونوں سے خدمت کریں۔ اگر والدین خوش حال ہیں تب بھی ان کا فریضہ ہے۔ اگر خوش حال نہ ہوں اور ضرورت ہو تو پھر ایسی صورت میں بیوی اور نابالغ بچوں کی طرح ان کا بھی نفقہ اولاد کے ذمہ فرض اور واجب ہے۔
 
گھر یلو خرچ اور نفقہ کے سلسلے میں چند ضروری مسائل
 
∗ ہر آدمی پر نکاح کے بعد، جب بیوی اس کے پاس ہو، نفقہ واجب ہے۔ (شامی: 3/572)
 
∗ بیوی مریضہ ہو اور شوہر کے گھر میں ہو تو اس کا کھانا کپڑا وغیرہ بہر صورت واجب ہے۔ (شامی)
 
∗ بیوی گھر یلو کوئی کام نہ کرتی ہو اور شوہر کے گھر میں ہو تب بھی اس کا نفقہ لازم ہے۔ (شامی)
 
∗ اگر بیوی مستقل ملازمہ ہو، دن بھر ملازمت میں رہتی ہو۔ اور دن کے گھریلو کام کاج، شوہر کا ضروری کام نہ کر سکتی ہو، گو رات میں گھر ہی رہتی ہو تو ایسی صورت میں اس کا نفقہ لازم نہیں۔ (شامی: 577)
 
∗ اگر عورت دن میں رہتی ہو اور رات میں گھر میں نہ رہتی ہو تو اس کا نفقہ شوہر کے ذمہ لازم نہیں۔ (شامی)
 
∗ نفقہ اور گھریلو خرچ میں شوہر کی آمدنی کے مطابق گھر یلو خرچ لازم ہوگا۔ (شامی: 3/600)
 
∗ سال میں دو کپڑے، گرمی اور سردی کی مناسبت سے لازم ہوں گے۔ (شامی: 580)
 
∗ ایسا لباس جس سے بدن نظر آئے یا با نہہ کھلے رہیں، جیسا کہ آج کل ریڈی میڈ کپڑوں میں ہوتا ہے جائز نہیں۔ اسلامی اور شرعی لباس پہنانا اور دینا ضروری ہے۔
 
∗ بیوی کو ایک ایسا کمرہ دینا ضروری ہے جس میں شوہر بیوی کے علاوہ کسی بھی دوسرے کا کوئی دخل اور اختیار نہ ہو اور نہ اس میں کوئی دوسرا رہتا ہو، خواہ شوہر کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ (شامی:2/600 )
 
∗ بیوی کے علاوہ اگر اولاد ہو اور نا بالغ ہو تو اس کا نان نفقہ، کھانا، کپڑا، مکان و علاج وغیرہ بھی والد پر ضروری ہے۔ (شامی: 2/604)
 
∗ صحت مند بالغ لڑکے کے باپ کے ذمے خرچہ واجب نہیں (ہاں! انسانی اخلاقی فریضہ ہے، تا وقتیکہ وہ کمانے نہ لگیں، والد کے ذمہ ان کے اخراجات ہیں)۔ (شامی: 2/604)
 
∗ والدین اگر ضعیف ہوں اور کما سکتے ہوں تب بھی ان کا خرچہ اولاد کے ذمہ ہوگا۔ (شامی: 2/623)
 
∗ اگر بالغ لڑکے اپاہج ہیں، معذور ہیں، کمانے کے لائق نہیں تو ان کا خرچہ والد ہی کے ذمے رہے گا۔ (شامی: 614)
 
∗ بالغ بچہ جب علم دین حاصل کر رہا ہو تو اس کا خرچہ بھی والد کے ذمہ ہے۔ (شامی: 64)
 
∗ اگر قریبی رشتہ دار میں معذور، اپاہج، دائمی بیمار کوئی لڑکی یا لڑکا ہو اور اس کے والدین، بھائی وغیرہ نہ ہوں یا ہوں تو بہت غریب ہوں تو ایسوں کا نفقہ اور خرچہ بھی رشتہ دار میں جو لائق ہو ان کے ذمے واجب ہے۔ (شامی: 627)
 
∗ اگر قریبی رشتہ دار نہ ہو، دور کے ہوں تو دور کے رشتہ دار پر واجب ہوگا کہ ایسے اپاہج اور معذور کی خدمت اور اس پر ضروری اخراجات کریں۔ (شامی: 3/630)
 
∗ اگر کوئی اتنا تنگ دست اور غریب ہے کہ بیٹے کو کھلائے گا تو غریب باپ کو نہیں کھلا سکے گا، اگر غریب باپ کو کھلائے گا تو بیٹے کو نہ کھلا سکے گا، تو بیٹے کو کھلائے گا۔ اور بعضوں نے کہا کہ جو ہو بیٹے اور باپ کے درمیان تقسیم کر دے۔ (شامی:3/616) 

مقالات و مضامین سے متعلق