خودی اور دعا

idara letterhead universal2c

خودی اور دعا

مولانا ڈاکٹر غلام محمد

میں کسی کے آگے دامن احتیاج پھیلاؤں؟ اظہار عجز کروں؟ یہ تو میری خودی کی موت ہے، میں تو سب سے اعلیٰ واشرف ہوں ، مسجود ملائکہ ہوں، مجھ سے با اختیار اس کا ئنات میں کون ہے؟ میری ضرب سے سمندر کا سینہ شق اور ہوا کا دامن چاک۔ اس دبدبہ وسطوت کے ہوتے ہوئے سائلا نہ روش اختیار کروں؟ اپنے مقام سے گر جاؤں؟ اپنی حیثیت کو بھول جاؤں؟ یہ تو مجھ سے ہرگز نہ ہو سکے گا ؟

بندہٴ عقل اسی لاف و گزاف میں تھا کہ یکا یک کسی صاحب بصیرت نے للکارا، او بصیرت کے اندھے!تو سب کچھ سہی، پھر بھی یہ تو دیکھ کہ کیا تو مختار محض ہے؟ کیا تیرا مجد و شرف خود اختیاری ہے؟ کیا تو موجود بالذات ہے؟ قائم بالذات ہے؟ اے حدوث کے پُتلے! ذرا اپنی حقیقت کو پہچان ،نہ تیرا وجود اختیاری، نہ تیری صفات ذاتی، بلکہ تو جو کچھ ہے اور جیسا کچھ ہے اپنے بل بوتے پر ایک آن بھی قائم نہیں رہ سکتا، رہا تیر ا زعم اختیار تو یہ بھی اپنی ابتدا و انتہا میں جبر ہی کی کڑیوں میں معلق ہے، باقی جس کا اختیار واقعتاً چل رہا ہے اور جو حقیقتاً با اختیار۔ خود بخود اور قائم بالذات ہے، وہ تو اپنی خلاقیت اور قیومیت کے باوجود غیب ومستور ہے، وہی جو چاہتا ہے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ عقل پرستوں کے اندھے پن کی کوئی انتہا ہے کہ ہوا میں لہراتے ہوئے پر چم کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ پرچم خود لہرا رہا ہے، اس پر شیر کی جو تصویر بنی ہے اس کو دیکھ کر ڈرتے ہیں ، اف شیر بپھر بپھر کر حملے کر رہا ہے، نادان یہ نہیں جانتے کہ یہ محض دست صبا کا کرشمہ ہے، بلکہ خودہوا بھی کسی غیبی اشارہ پر چل رہی ہے ۔ سن عارف رومی کیا کہہ رہے ہیں:
          ماہمہ شیراں ولے شیر علم
          حملہ ما از بد باشد دم بدم
          حملہ ما پیدا و نا پیدا ست باد
          جاں فدائے آں کہ نا پیدا ست باد
          یاد ما و بود ما از داد تست
          ہستی ما جملہ از ایجاد تست

بس تیری اور تیرے اختیار وطاقت کی حقیقت اتنی ہی ہے، پھر اس پر گھمنڈ کیسا ؟ مخلوق میں سب سے اشرف و با اختیار ہو کر بھی تو اپنے خالق حقیقی کے آگے ہیچ بلکہ کالعدم ہے، وہ منبع جو دو عطا اور تو سراپا احتیاج!! پس مخلوق کے آگے تیرا جھکنا اپنی امید و خوف کو حادث سے وابستہ کرنا، یقینا خودی کی موت اور شرف انسانی کا جنازہ ہے، لیکن خود اپنے خالق و قیوم سے بے نیازی ، یہ تو سرا سر خود فریبی ہے، ہر غیر سے بے نیاز ہو کر اپنے مالک کا ہمہ وقت نیاز مند ہورہنا، سب سے مستغنی ہو کر”المغنی“کا ہر ارادہ کی تخلیق و تکمیل میں دست نگر بنا رہنا، یہی تو کیش ابراہیمی ہے، اسی سے تو حدوث کو بقا کا سہارا ملتا ہے اور حیات جاودانی بنتی ہے، پس اپنے عجز کا اعتراف اور بارگاہ صمدیت سے استمداد، جس کا نام دعا ہے، تیرے دن رات کا وظیفہ بلکہ ہر سانس کا مشغلہ ہونا چاہیے:﴿رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَہَیِّءْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ﴾․(کہف،ع:1)

اے ہمارے رب!دے ہم کو اپنے پاس سے بخشش اور پوری کر دے ہمارے کام کی درستی ۔

کیوں کہ وحی ربانی نے تیری حیثیت یہی بتائی جتائی ہے۔

﴿یَأَیُّہَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَآء ُ إِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ﴾․ (فاطر، ع:3)

اے لوگو!تم سب محتاج ہو اللہ کے اور اللہ ہی غنی اور حمید ہے ۔

گرفتار عقل نے اہل بصیرت کی یہ باتیں جو سنیں تو اس کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے ، اتنا تو مان ہی لیاکہ رب سے بے نیازی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے، پل بھر کے لیے بھی اس کی نظر کرم ہٹ جائے تو بس ہم عدم ہیں! مگر کج رو عقل پھر بھی ایک مغالطہ کھا گئی ، اس نے کہا:تیری باتیں سب بجا ودرست ، مگر میرا رب محض قیوم و مستعان ہی نہیں، بلکہ وہ بڑا علیم و خبیر بھی ہے، میری ہر احتیاج اس پر روز روشن سے زیادہ عیاں اور میری ہر حاجت روائی میں وہ ہر مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے، پھر میں اس سے کیوں مانگوں؟ کیا میرے مانگے بغیر نعوذ باللہ اس کو میری حاجت وضرورت کا علم نہ ہوگا ؟ ہر گز نہیں ، وہ دانا و بینا ہے، اس کے جانتے اس سے مانگنا یہ تو ایک گستاخی ہے، جسارت بے جاہے، میں تو اس کے تصور سے بھی لرز جاتا ہوں!صاحب بصیرت نے یہ منطق جو سنی تو ہنس پڑا، کہنے لگا:بندہ عقل!کہاں مادی عقل کے زور پر ان حقائق کو سمجھنے چلا ہے، یہ تو عقل ایمانی سے پوچھنے کی باتیں ہیں۔ اے نادان ! اللہ کا علیم وخبیر ہونا مسلم، بلا شبہ اس کو تیری اطلاع کی حاجت بھی نہیں ، مگر یہ تو بتا کہ اس کے علم قدیم و محیط سے تیری اس خلش کی تسکین کیسے ہوگی جو ہرنا پیدا مستقبل سے متعلق تیرے اندر ابھرتی رہتی ہے؟ تیرا حال تو یہ ہے کہ :
          گفتند ہر چہ در دلت آید ز ما بخواہ
          گفتم کہ بے حجابی تقدیرم آرزو ست
                                  (اقبال)

یعنی جب تک تجھ کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ علیم وخبیر تیرے ساتھ کیا معاملہ کرے گا؟ مہر کا یا قہر کا؟ اس وقت تک تیرا اضطراب کیسے مٹ سکتا ہے؟ دیکھا نہیں کہ اس ذہنی اضطراب سے پریشان ہو کر موحد کامل ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور اولاد کے لیے اسی علیم و خبیر رب سے کیا کچھ نہیں مانگا اور مانگتے ہی رہے، حالاں کہ اس کا بھی اعتراف اور اقرار تھا کہ :

﴿رَبَّنَا إِنَّکَ تَعْلَمُ مَا تُخْفِی وَمَا نُعْلِنُ ، وَمَا یَخْفَی عَلَی اللَّہِ مِنْ شَیْء ٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاء ِ ﴾․(ابراہیم ، ع:6)

اے ہمارے رب!تجھ کو سب کچھ معلوم ہے جو ہم اپنے دل میں رکھیں اور جو ظاہر کر دیں اور اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی نہیں ، نہ زمین میں، نہ آسمان میں ۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ علم وخبر کے اقرار کے باوجود پھر بھی فریاد کیوں ہے؟ وہی نا معلوم مستقبل کے خوف سے جو درد و کسک پیدا ہو رہی ہے، اس کی تسکین مطلوب ہے!جس کی صورت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ اپنی طرف سے نالہ و شیون کر کے ہر شر سے حفاظت اور ہر خیر کی ضمانت حاصل کر لی جائے ، چناں چہ تیری اس نفسیات کا پاس و لحاظ کر کے رب علیم وخبیر نے غایت کرم سے اذن عام دیا کہ:﴿ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾

”تم مجھ سے مانگو میں تمہاری سنوں گا۔“

پس دعا کیا ہے؟ خوف و حزن کا تریاق ! اس تریاق کو استعمال نہ کیا تو ہموم وغموم تجھ کو ہلاک کر دیں گے، زندگی موت سے بدتر ہو جائے گی۔ پھر بات اتنی ہی نہیں ! ذرا فکر کومہمیز لگا، دیکھ کہ تجھ میں اور تیرے خالق میں ایک اور تعلق بھی ہے ،بہت نازک مگر بڑا پائیدار، وہ حسن وعشق کاتعلق ہے اور حق تعالی سرچشمہ جمال وکمال ہے اور ادھر انسان میں عشق کا جوہر آبدار، کیسے ممکن ہے کہ حسن کی دل فریبیاں ہوں اور عشق کی فدا کاری دبی رہ جائے۔ دیکھا نہیں کہ عاشق صادق موسیٰ (علیہ الصلاة والسلام )کو جب حسنِ ازل نے شرف کلام بخشا تو پوچھا تو صرف یہی تھا کہ:” مَا تِلْکَ بِیَمِینِکَ لِمُوسی“ (اے موسیٰ ! تیرے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟) اس کا جواب تو صرف اس دو نقطی جملہ پرختم تھا کہ ﴿ھی عصای﴾ یہ میری لاٹھی ہے مگر زبان عشق اس پر کہاں تھم سکی ، موقع جو پایا تو عرض معروض کا ایک سلسلہ شروع کر دیا کہ:

﴿أَتَوَکَّأُ عَلَیْہَا وَأَہُشُّ بِہَا عَلَیٰ غَنَمِی وَلِیَ فِیہَا مَآرِبُ أُخْرَیٰ﴾․(طہ،ع:1)

”اس پر میں سہارا لیتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے میرے کئی اور بھی فائدے ہیں“ ۔

ذرا عاشقانہ تکلم کی خوبی تو دیکھ کہ بات بڑھا کر ختم بھی کی تو ایسے الفاظ پر جو خود تفصیل طلب تھے کہ شاید بارگاہ حسن سے تفصیل کا اشارہ ملے اور عرض شوق کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس سب تفصیل سے نعوذ باللہ ذات علیم وخبیر کے علم واطلاع میں اضافہ مقصود تھا؟ حاشا وکلا،یہاں تو صرف کلام ہی مقصود تکلم تھا، جذبہ ٴبے عشق کی تسکین البتہ غایت الغایت تھی اور یہ کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر منحصر نہیں ، تجھ میں بھی عشق کی چنگاری ہے، اگر اس کے اظہار کا موقع نہ ملے تو گھٹ کر مر جائے ، اسی لیے خالق فطرت نے بہ ہمہ علم وخبر تیرے جذبہ عشق کی تسکین کے لیے اجازت بھی دی اور یقین بھی دلایا کہ:

﴿فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ ﴾

” تم مجھ کو یاد کرو ،میں تم کو یاد کروں گا ۔“

یہ عشق پر حسن کا انعام و احسان ہے، اب اس ایقان کے ساتھ جب تو ”رَبِّی“ کا نعرہٴ عاشقانہ بلند کرے گا تو تیرے تصور کے کان ”عبدی“ کا جواب ضرور سنیں گے اور تو قبولیت کے یقین سے سرشار ہو جائے گا۔ اب حمد وثنا ہو یا استمداد کی التجا، اس سب سے تیرا مقصود محبوب سے لطف خطاب حاصل کرنا ہوگا ، اس منزل میں آکر تو اس پر مسرور و مشکور ہو گا کہ عرض و معروض کا ایک موقع تو مل گیا، ورنہ کہاں ہمارا عشق نا تمام اور کہاں وہ بارگاہ حسن تمام ، یہ نکتہ میں نے عاشق ربانی عارف رومی سے پایا کہ :
          از دعا نبود مراد عاشقان
          جز سخن گفتن بہ آن شیریں دہاں

پس اب دعا کیا ہے ؟ محض جذبہ عشق کی تسکین!
          حافظ! وظیفہٴ تو دعا گفتن است وبس
          در بند آن مباش کہ نشنید یا شنید

بندہ عقل پر دل کی یہ پر اسرار باتیں جادو کر گئیں، وہ ندامت وحسرت میں ڈوب گیا کہ عقل کو رہ نما بنا کر وصالِ محبوب سے کس قدر دور رہا، ایک جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ کہہ اُٹھا:
          آزمودم عقل دور اندیش را
          باز می دیوانہ سازم خویش را

بندہٴ عقل کے اس اعتراف اور رجوع سے صاحب بصیرت کا دل پگھل گیا، شفقت و درد کے لہجے میں اس نے دعا کے اور بھی لطیف اسرار بیان کیے کہ :

انسان پابند عقل ہو کر خودی نا آشنا بن گیا، اس کا شرف صرف یہی نہیں کہ وہ مسجودِ ملائکہ اور فاتح کائنات ہے، بلکہ اس کی عظمت کا اوج تو یہ ہے کہ اس کو بارگاہ ازل میں محبوبیت کا رتبہ حاصل ہے۔ دیکھا نہیں کہ ابلیس گو مقرب رہا، مگر ذراسی سرکشی میں راندہ ٴبارگاہ کر دیا گیا اور تیرے جد اعلیٰ آدم (علیہ الصلوٰة والسلام ) سے بتانے جتانے کے باوجود لغزش ہوئی ، ہو سکتا تھا کہ اس پر گرفت سخت ہوتی اور آدم کو اپنے بچاؤ کی صورت بھی کوئی سمجھائی نہیں دے رہی تھی ، مگر رب رحیم کے اس مخصوص انداز کرم پر حور و ملائک بھی رشک کھا گئے ہوں تو عجب نہیں کہ آدم کے قلب لرزاں میں خود بارگاہ عفو ہی سے دعا کا جذبہ پیدا فرما دیا گیا اور کلمات دعا بھی القا کیے گئے ، قرآن گواہ ہے کہ :

﴿فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَّبِّہِ کَلِمٰةٍ ﴾

”پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے ۔“

کہا یہ گیا کہ اے آدم ! تم اپنی زبان معذرت یوں کھولو:

﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِینَ﴾ ․(الاعراف،ع:2)

”اے رب!ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم تو تباہ ہی ہو جائیں گے۔“
ہم معاف کر دیں گے۔ چناں چہ دھڑکتے ہوئے دل اور لڑکھڑائی زبان سے آدم نے جب یہ دعا کی تو معافی اور بخشش کا پروانہ فورا مل گیا:

﴿ثُمَّ اجْتَبہُ رَبُّہُ فَتَابَ عَلَیْہِ وَہَدَی ﴾

”پھر اس کے رب نے اس کو نو از اتو اس پر مہربانی سے توجہ کی اور سیدھی راہ دکھائی ۔“

دیکھ لیا، نوازش کا بہانہ دعا ہی کو بنایا گیا،مناجات مقبول پہلے عطا کی ، پھر دامن مراد بھر دیا۔

کریم ازل کی یہ لطف نوازی صرف آدم ہی کے ساتھ نہ تھی، بلکہ آج بھی ہر اس آدم زاد کے ساتھ ہے جو محبت الہی کے اس درجے کو پہنچ چکا ہو کہ اس کی مُحبیت نے محبوبیت کا شرف پالیا ہو، اب وہ محبوب سبحانی ہے، اس کا دل ، دلنواز نے سنبھال لیا ہے۔

”قلب المؤمن بین اصبعین من أصابع الرحمن“․ (الحدیث)

”مومن ( کامل ) کا قلب رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے ۔“

وہی جب چاہتا ہے دل کو سکینت سے معمور کر کے، شکر پر ابھارتا ہے اور جب چاہتا ہے سوز و گداز پیدا کر کے فریاد وزاری اور دعا و مناجات پر مضطر کر دیتا ہے۔ اب دعا بھی دلبر کی طرف سے ہے اور عطا بھی اس کا کرشمہ، عارف رومی نے اس رمز کو کس خوبی سے بیان کیا ہے :
          آں دعائے بے خوداں دیگر است
          آن دعا زو نیست گفت داور است
          آن دعا حق می کند چون او فنا است
          آن دعا و آن اجابت از خدا ست

یہ” دعا“ کا نقطہ اوج ہے، یہاں پہنچ کر انبیاء کے معاملے میں وحی الہی ہے اور خاصانِ حق کے معاملے میں الہام ربانی اور بہر صورت محبوبیت کی نشانی ہے، اس لیے تو سید العارفین صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے رتبہ وشرف کو یوں ظاہر فرمایا کہ:”الدعاء ہو العبادة “”دعا ہی اصل عبادت ہے۔“

یہ نکتہ کی باتیں تھیں جو زبان کہہ سکی اور قلم لکھ سکا ، آگے اللہ پاک سے التجا ہے کہ تجھ کو دعا کا خوگر بنا کر، زینہ بہ زینہ ،اس کے مراتب کا مشاہدہ کرائے کہ :

دعا

عرفانِ نفس کا لازمی نتیجہ ہے۔

خوف و حزن کا تریاق ہے۔

جذبہٴ عشق کی تسکین ہے۔

الہام ربانی اور شرفِ محبوبیت کی نشانی ہے

تعمیر حیات سے متعلق