زیر نظر مضمون حضرت مولانا مرحوم کی ایک تقریر ہے، جو مسلم کمیونٹی سنٹر شکاگو (امریکہ ) میں 19جون1977 ء کو خواتین کے ایک سیمنار میں کی تھی، افادہ عام کے لیے ہدیہ ناظرین ہے۔
اسلامی معاشرت
خواتین اور برادران!میں اس عزت افزائی کے لیے بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اس مجلس میں یاد کیا اور ایک اہم نازک موضوع پر، جو پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے، اظہار خیال کا موقع دیا، میں اس کے لیے بھی شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری خاطر اس پروگرام میں ترمیم گوارا کر لی ، یہ آپ کی شرافت اور خوش اخلاقی ہے، میں قرآن مجید کی ایک آیت پڑھوں گا اور بتاؤں گا کہ اسلام معاشرت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کا تصور کیا ہے اور وہ اس بارے میں کتنا حقیقت پسند واقع ہوا ہے۔ یہ آیت سورہ نساء کی ہے ،سورہ نساء کا نام ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے طبقہ اناث کو اور جنس لطیف کو کیا مقام دیا ہے ، سورہ نساء کی پہلی آیت ہے:
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَتَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَّنِسَاء ً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاء َلُونَ بِہِ الاَ رْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا﴾
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی آدم ) اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روئے زمین )پر پھیلا دیا اور اللہ سے، جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو،ڈرو اور (قطع مودت )ارحام سے (بچو)،کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر نگہبان ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ طبقہ اناث کے متعلق اسلام کے تصور اور مرد و عورت کی ذمہ داری اور تعلقات کی نوعیت پر یہ آیت پوری روشنی ڈالتی ہے، پہلے تو اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان دو طبقوں کی خلقت ایک ہی طرح ہوئی ہے اور ان دونوں کی قسمت ایک دوسرے سے ایسی وابستہ ہے کہ گویا ایک جسم کے دو حصے ہوں، مرد و عورت کی جسمانی ساخت میں معمولی تبدیلی اس وجہ سے ہے کہ دونوں زندگی کا سفر خوش گواری سے طے کر سکیں۔
پہلے تو ان دونوں طبقوں کا وجود نفس واحدہ سے ہے، پھر اس نفس واحدہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، اس تقسیم کے باوجودان میں کوئی تضاد، کوئی بیر نہیں، بلکہ وہ جا کر ایک ہی نقطہ پر جمع ہو جاتے ہیں، اس دنیا میں سفر کرنے والے انسان کو ہم سفر اس کی جنس سے دیا گیا ہے اور وہ اس کے جسم کا حصہ ہے، پھر اس کے بعد ان دونوں سے نسل انسانی کی آفرینش اور افزائش ہوئی، اللہ تعالیٰ نے دونوں کی رفاقت اور ہم سفری میں برکت عطا فرمائی کہ جو دو تھے ان سے ہزاروں ہوئے اور ہزاروں سے لاکھوں، کروڑوں ہوئے، یہاں تک کہ صحیح تعداد کا شمار کمپیوٹر بھی نہیں لگا سکتا کہ کتنے انسان پیدا ہوئے؟ اس کو صرف خدا جانتا ہے، کثیرا کے لفظ سے خدا نے ان کی کثرت کی طرف اشارہ فرمایا۔
سائل بھی اور مسئول بھی
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خدا سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، قرآن مجید میں انقلابی طور پر یہ تصور پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے کہ انسانی سوسائٹی کا ہر فرد ایک دوسرے کا محتاج ہے ، ہر ایک سائل ہے اور ہر ایک مسئول ہے، پھر تقسیم اس طرح نہیں کہ سائلین ایک طرف ہیں اور مسئولین دوسری طرف ، بلکہ جو سائل ہے وہ مسئول بھی ہے اور جو مسئول ہے وہ سائل بھی ہے، تساول (مشترک سوال و جواب )ایسی زنجیر ہے جس میں ہر ایک بندھا ہوا ہے ، ہماری تمدنی زندگی ایک جال ہے،ضرورت مند ہے۔
مرد، عورت کے بغیر اپنا قدرتی اور فطری سفر خوش گوار طریقہ سے طے نہیں کر سکتا اور کوئی شریف خاتون شریک حیات کے بغیر خوش گوار طریقہ سے زندگی نہیں گزار سکتی ، اللہ تعالی نے ہر ایک کو دوسرے کا ایسا سائل اور محتاج بنا دیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی نہیں گزرسکتی۔
خدا کا نام بیگانوں کو یگانہ بناتا ہے
پھر یہ بھی فرمایا گیا کہ سوال جس کے نام پر تم کرتے ہو وہ خدا ہے، اسلامی معاشرہ خدا کے عقیدہ ، خدا کی عظمت، خدا کی قدرت اور خدا کی وحدت کے عقیدے پر وجود میں آتا ہے ، ایک مسلمان مرد کی مسلمان خاتون سے ہم سفری اور رفاقت اس وقت جائز ہوتی ہے جب وہ خدا کا نام بیچ میں لائیں ، خدا کا نام ہی بیگانوں کو یگا نہ بناتا ہے ، دور کو نزدیک کرتا ہے، غیروں کو اپنا بنا دیتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی کا صحیح تصور بھی نہیں ہو سکتا ، وہ ایک دوسرے کے رفیق حیات اور ذمہ دار بن جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی کا تعلق ایسی محبت اور اعتماد کا تعلق ہے کہ بعض اوقات وہ والدین کے تعلق سے بھی بڑھ جاتا ہے، جو بے تکلفی ، جواعتماد، جو الفت ، جو سادگی اور جو فطریت ان کے درمیان ہوتی ہے کسی اور رشتہ میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے نام کا کرشمہ ہے۔
خدا کا نام بیچ میں آتا ہے تو ایک نئی دنیا وجود میں آجاتی ہے، کل تک جو غیر تھا یا غیر تھی ، وہ اپنوں سے بھی زیادہ بڑھ کر اپنی بن جاتی ہے ، ایک مسلمان مرد ، ایک مسلمان عورت ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلف نہیں ہو سکتے ، ایک دوسرے کے ساتھ بعض اوقات سفر بھی نہیں کر سکتے ، ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہیں، لیکن جب خدا کا نام بیچ میں آجاتا ہے تو ایک مقدس رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ یہ قرآنی معجزہ ہے کہ:﴿تساء لون بہ ﴾کہہ کر معاشرہ انسانی کا باہمی ارتباط ،پیوستگی، وابستگی اور ہر ایک کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہونا ایسا بیان کر دیا کہ کوئی بڑے سے بڑا منشور اور بڑے سے بڑا چارٹر بھی ان کو بیان نہیں کر سکتا، فلسفہ اجتماعی عمرانیات (سوشیالوجی )کی بڑی ضخیم کتاب بھی ان کو بیان نہیں کر سکتی۔
پھر یہ فرمایا کہ جس کا نام بیچ میں لاکر حرام کو حلال کرتے ہو، نا جائز کو جائز کرتے ہو اور اپنی زندگی میں انقلاب عظیم لاتے ہو، اس پاک اور بڑے نام کی لاج بھی رکھنی چاہیے ، زوجین کے گہرے اور محکم تعلق کو قرآن مجید میں ایک دوسرے انداز میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
﴿ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَانْتُمْ لِبَاسٌ لَّہَنْ﴾
تم ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہو۔ یہ بھی قرآن مجید کا ایک معجزہ ہے کہ اس کے لیے لباس کا لفظ استعمال کیا، جو ستر پوشی اور زینت زندگی کی اہم ضرورت ہے ، لباس کے لفظ میں وہ سب کچھ آگیا جو زوجین کے باہمی تعلق و اعتماد کے متعلق زیادہ سے زیادہ کہا جا سکتا ہے، تم ان کے لیے لباس ہوا اور وہ تمہارے لیے لباس ہیں ، لباس کے بغیر جس طرح انسان حیوانیت سے قریب تر نظر آتا ہے، ایک صحرائی مخلوق نظر آتا ہے ، ویسے ہی ازدواجی زندگی کے بغیر انسان غیر متمدن نظر آتا ہے، اس کو غیر متمدن اور غیر مہذب سمجھنا چاہیے۔
ازدواجی زندگی ایک عبادت
اسلام میں ازدواجی تعلق کو زندگی کی ایک ضرورت کی حیثیت سے نہیں دیکھا گیا ، بلکہ اس کو ایک عبادت کا درجہ دیا گیا، جس سے آدمی خدا کے قریب ہوتا ہے، یعنی ہمارے یہاں ازدواجی تعلق کا ، عقد و نکاح کا تصور یہ نہیں کہ زندگی کی ضرورت کے تحت یہ کرنا ہی تھا اور اس کے بغیر زندگی کا تلذذ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کو دینی رنگ دیا گیا ، اس کو عبادت قرار دیا گیا اور اسی لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے اپنی زندگی میں اس کا سب سے بڑا نمونہ پیش کیا ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے زیادہ بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔“
چناں چہ اگر آپ سیرت نبوی کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ نظر آئے گا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اندر صنف نازک کا جو احترام ، اس کے جذبات اور لطیف احساسات کا تصور اور ان کا جو لحاظ تھا وہ طبقہ نسواں کے بڑے بڑے وکیل اور عورت کے احترام کے بڑے سے بڑے مدعی کے یہاں نہیں ملتا اسی طرح وہ بڑے سے بڑے مقدس لوگوں، رشیوں اور منیوں، یہاں تک کہ دوسرے پیغمبروں کی زندگی میں ملنا مشکل ہے، ازواج مطہرات رضی الله عنہن کی دل جوئی، ان کی جائز تفریحات میں شرکت ، ان کے جذبات کا خیال اور ان کے درمیان جو عدل فرماتے تھے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ انہیں کے ساتھ نہیں ، بلکہ بچوں کے ساتھ بھی آپ اس طرح پیش آتے تھے کہ نماز جیسی محبوب ترین چیز میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم محض اس وجہ سے اختصار فرما دیتے تھے کہ کسی ماں کو تکلیف نہ ہو، اگر کوئی بچہ روتا تھا تو آپصلی الله علیہ وسلم اختصار فرماتے تھے، یہ انتہائی قربانی ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے لیے تو نماز سے بڑھ کر کوئی چیز تھی ہی نہیں ، اس کے بڑھ کر کوئی قربانی نہیں ہو سکتی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ:
” بعض مرتبہ میں چاہتا ہوں کہ لمبی رکعت پڑھوں، لیکن جب کسی بچہ کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کی ماں کا دل نہ لگا ہو، اس کی ماں کا دل نہ گھبرائے، اس لیے نماز کو مختصر کر دیتا ہوں ۔“
مغربی تہذیب کا زوال شروع ہو گیا
ہمارے سامنے یہ نمونے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نام کو تم بیچ میں لائے ، اس کی شرم بھی رکھنا ، یہ نہیں کہ اس سے فائدہ ہی فائدہ اٹھاؤ ،یہ حکم عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے ہے ، آپ یہاں امریکن سوسائٹی میں ہیں ، یہاں ہمیں صرف اسلام کے عقائد ہی پیش کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام کا خاندانی نظام معاشرت بھی پیش کرنا ہے، مغربی تہذیب آج تیزی کے ساتھ زوال کی طرف جارہی ہے، آپ کو بھی احساس ہوگا کہ مغربی تہذیب کا زوال شروع ہو گیا ، یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے، اس کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں کے خاندانی نظام میں ایک ابتری پیدا ہوگئی ہے، خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے ، اس میں انتشار ہے، شوہر و بیوی میں جو اعتماد اور محبت ہونی چاہیے روز بروز اس میں کمی آرہی ہے اور اس وقت کے مفکر اور فلاسفر پریشان ہیں اورکتابیں لکھی جارہی ہیں کہ مغرب کے معاشرتی نظام کو ٹوٹنے سے بکھرنے سے کس طرح بچایا جائے ؟
طرفین میں الفت ومحبت ہونی چاہیے۔ جو زندگی کی حقیقی لذت ہے ،اس میں فقر وفاقہ بھی ہوتا ہے تو وہ خوش دلی کے ساتھ برداشت کر لیا جاتا ہے، اب بھی ہمارے مشرقی ممالک میں بہت سے ایسے خاندان ہیں کہ وہاں کھانے کو مشکل سے ملتا ہے، لیکن ان کو جنت کا مزہ آتا ہے ، کیوں کہ آپس میں محبت ہے۔ وہ ایک دوسرے کا منھ دیکھ کر اپنا فقر وفاقہ اور اپنی تکلیف بھول جاتے ہیں،جہاں سب کچھ ہے، تمام وسائل کا قدموں پر ڈھیر لگ گیا ہے اور کائنات کی بہت سی طاقتوں کو انہوں نے مسخر کر لیا ہے، لیکن وہ اپنے دل کی دنیا کو اور اپنے گھر کو جنت میں تبدیل نہیں کر سکتے، جیسا کہ اقبال نے کہا ہے #
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا!
سکون کی تلاش
جس نے سورج کی شعاعوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے ، زندگی کی تاریک رات کو صبح میں تبدیل نہیں کر سکا۔ اگر اقبال ہوتے تو کہتے کہ چاند تک پہنچنے والا اور ستاروں کی گذرگاہوں کی تلاش کرنے والا مغربی انسان اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کر سکا، اپنے گھر کو گل دستہ اور جنت کا نمونہ نہ بنا سکا، جس نے دنیا کو جنت کا نمونہ بنانے کی کوشش کی ، اس کا گھر جہنم بنا ہوا ہے، بہت سے امریکی اور یورپین خاندان ایسے ہیں کہ ان کے گھر میں سکون کا کوئی سامان نہیں ، اس لیے ہم دیکھ رہے کہ وہ باہر کی تفریحات اور کلب میں سکون تلاش کرتے ہیں، کیوں کہ سکون ان کے گھروں میں میسر نہیں آتا، گھر آکر ان کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ دنیا وی جنت میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ وہ گھر کی زندگی سے بھاگتے ہیں۔
احتیاج اور احترام
میں سمجھتا ہوں جو یہاں دس دس برس، بیس بیس برس سے زندگی گزار رہے ہیں ،وہ مجھ سے زائد اس المیہ سے اور اس کم زور پہلو سے واقف ہیں ، مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ، بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرت کا ایک بنیادی تصور دیا ہے کہ معاشرہ ایک دوسرے کے احتیاج اور احترام پر قائم ہے، ضرورت تو سب کو ہوتی ہے ،لیکن ضرورت کا محسوس کرنا اور جس سے وہ ضرورت پوری ہو اس کا احسان ماننا یہ الگ ذہنی کیفیت ہے، یہ ذہنی کیفیت اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ہم میں ہر فرد اپنے کو دوسرے کا محتاج سمجھے اور اپنی اس احتیاج کو تسلیم کرے اور دوسرے کا احترام کرے۔
میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کی راہ نمائی فرمائے اور آپ اس ملک میں اسلامی زندگی اور اسلامی معاشرت کا ایسا نمونہ پیش کریں جو یہاں کی سوسائٹی کے لیے، جو زندگی سے عاجز آچکی ہے، دل کش ثابت ہو اور وہ اسلام کے معاشرتی تعلقات کا بھی سنجیدگی سے مطالعہ کریں اور اپنے لیے اس کو ترجیح دیں اور ان میں اس کا جذبہ پیدا ہو کہ کاش! ہم کو بھی یہ نعمت حاصل ہوتی ۔
اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ نہ صرف اس ملک کی بہت بڑی خدمت انجام دیں گی ، بلکہ اسلام کی بھی بہت بڑی خدمت انجام دیں گی اوریہ اسلام کی بھی ایک عظیم تبلیغ و دعوت ہوگی ۔