نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ کے محبوب ومصطفی اور خاتم الانبیاء والرسل ہیں۔ الله تعالیٰ نے آپ کو جو خصوصیات وامتیازات عطا فرمائے ان میں ایک جوامع الکلم کی صفت بھی ہے۔حکمت وموعظت کی بڑی اہم اور عظیم بات کو آپ مختصر الفاظ وکلمات میں ادا کر دیا کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ و سلم کی احادیث مبارکہ میں منقول آپ کے الفاظ وکلمات ا س پر شاہد عدل ہیں۔ حکمت وموعظمت کے نگینوں سے معمور آپ کے ان الفاظ وکلمات میں سے یہ حدیث مبارکہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا:” ثلاث منجیات وثلاث مہلکات فأما المنجیات: فتقوی اللہ فی السر والعلانیة، والقول بالحق فی الرضا والسخط، والقصد فی الغنی والفقر وأما المہلکات: فہوی متبع، وشح مطاع، وإعجاب المرء بنفسہ، وہی أشدہن“․
یعنی” تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں (آخرت میں) ہلاک کرنے والی ہیں، جو چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک تو ظاہر وباطن میں خدا سے ڈرنا ہے ( یعنی جلوت وخلوت ہر حالت میں اور ہر حرکت وعمل کے وقت خدا کا خوف غالب ہو، یا یہ کہ بندہ کا ظاہر بھی خوف خدا کے احساس کا مظہر ہو اور اس کا باطن بھی خوف خدا سے معمور ہو) دوسری چیز خوشی وناخوشی(ہرحالت) میں حق بات کہنا، تیسری چیز دولت مندی وفقیری دونوں حالتوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرنا ہے اور جو تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں، ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے، جس کی پیروی کی جائے، دوسری چیز حرص وبخل ہے جس کا انسان غلام بن جائے اور تیسری چیز مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا ہے ( یعنی کسی شخص کا اپنے آپ کو نیک اور اچھا سمجھنا او راپنے اوصاف کا خود مداح ہونا ، جس سے کبر پیدا ہوتا ہے اور کبر سے غرور وتکبر وجود میں آتا ہے اور یہ تیسری چیز ان سب میں بدترین خصلت ہے۔“ (شعب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ (ایک دن) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کو سیکھے او رپھر ان پر عمل کرے، یا اس شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرنے والا ہو۔(حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر) میں نے عرض کیا یارسول الله! وہ شخص میں ہوں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ( یہ سن کر) میرا ہاتھ پکڑا اور وہ پانچ باتیں گنوائیں۔ اور ( ان کو اس طرح)بیان فرمایا کہ :
تم ان چیزوں سے بچو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے، اگر تم ان سے بچو گے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزرار بندے ہو گے۔ تم اس چیز پر راضی وشاکر رہو جس کو الله تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے، اگر تم تقدیر الہٰی پر راضی ومطمئن ہو گے تو تمہارا شمارمال دارترین لوگوں میں ہوگا، یعنی جب بندہ اپنے مقسوم پر راضی ومطمئن ہو جاتا ہے اور طمع وحرص سے پاک ہو کر زیادہ طلبی کی احتیاج نہیں رکھتا تو وہ مستغنی اور بے نیاز ہو جاتا ہے اورمال داری کا اصل مفہوم بھی یہی ہے۔ تم اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو (اگرچہ وہ تمہارے ساتھ بُرا سلوک کرے) اگر تم ایسا کرو گے تو تم کامل مؤمن سمجھے جاؤ گے۔ تم ( دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے متعلق) جس چیز کو اپنے لیے پسند کرتے ہو اس کو دوسرے سب لوگوں کے لیے پسند کرو، اگر تم ایسا کرو گے تو تم کامل مسلمان سمجھے جاؤ گے۔ اورتم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ( اور خدا کی یاد سے غافل) بنا دیتا ہے ( اگر تم زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرو گے تو تمہارا دل روحانی بالیدگی وتروتازگی اور نور سے بھرا رہے گا اور ذکر الله کے ذریعے اس کو زندگی وطمانینت نصیب ہو گی۔)(مسند احمد وترمذی)
احادیث کی کتابیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس طرح کے ارشادات مبارکہ سے بھری ہوئی ہیں، جو انسانی زندگی کو خیر میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہیں، ان کا مطالعہ کرنا اور ان پر عمل کرنا ضرور ی ہے او ران پر عمل کرنے سے انسان کی دنیا وآخرت دونوں جہاں سنور جائیں گے۔ الله تعالیٰ ہمیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سنہری وقیمتی ارشادات کو پڑھنے او ران پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!