حق آزادی او راس کی حدیں

idara letterhead universal2c

حق آزادی او راس کی حدیں

مولانا خالد سیف الله رحمانی

الله تعالیٰ نے اس دنیا میں تین طرح کی مخلوقات پیدا کی ہیں، جمادات، نباتات اور حیوانات، جمادات سے مراد ایسی چیزیں ہیں، جن میں نمو اور حرکت کی صلاحیت نہیں ہوتی، جیسے پتھر، زمین، لوہا۔ نباتات سے مراد پودے ہیں جن میں بڑھوتری اور افزائش تو ہوتی ہے، لیکن وہ نقل وحرکت کی صلاحیت سے محروم اور بظاہر احساس وشعور سے عاری ہیں۔ حیوانات سے مراد جان دار مخلوق ہیں، جن میں شعور واحساس ہے، کسی میں کم اور کسی میں زیادہ اِدارک کی صلاحیت اور نقل وحرکت کی قوت ہے، جمادات اورنباتات دراصل اسی تیسری مخلوق کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، پتھر جہاں نصب کر دیے جائیں، نصب رہتے ہیں، لوہے کو آپ جس سانچے میں چاہیں ڈھال لیں، لکڑی کو آپ جس مقصد کے لیے چاہیں استعمال کریں، درخت آپ جہاں چاہیں لگا دیں، انہیں کوئی انکار نہیں اور نہ ان کی طرف سے کوئی احتجاج سامنے آئے گا، گویا یہ جان دار مخلوقات کے لیے قدرت ہی کی طرف سے خادم او راپنی اعلیٰ تر مخلوق کے غلام ہیں، اس غلامی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔

لیکن جو جان دار مخلوقات ہیں، ان کا معاملہ ان سے مختلف ہے، شیر او رہاتھی سے لے کر چیونٹی اور مکھی تک اگر آپ کسی کو بھی اپنی قید میں لانا چاہیں تو وہ ضرور احتجاج کریں گے، انکار کا رویہ اختیا رکریں گے، اپنی طاقت وصلاحیت کے مطابق وار کرنے یا راہ فرار اختیار کرنے سے نہیں چوکیں گے اور کسی طور آپ کی گرفت میں آنا پسند نہیں کریں گے، گویا فطری طور پر ان کو غلامی سے انکار ہے اور یہ آزادی کے طلب گار ہیں، جان دار مخلوقات میں سب سے عظیم ترین مخلوق انسان ہیں، ان کو الله تعالیٰ نیعقل وشعور اور فہم وادراک کی ایسی صلاحیت ودیعت کی ہے کہ کسی او رجان دار مخلوق کو شاید اس کا سوواں حصہ بھی حاصل نہ ہو، اس لیے انسان میں آزاد رہنے کا جذبہ زیادہ ہے او راس کی فطرت غلامی سے اباء کرتی ہے، انسان کے نومولود شیر خوار بچہ کو بھی اس کے مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی بات پیش آجائے، تو اس کی طرف سے ضرو رہی احتجاج اور رد عمل کا اظہار ہوتا ہے، وہ روتا ہے اور بے تحاشہ آنسو بہا کر اپنی ناگواری کا اظہار کرتا ہے، یہ اسی صدائے آزادی کی باز گشت ہے، جو انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے انسان پتھر اور لکڑی کی طرح ہر عمل پر خاموش اور رد عمل سے عاری نہیں رہ سکتا او رمزاج ومذاق کے خلاف پیش آنے والی بات پر ناگواری کے اظہار کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے اور یہ اس کے بے چین دل کے لیے کسی قدر سکون وطمانیت کا باعث بنتا ہے۔

اسلام دین ِ فطرت ہے اور وہ سلیم فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے آیا ہے، نہ کہ اس کو دبانے او راس کا گلا گھونٹنے ، اسلام کا پورا نظام ِ حیات اسی بنیادی تصور پر مبنی ہے، اس میں کہیں قانون ِ فطرت سے تصادم اور ٹکراؤ نہیں، اس نے انسان کے آزاد رہنے کے اس فطری حق کو تسلیم کیا ہے، اس کی بہترین ترجمانی ان کلمات سے ہوتی ہے جو عالم اسلام کے سفیر صحابیٴ رسول صلی الله علیہ وسلم نے رستم ِ ایران کے دربار میں کہے تھے او ران پر اپنا مقصد ومنشا واضح کیا تھا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ الله کے بندوں کو انسان کی بندگی اور غلامی سے نکال کر الله کی غلامی میں داخل کریں:” الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة الله․“ (البدایة والنہایة:7/39)

انسان کے اسی فطری حق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے ایک گورنر کو فرمایا کہ ان کو ان کی ماؤں نے تو آزاد جنا تھا، تم نے ان کو کب سے غلام بنا لیا ہے؟! یہ آزادی کے اسی فطری حق کا اعلان واظہار ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ایک حصہ ہے، اس لیے آزادی ایک انسانی اور اسلامی حق ہے۔

آزادی کے تصوّر کو طاقت پہنچانے کی غرض سے اسلام نے سب سے پہلے انسانی مساوات کا تصور دیا کہ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولا د ہیں، محض رنگ ونسل، خان دان ونسب اور علاقہٴ وطن کی بنیاد پر ان میں ایک دوسرے سے بڑا نہیں، بہتری اور کمتری انسان کے عمل اور کردار سے متعلق ہے:﴿ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ ﴾․(الحجرات:13) یہ وہ بنیادی تصور ہے جس کے بعد ایک انسان کا پیدائشی طور پر حکم راں اور دوسروں کا محکوم ہونا غلط قرار پاتا ہے، اسلام سے پہلے قریب قریب پوری دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں، روم، ایران، حبش، یمن، ہندوستان، غرض اس وقت کی معلوم دنیا میں ہر جگہ شاہانہ طرزِ حکومت مروج تھا او رمخصوص خاندانوں کو حکومت کا اہل سمجھا جاتا تھا، اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھاکہ اس آمرانہ طرزِ حکومت کو مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا، ایران میں لوگ شاہی خاندان کو خدا کا کنبہتصور کرتے تھے، مغرب میں رفتہ رفتہ کلیسا نے انسان کو اپنا مکمل غلام بنا لیا تھا، وہ نہ صرف اپنے آپ کو لوگوں کی آخرت کا ٹھیکیدار تصور کرتے تھے، بلکہ دنیا میں بھی اپنے فیصلہ کو خدائی فیصلہ باور کرتے تھے اور یہی عقیدہ لوگوں کے ذہن میں راسخ کر دیا گیا تھا، ایک طرف وہ مغفرت نامے تقسیم کرتے اور لوگوں کے لیے جنت کی رجسٹری کرتے اور دوسری طرف مملکت کے نظام کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ کر، نہایت جابرانہ طرزِ عمل اختیار کرتے اور جوان کی رائے سے سرمُوانحراف کرتا ان کو لرزا دینے والے عقوبت خانوں میں تختہٴ مشق بنایا جاتا او رزندہ جلا دینے کی سزا دی جاتی، بالآخر 1789ء کے انقلاب فرانس پر یہ ظالمانہ کلیسائی نظام یورپ سے ختم ہوا، گویا ایک آمریت تھی جو مذہب او رخدا کے نام پر روا رکھی گئی تھی، اس لیے یورپ میں جو انقلابی تحریکیں اٹھیں ان کا خمیر مذہب کی مخالفت اور عناد سے تیار ہوا۔

اسلام نے اس طرح کی خاندانی بادشاہت کو سند جواز عطا نہیں کیا او رایک ایسے آزاد طرزِ حکومت کا تصور پیش کیا، جس میں رنگ ونسل کے بجائے صلاحیت اور کردار کی بنیاد پر فرماں رواں کا انتخاب عمل میں آئے اورپھر یہ بھی بتا دیا کہ حکم راں کوئی مافوق العادت حیثیت کا حامل نہیں ہوتا، بلکہ وہ بھی عام لوگوں ہی میں ایک شخص ہوتا ہے، اس کے فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں، اس کی ذات تنقید سے بالاتر نہیں ہوتی اور عوام کو اس کے احتساب کا پورا حق حاصل ہوتا ہے، یہ بات کہ حق حکم رانی ”اتفاق“ سے متعلق نہیں کہ کوئی شخص کسی خاندان میں پیدا ہو جائے تو وہ حکم رانی کا حق دار ہے، بلکہ یہ حق انسان کے کردار او راکتساب سے متعلق ہے، یہ ایک انقلابی فکر ہے، جس سے آزادی کا تصور ابھرتا ہے اور غلامی کی نفی ہوتی ہے۔

پھر اسلام نے تفصیل کے ساتھ مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق انسان کے بنیادی حقوق کو متعین کیا، قرآن نے کہا کہ ہر شخص کو جینے کا حق ہے اور کسی بھی نفس انسانی کو زندہ قتل کر دیا جائے تو اس کے وارث کو قاتل سے بدلہ لینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ (الاسراء:33) گویا انسان اپنی زندگی کے لیے کسی کے رحم وکرم کا محتاج نہیں، ہر شیخ کو اپنے مال پر ملکیت کا حق ہے، دوسروں کو حق نہیں کہ وہ ناروا طریقہ پر اس کی رضا مندی کے بغیر اس کے مال پر قابض ہو جائے۔ (نساء:29) پھر کسب معاش کے لیے ہر شخص آزاد ہے کہ وہ جس پیشہ کو چاہے اختیا رکرے، اس کو اس بات پرمجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اس کے خاندان میں پہلے سے کوئی ایسا پیشہ آرہا ہو جسے لوگ کم تر سمجھتے ہوں ، تو وہ وہی پیشہ اختیار کرے۔ ہاں، اگر کوئی شخص کسی کام کا اہل نہیں، جیسے اس نے میڈیکل تعلیم حاصل نہ کی ہو اور لوگوں کا علاج کرنے لگے تو عام لوگوں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے اس سے روکا جاسکتا ہے، خود حدیث نبوی میں اس کی طرف اشارہ موجو دہے۔

عزت وآبرو کا تحفظ ایک بنیادی حق ہے اور کسی قوم کے لیے گنجائش نہیں کہ وہ دوسری قوم کے ساتھ ذلت آمیزسلوک کرے: ﴿لَایَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ ﴾․(الحجرات:11)

عدل وانصاف کے معیارات بھی یکساں رکھے ہیں، اس میں حکم ران ومحکوم او رسماج کے باوجاہت او رمعمولی لوگوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کی کسی قوم سے عداوت ہو تب بھی حکم دیا گیا کہ پیمانہٴ انصاف میں کوئی فرق نہ ہونے پائے:﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعْدِلُوا﴾․(مائدہ:8) ہر شخص کو رائے اور ضمیر کی آزادی عطا کی گئی اور وہ جس چیز کو غلط سمجھے اس کے اظہار کی اجازت دی گئی، جسے قرآن کی زبان میں نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔(آل عمران:10) ملک کے ہر شہری کو احتجاج اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق دیا گیا ہے:﴿لَّا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوء ِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ﴾․ (نساء:148)

اسلام ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی عطا کرتاہے کہ وہ اپنے ضمیر واعتقاد کے مطابق خود زندگی گزارے:﴿لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾․(البقرة:256) سزا کے نظام میں بھی مساوات وبرابری اور ہر بالغ ومکلف کے لیے یکساں سزا رکھی گئی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی ایک معزز خاتون کا ہاتھ چوری کے جرم میں کٹوایا اور اس سلسلہ میں اپنے قریب ترین لوگوں کی سفارش کو رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد صلی الله علیہ وسلم بھی اس کی مرتکب ہوتی تو اسے بھی یہی سزا دی گئی ہوتی، اسلام نے ایک ایسے نظام مملکت کا تصور دیا جو شورائیت پر مبنی ہو:﴿وَأَمْرُہُمْ شُورَیٰ بَیْنَہُمْ﴾․ (الشوری:38)

غرض اسلام ایک ایسے سیاسی نظام کا نقیب وترجمان ہے جو غلامی کے بجائے آزادی پر مبنی ہو، جو انسانی تفریق کے بجائے مساوات پر قائم ہو، جس میں رنگ ونسل کے بجائے اخلاق وکردار کوتولا جاتا ہو، جس میں انصاف کا ایک ہی پیمانہ ہو، جس میں اصحاب اقتدار کے احتساب کی اسی قدر گنجائش ہو، جتنی ایک ادنیٰ رعایا کی اور جو انسانی کرامت وشرافت کے بنیادی تصور پر استوار ہو۔

ہاں! یہ ضرور ہے کہ آزادی کے لیے بھی کچھ حدود وقیود ضروری ہیں، سڑک پر ہر شخص کو چلنے کا حق ہے، لیکن اگر لوگ یہ سمجھیں کہ یہ آزادی ان کو ٹریفک کے قواعد سے بھی آزاد کرتی ہے تویقینا یہ آزادی پروانہٴ ہلاکت بن جائے گی، اس لیے آزادی کے بھی دائرے ہیں اور یہ دائرہ اخلاقی اقدار کا ہے، آزادی ایسی نہ ہو کہ جس سے اخلاق کے بندھن ٹوٹ جائیں، جو شرم وحیا کے الفاظ کو انسانی ڈکشنری سے مٹا کر رکھ دے، جو انسان کو ظلم واستبداد کے لیے آزاد کر دے، جو فطرت انسانی کی تسلیم شدہ حقیقتوں پر بھی خط نسخ پھیر دے، یہ آزادی رحمت نہیں، بلکہ زحمت ہے اور سامان عافیت نہیں ،بلکہ ابتلا ومصیبت ہے، افسوس کہ مغرب میں کلیسائی نظام کے خلاف جو بغاوت ہوئی، اس نے مذہب بے زاری کی ایسی برقی رودوڑادی کہ جس نے فکر ونظر کے تارو پود بکھیر کررکھ دیے اور لوگوں نے سمجھا کہ آزادی یہ ہے کہ انسان مادر وپدر سے آزاد ہو جائے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم اخلاقی قدروں کو بھی غلامی کی علامت سمجھ لیا گیا، مخرب اخلاق اسباب کو بھی آزادی کا پروانہ دے دیا گیا او رانسان کے لیے یہ بات مشکل ہوگئی کہ وہ اپنے پیکر آزادی پر اخلاق وشرافت کی قید وبند کا کوئی تار لباس باقی رہنے دے۔

اسلام ایسی بے قید آزادی کا قائل نہیں، اسی لیے اس نے انتظام وتدبیر انسان کے ہاتھ میں رکھا اور قانون کی لگام خدا کے ہاتھ میں دی:﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ﴾․(یوسف:40)

کیوں کہ انسان کے خالق سے بڑھ کر انسان کی آزادی کے حدود اور اس کی بھلائی کے لیے مطلوب پابندیوں اور قیود کو کوئی اور ذات نہیں سمجھ سکتی، یہ آزادی کا ایک متوازن، معتدل تصور ہے، جس میں نہ صرف آخرت کی فلاح ہے، بلکہ دنیا کی بھی بھلائی ہے کہ خدا کی غلامی ہی اصل میں انسان کی آزادی ہے، جو شخص خدا کا غلام بننے کو تیار نہ ہو تو اسے ضرور مخلوق کا غلام بننا پڑے گا، اگر وہ دوسروں کا غلام نہ بنے، تو کم سے کم خود اپنے نفس کی غلامی اسے قبول کرنی ہوگی، اسی کو مرد ِ حق آگاہ شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا ہے کہ #
          وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
          ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

مقالات و مضامین سے متعلق